donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Aziz Pur Saneha Koi Fasad Nahi Balke Muslim Basti Par Monazzam Hamla Tha


عزیر پور سانحہ کوئی فساد نہیں بلکہ مسلم بستی پر منظم حملہ تھا


  ۔ریاض عظیم آبادی

 

    بہار کے مظفرپور ضلع کے عزیر پور میں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا بلکہ بھاجپا کے’ دنگائی شاہ ‘کے بہار آمد سے پانچ روز قبل دیا گیا خیر مقدمی تحفہ اور جیتن رام مانجھی کو     ’چتاونی‘ کہ وہ دن کے اجالے میں بھی بہار کے کسی بھی علاقے میں قہر برپا کر سکتے ہیں!

    سریاتھانا علاقہ کے عزیر پورمیں کسی طرح کی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں تھی ،لیکن بھاجپائی ایکشن سے ایک روز قبل 17جنوری کوبھاجپا ممبر اسمبلی اشوک سنگھ کے دست راست بجرنگ دل کے لیڈررام پرویش کے حکم سے چکمہ مکھیا کے گھر پر اسکارپیو اور بلورو میں بھر کر100کے قریب افراد جمع کیے گئے،خفیہ مٹنگ ہوئی۔18جنوری کووصی احمد کے گھر سے دو سو گز کے فاصلے پر مبینہ اغوہ کیے گئے بھارتندو کی لاش برآمد ہوتی ہے اور 30-40 کے اندر ہی 4-5سو کی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے ہیں اوربہلواڑہ مکھیا کامیشور شکلا اور سابق مکھیا بیدناتھ سہنی کی قیادت میں عزیر پورکے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ معصوموں اور ضعیفوں کو قتل کیا گیا اور گھروں کواس طرح نذر آتش کیا گیاکہ غیر مسلم گھر محفوظ رہیں۔اس بھاجپائی خونی ایکشن کو پولس انتظامیہ کی خاموش حمایت حاصل تھی۔3 گھنٹوں تک خونی ایکشں جاری رہا اور پولس کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔مظفر کے سریا تھانہ نے مکمل طور حملہ آوروں کوقتل و غارتگری کی چھوٹ دے رکھی تھی۔اسے پولس اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت نہیں بلکہ حملہ آوروں کے ساتھ ملی بھگت کا نام دیا جائیگا۔

 دن کے اجالے میں حملہ

    یہ حملہ دن اجالے میں ہوا تھا۔ حملہ آوروں نے پہلے اسباب زیورزیورات لوٹے،پڑھنے والے بچوں کی کتابوں اور کاپیاں جلائیںاور گھروں میں آگ لگادی۔ 46گھروں کو جلا ڈالا۔وحشت و بربریت،ظلم و ستم اور قہر و جبرکاایک طرفہ وحشیانہ رقص تھا۔بے پناہی کے عالم میںبچے اورعورتیںاپنی جان بچانے کی جتن کر رہے تھے۔درندوں نے جب دیکھا کہ پولس دور رہنے کے وعدے پر قایم ہے تو دنگائی شاہ کے رضاکاروں نے 4مسلمانوں کو زندہ جلا ڈالا۔

    یہ معاملہ ایک نوجوان کے قتل کا تھا جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، کمل سہنی کا بیٹابھارتندولنگٹ سنگھ کالج کاانٹر کا ہونیہار طالب علم تھا اور ایک مسلم دوشیزہ کی محبت کا دیوانہ تھا۔وہ بچہ 9جنوری سے لا پتہ تھا۔ایف آئی آر درج کرایا گیا مگر پولس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔کمل سہنی اور وصی احمد کے گھرانے سے دوستانہ رشتہ تھا۔وصی احمد پر اغوہ کرنے کا الزام لگایا گیا؟کیا وصی احمد اور انکے بیٹے وکی نے بھارتندو کا قتل کرا دیا؟اس سوال کا جواب پولس کی تحقیق کے بعد ہی مل سکتا تھا!کیا وہ  اتنے احمق تھے کہ اپنے گھر سے قریب ہی اسے دفن کر دیا؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بھارتندو کی لاش ملتے ہی  نصف گھنٹے کی اندر ہی اتنی بڑی تعداد میں لوگ کہاں سے جمع  ہو گئے؟ یہیں سازش کا احساس ہوتا ہے۔ ممبر اسمبلی اشوک سنگھ اوربجرنگ دل کے لیڈر رام پرویش سہنی نے ملکر اس حملے کی تیاری ایک روز قبل ہی کر لی تھی؟کیا اس آئی ٹی اس سازش پر سے پردہ اٹھا پائے گی؟

  خوش آئند علان

    شائدبیگناہ مسلمانوں کا خون رنگ لائے گا۔کرپوری جینتی کے موقع پر سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اعلان کیا ہے کہ عزیر پور میں جن لوگوں کا جتنانقصان ہواہیحکومت فہرست بنا کر ان لوگوں کو سامان فراہم کرے گی،ہم فنا ہو جائیںگے لیکن بہارکے امن بھائی چارہ اور جمہوریت کو نہیں ختم ہونے دیںگے،کچھ لوگ بہار میں ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

    کرپوری جینتی کے نام بھاجپا کا ڈرامہ عجیب و غریب رہا۔ کرپوری کو اقتدار سے بیدخل کرنے والے بھاجپائیکرپوری جینتٰ منا رہے ہیں۔نتیش کمارنے پہلی بار جارحانہ اندازاختیار کرتے ہوئے کہا بھاجپا  سر کردہ لیڈروں کو ہائی جیک کرنے میں لگی ہے۔سامی وویکا نند اور سردار پٹیل کے بعد اب بہار کے ہیرو کرپوری ٹھاکر کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے انہو نے پوچھا کہ اگر عزیر پور میں سازش نہیں کی گئی تو قتل کی خبرملتے  ہیہزاروں گاڑیاں وہاں پر کیسے آگئیں؟ ایسا لگتا ہے عزیر پور سانحہ نے حکومت کو خبردار کردیا ہے؟

بے گناہوں کی بستی

    عزیر پور بستی پسماندہ برادری کی بستی ہے جس بستی کے زیادہ تر لوگ روزگار کے لیے شہر میں رہتے ہیں ۔اس بستی میں صرف ایک ہی انسان شیل دیوی تھیں جنہوں نے نصف درجن سے مسلم خاتون اور مسلمانوں کو اپنی جان پر کھیل کر ظالموں کے چنگل سے بچا لیا۔وہ لوگ کون تھے جنہوں نے پولس کو فائربرگیڈ کے عملے کو جائے واردات پر پہنچنے سے روکے رکھا؟متاثرین نے بتایا کہ بھارتندو کی لاش کی خبر ملتے ہی وہ سبھی کھیت کی طرف دوڑ پڑے۔ابھی وہ لاش کے ارد گرد ہی تھے کہ دو ہزار کا مجمع ہر طرح کے اسلحہ کے ساتھ بستی پر توٹ پڑے۔گاڑہوں اور ٹریکٹر کو جلانا شروع کیا ،مکانوں میں آگ لگانے لگے۔گھروں میں گھسکر نقدی،زیورات اور قیمتی سامان لوٹنے لگے۔اس درندگی اور لوٹ کے شکاربنے مرتضیٰ انصاری،غلام انصاری، قیوم انصاری،نجم الدین انصاری،شمشیر انصاری،ثناء  اللہ انصاری،نثار منصوری،عیسیٰ منصوری،شکور انصاری،حیدر انصاری،حنیف انصاری، اعجاز انصاری،منا،وحید میاں،شرف الدین،یلیاس،مشتاق،مقیم، کمال اور علاء الدین کے گھر شامل ہیں۔

    اس معاملے کا سب سے بدترین اور افسوس ناک مقام یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سے لیکر بڑے لیڈروں تک باہری حملہ آوروں کا راگ الاپنا شروع کردیا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بلاک سے لیکرضلع افسران سبھی مجرم ہیں۔تھانہ صرف 5کیلومیٹر کی دوری پر تھا،لیکن تھانہ افسران کے قدم آگے نہیں بڑھے۔حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے بید ناتھ سہنی کو گرفتارکیا گیا اور اسے رہا بھی کر دیا گیا۔ خانہ پری کے لیے 14افراد کو گرفتار کیا گیا جس میں ایک دو مسلمان بھی ہیں۔ پورے معالے کو فرقہ وارانہ بتایا جا رہا ہے جبکہ تباہی و بربادی کے شکار صرف مسلمان ہی ہوے ہیں۔حکومت کے فیصلے کے مطابق ایس پی اور ڈی ایم کا تبادلہ ابھی تک نہیں کیا گیا ہے،کیوں؟صرف تھانہ کے افسران پر ہی کاواروائی کیوں؟

سیاست کا سلسلہ

    حسب معمول سیاست کا سلسلہ شروع ہو چکاہے۔امارت شرعیہ،جماعت اسلامی ادارۃشرعیہ،جمعیۃ علمائ،سماج بچائو آندولن،تحریک اردو،سماجی انصاف فرنٹ، لالو پرشاد،نتیش کمار،بہار کے وزرائ،مختلف سیاسی جماعت کے رہنما اورکئی ممبر پارلیمنٹ عزیزپور کا دورہ کر چکے ہیں۔ایک ہی بات سہی ابھر کر آئی کہ اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات نہیں کرائی جا ئیگی۔2011کے 3جون کو فاربس گنج میں پولس نے بربریت  کاننگا ناچ کیا تھااور حکومت  نے بھاجپا لیڈر کو بچانے کے لیے عدالتی کمیشن بنا دیا،کسی متاثرین کو کوئی معاوضہ نہیں ملا،اسوقت کے ہوم کمشنر عامر سبحانی نے بھاجپا  لیڈر کو بچانے کے لیے مہمل جیسی رپورٹ دیدی۔ میں نے آرٹی آئی قانون کے رپورٹ کی کاپی طلب کی مگر آج تک نہیں دی گئی۔ کمیشن کے افسران اطمینان کے ساتھ سرکاری رقم ڈکارنے میں لگے ہیںاور ساڑھے تین سال میں جانچ مکمل نہیں کر سکے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایس آئی ٹی بھی اس ظلم و بربریت پر لیپا پوتی کر دیگا۔

    مسلمانوںکا المیہ ہے کہ انہیں ووٹ بینک سے زیادہ کبھی اہمیت دی ہی نہیں گئی۔اقلیتی امور کی مرکزی وزیر نجمہ ہیپت اللہ پٹنہ میں تھیں۔اخلاق احمد مجھے ’بدھی جیویوں‘ کی مٹنگ میں شریک ہونے کی دعوت دی تھی،مگر میں خود کو بدھی جیوی نہیں بلکہ ’بدھو جیوی‘ سمجھتا ہوں۔اگر بدھی جیوی ہوتا توضمیر فروشی اور ملت فروشی پر شرم محسوس نہیں کرتا۔ کیا نرند رمودی اور آر ایس ایس کے لیڈران نے ملت کے درد اورقومی جذبے سے ہمیںبے نیاز کردیاہے کہ ہم ایمان کی روشنی سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

 بے شرمی کی انتہا

    شاہ رخ خا ن اورعامر خان سے سنگھی لیڈروں نے ہندوبننے کا مطالبہ کیا ہے۔ آخربھاجپا اور آر ایس ایس کے لیڈران یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ سید شاہنواز حسین،عباس نقوی اورنجمہ ہیپپت اللہ اور بھاجپا میں شامل ہوئے مسلم لیڈرران گھر واپسی کرتے ہوئے ہندو بن جائیں! کم از کم نرندر مودی اپنے وزیروں کو ہندو بننے کی ہدایت تو دے ہی سکتے ہیں۔ دنگائی شاہ(امیت شاہ)لالو نتیش کی متوقع دوستی سے پریشان کیوں ہیں کہ کولکاتا میں بھی ان پر برستے رہے۔بہار میں بھاجپا کی بوکھلاہٹ کیا بہار کو دنگوں کی آگ میں جھلسا دیگی؟ بھاجپا کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے جنتا پریوار کیا کر رہا ہے؟ یا پھر آپس میں ہی لڑکر بھاجپا کو واک اوور دینے جا رہے ہیں؟بھاجپا اقتدار کے لیے کسی بھی حد تکجانے کے لیے تیار ہے۔پہلے سوشلسٹ لیدر وی پی سنگھ کو کرسی سے بے دخل کیا،بعد میںکرپوری سرکار کو گرایا اوراب بھاجپا کرپوری جینتی منانے کی نوٹنکی کررہی ہے۔

خطرے سے بے نیازی

    عزیر پور واقعہ کے صرف چھہ دن بعد شیر شاہ سوری کے شہر سہسرام میں 24جنوری کو پتنگ بازی کو فساد برپا ہو گیا اور اقلیتی فرقہ کے ایک درجن افراد زخمی ہو گئے۔کیا عزیر پور صرف ایک ٹریلر تھا؟ کیاایک طرف سیکولر پارٹیوں کے لیڈران بھاجپا کے رتھ کو بہار میں روکنے کی دہائی دے رہے ہیں دوسری طرف وہ آپس ہی ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔جنتا دل (یو)لیڈران  وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کو برداشت کرنے لے لیے تیار نہیں ہیںاور جیتن رام جی اپنی حماقتوں سے بیان بازی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک طرف نتیش اور لالو پرسادکے درمیان میل ملاپ کی بات چل رہی ہے تو جیتن رام جی نے متنازعہ دل بدلواورلالو کو دھوکا دینے والے سادھو یاووکے گھر جانا کیوں ضروری سمجھ لیا؟ لالو کو فریب دینے والے شیام رجک کو وزیر اعلیٰ بنانے کی ہوا کس نے دی؟جنتا دل (یو) میں پروکتا کو اسقدر اختیار کسنے دیا کہ وہ وزیر اعلیٰ کو نصیحت دینے لگے؟ راجد میںرگھوونش نارائن سنگھ اپنی بیان بازی سے باز نہیں آتے!اور وہ ودھیونش بابوبنتے جا رہے ہیں۔افسران وزیروں اور یہاں تک کی وزیر اعلیٰ کے حکم کوٹھینگا دکھانے سے باز نہیں آرہے ہیں۔جسکا انجام جنتادربار میں دیکھنے کو ملا اور ایک نو جوان نے وزیر اعلی ٰکے اوپرایک نوجوان نے جوتا پھینک دیا۔ آی اے ایس افسران سیاست کر رہے ہیں۔ریاستی وزیر افسران کی چاکری کر رہے ہیں۔ایک آفسرکلدیپ نرائن سنگھ پٹنہ کے منتخب نمائندوں کے خلاف مورچہ کھول کر بیٹھا ہے اور حکومت افسرشاہوں کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔

    بہار میں قبرستان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے،بھاجپا لیڈر مسلمانوں سے زبردستی بندے ماترم گانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ یہ طے کرنا دشوار ہے کہ جنتا دل(یو)اور راجد کا کون کون لیڈربھاجپا کے لیے فضا ہموار کر رہا ہے۔

    کانگریس لیڈر اپنی حماقتوں سے جھارکھنڈ میں اپنی قبر کھود چکے ہیںاور بہار میں بھی ایسا ہی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ عزیر پور اواقعہ میری نظر میں صرف ایک ٹریلر ہے۔اگر اس خطرے کا مقابلہ نہیں کیا گیا تو بہار کے ہر شہر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
    

Cell: 9431421821
Email: r.azimabadi@gmail.com


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 576