donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Parwaz Rahmani
Title :
   Yeh Aawaz Kiski Hai

یہ آواز کس کی ہے؟
 
پرواز رحمانی
 
 
’’فیمینزم کے خطرات  سے خبردار رہیں‘ وہ پروپگنڈا انتہائی قابلِ مذمت ہے جس سے متاثر ہو کر خواتین اپنی خانگی ذمے داریوں اور بچوں کی پرورش سے توجہ ہٹا کر دوسری سرگرمیوں میں حصہ لینے لگتی ہیں۔ آج کی یہ عجیب و غریب چیز جسے فیمینزم کہا جاتا ہے‘ میرے نزدیک انتہائی خطرناک ہے۔ فیمینزم کے نام پر آزادیٔ نسواں کی تحریک چلانے والی تنظیمیں دراصل عورتوں کی جعلی آزادی کی علمبردار ہیں‘ جس کا اظہار شادی اور خاندان سے باہر کی زندگی میں ہوتا ہے… گھر سے باہر کی ذمے داریاں صرف مرد کی ہیں‘ محنت کرکے پیسہ وہی کمائے، جب کہ عورت کو گھر کے اندر رہ کر اپنے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے…‘‘ اگر عام ماحول کے حساب سے دیکھا جائے تو بادی النظر میں یہ کسی روایتی مسلم واعظ کا وعظ معلوم ہوتا ہے یا پھر کسی ہندو سوامی کا اُپدیش‘ لیکن یہ روس کے سب سے بڑے اور با اثر مسیحی رہنما پیٹر یارک کرل کے خیالات ہیں۔ انہوں نے یہ باتیں 9 اپریل کو ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہی تھیں… پیٹریاک کی وہ تقریر دوسرے دن یعنی 10 اپریل کو رشین آرتھوڈو کس چرچ کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی پوسٹ کی گئی تھی۔
 
اور یہ وہی روس ہے جس نے سوویت یونین کے سب سے بڑے حصے کے طور پر اپنے یہاں مذہب کو لگا تار 65 سال تک دبائے رکھا‘ مارکسی نظریۂ حیات کا علمبردار ہونے کی وجہ سے روس میں شادی بیاہ کی بھی بہت زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ ہر چند کہ خاندان کا نظام پوری طرح نہیں ٹوٹا تھا۔ اب اشتراکی مملکت کے بکھرجانے کے بعد مذہب وہاں کی اجتماعی زندگی میں واپس آ رہا ہے۔ روس کی بڑی آبادی عیسائی ہے اور دیگر عیسائی ملکوں کی طرح وہاں بھی عیسائیت کے متعدد فرقے موجود ہیں۔ سب سے بڑا فرقہ آرتھوڈ وکس ہے‘ اور یورپ و امریکا کی عیسائیت سے مختلف ہے۔ یورپ و امریکا کے عیسائی صرف سنڈے سروس اور آمدنی کا کچھ حصہ چرچ کو خیرات کرنے کی حد تک عیسائی ہیں‘ باقی زندگی میں آزاد ہیں۔ عورت کو تو انہوں نے اپنی تجارت کے فروغ اور تفریح کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ فیمینزم کے نام پر عورت کی آوارگی کی تحریک امریکا ہی سے چلی تھی جسے مغربی یورپ نے بھی فی الفور اپنا لیا تھا۔ مشرقی یورپ کو اس میں پہلے بھی قدرے تذبذب تھا۔ اب اشتراکیت کے خاتمے اور امریکی طرز معیشت کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے باوجود روسیوں کو امریکی طرز حیات اختیار کرنے میں پس و پیش ہے اور وہاں کے عیسائی پیشوا کے یہ خیالات اسی رحجان کے غماز ہیں۔
 
روسی مسیحی رہنما کے خطاب کی تفصیل سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ تنقید کا خاص ہدف فیمینزم ہے۔ انہیں فیمینزم پر شدید تنقید کی تحریک غالباً خود امریکا سے ملی ہے۔ گزشتہ بیس برسوں میں شمالی امریکا اور کناڈا میں فیمینزم اور نیو ورلڈ آرڈر کے امریکی نعرے کے خلاف وہاں دانشوروں کا ایک مضبوط طبقہ پیدا ہوگیا ہے اس میں سب سے نمایاں آواز ہنری مکائو کی ہے جو مشہور کانسپیریسی تھیورسٹ ہیں اور ہنری مکائو ڈاٹ کام کے نام سے اپنی سائٹ چلاتے ہیں۔ ان کی تحقیق ہے کہ فیمینزم اور نیو ورلڈ آرڈر کے پیچھے بھی صہیونیت ہے۔ اس موضوع پر ان کی کئی کتابیں اور ویب سائٹ پر سیکڑوں صفحات موجود ہیں۔ ہنری مکائو کے علاوہ اس سائٹ پر کئی مشہور دانشوروں کے جائزے بھی دستیاب ہیں۔ فیمینزم یعنی عورت کے جنسی استحصال کے خلاف بے چینی یورپ میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔ چنانچہ برطانیہ میں خود خواتین کے 
متعدد گروپ اس کے خلاف سرگرم ہوگئے ہیں۔ روسی پیٹریارک نے ظاہر ہے کہ یہ باتیں عیسائیت کے حوالے سے کہیں ہیں۔ دوسرے دانشور اور خواتین کے گروپ بھی اپنے اپنے مطالعے اور مشاہدے کے بعد فیمینزم کے خلاف بول رہے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ حلقے غیر شعوری طور پر اسلام کے ضابطۂ اخلاق ہی کی بات کر رہے ہیں۔ مسلم اہل علم کو اس رجحان کا مطالعہ بغور کرنا چاہیے۔ (دعوت دہلی)
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 700