donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nadeem Siddiqui
Title :
   Log Apni Zindagi Ka Samaan Aise Kar Jate Hain

 

لوگ اپنی زِندگی کا سامان ایسے کر جاتے ہیں 


Nadeem Siddiqui 
nadeemd57@gmail.com


 تِئیس برس قبل نیلسن منڈیلا اپنی طویل قید کے بعدجیل سے جب باہر آئے تو دُنیا بھر میں اُن کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ لکھنے والوں نے اپنے قلم سے ان کی تحسین کی تھی۔ اُردو کے اس اخبارچی نے جب اُن کی رہائی کی خبر سنی تو بیساختہ یہ شعر ہوا:

 زندگی میرے قدموں تلے ہے 
موت مجھ پر اب آنسو بہائے

 ہر چند کہ اس شعر میں کہیں منڈیلا کا نام نہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ شعر منڈیلا کی طویل قید و بند کی صعوبتوں کے ساتھ جدوجہد کو ایک خراج تھا۔ ہمارے بزرگ نے ہمیں تعلیم دِی تھی کہ ” میاں یاد رکھو! جسے آپ زِندگی زندگی کہتے ہیں یہ زندگی کہاں ہے؟ یہ تو آپ کی عمر گزاری ہے ۔ زندگی کرنا سب کونصیب نہیںہوتا۔ ہاں جسے قدرت توفیق دے وہ اپنی عمر میں ’کار ِزندگی‘ انجام دے لیتا ہے۔ زندگی تو بعد از مرگ ملتی ہے اگر تم نے زندگی کا حق ادا کیا ہو۔ ورنہ تو!“

یہاں قولِ نظامی بھی یاد آتا ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں شہرت کےلئے کوشاں رہتے ہیں وہ مر جاتے ہیں اور جو لوگ اخلاص سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں ’ زندگی ‘ان کےلئے از خود اپنے دَر کھول دیتی ہے۔راقم، مسجد نبوی میں نمازِ جمعہ کےلئے بیٹھا ، خطبہ سن رہا تھا کہ معاً نظر اوپر کی طرف اُٹھ گئی تو اِن پھٹی آنکھوں نے دیکھاکہ مسجد نبوی کی چھت کو جو ستون سنبھالے ہوئے ہیں انھیں ایک ترتیب سے صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ خاصے جلی حرفوں میں کوئی ستون سلمان فارسی ؓسے تو کوئی ستون حضرت عباسؓ (وغیرہ) سے منسوب ہے۔ بڑی دیر تک ذہن و قلب پر یہ شخصیات اپنے تمام محاسن و صفات کے ساتھ جلوہ افروز رہیں۔ اس وقت بھی جب یہ سطریں رقم ہو رہی ہیں، یہ لوگ دِل میں محسوس ہو رہے ہیں۔ ہم جو اُچھلتے ہوئے آبِ نجس سے اپنا وجود پا تے ہیں، ایک دِ ن مٹی کا رِزق ہو جا تے ہیں اور وہ کیا لوگ تھے جو زمین پر نہ ہو کر بھی زندگی کی اب تک نوید بنے ہوئے ہیں۔دہلی کے ایک بزرگ جن کے بس آخری آخری ایام تھے۔ نہایت کمزور ہو چکے تھے بستر سے لگے ہوئے تھے کہ اچانک آہ کرتے ہوئے اُٹھے اور پیٹھ کی طرف ہتھیلی بڑھائی تو ایک چینو ٹا تھا جو بڑی دیر سے انھیں پریشان کر رہا تھا۔ اسے اُنہوں نے پکڑا اور اس سے گویا ہوئے: ”کچھ وقت اور انتظار کرلے اس بدن سے تجھ کو بھی تیرا رزق مل جائے گا، بس کچھ انتظار اور !“ یعنی مٹّی ہی نہیں خدا جانے کس کس قسم کے کیڑے مکوڑے ہمارا اِنتظار کر رہے ہیں۔ مگر ہم خاکی پتلے اس چند روزہ زندگی میں دوسرو ںکے سامنے کیسے کیسے اُڑتے ہیں مگر پھر وہی کہ اُڑ کر بھی کوئی چارہ نہیں کہ جتنا اونچا اُڑ سکتے ہیں اُڑیں مگر مِٹّی کی کشش ہمیں اپنی طرف کھینچ ہی لیتی ہے۔ یہ بات بھی موزوں ہو گئی:خاک اُڑ کر زمیں پَہ آتی ہے

 آدمی کیوں ہَوا میں اُڑتا ہے؟

 یہ سوال کرنے والا بھی موقع ملتے ہی اُڑنے سے باز نہیں آتا کہ یہی ہماری آدمیت ہے اور جو لوگ آدمی سے انسان کی طرف سفرکرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، یقینا اُن کامرانوں کو زندگی اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ ان میں اللہ کے وہ برگزیدہ بندے بھی شامل ہیں اور انہیں میں وہ بھی ہیں جنہوں نے آدمی سے انسان بننے کی سعی ¿ مشکور کی اور وہ بھی جنہوں نے انسانیت کے لئے اپنی عمر عزیز صَرف کی۔ علم و ادب کا جو لوگ کام کر رہے ہیں وہ بھی انہی میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ایک طویل فہرست ہے جس میں بیشمار نام ہیں۔ ان ناموں میں گزشتہ منگل کو احمد آباد کے علوی خانوادے کے ایک صاحبِ علم بھی شامل ہو گئے ہیں۔ دُنیا اُنھیں مظہر الحق علوی کے نام ِنامی سے جانتی ہی نہیں مانتی بھی ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ اُنکے ماننے والوں کی کثیر تعداد بھی رخصت ہو چکی ہے۔


 اب جو ہمارے سامنے نئی نسل ہے وہ انٹر نیٹ کی ساختہ اور پر داختہ ہے ۔ ان میں شاید و باید ہی کچھ لوگ مظہر الحق علوی کے نام اور کام سے واقف ہونگے۔ اب تو یہ دُنیا اس موڑ پر آچکی ہے جہاں ہر نفس ایک ایجاد سامنے آرہی ہے اور وہ ایجاد جن کااس سے قبل وجود سامنے آیا ہے وہ اسی رفتار سے پردہ ¿ اخفا میں بھی جا رہی ہیں۔ ہمارے بچے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ” ہم دُنیا کو نجانے کیا کیا دے رہے ہیں۔‘ ‘ ہائے افسوس وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ان سے پہلے بھی اس دُنیا میں موجد و موسس ہزارہا کی تعداد میں آئے اور اپنا کام بلکہ ایسا کام کر کے رخصت ہوئے ہیں کہ جو کام یہ لوگ کررہے ہیں اس کی اساس و بنیاد میں اُن ہی کی جدوجہد اور فکر و فن مخفی ہیں۔ 


 مظہر الحق علوی بھی اسی دُنیا کے اسٹیج کے ایک کردار تھے مگر ایک توانا اور بھرپور کردار مظہر الحق علوی اُردو زبان میں اپنے تراجم کے حوالے سے اوّل اوّل ہی نہیں بلکہ باوقار اور اپنی مثال آپ بنے ر ہے۔ آج ہماری برادری میں لوگ ’تخلیق ‘کے نام پر مرے جارہے ہیں اور مظہر الحق علوی نے دوسری زبانوں کی تخلیق کو اپنی زبان میں منتقل کر کے اپنی زندگی کا سامان کر لیا۔ مظہر الحق علوی اپنے تراجم کے حوالے سے اپنا نام ’زندگی‘ کی تختی پر درج کروا چکے ہیں۔ موت تو انکا خاکی جسم ہی لے سکی ،وہ تو اپنے کام اور ا سکے خلوص میں زندہ ¿جاوید بن گئے ہیں۔ ہم ا نہیں ہی نہیں ایسے تمام صاحبان علم و عمل کو سلام کرتے ہیں۔ افسوس تو اس کا ہے کہ وہ لوگ جو اُردو زبان و ادب کے حوالے سے پورے اخلاص کے سا تھ ادنیٰ سے ادنیٰ کام کر رہے ہیں اور جب وہ رخصت ہوتے ہیں توان کا بدل بھی ہمارے پاس نہیں ہوتا ، ہائے کیا محرومی ہے!۔ اس سانحے کا پرسہ ہم ہر اُس شخص کو دیتے ہیں جو اِس شہرت طلبی کے دورِ آشوب میں اخلاص کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے۔    ن۔ ص

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 524