donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   Aap To Qatl Ka Ilzam Hami Par Rakh Do

آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو


نایاب حسن


    عدالتیں اس لیے قائم کی جاتی ہیں کہ اُن کے ذریعے انصاف کیا جائے اورمظلوموںکی دادرسی،جبکہ ظالموںکو کیفرِ کردارتک پہنچایاجائے۔ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور انھیں آزادی کے بعد سے تا ایں دم اکثریت کے جورپیشہ گروپوںکی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے،ایسے میں ان کے لیے امید کی کرن محض یہاں کی معززعدلیہ ہے،اسی کے ذریعے سے وہ انصاف ملنے کی امید رکھتے ہیں اورانھیں مختلف موقعوںپر انصاف ملتابھی رہاہے،جس سے انھیں حوصلہ ملتا ہے اور یہ احساس قائم و برقرار رہتاہے کہ وہ ہندوستان میں اجنبی نہیں ہیں؛بلکہ وہ اپنے ملک میں جی رہے ہیں۔مگروقفے وقفے سے ایسی وارداتیں بھی ہوتی رہتی ہیں،جن کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوںکی امید یاس میں بدل جاتی اوران کے احساس شکستہ ہوجاتے ہیں۔آزاد ہندوستان میں دہشت گردی کے دسیوں کیسزمیں جہاں مسلم نوجوانوں کو بری کیاگیا،وہیں بہت سے ایسے معاملوں میں بے قصورنوجوانوںکوپابندِ سلاسل اورموت کے گھاٹ بھی اتاردیاگیا،ہم ابھی ۲۱؍مارچ کوایک۲۸؍سالہ معاملے میں دہلی کی تیس ہزاری کورٹ کے فیصلے کو اِسی پسن منظر میں دیکھتے ہیں اورتب ہمیںاُتنی حیرانی بھی نہیں ہوتی؛کیوںکہ جب آپ نا انصافیوں کے عادی ہوجاتے ہیں،توپھران کی سنگینی وتکلیف دہی کا کوئی معنیٰ نہیں رہ جاتا۔

    آج سے ۲۸؍سال سے پہلے ۲۲؍مئی(رمضان المبارک کے مہینے میں) ۱۹۸۷ء میرٹھ کے ہاشم پورہ کے تقریباً پچاس نوجوانوں کو پی اے سی کے نوجوانوں نے ایک ٹرک میں بٹھایا،ان کا اغواکیا،انھیں ہنڈن ندی کی جانب لے جایاگیا،رات کی تاریکی میںانھیں صف بستہ کھڑاکردیاگیا اور اندھا دھند فائرنگ کرکے انھیں آغوشِ نیست میں پہنچادیاگیا۔سفاکیت و درندگی،ظلم و جوراوروحشت و بربریت کی اس سے بدترین اور دل دہلانے والی مثال ہمیں چنگیزوہلاکوکی انسانیت کش کہانیو ںمیں ہی ملتی ہے،مگراسی کو آزادہندوستان کے پولیس نوجوانوں اور دیش کے محافظوںنے پوری سنگ دلی کے ساتھ پیش کیا۔اس حادثے میں پانچ نوجوان بچ گئے،جن کی شناخت کے بعدپی اے سی کے۱۹؍اہل کاروںکے خلاف مقدمہ درج کیاگیا،سی آئی ڈی کی کرائم برانچ کو معاملے کی جانچ کی ذمے داری تفویض کی گئی،یہ تفتیش۱۹۸۸ء میں شروع ہوئی،۱۹۹۶ء میں غازی آباد کورٹ میں انیسوںجوانوںکے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی،پھرانھیںکچھ وقتوں کے لیے جیل میں بھی ڈالاگیا،مگرپھرانھیں بہت جلدضمانت پر رہا کردیاگیا،اسی آنکھ مچولی میں۲۰؍سال گزر گئے، مگر یوپی میں ٹرائل بھی شروع نہیں کی گئی،بالآخرمتاثرین نے سپریم کورٹ میںعرضی داخل کی اورپھرعدالت کے حکم پریہ کیس۲۰۰۲ء میں دہلی کے تیس ہزاری کورٹ میںمنتقل کردیاگیا اورپھرکیس کی سماعت نے رفتار پکڑی اوراستغاثہ کی جانب سے یکے بعد دیگرے۸۹؍گواہ پیش کیے گئے،جبکہ پی اے سی کی جانب سے صرف ایک گواہ پیش کیاگیااوربالآخر۲۱؍مارچ کوکورٹ نے اُن ملزمین کی رہائی کا فرمان جاری کردیاگیا۔حیرت کی بات ہے کہ کورٹ نے اپنے فیصلے کوجائزٹھہراتے ہوئے یہ کہاکہ چوںکہ متاثرین نے ملزمین کی شناخت نہیں کرپائے؛اس لیے ملزمین کو بری کیاجاتا ہے؛حالاں استغاثہ کی جانب سے کئی ایسے زندہ ثبوت دیے گئے،جوچیخ چیخ کر یہ کہہ رہے تھے کہ پی اے سی کے ملزم نوجوان ہی ہاشم پورہ کے ۴۰؍نوجوانوںکے قاتل تھے۔متاثرین کے ورثا سمیت وکیل اور ہندوستان بھرکے مسلمانوں کو اس فیصلے سے شدید ذہنی چرکہ لگاہے،فی الوقت مرکزمیں جس پارٹی کی حکومت ہے،اس کی مسلم دشمنی جگ ظاہرہے،گزشتہ دس ماہ میں مسلمانوں کو طرح طرح سے پریشان کرنے اور ان کی  زندگی اجیرن کرنے کے لیے عجیب عجیب حربے بی جے پی کے وزیروں سمیت اس کے ممبرانِ پارلیمنٹ نے استعمال کیے ہیں،ہندوانتہاپسندی کے سرطان میں مبتلالیڈران کی زہرافشانیاںمسلسل جاری ہیں،آرایس ایس کی طوفانی سرگرمیاں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہیں،سارے ملک کے مسلمانوں کو گھیرنے اوراُنھیں بے بس و بے مایہ کردینے کا گیم پلان تیار کیا جارہاہے،ان کی گھرواپسی کے انتظامات ہورہے ہیں،ان کی مسجدوںکوایک ڈھانچہ قراردے کرمنہدم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں،ایسے میں تو مسلمانوںکے پاس اسباب کی دنیامیں صرف اور صرف ہندوستانی عدلیہ پر بھروسہ ہوسکتاتھا؛لیکن اگر معززعدلیہ کی جانب سے بھی مذکورہ قسم کے فیصلے آتے رہیں گے،توپھراُن کے احساسات کا آزردہ ہونا تویقینی ہے۔

    ہاشم پورہ میں پولیس کے ظلم و بربریت کا سانحہ بالکل اُسی طرح ہندوستانی مسلمانوںکے سینے پرسانپ بن کر لوٹ رہاہے،جس طرح ۱۹۹۲ء میں بابری مسجدکی شہادت اور۲۰۰۲ء میں گجرات میں مسلمانوںکا قتلِ عام۔گرچہ ہاشم پورہ کیس میں آنے والاحالیہ فیصلہ کوئی آخری اور حتمی نہیں ہے،یوپی حکومت مدعی ہے اور وہ آگے اپیل دائر کرسکتی ہے،مگربہرحال حالیہ فیصلے سے عدالتی نظام کی شکست خوردگی اورتعصب طشت ازبام ہوکرسامنے آگیا ہے۔ایسے شرم ناک واقعے میں،جس میں پولیس والوںکی سفاکیت و درندگی واضح ترتھی اور ہاشم پورہ کیس پوراکاپورااسی حوالے سے جاناجاتا ہے اورمشہورہے،۱۹۸۷ء کی اس گولی باری میںایک پولیس والابھی زخمی ہواتھا،جس کا علاج میرٹھ میں ہوااوراس اسپتال نے اس علاج کے سارے کاغذات اور رپورٹ بھی عدالت کو سونپے تھے۔یہ اوراس کے علاوہ بے شمارایسے ثبوت تھے ،جوان ملزمین کو قصوروار ثابت کرنے کے لیے کافی تھے،ان سب پر مستزاد۸۰؍سے زائد گواہوںنے
 بھی گواہی دی۔مگرمعلوم نہیں کیوںعدالت کو ثبوت ناکافی معلوم ہوئے اوراس نے ۱۶؍ملزم پولیس نوجوانوںکی رہائی کا حکم جاری کردیا۔

    اِس قسم کا فیصلہ جیسا کہ اوپر تحریر کیاگیا،کوئی انوکھااوربالکل نیانہیںہے،اس سے پہلے بھی متعدداس قسم کے فیصلے آچکے ہیں،خودبابری مسجدکیس میں جس طرح کا مضحکہ خیزفیصلہ ۲۰۱۰ء میں آیا،اس کی بھی ناکارگی عیاںتھی اوربی جے پی کے گورنمنٹ میں آجانے کے بعدایک ایک کرکے گجرات فسادکے ملزمین جوبری ہوتے جارہے ہیں،وہ بھی ہم روزروزدیکھ رہے اور اپنی بے چارگی پرماتم کناںہیں۔ایسے میںمسلمان کیا کر سکتے ہیں یا انھیں کیا کرنا چاہیے،یہ ایک اہم سوال ہے اور یہ سوال ہر اُس موقعے پر اٹھتاہے،جب یہاں کے مسلمانوں پر کوئی آفت ٹوٹتی ہے،ان کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوتی ہے،سرکاریاکوئی شدت پسندہندوجماعت مسلمانوںپر نشانہ سادھتی ہے،تومسلم کمیونٹی میں ایک قسم کا اُبال پیدا توہوتاہے،مگروہ شعلۂ مستعجل سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔مجموعی طورپرہم اخباری بیانات اورچندکالموں سے آگے نہیں بڑھ پاتے،حالاںکہ اس طرح کے مواقع ہم سے اس بات کا تقاضاکرتے ہیںکہ اتحاداور یکجہتی کے ساتھ اپنے معاملے کواٹھائیں،سرکارسے لے کر عدالت تک کوبیدارکریں اور انھیں مجبورکریں کہ وہ انصاف کا دامن چھوڑنے نہ پائیں،اس طرح کے مصائب و حادثات ہم سے سنجیدگی،معروضیت اورحساسیت کا مطالبہ کرتے ہیں،وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی سیاسی غرض مندیوں سے اوپراٹھیں اور ملی فکرمندی کا ثبوت دیں،ہم ٹکڑیوںمیں بٹنے کی بجاے کم ازکم اپنے اوپر آنے والی اجتماعی آفت سے نمٹنے کے لیے تومتحد ہوں۔ایک حق بات،جوایک انسان کہتاہے،اُس کی اہمیت اس بات کے بالمقابل کچھ بھی نہیں ہوتی،جوپوری ایک جماعت کی جانب سے کہی جاتی ہے۔یوںتوہم آزادی کے بعد سے لے کر تاحال لُٹتے پٹتے ہی چلے آرہے ہیں،مگردس ماہ پہلے آنے والی حکومت اوراس کے کارندوںنے جو منصوبہ بندیاں کی ہوئی ہیں اوروہ اِس ملک کو جن خطوط پر چلانا چاہتے ہیں،وہ اس ملک کو نقصان اور خسارے سے دوچارکرنے والے توہیں ہی،مگرسب سے زیادہ خطرہ ہندوستان کے مسلمانوں کوہے؛اس لیے ہمیں پوری ہوشیاری،عقل مندی،دلیری اور حکمت و تدبرکے ساتھ قدم اٹھانے ہوںگے،ہاشم پورہ کیس کا آنے والے فیصلہ ابھی حرفِ آخر نہیں ،خاطیوںکوسزاملنی ہی چاہیے اور ملے گی بھی،ابھی کئی متبادل ہمارے پاس ہیں،یوپی حکومت اس کیس میں مدعی ہے اوراسے اس بات پر مجبورکیاجاسکتاہے کہ وہ  ہائی کورٹ میں اس فیصلے کوچیلنج کرے اورمظلوموںکوانصاف دلائے۔اگرانھیں انصاف نہیں ملا،تویہ ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ کا بدترین موڑہوگااورآیندہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوںکا اعتمادیہاں کے عدالتی نظام سے اُٹھ جائے گا۔


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 490