donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rukhsana Basheer
Title :
   Khwahishon Ke Qasbe

خواہشوں کے قصبے


رخسانہ بشیر


اشفاق احمد نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ ہمارے اور خواہش کے درمیان ایک عجیب طرح کا رشتہ ہے جِسے بابا بدھا یہ کہتا ہے کہ جب تک خواہش اندر سے نہیں نکلے گی (چاہے اچھی ہی کیوں نہ ہو) اس وقت تک دل بے چین رہے گا ۔ جب انسان خواہش کو ڈھیلا چھوڑ دے گا اورکہے گا کہ جو بھی راستہ ہے، جو بھی طے کیا گیا ہے میں اس کی طرف چلا جائوں گا، چاہے ایسی خواہش ہی کیوں نہ ہوکہ میں ایک اچھا رائٹر یا پینٹر بن جائوں یا میںایک اچھا ’’اچھا‘‘

بن جائوں۔ جب انسان خواہش کی شدت کو ڈھیلا چھوڑ کربغیر کوئی اعلان کئے، بغیر خط کشیدہ کئے یا لائن کھینچے چلتا جائے تو پھر آسانی ملے گی۔ آپ نے کبھی سوچا …کہ یہ خواہش ہے کیا؟ خواہشات کب زندگی کو کٹھن بنانے لگتی ہیں؟ خواہش کو ڈھیلا کیسے چھوڑا جاسکتا ہے؟؟؟ آئیے ان سوالوں کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔

صاحبو! جہاں دل ہے وہاں خواہش ہے، تمنا ہے، آرزو ہے، ارمان ہے۔
؎ہزاروں خواہشیں دل کے نہاں خوانوں میں ہوتی ہیں
یہ بے آباد قصبے بھی کہاں ویران رہتے ہیں

آپ ساری دنیا گھوم لیں، کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا جس کے دل کی بستی مختلف خواہشوں سے آباد نہ ہو۔ خواہشات انسان کو جینا سکھاتی ہیں، آگے بڑھنے کا ہُنر عطا کرتی ہیں، آنکھوں میں اُمید بن کر جگمگاتی ہیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ کے پُھول کھلاتی ہیں، چہرے سے عزم بن کر جھلکتی ہیں۔ دلوں کو جوڑنا سکھاتی ہیں لیکن یہی خواہشات اگرپوری نہ ہوں تو انسان کو اندر سے توڑ پھوڑ ڈالتی ہیں۔ اور اگر حد سے تجاوز کر جائیں تو زندگی کو بے سکون کر دیتی ہیں۔

؎خواہشات کئی طرح کی ہوتی ہیں
پوری ہو جانے والی خواہش
ناممکن خواہش۔ ’’جیسے انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘
یا ’’ کیسی خواہش ہے کہ مٹھی میں سمندر ہوتا ۔‘‘
ادھوری رہ جانے والی خواہش۔ مثلاً آپ پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے لیکن صرف ایم اے کرپائے۔

متبادل خواہش، آپ بنگلہ، مرسیڈیز خریدنا چاہتے ہیں لیکن بااسرِ مجبوری بڑنے منفی خواہش ۔ دوسروں کو گراکر آگے بڑھنے کی خواہش، دوسروں کو کسی نہ کسی صورت ضرر پہنچانے کی آرزو۔

مثبت خواہشیں۔یہ زندگی کاحسن ہیں، ان کا تعلق اپنی ذات سے بھی ہو سکتا ہے اور دوسروں کی ذات سے بھی۔ اپنی خواہشات کی بدولت انسان زندگی میں آگے بڑھتا، کامیابیاں سمیٹتا اوردوسروں کو نفع پہنچاتاہے۔

ہر انسان کی زندگی کی کوئی سب سے بڑی خواہش یا آرزو ہوتی ہے جو اسکی سوچ، ایمان کے درجے اور حالات و واقعات کے تحت ہوتی ہے۔ جیسے اعلیٰ تعلیم، بہترین ملاقات، اپنے اور بچوں کے بہترین مستقبل، آسائشات و تعیشاتِ زندگی کے حصول، خدمتِ خلق، خاتمہ باالایمان یا جنت میں جانے کی خواہش۔

میرے خیال میں اچھی خواہش کی انتہا اللہ کا ہمہ وقت دیدار ہے جیسا کہ حضرت معروف کرخیؒکوان کے وصال کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا کہ وہ مسلسل حق تعالیٰ کے دیدار میں مشغول ہیں کیونکہ وہ دنیا میں جو بھی نیک عمل کرتے تھے اس کے عوض رب تعالیٰ سے اس کا دیدار طلب کرتے تھے۔

شعور کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھتے ہی خواہشوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو آخری سانس تک ساتھ چلتا ہے۔ انسان زندگی کے سفر میں جوں جوں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ خواہشات کی بستی گنجان ہوتی جاتی ہے۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو فوراً اس کی جگہ دوسری خواہش لے لیتی ہے۔

انسان زندگی کا سفر آسان سے آسان تر اور بہتر سے بہترین تر بنانے کے لئے شب و روز محنت کرتا اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ ابتدا میں کم از کم اس کی بنیادی ضروریات زندگی کے سفرمیں جوں جوں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ خواہشات کی بستی گنجان ہوتی جاتی ہے۔ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو فوراً اس کی جگہ دوسری خواہش لے لیتی ہے۔

انسان زندگی کاسفر آسان سے آسان تر اور بہتر سے بہترین تربنانے کے لئے شب وروز محنت کرتا اوراپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ ابتداء میں وہ چاہتا ہے کہ کم ازکم اس کی بنیادی ضروریات ہی پوری ہو جائیں۔ جب اس کی یہ خواہش پوری ہو جاتی ہے تو وہ آسائشات اورپھر بتدریج تعیشات کے حصول کی خواہش دل میں پالنے لگتا ہے۔

کچھ لوگوں کی تمنائوں کا محور ساری زندگی ان کی اپنی ہی ذات رہتی ہے۔ ان کی ہر سوچ اور خواہش ’’مَیں‘‘ سے شروع ہو کر ’’مَیں‘‘پر ہی ختم ہوجاتی ہے یہ عموماً دنیا دار لوگ ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک اس زندگی سے آگے کسی اور زندگی کا تصور کم ہی پایا جاتا ہے۔

لیکن اسی معاشرے میں ایسے شاہ صاحب بھی ہیں جو ’’اپنی خواہشات، ؔآرزوئوں،آرام اورضروریات کو دوسروں کی خواہشات، آرزوئوں آرام اور ضروریات پرقربان کردیتے ہیں۔‘‘ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں میں آسانیاں بانٹنے کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ عمربھر اس خواہش کی تکمیل کے لئے مصروفِ عمل رھتے ہیں۔

جہاں خواہش ہو وہاں حسرت نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ زندگی میں سب کچھ مل تو نہیں جاتا۔ بہت سی خواہشات ادھوری اور نا تمام رہ جاتی ہیں۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ھے کہ ہزار کوشش کے باوجود خواہش کو حسرت بننے سے نہیں روکا جاسکتا۔ کچھ خواہشوں کے مقدر میں حسرت بننا ہی لکھا ہوتا ہے۔ انسان عمر بھر کسی شے کی جستجو کرتا ھے، منزل سے چند قدم کے فاصلے پر ہوتا ہے کہ اچانک حالات ایسے رخ اختیار کرتے ہیں کہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ والا محاورہ شدّو مد سے یاد آنے لگتا ہے۔

؎قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا

لیکن کچھ سر پھرے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو منزل کے قریب پہنچ کر کسی اور سمت کے راہی بننے کی خواہش کرتے ہیں تاکہ جستجو کا سفر جاری رہ سکے، منزل پالینے کا احساس اِنھیں سرشار کرنے کی بجائے یوں بے چین کرتا ہے کہ وہ بے اختیار کہہ اُٹھتے ہیں۔

؎اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
کسی بھی شے کی خواہش کرنا بُرا نہیں لیکن خواہشات کا حد سے بڑھ جانا بے سکونی اور بے چینی کو جنم دیتا ہے نا آسودہ خواہشیں کچو کے لگاتی اور نا اُمیدی میں مبتلا کرتی ہیں۔ ایسے میں انسان کو زندگی سے، حالات سے اور لوگوں سے گلہ رھنے لگتا ہے اور منفی سوچیں اس کے ذہین کو یوں جکڑ لیتی ہیں کہ

؎سب کوخوشیاں مل جاتی ہیں، میرا حصہ کھو جاتا ہے
آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ بن مانگے بہت کچھ ملا لیکن عجیب بات ہے کہ زندگی میں جب بھی کسی شے کی شدت سے آرزو کی وہ شے دور ہوتی چلی گئی…یہ بات سچ ہے کہ جب ہم خواہشوں کے پیچھے اندھا دھند بھاگتے ہیں تو خواہشیں ہم سے آگے بھاگنے لگتی ہیں۔ جس چیز کو حاصل کرنے کے لئے ہم بہت زور لگاتے ہیں وہ چیز ہمیں اپنے ہاتھوں سے نکلتی دکھائی دیتی ہے اور اکثر اوقات ہمیں نارسائی کادکھ سہنا پڑتا ہے۔

آپ نے کبھی غور کیا اس میںایک بہت بڑانکتہ پوشیدہ ہوتاہے۔جی ہاں ! ہم اپنی خواہشات کو ڈھیلا نہیں چھوڑتے…اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک ہوتی ہے رب کی چاہت اورایک ہے بندہ کی چاہت۔ جب انسان اپنی چاہت اور خواہش کے پیچھے بغیر کوئی سمجھوتہ کئے سرپٹ بھاگتا ہے، اسے رب تعالیٰ کے حوالے نہیں کرتا ، اپنے معاملات رب کو نہیں سونپتا۔

اپنی ہرکوشش اور خواہش کا نتیجہ اپنی مرضی کے مطابق دیکھنا چاہتاہے، رب تعالیٰ پر اس طرح بھروسا نہیں کرتاجس طرح کرنے کا حق ہے۔ بس اپنی چاہت اور آرزو کے گھوڑے کوبے لگام چھوڑ دیتا ہے تو پھر رب تعالیٰ اُسے خواہش کے اس سفر میں تھکا دیتا ہے اور بالآخرہوتا وہی ہے جورب کی چاہت ہوتی ہے۔

لیکن جب بندہ اپنی مرضی اورخواہش پررب کی مرضی اورخواہش کوترجیح دینے لگتا ہے، اپنی خواہشات کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو پھر اس کی وہ تمنائیں بھی پوری ہونے لگتی ہیں جو دل کے نہاں کونوں میںبُکل مارکر بیٹھی ہوتی ہیں اور ان خواہشوںکو بھی تکمیل کامثردہ مل جاتا ہے جو بے عنوان رہ جانے کے خوف سے کہیں ہمارے اندر سسک رہی ہوتی ہیں۔

؎اس خوف سے کہ میرا کہیں راز کُھل نہ جائے
میں دل کی کھڑکیوں کے پردے گرا کے رویا
خواہشات اوروسائل میں توازن نہ رہے توزندگی غیرمتوازن ہونے لگتی ہے۔خواہشات اور حاصل میں جتنازیادہGapہوگا انسان اسی قدر مضطرب اور ڈپریس رہنے لگے گا۔ اضطراب ہے کیا…؟ واصف علی واصف صاحب نے فرمایا تھاکہ’’حاصل اورخواہش کے درمیان فرق کا نا م اضطراب ہے۔ ‘‘اس اضطراب سے بچنے کا ایک ہی فارمولا ہے کہ خواہشوں کا دائرہ محدود کرکے حاصل اور خواہش کے درمیان فرق کوکم کر لیا جائے۔

کچھ لوگ جب یہ راز جان لیتے ہیں تو بہت سی خواہشات سے منہ موڑ کر خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ رب کی مرضی کواپنی مرضی بنالیتے ہیں، ضروریاتِ زندگی کو Barest Minimumپرلے آتے ہیں لیکن پھر ایک روز یوں ہوتا ہے کہ ان کی پرسکون زندگی کی جھیل میں کسی خواہش کا پتھراسی زور سے گرتااور شدت سے ہلچل مچاتا ہے کہ ان کا روُاں روُاں ’’ بہ نوکِ خارمی رقصم‘‘ کی گردان کرنے لگتا ہے۔

؎’’ اک پل کسی خواہش کی زیارت کو اٹھے تھے
اندر کے قلندر نے بڑی دیر نچایا
کچھ خواہشات اتنی زورآور ہوتی ھیں کہ انسان کو جتن کرنے کے باوجود ان کی قید سے آزاد نہیں ہوپاتا۔ حتیٰ کہ ان کی تکمیل کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرتا ہے اور اگر اس کے باوجود اس کی خواہشات نا آسودہ رہ جائیں توکبھی وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے تو کبھی جرم کے راستے پرچل نکلتاہے…خواہش کی شدت حد سے تجاوز کر جائے تو حرص بن جاتی ہے۔ اور حرص انسان کی شخصیت کوبدبودار اور بدصورت بنادیتی ہے۔

؎حرص و ہوا دے ہتھوں بندہ
اگے ای کِنا کوہجا اے
کل مَیںبیٹھا سوچ رئیا ساں
ہور وی کِنا کوہجا ہندا
کفن نوں جے کر بوہجا ہندا

خیر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر حل کیا ہے…؟ خواہشات کے ہوتے ہوئے حرص، حسرت، نارسائی،اضطراب اور بے سکونی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ اگر ذرا غور کریں تو اس کا جواب ہمیں خود اپنے اندر اور اپنے ہی گردوپیش کے مشاہدے سے مل جائے گا
1۔بابا بدھا کے مطابق ہم خواہشوں کو ڈھیلا چھوڑ دیں تو زندگی خوبصورت ہوتی چلی جائے گی۔
؎خواہشوں کو خوبصورت شکل دینے کے لئے
خواہشوں کی قید سے آزاد ہونا چاہیے

2۔ ہم خواہشات کومحدودکرلیں۔ بڑے بڑے خواب دیکھنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ چادر کے مطابق پائوں پھیلائیں اور حضرت علیؓ کا یہ فرمان یادرکھیں کہ ’’اگر خواہشات کو کم رکھو گے تو راحت پائو گے۔

3۔ خواہشات کو ساتھ رکھیں لیکن خود پر حاوی نہ ہونے دیں کیونکہ جب تک خواہشات ہماری غلام رہتی ہیں ہم آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن جب ہم انکے غلام ہوجاتے ہیں تو زندگی بے سکون ہونے لگتی ہے۔

4۔ ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوکر خواہشات نہ پالیں
؎اس دل کا بھی ہوتا ہے کبھی بچوں کا سا عالم
گرزہر بھی خوش رنگ ہو، پینے کو مچل جائے
ہمیشہ یاد رکھیں کہ کچھ خواہشات کا پورا نہ ہونا ہی ہمارے فائدہ میں ہوتاہے۔

5۔ مقصد، حیات کا تعین کرلیں اور خواہشات کی ترجیحات طے کرلیں۔ اگر انسان اللہ کو اپنی ترجیحِ اول بنالے تو خواہشات کا دائرہ خود بخود سکڑنا شروع ہوجاتاہے۔

6۔ خواہش اور حاصل میں فرق کم کرنے کے لئے بھرپور جدو جہد کریں اور پھر جو اور جتنا بھی حاصل ہو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں۔

7۔ اگر زندگی کی کوئی بہت بڑی آرزو کسی وجہ سے پوری نہ ہو سکی ہو اور زندگی میں ہیجان اور محرومی کے دکھ کو سوا کر رہی ہو تو کوشش کرکے چھوٹی چھوٹی ممکن خواہشیں کرنا سیکھیے۔ جب وہ جلدی جلدی پوری ہوتی نظر آئے گی تو ان کی خوشی تشنہ خواہش کا دکھ کم کردے گی۔

8۔ سادہ طرزِ حیات اپنائیں
؎بند کرکے خواہشوں کا ایک دروازہ میرؔ
ہم نے اپنی زندگی کو کتنا سادہ کرلیا
9۔ اگر دل کی بستی میں کوئی ایسی خواہش ڈیرہ لگالے جو وہاں سے نکلنے کو تیار ہی نہ ہو، کوئی دلیل ماننے پر آمادہ نہ ہو اور اس خواہش کے پورا ہوئے بغیر آپکو اپنا منظرِ حیات پت جھڑ میں لپٹا دکھائی دینے لگے، سانس رکتی محسوس ہونے لگے تو دو کام کیجیے گا۔ (A)

ناممکن خواہش کو کسی ممکن خواہش سے بدل کر اپنا دھیان ہٹا لیجیے۔(B)ایک لمحے کو ٹھہر کر زندگی کے عارضی پن کی حقیقت سمجھنے کے بعد خود کو سمجھائیے گا کہ مجھے اس خواہش کو پانے کی ضد نہیں کرنی۔ مجھے ہر خواہش کی لگام اللہ کے ہاتھ میں دینی ہے، اس یقین اور بھروسے کے ساتھ کہ اللہ سے بڑھ کر میرا خیرخواہ کوئی نہیں ہے اور وہ یقینا میرے لیے بہتر کرے گا۔ اور یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتا ہے صحیح کرتا ہے۔

10۔ یاد رکھیے خواہشات کو کم تو کیا جاسکتا ہے لیکن زندگی سے نکالا نہیں جاسکتا۔ خواہشوں کا بے آباد قصبہ کبھی ویران نہیں ہوتا۔ لیکن اس قصبے میں سکون سے رہتے کے لئے ضروری ہے کہ خواہشات کا قبلہ درست کرکے ان کو صیحح سمت میں Channelizeکر لیا جائے۔ کیونکہ خواہشات کا لامتناہی سلسلہ قبر میں جاکر ہی ختم ہوتا ہے جیسا کہ

پﷺ نے چودہ سو سال قبل فرمادیا تھاکہ ’’اگر ابنِ آدم کو دو وادیاں سونے اور چاندی کی مل جائیں تو وہ تیسری وادی کی خواہش کرے گا… بات یہ ہے کہ ابنِ آدم کا پیٹ صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 792