donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Bharat Aur Ekhlaqi Bohran

بھارت اور اخلاقی بحران


…شاہنواز فاروقی…


بھارت میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے پے درپے واقعات نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھارت کا دارالحکومت دہلی بدنام تھا مگر اب دہلی اور ممبئی میں کوئی فرق نہیں رہا ہے۔ لیکن ہماری دنیا عجیب دنیا ہے۔ اس دنیا میں سیاسی بحران رونما ہوتا ہے تو بحران کی بنیادوں کو تلاش کیا جاتا ہے۔ معاشی بحران پیدا ہوتا ہے تو اس کی جڑوں پر توجہ کی جاتی ہے۔ لیکن اخلاقی بحران ظاہر ہوتا ہے تو دنیا کے اکثر معاشرے لیپا پوتی سے کام چلاتے ہیں۔ بھارت میں بھی یہی ہورہا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ زیادتی کے واقعات حکومت اور پولیس کی ناکامی ہیں۔ بھارت کے بڑے شہروں میں پولیس کی نفری میں اضافے کی ضرورت ہے۔ کسی کا اصرار ہے کہ سارامسئلہ نرم قوانین کا ہے۔ چنانچہ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہیے۔ بعض حلقے خیال کررہے ہیں کہ اصل مسئلہ خواتین کے لباس اور وضع قطع کا ہے۔ خواتین اگر مناسب لباس زیب تن کر کے گھروں سے نکلیں تو ان کے ساتھ ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے۔ یہ پہلو اہم ہیں مگر ہندوستان کے اخلاقی بحران کی بنیاد نہیں ہیں۔


ہندوستان کے اخلاقی بحران کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ہندو ازم ہندوئوں کی زندگی سے خارج ہوچکا ہے۔ ان کی تاریخ ان کے لیے میوزیم کی چیز بن چکی ہے اور ہندوستان میں عورت کا ایک ایسا تصور یا Image عام ہوگیا ہے جس کے دائرے میں عورت ایک حقیر جنسی حقیقت یا Sex Symbol کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہندو ازم کو دیکھا جائے تو اس کے دائرے میں دیوتائوں ہی کی نہیں دیویوں کی بھی پوجا کی جاتی ہے۔ ہندو ازم میں یہ صورت حال ایک بہت بڑے انحراف کا نتیجہ ہے۔ ہندوازم نے خدا کی صفات کو اس کی ذات سے الگ کر کے صفات کو مجسم کرلیا اور خدا کی صفات میں موجود تذکیر اور تانیث کے تصورات کو مرد اور عورت کی صورت دے دی۔ یعنی ہندوازم میں دیویوں کا وجود خدا کی ان صفات کو مجسم کرنے کا نتیجہ ہے جو تانیث کے دائرے میں آتی ہیں۔ چنانچہ ہندوازم میں لکشمی ہیں۔ سرسوتی ہیں۔ درگا یا کالی ماتا ہیں اور ہندو ان سب کو پوجتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندو ازم میں عورت کو اتنی تقدیس حاصل ہے کہ غلط سہی اس کے پوجا کی جاتی ہے۔ لیکن دیویوں کے اس تصور کا ہندو سماج میں موجود عورت کے تصور سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ ہندوستان میں عورت کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہوتی ہے تو کوئی ہندو ہندو سماج کو یہ یاد نہیں دلاتا ہے کہ تم اس ہستی کی تذلیل کررہے ہو جس کے ایک روپ کو تم دیویوں کی صورت میں پوجتے ہو۔ ہندوازم کی تاریخ میں عورتوں کے کئی بڑے کردار موجود ہیں مثلاً سیتا کا کردار جس نے اپنے شوہر رام کے ساتھ چودہ سال تک جنگلوں میں رہنے کی قربانی دی۔ اسے راون نے اغواء کیا اور وہ راون کی طویل قید سے پاک دامن لوٹی۔ اسی طرح ہندوئوں کی تاریخ میں ساوتری کی کا کردار ہے جس نے اپنے شوہر کی موت کو قبول نہ کیا اور موت کے فرشتے سے کہا کہ تم میرے شوہر کی روح قبض کر کے لے جارہے ہو تو میری روح بھی قبض کرلو کیونکہ میں اس دنیا میں اپنے شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ساوتری کی شوہر پرستی سے موت کا فرشتہ اتنا متاثر ہوتا ہے کہ وہ اس کے شوہر کی روح کو اس کے جسم میں واپس لوٹا دیتا ہے اور ساوتری کا شوہر زندہ ہوجاتا ہے۔ مگر ہندو معاشرے میں سیتا اور ساوتری کے کردار قصے کہانیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اور ہندو سماج پر ان کرداروں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ہندو سماج میں ماں کا تصور اتنا اہم ہے کہ وہ زمین کو ماں کہتے ہیں گنگا کو ماں قرار دیتے ہیں مگر ہندو معاشرے میں عورت نہ اب ماں کی حیثیت سے اہم ہے نہ بیوی کی حیثیت سے نہ بیٹی کی حیثیت سے۔ ہندوئوں کی تاریخ عورت سے مرد کی اخلاقیات کے واقعات بھی بہت ہیں۔ رام جب چودہ سال تک مجبوراً جنگلوں کی زندگی بسر کررہے تھے تو ایک مرحلے پر راون کی بہن سُپن لکھا ایک خوبصورت عورت کی صورت میں رام کے پاس آتی ہے اور اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر رام اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ سیتا کو راون اغوا کرلیتا ہے تو رام اپنے چھوٹے بھائی لکشمن سے کہتے ہیں کہ تم اپنی بھابی کی تلاش میں میری مدد کرو۔ یہ بات سن کر لکشمن کہتا ہے کہ میں نے آج تک صرف بھابی کے پائوں دیکھے ہیں ان کا چہرہ نہیں دیکھا آپ ذرا مجھے بنائیں کہ وہ دیکھنے میں کیسی ہیں تاکہ میں انہیں کہیں دیکھوں تو پہچان لوں۔ سیتا سے لکشمن کا یہ تعلق اس صورت میں تھا کہ وہ برسوں سے جنگل میں رام اور سیتا کے ساتھ رہ رہا تھا۔ ہندو معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ رام رام تو بہت کرتا ہے یہاں تک کہ رام کے نام پر اجودھیا میں ایک مسجد شہید کر کے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیتا ہے مگر وہ رام اور لکشمن کے کرداروں سے کچھ بھی سیکھنے پر آمادہ نہیں۔ اس کے لیے رام لکشمن اور سیتا قصہ کہانیاں ہیں البتہ ہندو سماج جس راون سے نفرت کرتا ہے ہندو معاشرے پر سب سے زیادہ اس کا اثر نظر آرہا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندو سماج میں کروڑوں ایسے لوگ ہیں جو راون سے ہزار گنا بدتر ہیں۔ اس لیے کہ راون نے سیتا کو اغواء ضرور کیا تھا مگر ہندوستان کے لاکھوں راون سیتائوں کو صرف اغواء نہیں کررہے وہ ان کی عصمتیں بھی تار تار کررہے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندو سماج کی زبان پر رام اور دل پر راون کا قبضہ ہے مگر ہندو سماج کو اس حقیقت کا نہ ادارک ہے نہ اس کا عتراف ہے اور نہ اس کے لیے اس کا مذہب اور اس کی تاریخ کا کوئی مفہوم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی قوم کا مذہب اور اس کی تاریخ مرچکی ہے یا یہ چیزیں صرف مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں پر ظلم کے لیے وقف ہوگئی ہیں تو محض چند قوانین بنانے اور پولیس کی نفری میں اضافے سے عورتوں کی عزتوں کی حفاظت کیسے کی جاسکے گی۔


لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں اس وقت عورتوں کے ساتھ جوکچھ ہورہا ہے وہ بھارتی فلم انڈسٹری کا کیا دھرا ہے لیکن یہ بات کہنے والے فلم انڈسٹری کی پوری تاریخ پر نظر نہیں ڈالتے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری کی سب سے بڑی رومانوی فلم بمل رائے اور دلیپ کمار کی ’’دیوداس‘‘ ہے۔ لیکن اس فلم میں احتیاط کا یہ عالم ہے کہ پوری فلم میں ہیرو نے ہیروئن کو چھوا بھی نہیں بلکہ ٹھیک سے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ مدر ا نڈیا بھارت کی دس بڑی کمرشل فلموں میں سے ایک ہے اور اس فلم کا مرکزی کردار نرگس ایک لڑکی کی عزت کو بچانے کے لیے اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے گولی مار دیتی ہے۔ یہی ہندوستان کی اصل عورت ہے مگر خود بھارت کی فلم انڈسٹری نے اس عورت کو فراموش کر کے ایک ایسی عورت ایجاد کرلی ہے جس کا نہ کوئی مذہب ہے نہ تاریخ ہے نہ تہذیب ہے۔ نہ اس کے لیے پاس روح ہے نہ دل ہے نہ دماغ ہے اس کے پاس اگر کچھ ہے تو صرف جسم اور اس جسم پر بھارت کی فلم انڈسٹری نے کہیں ’’برائے فروخت‘‘ کا بورڈ لگایا ہوا ہے اور کہیں ’’برائے نمائش‘‘ کا۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے چالیس پچاس کروڑ بزرگوں اور جوانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ بھارت جب تک عورت کے اس Image سے جان نہیں چھڑائے گا بھارت میں عورتوں کی تکریم بحال نہیں ہوسکے گی۔ لیکن کیا بھارت عورت کے اس Image سے جان چھڑا سکتا ہے؟ کیا ہندو سماج کے لیے اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے زندہ تعلق پیدا کرنا ممکن ہے؟ ان سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ اس لیے کہ ہندو سماج حقیقی مذہبیت اور اپنی تاریخ سے اتنی دور آگیا ہے کہ واپسی کے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔ اب حقیقی مذہبیت تاریخ اور اخلاقیات کی دریافت کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اسلام۔ خود مسلم معاشروں کی اخلاقی حالت بہت اچھی نہیں لیکن مسلم معاشروں میں عورت کا مجموعی تصور ہندو معاشرے سے ہزار گنا بہتر ہے۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 647