donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Fatma
Title :
   Jurm Se Kotahi Tak

جرم سے کوتاہی تک…!
 
شمیم فاطمہ
 
ہمارے معاشرے میں چوری اور سینہ زوری کا چلن عام ہوتا جارہا ہے… اب کوئی برائی برائی ہی نہیں سمجھی جاتی ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ فلمی ستارے خود کو بدنام اس لیے کرتے ہیں کہ لوگوں میں ان کا چرچا ہو اور لوگ ان کے نام سے واقف ہوجائیں۔ اس کے بعد شہرت کے حصول کے لیے سب نے یہ فارمولا اختیار کرلیا کہ کچھ کاربد ایسے کیے جائیں کہ میڈیا پر ان کی تشہیر اور عوام میں ان کا چرچا عام ہوجائے اور وہ کندھے اُچکا کر کہیں کہ… ’’بدنامی تو اچھی ہوتی ہے!‘‘ اب کارخیر سے شہرت پانا صرف اہل جنوں کا کام رہ گیا ہے… کیونکہ کارخیر کا کوئی چرچا نہیں ہوتا… میڈیا پر اس کی کوریج نہیں ہوتی… خلق خدا کی آنکھوں کے سامنے بار بار کارخیر کی سلائیڈ نہیں چلتی… محفلوں، مجالس میں، کامن رومز میں، کوچنگ سینٹرز، گلیوں، چوباروں، گھروں اور دوکانوں، ایوانوں اور بیٹھکوں میں ایف۔ ایم اور اخباروں میں 
اس کارخیر کی دُھومیں ہیں مچتیں… اور یہ کارخیر… خیر کرنے والے کو نہ ملک گیر شہرت عطا کرتا ہے نہ بین الاقوامی شہرت بخش ہے… ان کو نہ کوئی سپورٹ کرتا ہے نہ اسپانسر …! چنانچہ ان کی بڑھوتی ہوتی ہے نہ آبیاری… اور برائی کو پھلنے پھولنے، بڑھنے اور پنپنے کا موقع ملتا رہتا ہے… راہِ مستقیم پر چلنے والا بھی سوچتا ہے کہ تھوڑا اِدھر اُدھر ہوجائے تو کم از کم آمدنی میں کچھ اضافہ ہی ہوجائے… خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا جاتا ہے… یک رنگی آتی جاتی ہے… ہم آہنگی بڑھتی جاتی ہے… سب اس دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں… جس زمانے میں شرافت اور نجابت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس زمانے میں چوری کرنا بھی عیب سمجھا جاتا تھا… چوربیچار رات کے اندھیروں میں چوروں کی طرح گھر میں داخل ہوتا اور چھپتے چھپاتے بچتے بچاتے دو چار چیزیں اٹھانے میں بہ مشکل کامیاب ہوپاتا تھا۔ اس پر ہی تھانے میں رپٹ درج کروادی جاتی تھی اور چور مسروقہ سامان کے ساتھ گرفتار کرلیا جاتا تھا… پھر تو اس کی وہ درگت بنتی تھی کہ وہ چوری سے توبہ کرلیتا اور محض ہیرا پھیری پر زندگی کے بقیہ ایام گزارتا… (اب نہ چور گرفتار ہوتا ہے نہ مسروقہ سامان برآمد ہوتا ہے… آپ خود کو یہ کہہ کرتسلی دے دیتے ہیں کہ جانے والی چیز کا غم کیا کریں…!) نہ چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں نہ چوری کرنے والوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے۔
 
چوری اگر غریب غربا، چھوٹے موٹے لوگ، چوکیدار، خانسا ماں، مالی، گھریلو ملازم، مزدور، قلی وغیرہ کرے تو یہ برُی بات یا براعمل سمجھا جاتا ہے ان کی اوقات پر تف بھیجی جاتی ہے ان کی ذات کو ناقابل اعتبار کہا جاتا ہے… مگر چوری اگر صاحب کا بیٹا کرے تو… مقدمہ درج نہیں کیا جاتا… کردیا جائے تو… لٹکا دیا جاتا ہے… تفتیش کارروائی مکمل نہیں کی جاتی… فیصلہ اس کے حق میں سنا دیا جاتا ہے… انصاف اور قانون کا منہ کالا اور مجرم کا بول بالا ہو جاتا ہے… ہر چند کہ ہم سے پہلے کی قومیں اسی لیے تباہ ہوتی رہیں کہ غریب کو سزا ملتی تھی اور امیر مجرم سزا سے مستثنیٰ قرار دے دیا جاتا تھا… آپ کسی تگڑی پارٹی کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہیں تو آپ اچھی طرح جان لیتے ہیں کہ فیصلہ کبھی آپ کے حق میں نہیں کیا جائے گا۔ مجرم پر کبھی فرد جرم عائد نہیں کی جائے گی… دودھ کا دودھ پانی کا پانی کبھی نہیں ہوسکے گا… آپ ایسا سوچنے میں حق بہ جانب ہیں… کیونکہ ہمارے اردگرد ایسا ہی ہوتا ہے… اثرورسوخ والے افراد جرم کر کے مطمئن رہتے ہیں… امتحان گاہوں میں جہاں عام طلباء گردن موڑ نے بھی مجاز نہیں… بغیر پنکھے اور بغیر بجلی کے کلاس رومز میں پسینے میں شرابور امتحانی پرچہ حل کر رہے ہوتے ہیں وہیں ایک ’’کمرہ خاص‘‘ میں ’’عوام الخاص‘‘ کی اولادیں مسلح افراد کے جلو ہیں، پنکھے بجلی کی سہولت میں کھلے عام نقل کررہے ہوتی ہیں… یہ دیکھ کر آپ کا خون کھولے یا اُبلے… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا… تعلیمی بورڈ کے چیئرمین یہ بیان دے رہے ہوتے ہیں کہ ’’ہم نے امتحانی مراکز سے ’’نقل کا کلچر‘‘ ختم کردیا ہے!‘‘ (کرلوجو کرنا ہے…) کسی جرم پر سزا نہ دینا بجائے خود ایک جرم ہے… کیونکہ اس طرح آپ جُرم اور مجرم دونوں کی پشت پناہی کررہے ہوتے ہیں۔
 
بعض معاملات میں ہماری مرضی نہیں چلتی قانون کی چلتی ہے… اور قانون… اکثر مقدمات میں بے بس دکھائی دیتا ہے… اس لیے معاشرے میں چوری اور سینہ زوری کا کلچر فروغ پارہا ہے۔ مجرموں کا تعلق اگر بااثر خاندان سے ہو تو قانون کو بھی پسینہ آجاتا ہے… عدالتی نظام کچھوے کی چال چلتے ہوئے مقدمے کو طول دیتا رہتا ہے کہ مدعی مست پڑ جائے… کچھ لے دے کر مُک مکا ہوجائے… آخر دولت 
سے ہر چیز خریدی جاسکتی ہے تو قانون کو کیوں نہیں خریدا جاسکتا؟ قانون مجرم سے تعاون پر مجبور ہو جاتا ہے اور مدعی مقدمے سے دستبرداری پر… چنانچہ پرامن معاشرے کا قیام ایک خواب بن جاتا ہے… شاہ زیب قتل کیس کا مقدمہ بالآخر شاہ رخ جتوئی کے خلاف سنا دیا گیا… ہر چند کہ چھ ماہ کی تاخیر سے سنایا گیا مگر مقام شکر ہے کہ سنایا تو گیا… لیکن! جب تک اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوجاتا بے یقینی کی فضا برقرار رہے گی… ایسا سفاک نوجوان قاتل! کہ جو انسان کا قتل کرکے بھی نادم اور شرمسار نہ ہو، سزائے موت سن کر بھی ہنسنے مسکرانے سے باز نہ آئے! بلکہ وکٹری کا نشان دکھا کر عوام الناس کو یہ باور کروانے کی کوشش کرے کہ فیصلے پر نہ جائو… آخری فتح جرم کی ہی ہوگی! قانون ہمارا کیا بگاڑے گا!
شاہ زیب قتل کیس محض قتل کا کیس نہیں… والدین کے لیے لمحہ فکر ہے… اولاد کی تربیت میں جس کوتا ہی سے کام لیا جارہا ہے وہ کسی طرح بھی معاشرے کے لیے سود مند ہے نہ مناسب… اولاد کی ہر خواہش کا احترام کرنا کچھ والدین کی مجبوری ہے تو کچھ والدین کی دلی تمنا… جس طرح والدین کے آگے ’’اُف!‘‘ کرنے کی ممانعت ہے اسی طرح اولاد کے آگے اُف نہ کرنا والدین نے اپنی ذمہ داری بنالی ہے۔ ہر جرم سے چشم پوشی بلکہ اس پر داد دینا… نہ روک نہ ٹوک… نہ سزا… نہ ڈانٹ ڈپٹ… نہ سمجھانا نہ بجھانا… کسی نے شکایت کی تو کہہ دیا کہ ’’ارے تو کیا ہوا؟ ابھی بچہ ہے!‘‘ بچے کی بھی حوصلہ افزائی ہوگئی اور شکایت کنندہ نے بھی آئندہ کے لیے توبہ کرلی… اب بچی پٹائو… پیئو پلائو… گھُورو یا اٹھوائو… کسی کا گھر جلائو… کسی کے منہ سے نوالہ چھینو… کسی کو ناکوں چنے چبوائو… کسی کو زندہ در گور کرو یا ناحق قتل کرو… ’’ہم تو کچھ نہیں بولے گا!‘‘ کیونکہ سب بااثر افراد کے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں… کسی بااثر آدمی کا بیٹا شریف، مہذب، باادب، بااخلاق، باکردار، ہمدرد، غمگسار وغیرہ وغیرہ ہوگیا تو اس نظام کے لیے مشکل ہوجائے گی۔
 
 
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 654