donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nehal Sagheer
Title :
   Begunah Muslim Naujawano Ki Giriftari Aur Adalton Se Rehayi Ka Silsila Kahan Ja Kar Rukega


 

بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری

اور عدالتوں سے رہائی کا سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟


 

نہال صغیر


              یہ سوال ہی سرے سے بے فیض ہے کہ جیل میں مجھے کیا کیا اذیتیں دی گئی یا جیل کے میرے شب و روز کیسے گزرے ۔اس طرح کے سوالات پچھلے سات سالوں سے آپ کررہے ہیں اور ہم جیسے لوگ اس کا جواب بھی دیتے رہے ہیں جسے آپ نے عوام اور حکومت کے سامنے پہنچایا بھی ہے لیکن کیا اس سے انتظامیہ اور حکومت پر کوئی اثر پڑا ۔نہیں !بلکہ آج بھی بے گناہوں کو فرضی مقدمات میں گرفتار کرنے اور انہیں انسانیت سوز اذیت پہنچاکر ان کے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے کا سلسلہ بدستور قائم ہے ۔اس لئے میں اس طرح کے سوالات کا جواب دینا نہیں چاہتا ‘‘یہ الفاظ ہیں اورنگ آباد اسلحہ ضبطی مقدمہ میں پہلی ضمانت پانے والے اور رہا ہونے والے نوجوان جاوید انصاری کے جو بامبے ہائی کورٹ سے ضمانت کی منظوری (21 ؍اکتوبر2013 )اورآرتھر روڈ جیل سے اپنی رہائی (19 ؍نومبر2013 )کو جمعیتہ العلماء ممبئی کے دفتر میں میڈیا کے روبرو پیش کئے ۔مندرجہ بالا الفاظ ہی اس معصوم نوجوان کے درد کو بیان کرنے کیلئے کافی ہے ۔ہم نے آج تک جو کچھ کیا ہے وہ بس اتنا ہے کہ پریس کانفرنس ،جلسے اور چند مطالبات اس سے آگے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں اور ممکن ہے کہ کسی نے سوچا ہو تو اس پر عمل کی نوبت نہیں آئی ۔جبکہ حالا ت یہ ہیں کہ ایک کے بعد دوسرا پھر تیسرا نہ بم دھماکے (آتش بازی کہنا زیادہ درست ہوگا)رک رہے ہیں اور نہ ہی ان میں فرضی گرفتاریوں کا سلسلہ رک رہا ہے۔اب تو آئی بی نے انڈین مجاہدین کو ثابت کرنے کیلئے کہ وہ گمراہ یا مایوس مسلم نوجوانوں کی تنظیم ہے اور اس کا وجود ہے کچھ نئے انداز میں گرفتاریاں اور تفتیش شروع کی ہے ۔کچھ غیر مسلم نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا ہے ۔لیکن اس الزام میں کہ وہ حوالہ کا کام کرتے تھے ۔ہم میں سے کچھ لوگ جس میں ہماری صحافتی برادری بھی شامل ہے نے اس پر خوب شور مچایا کہ دیکھو یہ ہے اصلی مجرم ۔لیکن ہمارے یہ دوست نہیں سمجھتے کہ یہ ہاتھی دانت ہیں کھانے کے اور دکھانے کے اور، وہ آئی بی اور این آئی اے کی ذہنیت اور ان کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ نہیں پارہے ہیں ۔ہر کوئی ہیمنت کرکرے نہیں ہے اور نہ ہی ہندوستان میں ہیمنت کرکرے کی تعداد زیادہ ہے ۔یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ’’جو مخلص ہے جو سچا ہے ۔زہر پیالہ پیتا ہے‘‘۔اصل میں اگر ہم آزادی کے بعد سے ان کی اسٹریٹیجی کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو پائے گا کہ آنے والی خبروں کا بین السطور کیا ہے اور کس جانب اس کا سفر جاری ہے ۔آئی بی ہو یا این آئی اے یا مجوزہ این سی ٹی سی سب کوایک ہی رخ میں کام کرنا ہے ۔سب میں اکثریت برہمنوں کی ہے اور ہوگی ۔ سب کے سامنے ایک ہی مسئلہ ہے ذات پات ،زبان اور علاقائیت میں منقسم ہندوستان کو منتشر ہونے سے بچانے کیلئے ایک مشترکہ دشمن کا وجود قائم رکھنا اور ان کے سامنے مشترکہ دشمن مسلمانوں سے بہتر کون ہو سکتا ہے ۔آزادی سے بہت پہلے ہی انہوں نے یہ طئے کرلیا تھا اسی مقصد کیلئے اسی گروپ اور اسی گروہ نے پاکستان کو آسانی سے بن جانے دیا تاکہ لمبے عرصے تک مشترکہ دشمن کے وجود کا نقشہ قائم رہے ۔ فسادات سے لیکر بم دھماکوں اور اس کے بعد فرضی گرفتاریاں سب میں وہی عوامل کار فرما ہیں ۔لیکن ہم ہیں کہ اگر ایک دو جانچ این آئی اے نے درست کردیا تو ہم نے اسی کی ڈفلی بجانا شروع کردیا اب جبکہ اس کا رخ بھی مڑتا ہوا نظر آتا ہے تب آپ کیا کریں گے ۔کیا آپ اب این آئی اے کے خلاف بولیں گے ۔چلئے یہ بھی آپ نے کرلیا تو تیسرا متبادل این سی ٹی سی تیار ہے آپ جائیں گے کہاں ۔چیختے رہیں آپ ۔آپ کی چیخ قصائی کی چھری کے نیچے آنے والی بکری کی ممیاہٹ سے زیادہ نہیں ۔کیوں کہ یہ وقت آپ نے اپنے اوپر خود ہی لادا ہے ۔اس حالت میں بھی آپ ہیں کہ متحد ہو کر کوئی لائحہ عمل تیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کو راضی نہیں ہیں ۔آپ کے علماء پانچ دس ہزار میں اپنی حمایت بیچتے ہیں آپ کے سیاسی لیڈر اپنی پارٹی کے پالتو کتے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔یہ میرے جذبات نہیں وہ حقائق ہیں جنہیں میں دیکھ رہا ہوں اور آنے والے وقت کی ہلکی سی قیاس آرائی کررہا ہوں ۔اگر کسی مولوی کو یہ خوش فہمی ہے کہ ہندوستان میں اسپین جیسے حالات نہیں آسکتے تو ہوں لیکن اسپین میں بھی اچانک حالات نہیں بدلے تھے سب کچھ اسی رفتار سے ہوا تھا جس رفتار سے ہندوستان میں حالات بدل رہے ہیں۔وہی کیفیت مسلمانوں کی اسپین اور بغداد میں تاتاریوں کی خون آشامیوں کے دور میں بھی تھا کہ مسلمان بنیاد دین کو چھوڑ کر فروعی اختلافات میں پڑا ہوا تھا ۔ہر فرقہ اور ہر گراہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا رہا تھا ۔یہی سب کچھ یہاں بھی ہو رہا ہے میر جعفر اور میر صادق کل بھی تھے آج بھی ہیں اور آئندہ بھی ہونگے ۔صرف نام جدا جدا ہونگے کردار سب کے ایک ہی جیسے ہیں بلکہ پہلے میر جعفر اور میر صادق ایک دو ہی ہوا کرتے تھے لیکن اب ہر گلی اور ہر محلے میں آپ کو میر جعفر اور میر صادق مل جائیں گے ۔اسی لئے شاعر صبر نہ کرسکا اور اس نے کہا 

؂

ویرانی گلشن کیلئے ایک ہی الو کافی تھا ۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا انجام گلستان کیا ہوگا


اوپر بیان کئے گئے حالات بہت تلخ ہیں لیکن صرف قیاس نہیں ۔حالات اسی اسی رخ کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔کسی ملک میں آپ انتظامیہ اور حکومت سے مایوس ہو جائیں تو عدالتیں واحد سہارا ہوتی ہیں جہاں سے آپ یہ امید کر سکتے ہیں کہ انصاف ہوگا لیکن جب عدالتیں ہی انصاف سے خالی ہو جائیں۔میں اس سلسلے میں زیادہ کچھ کہنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ آپ کو اس ملک کی دو عظیم عدالتوں کی مثال دے دوں جس میں ایک جگہ عقیدے کی بنیاد پر اور دوسری جگہ عوام کی اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے فیصلہ ہوا ۔اس کے علاوہ نچلی عدالتوں کے احوال جاننے کیلئے آپ مسلسل رہا ہونے والے بے گناہ نوجوانوں کی آپ بیتی سن لیجئے آپ کو پتہ چل جائے گا ۔ اسیش کھیتان کا اسٹنگ آپریشن دیکھ لیجئے اس میں ایک نوجوان کہتا ہے کہ جج کے سامنے ہی اے ٹی ایس کا افسر اسے لکھے ہوئے بیان دیا کرتا تھا جسے اسے اپنے بیان کے طور پر پڑھنا ہوتا تھا۔شبھردیپ چکرورتی کی ڈاکیومنٹری ’’آفٹر دی اسٹارم ‘‘ دیکھ لیجئے جس میں کولکاتا کا ایک نوجوان بتاتا ہے کہ اسے پھانسی کی سزا سنانے کے بعد جج نے اس کے وکیل کو اپنے چمبر میں بلایا اور اس سے کہا کہ میری طرف سے اپنے موکل سے معافی مانگ لینا میں ایسا فیصلہ دینے کیلئے مجبور تھا ۔ابھی حال ہی میں اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس میں ضمانت پر رہا ہونے والے نوجوان جاوید انصاری نے میڈیا کے سامنے کہا کہ عدلیہ بھی متعصب ہو گئی ہے ۔بس اس میں کچھ جج ایسے ہیں جو انصاف کے تقاضون کو پورا کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ہماری عدلیہ کا حال یہ ہے کہ سیمی پر پچھلے بارہ سالوں سے پابندی ہے بیچ میں ایک جج نے اس پابندی کو رد کردیا جج نے جمعہ کو پابندی رد کیا تھا ۔یو پی اے کی سیکولر حکومت نے سنیچر کو ہی صبح صبح سپریم کورٹ پہنچ گئی اور سپریم کورٹ نے بھی پوری چابکدستی سے اس جج کے فیصلہ پر اسٹے دیدیا ۔لیکن اسی عدالت میں پچھلے بارہ سالوں سے سیمی کی اپیل پڑی ہوئی ہے لیکن وہ انصاف جمہوریت ،سیکولرزم اور مساوات کے مجاہدوں کی منافقت کو ظاہر کررہا ہے ۔ ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر نے مہاراشٹر پولس کے سرکولر جس میں مسلم بچیوں کی تنظیم جی آئی او کو دہشت گردی میں ملوث بتانے کی شرمناک کوشش کی گئی تھی ،پر بامبے ہائی کورٹ میں دس کروڑ کے ہتک عزت کا دعویٰ کیا ہے ۔لیکن 24؍ ستمبر کو داخل کئے گئے اس کیس پر اب تک کسی طرح کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی کیا پتہ جماعت اسلامی کا یہ ہتک عزت کا دعویٰ بھی سیمی کی اپیل کی طرح عدالت کی آثار قدیمہ کی زینت بن کر رہ جائے ۔پھر بھی عدالت میں ضرور جانا چاہئے بلکہ سیاسی لیڈروں کے پاس ڈیلیگیشن لے کر جانے سے بہتر ہے کہ عدالتوں میں قانونی جنگ ہی لڑی جائے ۔کیوں کہ عدالتوں میں یقیناًمنصف کی تقسیم ہو گئی ہے اور ججوں کا ایک بڑا طبقہ بدعنوان اور متعصب ہو گیا ہے لیکن اس میں خال خال ہی سہی کوئی نہ کوئی انسانیت اور انصاف کو بچانے والا منصف ضرور نظر آجاتا ہے اور وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے حالانکہ اسے درپردہ انصاف کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔لیکن ہمیں یہ گردان تو بہر حال ترک ہی کردینا چاہئے کہ ’’ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے ‘‘۔اگر عدلیہ اتنی شفاف ہوتی تو اس کا ضمیر کیمپا کولا پر بیدار ہوجاتا ہے تو کسی جھونپڑ پٹی والوں کی پریشان حالی پر اس کا ضمیر کیوں سو جاتا ہے ۔وہ ذرا ذرا سی باتوں پر سو موٹو لے لیتی ہے لیکن پچھلے کئی سالوں سے مسلم نوجوانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے آشکارا ہونے کے باوجود کسی جج کا ضمیر کیوں نہیں بیدار ہوتا کیوں نہیں وہ کوئی سو موٹو ایکشن لیتا ہے ؟یہ ایسا سوال ہے جو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے تانے بانے بکھیر دیگا ۔ 


مندرجہ بالا مثالیں اور عدلیہ کے دو فیصلے یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلق سے کیاکچھ ہو رہا ہے یا آئندہی کی منصوبہ بندی کیا ہے ۔ اس کے باوجود ہماری قیادت کے دعویدار کھل کر کچھ بولنے کی جرات ہی نہیں کرتے جبکہ اسی ملک کا ایک شہری شانتی بھوشن سپریم کورٹ میں یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا کہ ’’اکثر جج بد عنوان ہیں ‘‘ ۔چیف جسٹس کے اعتراض کے باوجود انہوں نے اپنے بیان سے رجوع نہیں کیا ۔ایک صحافی وشو دیپک محمد احمد کاظمی کی گرفتاری پر لکھنے پر مجبور ہوا کہ ’’جمہوری غنڈوں کے اشاروں پر ناچنے والی پولس کہہ رہی ہے کہ جرم قبول کرو ورنہ ہم تمہیں موساد کے حوالے کردیں گے اور موساد جرم قبول کروانا جانتی ہے ‘‘لیکن کیا کوئی اردو داں مسلم صحافی اتنی سخت بات کہنے کی جرات کر سکتا ہے ۔ہر گز نہیں ۔لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ۔اس کا اختتام کیا ہے ۔ریاستی دہشت گردی کا شکار نوجوان ہوتا رہے اور ہماری قیادت کے دعویدار صبر کی تلقین کرتے رہیں کوئی لائحہ عمل طے نہ کریں یہ کب تک چلے گا ۔ نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اس مایوسی کا انجام کیا ہوگا ۔کل رونے اور سر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔خدارا جو مخلص ہیں وہ باہر آئیں گوشہ نشینی سے مصیبتیں نہیں ٹلنے والی ۔


نہال صغیر

۔ موبائل۔9987309013 ۔ 
sagheernehal@gmail.com  


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 675