donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Jinsi Tashaddud Ke Liye Qasurwar Kaun


جنسی تشدد کیلئے قصوروارکون ہے ؟

عصمت دری ایک سماجی مسئلہ ہے اوراس سے سماجی دائرے میں ہی حل کیاجاسکتا ہے

ہرمسئلہ کا حل مغربی تہذیب وثقافت اورمغربی قوانین میں ڈھونڈنے کے عادی  لوگوں کے لیے  وہائٹ ہاؤس کی یہ تازہ رپورٹ آئینہ دکھاتی ہے کہ امریکہ میں۲؍ کروڑ ۲۰؍ لاکھ خواتین ریپ کا شکار ہیں یعنی ریاستہائے متحدہ  میں ہر پانچویں عورت کی آبروریزی ہوتی ہے ۔ ریپ کی شکارتقریباً آدھی خواتین ۱۸؍سال سے کم عمر میں ہی جنسی حملہ کا شکار ہوتی ہیں ۔ہر پانچویں طالبہ کالج میں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے ۔ ۹۸؍ فیصد خواتین کے قریبی لوگ ہی ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں ۔ا س رپورٹ کا سب سے تشویشناک پہلویہ کہ امریکہ میں مردبھی محفوظ نہیں ہیں ، وہاں ۱۶؍ لاکھ مرد اپنی عصمت لٹا بیٹھے ہیں۔

 

صابررضارہبر


عورتوں کےخلاف جنسی تشدد کیلئے قصوروارکون ہے ؟مردوں کی بالادستی والا سماج یا پھرماڈرن تہذیب ؛جہاں خواتین کا نیم عریاں رہناترقی پسند ی کی علامت سمجھاجاتاہے۔یہ معاملہ ایک بارپھرموضوع بحث ہے اورمہاراشٹرخواتین کمیشن کی ایک رکن کے بیان پر ہنگامہ برپا ہے۔خواتین کے لیے کام کرنے والے حکومتی پینل کی رکن آشا مرجے نے کہا تھا کہ کسی حد تک خواتین خود عصمت دری کے واقعات کی ذمہ دار ہیں اور ان کے ملبوسات اور رویے کابھی اس میں اہم کردار ہے۔ان کاکہناہے کہ آبروریزی کے واقعات اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ خواتین نے کپڑے ٹھیک نہیں پہنے ہوتے ہیں، دوسرے یہ کہ اس طرح کے واقعات ان کے رویے اور ان کے غیر ضروری جگہوں پر جانے سے ہوتے ہیں۔دہلی اورممبئی کی واردات کومثال کے طورپرپیش کرتے ہوئے کہاکہ کیا  دامنی کو رات کو گیارے بجے اپنے دوست کے ساتھ فلم دیکھنے جانا چاہیے تھا؟ فیکٹری میں ہونے والی اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعہ کو دیکھیں، کیا متاثرہ کو شام کے چھ بجے ایک ویران جگہ پر جانا چاہیے تھا؟

آشامرجے کے بیان پرغوروفکرکئے بغیران کے خلاف ہنگامہ آرائی کا بازارگرم کردیاگیا ؛یہاں تک کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے کارکنان ، کانگریس پارٹی اوربی جے پی نے اس بیان کو ناقابل قبول قرار دیا ہےجبکہ کانگریس کی سینئر رکن ریتا گھوانا جوشی نےاپنا ردعمل کچھ اس طرح ظاہرکیا کہ یہ بیان بالکل ناقابل قبول ہے۔ خواتین کے کمیشن کی رکن کو اس قسم کے بیانات نہیں دینے چائیے۔ خواتین کو زیادہ بااختیار بنانے کی بات کرنی چاہیے نہ کہ ان کے لباس پر پابندیاں لگانی چاہیے۔ میں ریتا گھوانا جوشی سے پوچھنا چاہوںگاکہ آخرماضی کی بہ نسبت توآج خواتین زیادہ باختیارہیں ۔سماجیات ،تعلیم ،سیاست اورتعلیم ہرمیدان میں خواتین کی قابل ذکرترقی ہوئی ہے۔ اگرآپ کی بات تسلیم کرلی جائے توماضی کے مقابلے میں آج آبروریزی کی واردات میں کمی آنی چاہئے تھی ۔لیکن اعدادوشمارا س مفروضہ کوغلط ثابت کررہے ہیں آج ہندوستان میں ہر۲۲؍منٹ پر ایک خاتون کی آبروسے کھلواڑکیاجاتاہے۔

اس مسئلہ پرآرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کہاتھاکہ انڈیامیں ریپ کے واقعات ہوتے ہیں ہندوستان میں نہیں یعنی انڈیاسے مرادمغربیت کی نمائندگی کرنے والا سماج جب کہ ہندوستان سے مراد باحجاب اورشرم وحیاوالگ معاشرہ ہے۔اس طرح کے کئی اورنظریات بھی سامنے آئے تھے اوراس پرجم کر ہنگامہ ہوا تھا یہاں تک کہ خواتین کمیشن اورانسانی حقوق کی تنظیموںکی مخالفت کا سامنا بھی کرناپڑاتھا؛کچھ لوگوں نے اسے اپنی ذات رائے قراردے کر غیرضروری ہنگامہ آرائیوںکاحصہ بننے سے خودکودوررکھنے کی کوشش کی ۔ایسے افرادسےمیرا سوال ہے کہ حکومت نےان کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے سخت قانون وضع کردیا ہے تواب اس طرح کے واقعات میں کمی کیوں نہیں آرہی ہے۔دہلی کی دامنی کے بعدممبئی کی خاتون جرنلسٹ،راجستھان میں دربھنگہ کی بیٹی اورکولکاتہ میں سمستی پورکی بیٹی کاویساہی حشرنہیں ہوناچاہئےتھا۔کیا واقعی ہمارے سماج کی موجودہ روش خواتین کی ناموس وعفت کیلئے خطرناک ہے؟ یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ آج پوری دینا میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد،اجتماعی عصمت دری اورچھیڑخانی کی واردات میں ناقابل یقین اضافہ ہوتا جارہا ہے۔دہلی ،ممبئی ،راجستھان اورکولکاتہ میں ہوئی اجتماعی عصمت دری کی واردات کے بعد اس سلسلے میں لوگوںمیں بیداری ضرورآئی ہےتاہم اس کے سدباب کیلئے کوئی مستحکم پہل ہنوز ندارد ہے ۔صرف سخت قوانین کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتے ہیں ۔ اس نوعیت کے گناہ کے مرتکب افرادکی سزاکیلئے قوانین ہونے کے باجوداس پرروک لگ پانا مشکل کیوںکرہوتا جارہا ہے؛یہ پہلوزیادہ توجہ طلب ہے۔جب تک ہم کسی مسئلہ کاحل ڈھونڈنے سے قبل اس کے اسباب وعلل پر اپنی توجہ مرکوز کرکے سنجیدہ لائحہ عمل طے نہیں کریں گے اس وقت تک کسی بھی مسئلہ کا مثبت اوردیرپا حل نکل پاناغیریقینی ہے۔

دہلی کی واردات کے بعد ایک بارپھرخواتین کے خلاف جنسی تشددعوامی بحث کا موضوع بنا اوراس پر مختلف مکتب خیال کے لوگوں نے کھل کراپنی رائے کا اظہارکیا اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ،لیکن اس دوران جوسب سے تشویشناک پہلوسامنے آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں خصوصی طورپرلوگوں کے منجمدنظریے سامنے آئے اورآرہے ہیں۔ ہندستان کے ہرشخص کواپنی رائے قائم کرنے کا پورا اختیارہے لیکن کسی بھی رائے کوپتھرکی لکیرسمجھ لینا عقل مندی کی بات نہیں ہوسکتی ہے۔جب تک  ہمارے اندر دوسرےکی رائے کواہمیت دینے اوراپنے نظریات میں تبدیلی کا جذبہ پیدانہیں ہوگاتب تک کسی اجتماعی فکرکاسامنے آ ناغیرممکن ہے۔

دامنی معاملہ کے بعدلوگوں کولگا کہ سخت قانون ہی ا س کا حل ہوسکتا ہے لہٰذاحکومت نے بھی عصمت دری سمیت خواتین کے خلاف تشددکےدیگرمتعلقہ قوانین سخت کردیےیہاں تک کہ کسی خاتون کوگھورکردیکھنا بھی جرم کے زمرے میں شامل کردیاگیالیکن یہ واضح نہیں کیاگیا کہ یہ کیسے طے ہوگا کہ کسی نے کسی خاتون کوگھورکردیکھاہے؟ عدالت میں صرف متاثرہ خاتون کی ہی بات قابل یقین ہوتی ہے اوراس کےپیش نظراکثرفیصلے ہوتے ہیں ایسی صورت میں کوئی بھی خاتون کسی بھی مردکوآسانی کے ساتھ پریشان کرسکتی ہےاورایسے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔

ایشیائی ممالک میں احساس کمتری کی جڑیں اس قدرگہری ہوگئی ہیں کہ وہ اب اپنے ہرمسئلہ کا حل یورپین تہذیب وثقافت اور قوانین میں ڈھونڈنے کے عادی ہوگئے ہیں اوراس معاملے میں بھی یہ عام خیال سامنے آتا رہا ہےکہ امریکہ سمیت دیگریورپین ممالک میں عریانیت اورخواتین کی آزادی کے باوجودوہاں کی خواتین محفوظ ہیں حالاںکہ یہ تصور دورسےسراب دیکھ کر پانی کا یقین کرلینے کا جیسا تھا۔ اب تو وہائٹ ہائوس سے جاری ایک رپورٹ نے بھی اس کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔یہاں اس رپورٹ کی ہلکی تفصیل کا ذکرمغربیت زدہ فکرکوآئینہ دکھانے کیلئے ضروری ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں۲؍ کروڑ ۲۰؍ لاکھ خواتین ریپ کا شکار ہیں یعنی ہر پانچویں عورت کی آبروریزی ہوتی ہے ۔ ۲۲؍جنوری بروز بدھ کو جاری رپورٹ کے مطابق تقریبا آدھی ریپ کی شکار خواتین ۱۸؍سال سے کم عمر میں ہی جنسی حملہ کا شکار ہوتی ہیں ۔ہر پانچویں طالبہ کالج میں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے ۔رپورٹ کے مطابق ۱۸؍ سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے ریپ کرنے والے زیادہ تر ملزم نوجوان ہی ہوتے ہیں جبکہ۱۰؍ سال کی لڑکیوں سے ریپ کرنے والوں میں زیادہ تر ادھیڑ عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ۹۸؍ فیصد خواتین کے قریبی لوگ ہی ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں ۔آبروریزی کانشانہ بننے والوںمیں ۵ء۳۳؍ فیصد مختلف ذات ، طبقہ کی خواتین ریپ کا شکار ہوتی ہیں ، جن میں ۲۷؍ فیصد امریکی ۔بھارتی اور الاسکا کی خواتین شامل ہیں ۔۱۵؍ فیصد ہسپانوی، ۲۲؍ فیصد نیگرو ، ۱۹؍ فیصد یورپی خواتین کے ساتھ ریپ ہوتا ہے ۔ا س رپورٹ کا سب سے تشویشناک پہلویہ کہ امریکہ میں مردبھی محفوظ نہیں ہیں ، وہاں ۱۶؍ لاکھ مرد اپنی عصمت لٹا بیٹھے ہیں۔ایک کارروائی نام کی یہ رپورٹ کے بعد صدر براک اوباما نے طالبات کے جنسی استحصال کو روکنے کے لئے ایک ٹاسک فورس بنانے کی تجویز پر دستخط کئےہیں۔

عصمت دری ایک سماجی مسئلہ ہے اوراس سے سماجی دائرے میں ہی حل کیاجاسکتا ہے۔خواتین کےباحجاب ہونے اورمردوںمیں اعلیٰ ظرفی کے علاوہ خواتین کے تئیں مثبت بیداری لانے سے ہی اس کاحل نکل سکتا ہےانہیں باورکراناہوگاکہ زن کےو جودسے کائنات میں رنگ ہے۔مضبوط قوانین کے ساتھ ساتھ اس پرسختی سے عمل کرنا ہرحال میں اہم ہے،تبھی صالح معاشرہ کی تشکیل ممکن ہوسکتی ہے۔خواتین کے خلاف جنسی تشددکے مسائل سے نبردآزما سماج کیلئے اسلامی قانون ایک بہترمتبادل ثابت ہوسکتا ہے اوراس کا مطالبہ لوک سبھامیں بی جے پی سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن لیڈرسشماسوراج بھی کرچکی ہیں۔

sabirrahbar10@gmail.com

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 552