donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Babri Masjid Shahadat Ke 20 Baras


بابری مسجد:شہادت کے بیس برس  
 
کیا بابری مسجدکے گہنہ گاروں کو سزا مل پا ئے گی؟ 
 
صابررضا رہبر 
 
۶؍ دسمبر۱۹۹۲ء کاوہ دن کتنا منحوس رہا ہو گا جب حکومت کے سہارے دن کے اجالے میں ایک تاریخی مسجد کی حرمت کو پامال کیا گیا ، اس کے اونچے اونچے فلک بوس گنبد و مینار پر کلہاڑی اور ہتھوڑے چلائے گئے ۔ اس کے پاک ومقدس صحن میں رقص ابلیس کی بزم سجا ئی گئی ۔ یقیناوہ دن دنیائے انسانیت کے لئے کسی قیامت سے کم نہیںتھا ۔ بات صرف بابری مسجد کی شہادت کی ہی نہیں ہے بلکہ جو آگ ایودھیا میں بھڑکاگئی تھی اس کی لپیٹ میں پو را ملک آگیا تھا، ملک کے کونے کو نے میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑے اورقانون کے رکھوالوں کی آنکھوں کے سامنے مسلمانو ں کی نسل کشی کی گئی ۔ممبئی، میرٹھ ، سیتامڑھی ، فتح پور ، ریگا ، بھاگل پور اور مرآباد ، وغیر ہ کی دلخراش داستان کو سن کر آج بھی انسانیت کا کلیجہ کانپ اٹھتا ہے ۔
 
شہادت بابری مسجد پر کانگریس کبھی سنجیدہ نہیںرہی ،بابری مسجد کی شہادت کے بیس برس ہو گئے ۔ اس کی تفتیش کے لئے سابق وزیر اعظم نرسمہا رائو کے ذریعہ قائم کردہ جسٹس لبراہن کمیشن نے بھی ۴۸؍ بارتوسیع کے بعد اپنی رپورٹ جولائی ۲۰۰۹ میں حکومت کے سپرد کردی لیکن اتنی اہم اور ایسے نازک معاملہ کی رپورٹ کو وزیراعظم منموہن سنگھ کی غیر موجودگی میں پی چدمبرم نے اپنی غیرسنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں پیش کیا ۔اس بحث سے قطع نظر کہ اس رپورٹ میں جسٹس لبراہن نے جو کچھ کہاہے اس کی نوعیت انصاف ودیانت کے اعتبار سے کس طرح کی ہے ہم یہاں اس رپورٹ کے ذریعہ ٹھہرائے گئے ان ملزمین کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ایک سیکولرز م کے علمبردار ملک کی زمام سیاست اپنی ہاتھو ںمیں تھامے ہوئے تھے اور ہیں ۔
 
رپو رٹ میں جسٹس لبراہن نے بی جے پی ، شیوسینا اور وشو ہندو پریشد سمیت دیگر ہندوتواوادی انتہا پسند تنظیموں کے کل ۶۸؍ افراد کو شہادت بابری مسجد کا مجرم گردانا ہے جس میں بی جے پی کے معمر رہنما اٹل بہاری واجپئی ، لاکرشن اڈوانی ،ونے کٹیار ، اومابھارتی ، آرایس ایس کے سدرشن،وی ایچ پی کے پروین توگڑیا ،اشوک سنگھل ،شیوسینا کے بال ٹھاکرے، اترپردیش کے سابق وزیراعلی کلیان سنگھ اور کانگریس کے شنکر سنگھ واگھیلا کے علاوہ کئی کانگریسی ممبران کے نام بھی شامل ہیں ۔ جسٹس لبراہن نے اپنی سترہ سالہ طویل مدت کے اندر کروڑوں روپئے خرچ کرکے اس رپو رٹ میں جو کچھ عیاں کیاتھا اس میں کو ئی نئی بات نہیں تھی ۔یہ ساری چیزیں اوران ملزمین کے نام چہرے کے ساتھ کل بھی سورج کی طر ح عوام کے سامنے ظاہر تھے۔ رپو رٹ کی اہمیت کو اس لئے نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ ان ملزمین کے خلاف یہ ایک دستاویزی ثبوت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ رپورٹ پرایک نظرڈالنے کے بعد کسی بھی صاحب نظر کے لئے یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے کہ جسٹس لبراہن نے اس رپورٹ میں غیر جانب داری سے کام لیا ہے کیو ںکہ انہو ںنے جہاں بابری مسجدکی شہادت کے لئے اٹل بہاری  واجپئی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے وہیں اس وقت کے کانگریسی وزیراعظم آنجہانی نرسمہارائو کو اس سے بری قراردیا ہے حالاں کہ سچ بات یہی ہے کہ نرسمہا رائو سرکارہی اس کی اصل مجرم ہے۔کیوںکہ اگر بابری مسجد کو بچانا چاہتی تو ہرگزاس کے تقدس سے چھیڑچھاڑنہیں کیاجاسکتا تھا۔ لہذا قطعی طورپر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس میں نرسمہارائو سرکار کی منشا بھی شامل رہی ہے ، اس لئے بابری مسجد کی شہادت کے لئے جتنے ذمہ دار اٹل بہاری ہیں اس سے کہیں زیادہ قصوروار نرسمہا رائوہیں ۔ بابری مسجدکی شہادت کے بیس برس گزر گئے مگر آج بھی اس کے مسمار گنبد ومینار انصاف کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ اب جبکہ ایک دستاویزی شکل میں بابری مسجد کے گہنہ گاروں کے نام حکومت کے سامنے ہیں اور اس کے مجرمین اپنی اس گھنائو نی حرکت پر شرمسار ہو نے کے بجائے ببانگ دہل اس پر فخر کرتے نظرآرہے ہیں اورکھلے طورپر اعتراف جرم کررہے ہیںاب توچاہئے کہ یوپی اے حکومت لاجے شرمے ہی سہی انصاف کا بھرم رکھ لے تاکہ جمہو ریت کا چہرہ مزید داغ دار نہ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یوپی اے سرکار ایسا کرسکتی ہے ؟ اگر ہاں! تو سب سے پہلے چاہئے کہ یو پی اے چیئر پرسن محترمہ سونیا گاندھی اور وزیر اعظم منموہن سنگھ اپنے ان کانگریسی ممبران کو اپنی پارٹی سے برخاست کرکے ن کے خلاف کاروائی کرے جو بابری مسجد کی شہادت کے مجرم ہیں ؟اور اسی طرح بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کی نسل کشی کی منظم کارروائیوں کے مجرم ہیں مثلاًممبئی فسادات کی جسٹس سری کرشنارپورٹ میں جن کی حیوانیت کے دستاویزی ثبوت پیش کئے گئے ہیں۔ 
 
شہادت بابری مسجد کی تحقیق کیلئے لبراہن کمیشن کے قیام کی قطعی ضرورت نہیں تھی کیوںکہ ویڈیوفوٹیج کے ذریعہ ان کے چہرے آسانی سے پہچانے جاسکتے تھے اورمجرمین خود اپنے خلاف کھلے عام گواہی دے رہے تھے۔سیکڑوں بار ایل کے اڈوانی ،بال ٹھاکرے ،کلیان سنگھ ،اومابھارتی اوردیگرمجرموںنے شہادت بابری مسجد میں اپنی شمولیت کا نہ صرف اعتراف کیاہے بلکہ اس پر فخرومباہات کا اظہاربھی کیا ہے ۔اس کے بعدہی ثبوت کیلئے کسی کمیشن کے قیام کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
 
یوپی اے اوراین ڈی اے دونوںنے مشترکہ طورپر بابری مسجد کے معاملہ کو زلف گرہ گیرکی طرح الجھاکرسیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے گوناگوں تجربے کئے اوراب بھی کر رہے ہیںاوراس معاملے میںمسلمان کوئی منطقی نظریہ اپنانے کی بجائے بارباردھوکہ کھاتے رہے ۔سچ بات تویہی ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ مذہبی سے زیادہ قانون شکنی اورجمہوریت پر حملہ کا تھا لیکن مسلمانوں کی غیرضروری دل چسپی اورغیردوراندیشی نے اسے خالص مذہبی بنادیا۔ قانون سازیہ اورعدلیہ کا کام تھاکہ وہ جمہوریت کی عزت اورانصاف کی بالادستی کو کیسے قائم کرے لیکن اس پر دھیرے دھیرے مذہبی اورسیاسی رنگ غالب آگیا پھر معاملہ اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ عدالت کیلئے بھی کسی ایک حق میں فیصلہ کرنا ملک کوکشت وخون میں تبدیل کرنے جیساہے۔یہی وجہ ہے الہ آباد ہائی کورٹ کے سہ رکنی بینچ کے دوججوںنے اپنے فیصلہ میںاسے تین حصوںمیں منقسم کردیاتھا۔مسلمانوںکوچاہئے وہ بابری مسجد کے نام پر سیاسی آلہ کاربننے کی بجائے کوئی منطقی طریقہ کاراختیارکرے۔کیوںکہ بابری مسجدکی شہادت محض اینٹ گاڑھے سے بنائی گئی مذہبی عمارت کے انہدام کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک تہذیب کے مارنے اورمرجانے کی داستان ہے۔
 
یہ جانتے ہوئے کہ انصاف میں تاخیر اس کے قتل کے مترادف ہے بیس برس کا طویل عرصہ گزاردیاگیا ، دوسری طرف اس کی ملکیت اراضی کامعاملہ سپریم کورٹ میںزیر سماعت ہے اوراب دیکھنا  ہے کہ ہندستان کی سب سے بڑی عدالت انصاف وجمہوریت کی لاج کس طرح بچاتی ہے؟ انصاف کا خون کر نے والوں کو کب سزا ملے گی، اس تعلق سے توابھی کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا، عدالت کا آخری فیصلہ آنے تک شاید ایک ایک کر کے سارے مجرم پرلوک سدھار چکے ہوںگے۔ 
 
9470738111
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 577