donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Noor Mohammad Hasan
Title :
   Urdu Siyasi Wa Mazhabi Taasub Wa Fastayi Zahno Ki Tang Nazri Ka Shikar

 

اردو سیاسی و مذہبی تعصب و فسطائی ذہنوں کی تنگ نظری کا شکار
 
نور محمد حسن ۔کرلا ۔ممبئی
 
جذب دروں کے اپنے تقاضے ہیں ،لگن اور تڑپ ایسی آگ ہے جو بجھائے نہیں بجھتی ،یہی آتش جذبوں کے صداقت کی امین ہیں ۔لگن اور تڑپ ہو تو پہاڑ بھی راستے سے ہٹ جاتے ہیں ۔محبان اردو نے مہاراشٹر میں اردو کو سرکاری درجہ دلانے کے لئے ویسی تڑپ اور لگن کا اظہار نہیں کیا جو اردو کا اصل حق تھا ۔آزادی کے بعد سے مرکزی اور ریاستی سرکاروں کا رویہ بھی اردو کے ساتھ سوتیلا نہ ہی رہااور سرکار میں شامل آر ایس ایس کی فسطائی ذہنیت کے حامل لیڈران نے زبان اردو کی ترقی و ترویج میں ہمیشہ روڑے اٹکائے اور اپنی فسطائی ذہنیت کے زیر اثر ہمیشہ اردو کو سرکاری اعزاز سے محروم رکھا۔آزاد ہندوستان میں 1947 کے بعد جو نظام عمل میں آیا وہ اسی خدو خال پر تھا کہ آہستہ آہستہ اس ملک کے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنادیا جائے ۔چونکہ اردو کا تعلق راست مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے اور منصوبہ بند طریقے سے اسے مسلمانوں کی زبان سمجھادیا گیا ہے جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے اب تو ایک خفیہ مشن کے ذریعہ اردو کو تہہ تیغ بھی کردیا گیا ہے۔مسلم وزراء و ارکان اسمبلی کے تجاہل عارفانہ اور محبان اردو کی غفلت و لاپرواہی سے سرکاری دفتروں سے رہی سہی دانہ تنکہ اردو بھی غائب ہو رہی ہے اردو کے تعلق سے مہاراشٹر میں سرکاریں ہمیشہ زبانی جمع خرچ اور منافقانہ طرز ورویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ریاست یوپی کو اردو کا قبرستان بنادینے والے گووند ولبھ پنت اور سمپورن آنند تھے جو تھے تو کھدر دھاری کانگریسی لیکن فطری اور پیدائشی طور پر آر ایس 
ایس ذہنیت کے حامل اور آر ایس ایس کی اردو دشمن پالیسی پر گامزن کانگریسی لیڈران تھے۔مہاراشٹر میں بھی ان فسطائی طاقتوں اور فرقہ پرستوں نے اردو کو پنپنے نہیں دیا ۔ہندوستان بھانت بھانت کی بولی بولنے والا ملک ہے ۔جہاں الگ الگ زبانوں علاقوں سے تعلق رکھنے والے مذہب کے ماننے والے مختلف رنگ و نسل و قبیلہ کے افراد رہتے ہیں ،ان تمام لوگوں کو ہندوستانی تہذیب نے ایک لڑی میں باندھ رکھا ہے ۔اسی لڑی اور تہذیب کا ایک خوبصورت ہیرا اردو ہے ۔وطن عزیز میں اردو جہاں سیاسی تعصب کا شکار ہوئی ہے وہیں یہ زبان مذہبی تعصب کی مار بھی سہہ رہی ہے ۔مادہ پرستی کے اس دور میں مسلمان اپنے وجود کی بقا اپنی مذہبی شناخت ،روزگار ،ملازمت ،تعلیم ،روٹی کپڑا اور مکان کو تو مسئلہ مانتا ہے لیکن اردو کو مسئلہ نہیں مانتا ۔با لفاظ دیگر ملک کے مسلمان متذکرہ مسائل کے تئیں تو فکر مند نظر آتے ہیں ،اردو کے تعلق سے متفکر نظر نہیں آتے ۔ہندوستان کی آزادی اور اسکی تعمیر و ترقی میں کلیدی رول ادا کرنے والی اردو زبان خود اپنے دیار میں تنگ نظری کا شکار بنی ہوئی ہے ۔دستور سازی کے وقت آر ایس ایس ذہنیت کے حامل فرقہ پرست و کانگریسی اپنی من مانی کر گئے ۔اردو کی موجودہ صورت حال اسی من مانی کی مرہون ومنت ہے ۔اردو کا جنم سندھ میں ہوا محمد بن قاسم کی فوج میں عربی اور سندھی کے الفاظوں کے ارتباط سے اردو کے ابتدائی الفاظ تشکیل پائے ۔دکن میں ولی نے اسے پھولنے پھلنے کا موقع دیا اوراسے جوانی نصیب ہوئی۔اردو کے لغوی معنی لشکر کے ہیں ۔دلی کے قلعہ شاہی میں بولی جانے والی اعلیٰ زبان اردوئے معلیٰ تھی ۔صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی اردو سے بے حد محبت رکھتے ہیں ۔اور اس شیریں زبان کے گرویدہ ہیں ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ ،پریم چند ،نند کشور وکرم،کرشن چندر ،رتن ناتھ سرشار ،برج نرائن چکبست،راجندر سنگھ بیدی،آنند نرائن ملا،پنڈت آنند موہن ،گلزار زتشی دہلوی،برج موہن دتہ ،ترلوک چند محروم،پروفیسر جگن ناتھ آزاد ،کالی داس گپت رضا،کنہیا لال کپور اور مہندر سنگھ بیدی سحر محبان اردو میں ہیں اور اردو زبان کا سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ان سے بڑا کوئی دوسراوکیل نہیں۔ان افراد کی پہچان بھی اردو کی بدولت ہے۔حقیقت میں زبان اردو غیر فرقہ واریت اور بقائے باہم کا پیغام ہے ۔برادران وطن کا اردو زبان کی ترقی و ترویج میں بڑا اہم حصہ رہا ہے۔گوپی چند نارنگ نے اردو کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر کہا تھا کہ اردو زبانوں کا تاج محل ہے ۔لارڈ ولزلی نے اردو اور ہندی کے فروغ کیلئے کلکتہ میں 1800 میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کا اعلان کیا تھا ۔فورٹ ولیم کالج کے معماروں کی مساعی کی بدولت اردو زبان بھی ایک بلند سطح پر پہنچی ۔آج ہمارے اپنے اس زبان کے فروغ کی کوششوں سے پتہ نہیں کیوں غافل ہیں؟دہلی میں پروان چڑھنے والی اردو زبان کی آبیاری حید رآباد دکن نے کی ۔لکھنوء نے اس کی نوک پلک کو سدھارنے کا کام کیا ۔علی گڑھ نے نفاست اور کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج نے اسے مضبوط بنیاد عطا کی جس کے بعد اسے ایک مکمل زبان کا درجہ حاصل ہوگیا۔جب یہ زبان مہاراشٹر میں داخل ہوئی تو عوام کے دلوں میں اتر گئی ۔اردو ملک کی جنگ آزادی کی زبان ہے ۔جنگ آزادی کا حیات آفریں نعرہ ’’انقلاب زندہ آباد‘‘ بھی اردو ہی کی دین ہے۔
 
اردو کے پہلے صحافی اور اردو اخبار ’دہلی ‘ کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو انگریزوں نے پھانسی دی تھی ۔اردو اور مسلمانوں کے لہو کی دھار سے وطن عزیز کی غلامی کی بیڑیاں کٹیں ۔اردو ایک زبان ہی نہیں ایک تحریک بھی ہے ،صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کی ایک تاریخ بھی ہے۔اردو بولنے میں جتنی شیریں اور ہر دل میں اتر جانے والی زبان ہے وہیں وہ ایک سخت جان زبان بھی ہے ۔اردو کے چراغ نے برطانوی سامراج 
کے سورج کو نگل لیا اور آج برطانوی سامراج کا سورج غروب ہو چکا ہے ۔اردو اپنی لطافت ،نزاکت اور شیرینی کی وجہ سے نئی بستی تو بسا رہی ہے لیکن سرکاری درجہ و اعزاز سے محروم ہے ۔اردو نے ہی انقلاب و آزادی کی راہ ہموار کی ۔اردو وہ دوشیزہ ہے جس نے گنگا کی پاکیزہ لہروں میں غسل کیا ۔جمنا کے شفاف پانی میں تاج محل کے عکس کے مقابل اپنے گیسو سنوارے ۔حضرت امیر خسرو نے جسے نغمگی بخشی۔کبیر داس سے جس نے لطافت اور لچکدار ی کا ہنر سیکھا۔لشکر نے جس کی آبرو کی حفاظت کی وہ اردو اپنے دیش اپنے وطن میں مہاجر بن گئی یا بنادی گئی ۔مقدس گنگا کی روانی والی نہایت خوبصورت اور شیریں زبان ہے اردو۔اردو ہر قوم و طبقے کی پسندیدہ زبان ہے ۔اردو کے تعلق سے ایک غلط فہمی سنگھ پریوار نے پیدا کر رکھی ہے کہ یہ تقسیم کی زبان ہے جبکہ ایسا قطعاً نہیں ہے ۔اردو کو جتنا دبایا جارہا ہے اتنا ہی یہ ابھر رہی ہے ۔یہ ہندوستان کے گلی کوچوں میں بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے ۔ممبئی کے بالی ووڈ میں بننے والی فلموں کی زبان بھی اردوہے لیکن تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے ہندی کے سرٹیفیکیٹ دئے جارہے ہیں۔کئی فلمیں ایسی بھی ہیں جن کے لئے اردو کا سرٹیفیکیٹ بھی طلب کیا گیا ہے۔اردو کو مسلمانوں کی زبان بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔اردو اخبارات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔رشوت کے بغیر سرکاری اشتہارات کا حسول ممکن ہی نہیں ہے اور غیر ملکی وفود میں اردو صحافیوں کو شامل نہیں کیا جاتا ۔اردو اخبارات بھی سرکار کی چشم التفات سے محروم ہیں ۔اردو اخبارات کو امداد کی نہیں اشتراک کی ضرورت ہے۔ 
 
اردو اخبارات کے قاری تو بہت ہیں لیکن خریدار کم ہیں نیوز پرنٹ مہنگا ہے ۔اشتہارات نا کے برابر ہیں ۔پھر اردو بھلا کیسے پنپے گی ۔اردو اخبارات اور ماہنامے دیگر اشاعت والے اخبار اور میگزین میں تیسرے نمبر میں ہیں ۔مہاراشٹر سرکار نے سرکاری رسالے لوک راجیہ ہندی اور لوک راجیہ انگریزی کی جانب تونگاہ ضرور کی لیکن لوک راجیہ اردو کو فراموش کرچکی ہے ۔یہ بات تو طے ہے کہ اخبارات رسالے اور میگزین کا مطالعہ یقیناًزبان کی ترقی میں مدد دیتا ہے ۔ہمارا ایک طبقہ اس بات پر مصر رہتا ہے کہ اردو میڈیم کے طلباء نکھٹو ہوتے ہیں۔ان میں اعتماد کی کمی اور ذہانت کا فقدان ہوتا ہے وہ کسی بھی میدان میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو پاتے ۔جبکہ انگریزی میڈیم کے طلباء معرکہ سر کر لیتے ہیں اس سوچ نے بھی اردو کو نقصان پہنچایا ہے ۔اگر یہی سوچ مراٹھی والا رکھے تو مہاراشٹر میں مراٹھی کو کبھی عروج حاصل نہیں ہوتا ۔لیکن مرہٹی والوں کی مثبت سوچ نے زبان اور عوام دونوں کو کامیابی سے ہمکنار کردیا ۔اردو میڈیا اس بات کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے کہ اردو کو اس کا حق اور وقار ملے اردو میڈیا مسلمانوں کے جذباتی اٹھانے یا ان کے مسائل کو جذباتیت کی ہوا دینے کے بجائے ان کی معاشی اور تعلیمی مسائل کو آئینی و قانونی و زمینی حقائق کی شکل میں دیکھ رہا ہے اور قارئین کو دکھا بھی رہا ہے ۔محبان اردو خود اور مدارس کے مدرس و ذمہ داراپنی اولادوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں داخل کروارہے ہیں ۔ان کی اولادیں اردو سے نابلد ہیں ۔ہم مردم شماری فارم کے زبان کے خانہ میں اردو نہیں لکھواتے ۔اردو میڈیم کی تعلیم خود اردو والوں کی ترجیحات میں نہیں ہے ۔اردو کی روزی روٹی کھانے والے اور اردو کی ہی شہرت کا تاج اپنے سروں پر سجائے گھومنے والوں کی اولادیں اردو سے نابلد ہیں۔کیفی اعظمی علی سردار جعفری اور ظ انصاری کی اولادیں اسکی واضح مثالیں ہیں ۔اردو کی لڑائی اردو والوں کو ہی لڑنی پڑے گی کسی دوسرے سے توقع کرنا کہ ہماری لڑائی دوسرے لڑینگے حماقت کا سب سے آخری درجہ ہے ۔۔اردو کو روٹی روزی سے جوڑنا بھی ایک بنیادی ضرورت ہے ۔اردو اساتذہ اور مدرسین اپنے فرائض سے چشم 
پوشی کر رہے ہیں ۔سچے و نیک جذبے سے اس خوبصورت زبان کی بقا کیلئے اچھے طالب علم تیار کرنے کی مساعی جمیلہ نہیں کر رہے ہیں ،افسوس کہ اب مساجد اور خانقاہوں سے بھی اردو نکالی جارہی ہے اور اس کی جگہ ہندی یا علاقائی زبانیں بستی جارہی ہیں ۔اردو کو پرائمری اسکولوں کے نصاب سے خارج ہی کر دیا گیا ہے ۔اغیار کی منصوبہ بند سازش اور سیاسی لیڈران کی منافقت کا نتیجہ ہے کہ اردو اسلامی مدارس میں محصور ہو کر رہ گئی ہے ۔اردو کو مدرسوں تک محدود کر دیا گیا اردو کے فروغ سے متعلق گجرال کمیٹی رپورٹ اور 92-93 فسادات کی تحقیقات کے لئے قائم کئے گئے جسٹس شری کرشنا کمیشن رپورٹ دونوں ہی کو سرد خانے میں ڈال کر اردو کے فروغ کی راہ کو مسدود کردیا گیا ۔پریہ رنجن داس منشی نے کہا تھا کہ حکومت اردو صحافت کو فروغ دینے کے وعدے کی پابند ہے ۔کئی مرحلے کے بعد اردو اکیڈمی کی تشکیل نو ہوئی جسمیں حیرت انگیز طور پر اورنگ آباد اور مالیگاؤں کو نمائندگی نہیں دی گئی جہاں اردو کی اشاعت و ترویج بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے ۔یہ علاقہ گہوارہ علم و ادب سے مشہور بھی ہے ۔ایک عدد اقلیتی اپاہج وزارت قائم کرکے سرکار سمجھ رہی ہے کہ اس نے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہے ،یقیناًیہ اسکی خام خیالی ہے ۔سرکار مہاراشٹر میں اردو کو سرکاری درجہ عطا کرنے کیلئے ٹھوس اور مضبوط اقدام کرے ۔مہاراشٹر سرکار اردو کو اس کا جائز حق دے ۔حقیقت سے راہ فرار کامیابی کا گمان تو پیدا کرسکتی ہے کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتی ۔ہمہ جہت مربوط اور جارحانہ کوششیں مقصد کی بر آمدگی کیلئے ضروری ہیں ۔اردو کو اس کا حق دلانے کیلئے یہ اکسیر بھی ہے ۔ہوا کے مخالف میں کشتی لیجانے کی صلاحیت رکھنے والے افراد تعریف کے مستحق ہوتے ہیں ۔اور وہی اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوتے ہیں ۔زندہ قوموں کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ ان کی نگاہیں مستقبل پر ہوتی ہیں ۔سرکار کو محبان اردو کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا چاہئے ۔اب انتخابات کا زمانہ آنے والا ہے ۔سیکولر امیدواروں کی ایک بھیڑ ہے ۔اردو کو سرکاری درجہ دلانے کیلئے ہم لیڈران پر اپنا دباؤ بھی بناسکتے ہیں ۔دلت اور مسلم دو قومیں بادشاہ گر واقع ہوئی ہیں بشرط کہ مسلمانوں میں انتشار کی فضا قائم نہ ہو ۔اردو کیلئے ہم اپنے مطالبات میں شدت پیدا کریں ۔احتجاج جمہوریت کی روح ہے ۔کڑے سے کڑے اور سخت سے سخت احتجاج کے ذریعہ سرکار کی توجہ اپنی جانب مبذول کراسکتے ہیں۔
 
+++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 828