donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Md. Shakeel Siddiqui
Title :
   NGOs Kahan Hain

 

این جی اوز کہاں ہیں؟


پروفیسرمحمد شکیل صدیقی


ہم نے حقوقِ نسواں کی علَم بردار این جی اوز کی جدوجہد کی، اُن کی تنگ نظری، تعصب اور جانب دارانہ طرزعمل کے باوجود اس لیے ہمیشہ پذیرائی کی ہے کہ اس کے نتیجے میں کسی نہ کسی حد تک خواتین کے مظلوم طبقے کی معاشرے میں آواز سنی گئی ہے۔ لیکن اسلام اور اسلامی اقدار سے بغض و عناد رکھنے والی حقوقِ نسواں کی تنظیموں کو معاشرے میں اس لیے پذیرائی نہیں مل سکی کہ ان این جی اوز کی بدنیتی، خیانت اور جانب داری نفرت کی حد تک قابل مذمت ہے۔


یہ این جی اوز مغربی منصوبے کے تحت مختاراں مائی اور ملالہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر تو واویلا کرتی ہیں اور میڈیا پر مسلط سیکولر قوتیں بھی این جی اوز اور ان کی سرکردہ رہنمائوں کو پروموٹ کرتی ہیں، لیکن شعائر اسلامی سے سرشار مسلم خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو امریکی اور مغربی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہے۔ اس کا ثبوت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف امریکی زیادتی اور حال ہی میں خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں خیبر میڈیکل کالج کی طالبہ کے ساتھ ہونے والا بدتر سلوک ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے:


خیبر میڈیکل کالج پشاور کی ایم بی بی ایس سال اول کی طالبہ مصباح سید کو حجاب اور نقاب لے کر کلاس میں آنے پر بدترین سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ منگل 17 دسمبر 2013ء کو مصباح سید نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پروفیسر رحیم بخش نے اسے خبردار کیا کہ وہ اگلے روز کلاس میں نقاب کے ساتھ نہ آئے۔ مصباح کو اس کی جماعت کی ساتھی طالبہ نے اپنی کلاس کا نمائندہ منتخب کیا تھا جس پر پروفیسر رحیم بخش خوش نہیں تھا۔ مصباح سید نے بتایا کہ مذکورہ پروفیسر پہلے بھی خواتین کو نقاب و حجاب کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے اور اپنی بیوی و بیٹیوں کو بھی نقاب لینے سے روکتا ہے۔ مصباح سید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر رحیم بخش نے کمرۂ جماعت میں میری ساتھیوں کے سامنے میرے نقاب لینے پر نہایت اہانت اور تحقیر آمیز ریمارکس دیے اور جب میں نے اس اہانت آمیز سلوک پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر طالبہ کا بنیادی حق ہے کہ وہ حجاب اور نقاب لے یا نہ لے، کسی کو بزور قوت روکنے کا کوئی حق نہیں ہے تو رحیم بخش طیش میں آگیا، اس نے میرے چہرے پر تھپڑ اور طمانچے مارے اور لات ماری۔ مصباح سید نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ ٹیچر نے اسے ڈرایا اور دھمکایا بھی ہے۔ مصباح سید نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بعض ٹیچر نقاب و حجاب لینے والی طالبات کو زبانی امتحان میں امتیازی سلوک کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ مصباح سید جو پاکستانی نژاد کینیڈین شہری ہیں، نے اپنے والدین کی اس خواہش پر خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ لیا کہ وہ پاکستانی تہذیب و ثقافت سے آشنائی حاصل کریں۔ مصباح سید نے کہا کہ وہ درجنوں ممالک حتیٰ کہ امریکہ اور برطانیہ کا دورہ کرچکی ہیں لیکن وہاں بھی کسی نے ان کے حجاب و نقاب پر اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذکورہ ٹیچر سمیت اُن اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی کریں جو نقاب و حجاب لینے والی طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں اور ایسی طالبات کی تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔


اس واقعہ کے خلاف خیبر میڈیکل کالج کی طالبات نے شدید احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی روڈ بند کردی اور اپنی ساتھی طالبہ کے ساتھ بدسلوکی کے خلاف یکجہتی کا اظہار کیا۔


مصباح سید نے اس واقعہ کو 17 دسمبر 2013ء کو میڈیا کے سامنے پیش کیا، جب کہ یہ واقعہ اندازاً ایک ہفتہ قبل پیش آیا، کیونکہ طالبات نے 13 دسمبر بروز جمعہ کو احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ گویا اگر مصباح سید میڈیا کانفرنس نہ کرتیں تو اس واقعہ پر پردہ پڑا رہتا۔ مصباح سید کی پریس کانفرنس کو صرف ایک انگریزی اخبار نے جگہ دی، جب کہ کسی بھی اردو اخبار اور الیکٹرونک میڈیا پر اس کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔ تاہم پریس کانفرنس کے بعد کراچی کے دو اخبارات نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے علَم برداروں کا ضمیر کتنا مُردہ ہوچکا ہے، وہ اپنے نفس اور ذات کے اتنے اسیر ہیں کہ جب ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے اُسی وقت انہیں آزادیٔ اظہار کا نعرہ یاد آتا ہے۔ خیبر میڈیکل کالج کی طالبہ کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر پوری قوم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے بجا طور پر سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کیا اسی کو میڈیا کی آزادی کہتے ہیں؟ انہیں مختاراں مائی اور ملالہ کے واقعات اجاگر کرنے اور سوات میں خاتون پر کوڑے مارنے کی جھوٹی ویڈیو بار بار نشر کرنے میں تو تسکین ہوتی ہے لیکن اسلامی شعائر کی تضحیک و توہین اور ایک طالبہ پر تشدد اور اس پر لاتوں اور تھپڑوں کی بارش نظر نہیں آتی۔


یہ واقعہ اس اعتبار سے بھی شرمناک ہے کہ خواتین کے حقوق کی علَم بردار، ہیومن رائٹس کی چیمپئن عاصمہ جیلانی اور قائدا عظم یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر فرزانہ باری جو خود بھی استاد ہیں اس واقعہ پر ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ امر ِواقع یہ ہے کہ ہیومن رائٹس اور حقوقِ نسواں کی علَم بردار یہ این جی اوز اسلام، شعائر اسلام اور خواتینِ اسلام سے بدترین بغض و عناد رکھتی ہیں۔
اس واقعہ کے بعد معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ پروفیسر کو صرف معطل کیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ اتنے بڑے واقعہ پر سپریم کورٹ اب تک حرکت میں نہیں آئی! اس نے شعائرِ اسلام کی توہین اور ایک مسلمان طالبہ کے ساتھ بدسلوکی پر از خود نوٹس کیوں نہیں لیا؟


مصباح سید کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی حکومت کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جب تک صوبائی حکومت مذکورہ پروفیسر کے خلاف راست اقدام نہیں کرتی اُس وقت تک یہ داغ نہیں دھل سکتا۔


ہم یہاں اسلام پسند جماعتوں کی غفلت کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے جو اسلام پسند خواتین کے ساتھ زیادتیوں پر سوئی رہتی ہیں، اور جاگتی ہیں تو وقت گزرنے کے بعد۔ اور عملاً کچھ کرنے کے بجائے صرف اخباری بیانات پر اکتفا کرتی ہیں۔ خیبر پختون خوا حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس واقعہ میں ملوث اساتذہ کے خلاف ایسی کارروائی کرے کہ وہ نشانِِ عبرت بنا دیے جائیں اور آئندہ

کسی ٹیچر کو کسی طالبہ کے ساتھ ایسے سلوک کی جرأت نہ ہو۔


 
پروفیسرمحمد شکیل صدیقی
*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 580