donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rasheed Ansari
Title :
   Ghaza Mein Israeel Ke Khatarnak Mansube

غزہ میں اسرائیل کے خطرناک منصوبے!
 
رشید انصاری
 
دوسری معیاد کے لیے اوبامہ کے انتخاب کے فوری بعد اوبامہ کی اسرائیل نوازی کے تعلق سے جو خدشات ظاہر کئے جارہے تھے ان کی تصدیق خاصی حدتک غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ فضائی حملوں، درندگی و بربریت کے مظاہروں کے ساتھ غزہ پر زمینی حملے کی تیاری سے ہوگئی ہے۔ عام طور پر خیال کیا جارہا تھا کہ پھر کسی انتخاب لڑنے کے خوف سے بے نیاز اوبا اب اور زیادہ جارحانہ رخ اختیار کریں گے راقم الحروف ان ہی کالموں میں اس تعلق سے تفصیلات بیان کرچکا ہے۔ 
 
اسرائیل کو نہ صرف فلسطینی علاقوں بلکہ دیگر تمام مقبوضہ علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کو اطمینان سے برقرار رکھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس وقت صرف اور صرف حماس ہے اور حماس کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر اسے تباہ کرنے کو اسرائیل و صیہونی منصوبہ میں اولین اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسرائیل کی پرانی حریف ’’الفتح‘‘ کو یاسرعرفات کی غلطیوں اور محمود عباس کی علانیہ غداری نے بے ضرر بناکر رکھ دیا ہے۔ 
 
غزہ پر اسرائیل کی درندگی کی ہماری بدترین توقعات یا خدشات کے عین مطابق صدر اوبامہ نے بھر پور تائید و حمایت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کا وہ حق تسلیم کرلیا جو اسے اپنے دفاع کے لیے حاصل ہے۔ شہری آبادی پر حملے کرنے کی دنیا کا کوئی قانون اجازت نہیں دیتا ہے لیکن اگر کوئی ملک ایسا کرتا ہے تو یہ بربریت، درندگی اور بدترین دہشت گردی ہے اسرائیل کی اس دہشت گردی کو دنیا کی واحد عالمی طاقت امریکہ کی تائید یہ ثابت کرتی ہے کہ امریکہ خود دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے جس نے ’’9/11‘‘ کا ڈرامہ کرکے اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کی اور اپنی دہشت گردی سے اپنے ہی عوام کو ہلاک کیا اور اپنی ہی دہشت گردی کا الزام افغانستان پر دھردیا اور عراق کے صدر مرحوم صدام حسین کو دہشت گرد بناکر اپنی دہشت گردی سے عراق کو پہلے تباہ کیا پھر فیصلہ کیا اب وہاں کٹھ پتلی حکومت قائم کی پاکستان کے ساتھ یہ عمل سست رفتاری سے ہورہا ہے لیکن اقتدار پر امریکہ کے غلاموں کا قبضہ ہے۔ ہندوستان کی حکومت بھی امریکہ کی تابعدار ہی ہے۔ اتنے بڑے دہشت گرد کا مشیر خصوصی و معاون اسرائیل دنیا کا نمبر دو دہشت گرد ہے۔ 
 
امریکہ کو مشرق وسطیٰ اور اڑوس پڑوس میں نہ صرف قدم جمانے بلکہ وہاں دبدبہ و غلبہ پانے کا موقع عرب ممالک نے دیا۔ ایران (بہ زمانہ شاہ ایران)، اور ترکی (بہ زمانہ مصطفیٰ کمال کے شاگردوں کی حکومت) دونوں اس میں شامل ہیں۔ 
 
قیام اسرائیل کے بعد تمام عرب ممالک میں مصر ہی وہ ملک تھا جو اسرائیل کا وجود فوجی طاقت سے مٹانا چاہتا تھا۔ جس کی افواج اسرائیل کے اندر تل ابیب تک یا اس سے قریب گھس گئی تھیں جلد ہی شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جمال عبدالناصر بظاہرمخالف امریکہ لیکن دراصل امریکہ کے مدد گار نے 1967ء میں جنگ کے بہانے اسرائیل کو ’’بہت کچھ ‘‘دیا۔ نیم دہرئیے بعث پارٹی کے حکمرانوں نے شام کی گولان پہاڑیوں اور سب سے بڑھ کر عرب بیت المقدس کی تک حفاظت نہ کرسکے 45 سال سے بیت المقدس پر صیہونیوں و یہودیوں کا قبضہ ہے۔ عالم اسلام غم گین ہے لیکن عمل سے عاری ہے کیونکہ جہاد ’’شجر ممنوعہ ‘‘ہی نہیں بلکہ دہشت گردی قرار دی گئی ہے ۔ فلسطین اور فلسطین کے باشندوں کے سوا سب مزے میں ہیں۔ جدہ میں 1977ء میں ہمیں ایک اچھی انگریزی بولنے والا فلسطینی ملا تھا۔ ہم ہر فلسطینی کو خواہ وہ فلسطین سے باہر ہو مجاہد ہی کہتے تھے جب ہم نے اسے مجاہد کہا تھا تو اس نے جو جواب دیا وہ قابل غور ہے  اس نے کہا کہ ’’مجھ کو مجاہد نہ کہو میں تو صرف ’’ابن فلوس ‘‘(زر) ہوں۔ یہاں آمدنی زیادہ ہے لیکن اسلام کی پابندی ہے۔ موقع ملا تو امریکہ جائوں گا وہاں زندگی آزاد ہے‘‘۔ نیز اس نے کہا کہ ایسا کہنے والا میں اکیلا نہیں ہوں ان سب کا جو فلسطین سے دور ہیں یہی خیال ہے۔ اصلی مجاہد اسلام تو فلسطین میں رہ کر جہاد میں مصروف ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین میں ہمارا رہنا عذاب کردیا ہے وہ چاہتا ہے ہم وہاں سے چلے جائیں۔ اسی لیے اسرائیل کے دوست ممالک ہم کو اپنے ملک میں رہنے دیتے ہیں تاکہ فلسطین فلسطینیوں سے خالی ہوجائے۔ 1977ء میں سنی ہوئی بات پر آج بھی عمل ہورہا ہے۔ فلسطین کو اسرائیل کے پنجہ سے آزاد کرانے کے لیے اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ممالک کا رول قابل مذمت رہا ہے۔ شاہ ایران اور ترکی نے سب سے پہلے اسرائیل کو اس کے ناجائز قیام کے بعد ہی تسلیم کرلیا تھا۔ عرب ممالک نے فلسطینیوں کو صڑف پیسہ دیا پناہ گزین بن کر آنے والوں کو اپنے یہاں رہنے دیا جنگ عظیم روم کے خاتمے کے بعد عرب ممالک نے خود پر امریکہ کو اس حدتک طاری کرلیا ہے کہ امریکہ ان کی اور ان کے خاندان کی حکمرانی ختم کرواسکتا ہے۔ سب کو اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے امریکہ کی تابعداری کرنا ہے۔ اس لیے ان حکمرانوں نے اپنے عوام کو خوش رکھنے لیے فلسطینیوں کی مالی مدد کی، اسرائیل کے خلاف بیان بازی کی اور پابندی سے امریکہ اور اقوام متحدہ سے اپیلیں کیں کسی نے اسرائیل کے خؒاف فوجی طاقت کا استعمال تو دور کی بات ہے امریکہ یا اسرائیل کے حمایتی ممالک پر کسی قسم کا دبائو تک ڈالنا گوارہ نہیں کیا۔ شاہ فیصل شہید نے بے شک حمیت و جرأت کا مظاہر کیا تھا تو ان کو شہید کردیا گیا۔ 1974ء میں مصر کے انور سادات نے اسرائیل کے خلاف فوجی کامیابی حاصل کی تھی تو ان پر دبائو ڈال کر اسرائیل کا دوست بنادیا گیا اور حسنی مبارک جیسے بے حمیت اور بددیانت بندے کو مبصر کا صدر بنایا  گیا تھا جس نے مصر جیسے طاقت ور اور تمام عرب ممالک میں سب سے ترقی یافتہ ملک کو (جو اسرائیل کا سب سے بڑا حریف ثابت ہوسکتا تھا) اسرائیل کا دوست ہی نہیں بلکہ تقریباً تابعدار بنادیا تھا۔ امریکہ نے ہی صدام حسین سے پہلے ایران کے خلاف جنگ کروائی اور کویت پر قبضہ کروایا اور ایران کے علاوہ عرب ممالک کی فوجی قوت کمزور کردی مالی اور دیگر وسائل ضائع کئے۔ عرب ملکوں پر اپنا غلبہ نہیں بلکہ مکمل کنٹرول قائم کیا۔ اس طرح مسئلہ فلسطین کا حل، عربوں کے علاقوں خاص طور پر بیت المقدس کی واپسی کے مطالبے ٹھنڈے بستوں میں داخل ہوگئے۔ 
 
تحریک فلسطین کے قائد یاسرعرفات مرحوم ابھرے تو بڑی شان سے تھے لیکن پہلے وہ سوشلزم اور سیکولرازم کی بھول بھلیوں میں کھو گئے بعد ازیں جب امریکہ واحد عالمی طاقت رہ گیا تو یاسرعرفات مرحوم نے بھی امریکہ کے دبائو میں آکر اسرائیل سے معاہدہ کرلیا ’’فلسطینی اتھاریٹی‘‘ کے ’’کھلونے یا لالی پاپ‘‘ سے بہل کر بہت بڑی بازی ہار بیٹھے۔بہت بڑی بازی ہار بیٹھے۔
ہر فرعون کے لئے اللہ تعالیٰ ایک موسیٰ ؑ پیدا کرتا ہے اسی طرح اسرائیل کے مقابلے کے لیے حماس کا وجود ہے اور حماس ہی اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ہے (گوکہ حزب اللہ بھی ہے لیکن اس کا رول اور دائرہ کار محدود ہے)
 
ترکی میں اسلام پسندوں کی حکومت اپنے استحکام کے بعد اسرائیل کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آئی۔ حزب اللہ اور حماس کی بڑھتی قوت سے اور جوہری طاقت بننے کے منصوبوں سے دستبردار نہ ہونے کے معاملے میں ایران کی ثابت قدمی سے اسرائیل و امریکہ پریشان ہیں۔ عرب دنیا میں مصر میں اسرائیل کے سب سے بڑے دوست حسنی مبارک کی جگہ اخوان کے محمد مرسی کے آنے سے اسرائیل بوکھلا گیا ہے۔
امریکہ کے صدر کی حیثیت سے اوباما کے دوبارہ انتخاب سے پہلے  ماناجارہا تھا کہ اسرائیل کے لئے اوبامہ کے مقابلے میں رومنی زیادہ پسندیدہ تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اوباما ہوں یا کوئی اور سب ہی اسرائیل کے یکساں طور پر حمایتی رہنے پر مجبور ہیں چنانچہ دوبارہ انتخاب کے بعد اوبامہ اپنی پہلی آزمائش میں ہی ناکام رہے۔ امن کے نوبل پرائز سے سرفراز کئے گئے اوبامہ اسرائیل کی درندگی کو وہ اسرائیل کا ’’حق دفاع‘‘ کہہ کر اپنی اور اپنے ملک کی روایتی اسرائیل پرستی کا ہی مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اپنی کامیابی پر خوش ہونے والے اپنے ان کروڑوں مداحوں کو مایوس کیا جو اوبامہ سے خیر کی توقع رکھ کر بغلیں بجارہے تھے۔ اسرائیل کے اصل مقصد یعنی حما س کو تباہ کرنے اور غزہ پٹی پر قبضہ کرنے سے اوباما تنے ہی واقف ہیں جتنا کہ اسرائیل کے حکمران واقف ہیں۔ غزہ پر زمینی حملے کی اسرائیلی تیاری کے مقصد یعنی غزہ پٹی قبضہ کا منصوبہ بھی اوباما کے علم میں ہوگا پھر اگر اوباما کو مسلم دشمن یا رومنی ہی کی طرح اسرائیل پرست نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
 
اسرائیل دنیا بھر میں اپنے مخالفوں کو قتل کرتا رہتا ہے۔ ایران کے نیو کلیئر سائنسداں ماردئیے۔ دبئی میں حماس کے قائد کو مارڈالا گیا۔ کھلے سمندر میں غزہ کو امداد لے جانے والے جہاز پر حملہ کرکے ترکی کے سات نہتے کارکنوں کو مارڈالا گیایہ سب روا ہے۔ عالمی ضمیر کے کان پر جوں نہیں رینگتی ہے لیکن جب نئی دہلی میں اسرائیل سفارت خانے کی ایک کار کے قریب بم دھماکہ میں ایک اسرائیلی خاتون زخمی ہوئی ایران، حزب اللہ اور حماس پر الزام عائد کیا گیا اور اردوکے ایک ممتاز صحافی محمد احمد کاظمی صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان تمام واقعات پر دنیا خاموش رہی۔ اس پس منظر میں غزہ پر اسرائیل کی دہشت گردی و درندگی پر دنیا کی خاموشی باعث حیرت نہیں ہے۔ 
 
غزہ پر حملوں کی تفصیلات، اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور درندگی کی تفصیلات اخبارات میں آرہی ہیں حدتو یہ ہے کہ معصوم بچے بمباری سے شہید ہورہے ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہورہا ہے۔ اسرائیل انسانیت کو شرمندہ کررہا ہے۔ لیکن دنیا خاموش ہے۔
عرب حکمراں و قائدین صرف بیانات دے رہے ہیں جو دعوے تو کئے جارہے وہ عمل کئے جانے کی نیت سے خالی ہیں۔ صرف طیب ارگان، محمد مرسی اور احمد نژاد سے امیدیں وابستہ ہیں۔ حماس کے مجاہدین کا عزم و ہمت بے پناہ نظر آتا ہے۔
 
ہندوستان جو نہرو اور اندراگاندھی کے دور میں فلسطین کاز کا چمپئن رہا ہے وہ ہندوستان اسرائیل کی مذمت سے قاصر ہے اور ظالم و مظلوم کو یکساں رکھ کر راست مذاکرات کا مضحکہ خیز مشرہ دیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ترکی کا جائز مطالبہ ہے کہ اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیا جائے ترکی اور مصر نے فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش رہنے والوں کی بجاطور پر خدمت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی سے ملانے والے اسرائیل کی دہشت گردی پر خاموش کیوں ہیں؟ محمد مرسی (مصر) نے بھی غزہ پر زمینی حملے سے اسرائیل کو سنگین نتائج سے متنبہ کیا ہے۔ حالات دن بہ دن تشویش ناک ہورہے ہیں پتہ نہیں ان سطور کی اشاعت تک حالات کیا رخ کریں؟ مجاہدین فلسطین کے لیے عزہمت، جرأت و کامیابی کے لیے آئیں ہم سب رب الکریم سے دعا کریں۔ 
 
********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 684