donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Professor Irfan Shahid
Title :
   Qayadat Ka Bohran Maujuda Muslim Umma Ke Liye Aik Lamhaye Fikriya

قیادت کا بحران موجودہ مسلم امہ کے لیے ایک لمحۂ فکریہ


عرفان شاہد


فجر کی نماز ہوچکی ہے۔ وہ صحابی جو گھنٹوں نماز فجر کے بعد گھنٹوں اللہ کے رسولؐ کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے رہتے تھے اور عبادت میں مصروف رہتے تھے اچانک فجر کی جماعت ختم ہوتے ہی غائب ہوجانے لگے۔ جب یہ سلسلہ شدت اور تواتر پکڑ لیا خلیفہ ثانی جو ابھی خلیفہ نہیں ہوئے تھے خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کے متعلق فکر مند ہوجاتے کہ یہ بزرگ اچانک فجر کی نماز کے بعد فوراً کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ فکر خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کو پریشان کردیتی ہے اور ایک دن نماز کے بعد آپ کے تعاقب میں نکل پڑتے ہیں۔ کافی دیر تک پیدل چلنے کے بعد دیکھتے ہیں خلیفہ اول ایک چھوٹی سی آبادی میں داخل ہورہے تو آپ فوراً آپ ایک درخت کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ ایک چھوٹے سے گھر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہ پورا ماجرا حضرت عمر فاروقؓ درخت کے پیچھے سے چھپ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور یہ انتظار کررہے ہوتے ہیں کہ جیسے ہی خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ اس گھر سے باہر نکلیں میں اس گھر میں داخل ہوجاؤں اور ان کے نیکی کے اعمال کو سیکھ لوں اور اس پر عمل پیرا ہوجاؤں۔ خلیفہ وقت اس گھر سے نکلے حضرت عمرؓ اس گھر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ گھر میں داخل کیا ہونا ہوتا آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ضعیف سا شخص ایک چارپائی پر آرام کررہا ہوتا جو شاید بینائی سے بھی محروم ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ اس ضعیف شخص پوچھتے ہیں وہ کون آدمی تھا جو تھوڑی دیر پہلے آپ کے گھر سے نکل گیا ہے۔ ضعیف شخص حضرت عمرؓ کو جواب دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ اسے ان کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں بس وہ یہ جانتے ہیں کہ پچھلے کچھ مہینوں سے ان کے گھر پر آتا ہے۔ ان کے گھر کی صاف صفائی کرتا ہے۔ ان کے لیے آٹا گوندھتا ہے، روٹیاں بناتا ہے اور ان کی بکریوں سے دودھ نکالتا ہے۔ یہ الفاظ اس بوڑھے انسان کے منھ سے سن کر پریشان ہوجاتے ہیں اور بلاساختہ اُن کے منھ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ خلیفہ اول نے اپنے اور آنے والے خلیفہ کے لیے منصب خلافت بہت ہی مشکل بنادیا ہے۔ یہ خلافت راشدہ کی وہ سنہری کرنیں جن کا کوئی متبادل دنیا میں ابھی موجود نہیں ہے۔ جو لوگ اپنے آپ لیڈر گردانتے ہیں انہیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کیا ان کے اندر اس طرح کی 2%خوبیاں موجود ہیں اور اگر ان کے اندر 2فیصد بھی خوبی موجود نہیں ہے تو کیا وہ اس بات کا استحقاق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا لیڈر کہیں؟ آج دنیا میں جن کو اپنا گھر سنبھالنا نہیں آتا، جن کو اسلامی تاریخ کے ت سے بھی واقفیت نہیں ہے جو اپنے بچوں کی تربیت سے قاصر ہیں، جن کا پڑوسی ان سے نہیں خوش اور جن کو یہ زمین بھی اپنے اوپر چلنا نہیں پسند کرتی وہ سب کے سب آج مسلمانوں کی قیادت کررہے ہیں۔


اب آپ بھی سوچئے کہ یہ امت مسلمہ کس قدر لولی لنگڑی ہوگئی ہے کہ اسے کوئی صلاح الدین ایوبی مل پا رہا اور نا ہی کوئی نورالدین زنگی۔ حالانکہ ہمارے درمیان صلاح الدین ایوبی بھی ہیں اور عمر مختار بھی ہیں لیکن ہم سب خود غرض اور مطلب پرست ہوگئے ہیں۔ چند سکوں میں اپنا ضمیر بیچنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے اس عیب دار آنکھ سے کبھی بھی صلاح الدین ایوبی نہیں نظر آئے گا اور نظر آبھی گیا تو بھی ہم اسے پکڑ کر ملت کے قیادت کی رسی نہیں دیں گے بلکہ ہم خود ہی قیادت کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ اگرچہ ہمیں راستے پر سیدھا چلنا بھی نہیں آتا۔ جب تک ہم اس بری خصلت سے باز نہیں آئیں گے ہماری قیادت ایسے ہی لوگ کررہے ہوں گے جن کو جانور بھی نہیں پسند کرتا ہوگا اور ہمیں اسی طرح مولی اور گاجر کی طرح کاٹا جائے گا۔ آج دنیا میں ہم کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان وجوہات میں ایک وجہ باصلاحیت ایماندارانہ قیادت کی ہے جو افسوس کہ مسلمانوں میں عنقاء ہوگئی ہے۔


بخاری شریف کی ایک حدیث ہے جس کے راوی ابوہریرہؓ ہیں۔ اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب العلم کے باب میں درج کیا ہے۔ اس کی وجہ میں بعد بیان کروں گا لیکن سب سے پہلے اس حدیث کے مفہوم سمجھ لیں۔


حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ  لوگوں کے درمیان بیٹھ کر گفتگو فرمارہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی آپ کی مجلس کے قریب آتا ہے اور آپ سے پوچھتا ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ اللہ کے رسول گفتگو میں مصروف رہتے ہیں اس لیے شاید فی الفور جواب دینے سے پہلے تھوڑا سا توقف اختیار کرتے ہیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد اللہ کے رسولؐ لوگوں سے اس شخص کے بارے میں دریافت کرتے ہیں وہ شخص وہیں موجود ہوتاہے فوراً کھڑا ہوجاتا ہے اور اپنا سوال دہراتا ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ اللہ کے رسولؐ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قیامت اس وقت آئے گی جب امانتداری کا احساس لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گا، ایمانداری لوگوں میں ناپید ہوجائے گی۔ دیہاتی نے دوبارہ سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ ایمانداری سے کیا مراد ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ایمانداری کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حکومت کے کاروبار نالائق لوگوں کے ہاتھ سونپ دیا جائے۔


یہ واقعہ بالکل آج کے دور پر صادق آرہا ہے۔ آج مسلمانوں نے اپنی قیادت ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں دے رکھا ہے جن کی زندگی کرپشن سے بالکل داغدارہو۔ ایسے حضرات مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کی زندگی کو مزید دشواری میں ڈال رہے ہیں۔


آج امت مسلمہ کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جس کا نقشہ قرآن نے سورہ مومنین میں کھینچا ہے۔ ایک لیڈر کی زبان سے بہتر اس کا اخلاق اور کردار ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس آج کے قائدین کی زبان اخلاق و کردار سے کروڑوں گنا زیادہ تیز چلتی ہے۔ اخلاق و کردار جمود وتعطل کے شکار ہوچکے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ اخلاق نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی۔


اس حدیث کو امام بخاری نے علم کے باب میں اس وجہ سے درج کیا ہے کہ حکومت ، امامت، قیادت، خلافت کا تعلق علم سے ہے۔ جو شخص علم و عمل میں افضل ہوگا وہی ان چیزوں کا مستحق ہوگا۔ عاجزی و انکساری اور خوف خدا کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اس کام کے لیے پیش بھی نہیں کرے گا لیکن یہ عوام کی ذمہ داری ہوگی کہ عوام ایسے لوگوں کو تلاش کرکے زبردستی ان کو ایسے منصبوں پر بٹھائیں اور ان کا تعاون کریں۔ اگر خوف خدا کی وجہ سے انکار کریں پھر بھی ان کو اس منصب پر بٹھائیں اور ان کا تعاون کریں۔ اگر ایسا کریں گے تو اللہ بھی ہماری مدد کرے گا۔ اس کی عدم موجودگی میں اللہ کی مدد بھی ہمارے ساتھ نہ ہوگی۔ ان کی مثال ایک ڈاکٹر کے مشابہ ہے۔ اگر ایک ڈاکٹر یہ کہے کہ صاحب میں آپ کو دوا نہیں دے سکوں گا تو اس صورت میں ہم ڈاکٹر سے سفارش کرتے ہیں کہ آپ ذرا مریض کو دیکھ لیجئے۔ یہ آپ کاہی میدان ہے نہ کہ آپ خود آپ استرا لے کر مریض کا آپریشن کرنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قیادت کا معاملہ تو معاملات اور اسلامی معاشرت سے جو ہماری طبیعت سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس ہم اس معاملے میں غفلت برت رہے ہیں اور یہ اُسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ ہمیں ہر جگہ مارا کوٹا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپسی اور مسلکی اختلافات کو بھول کر ایک ہوجائیں اور اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کریں اور کوئی لائحہ عمل طے کریں تو یہ مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ اللہ کے رسولؐ نے ہمیشہ زیادہ علم رکھنے والے لوگوں کو فوقیت دی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود عمر میں چھوٹے تھے پھر بھی اللہ کے رسولؐ انہیں بڑے بڑے صحابہ کے درمیان بیٹھاتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ آپ تفسیر کے اچھے عالم تھے اس علم کی وجہ سے آپ کی عمر کو نظرانداز کیا جاتا تھا اور بڑی بڑی مجلسوں میں آپ کو بٹھایا جاتا تھا۔


اس کے علاوہ ایک قائد کے اندر بہت ساری صلاحیتیں ہوتی ہیں جو ہمارے موجودہ دور کے مسلم قیادت کا دم بھرنے والوں میں کچھ بھی نہیں پائی جاتی۔ اگر لوگ قیادت کرنا اگر اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں تو ان سے گزارش ہے کہ وہ سفید کرتا پہننے کے بجائے پیوند لگائے ہوئے کپڑے پہن لیں اور نصف پراپرٹی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے دیں جیسا کہ خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے کیا تھا اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کی حفاظت اور ان کی ترقی کے لیے زندگی کی بجائے موت کی تمنا کریں جیسا لیبیائی قائد عمر مختار نے ظالم اٹالین ایمپائر کے سامنے کیا تھا اس یقین میں کہ ایک شہید لیڈر ہمیشہ زندہ ہوتا ہے اور اپنے پیچھے کتنے لوگوں کے لیے ایک زندہ نمونہ چھوڑ جاتا جو اس جیسے بے شمار لیڈر پیدا کرنے کا موجب ہوجاتا ہے۔


تاریخ گواہ ہے کہ جب لیبیاکے قائد عمرمختار کو دھوکے سے گرفتار کرلیا جاتا ہے اور اٹالین سامراج آپ کے سامنے دو تجویز رکھتے ہیں اس میں ایک تجویز ان کے لیے زندگی ہوتی ہے لیکن ان کے افواج کے لیے موت ہوتی ہے ، دوسری تجویز میں ان کی موت ہوتی ہے اور فوج کی زندگی ہوگی ہے۔ وہ وقت کاقائد دوسری تجویز کو اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر میں مار دیا گیا تو میں تاقیامت زندہ رہوں گا اور اگر زندہ رہ گیا تو صرف دس سال کے لیے زندہ رہوں گا کیونکہ میں اپنی ستر سال کی زندگی گزار چکا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے پھانسی قبول ہے لیکن بند کمرے میں نہیں بلکہ مجھے اپنے پوری قوم کے سامنے پھانسی دی جائے تاکہ میری قوم کو پتہ چل سکے میں بزدل نہیں ہوں اور اسلام میں بزدل کی کوئی جگہ نہیں ہے اور میرے مرنے کے بعد اور بھی عمرمختار پیدا ہوسکیں جو اٹالین ایمپائر کو پلٹنے میں کوئی تردد نہ کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ نے اس شخص کو آج بھی زندہ رکھا ، آج بھی تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام جلی حروفوں میں لکھا جاتا ۔ لیبیاء کی کرنسی پر اس کی تصویر ہے۔ لیبیا کے ہر اسکول میں اس کے حالت زندگی کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑا ہر شخص اس کی بہادری اور قربانی کو سلام کرتا ہے۔ یہ کوئی فلمی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جس سے غیر مسلم بھی متاثر ہوئے۔ ایک انگریز تو اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے عمرمختار کی زندگی پر ایک مکمل فلم بھی بنا ڈالی اور وہ بات کہہ دی جو آج مسلمان بھی کہتے ہوئے ڈرتے ہیں۔


لہٰذا جن لوگوں کو مسلمانوں کی قیادت کرنے کی خواہش ہے وہ ان حضرات کے زندگی کے احوال کا مطالعہ کرلیں اور اگر سینے میں قیادت کرنے کا وہ حوصلہ ہوا جو حضرت ابو بکر صدیقؓ اور عمرمختارؒ میں تھا تو آگے بڑھ کر مسلمانوں کی قیادت کریں۔ مسلمانوں کے نام پر دلالی کرنا بند کریں۔ مسلم قوم رفتہ رفتہ تعلیم کی طرف آرہی ہے اب اسے آنے والے دنوں میں بیو قوف بنانا آسان نہیں ہوگا۔

دل میں ہو جرات و ایمانداری تو مسلمان کی قیادت کرلے
ورنہ کسی جنگل کے کونے میں اپنا ایک رُخ کرلے

روفیسرعرفان شاہد
استاذ برائے معاشیات و بزنس اسٹڈیز
موبائل: 8080997775
ای میل: shahid_irfan2002@yahoo.com

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 546