donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Tabassum Fatma
Title :
   Musalman Insaf Ki Umeed Karte Hi Kiyon Hain


مسلمان انصاف کی امید کرتے ہی کیوں ہیں؟


ہاشم پورہ معاملہ میں انصاف کہاں گیا؟


 —تبسم فاطمہ


ملیانہ اور ہاشم پورہ میں ۱۹۸۷ میں جو کچھ بھی ہوا، اس کی دھندلی دھندلی یادیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ اس سے پہلے کئی ایسے فسادات ہوئے تھے جس نے اس بات کو پختہ کیا تھا کہ پولیس بھی فسادیوں کے ساتھ ملی ہوتی ہے۔ فساد سے متاثرہ مسلمانوں کو ایک طرف  دنگائیوں کا خوف ہوتا ہے تو دوسری طرف تحفظ دینے والی پولس فرقہ پرستی کی آگ میں جلتی ہوئی ان کی طرف بندوق تان دیتی ہے۔ پی اے سی کے جوانوں نے ہاشم پورہ اور ملیانہ میں جو کچھ بھی کیا، اس نے قانون، انصاف اور پولس کے وقار کو تو مجروح کیا ہی، ساتھ ہی مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات بھی بیٹھا دی کہ فرقہ وارانہ فسادات میں زندگی بچانے کے لیے کم سے کم وہ پولیس سے بھیک نہیں مانگ سکتے۔

ہاشم پورہ اور ملیانہ فسادات پر۲۸ برس بعد یوپی حکومت کا جو فیصلہ آیا ہے، وہ امیدوں کے خلاف نہیں ہے۔ متاثرین کے خاندان والے بھلے اس فیصلے پر ماتم کریں مگر ہندوستان کی ۶۸ برس کی تاریخ میں مسلمانوں کو اتنے زخم ملے ہیں کہ مسلمان آزادی کے بعد سے اب تک کسی بھی حکومت سے کسی انصاف کی امید نہیں کرسکتا۔ بابری مسجد کے فیصلے وقت یہی کانگریس تھی۔ اور فیصلے کے ایک دن قبل تک حکومت مسلمانوں کو وعدوں اور امیدوں کا لالی پوپ دیتی رہی کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ لیکن ایک دن بعد ہی بابری مسجد کے فیصلے نے ملک کے تمام مسلمانوں کی امیدوں کا خون کردیا تھا۔ ہاشم پورہ اور ملیانہ فرقہ وارانہ فسادات کا معاملہ بھی بابری مسجد سے وابستہ رہا ہے۔ اس وقت وزیر اعظم رجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھول کر نہ صرف ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو ہوادی تھی بلکہ آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور کمزور بھاجپا کو مضبوط کرنے میں بھی مدد دی تھی اور اسی کے ساتھ لعل کرشن آڈوانی کے فرقہ پرستی اور مسلم مخالف رتھ نے بابری مسجد شہادت کی فضا تیار کر، ہندو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ آج بھاجپا اقتدار میں اکثریت کے ساتھ ہے، تو اس کے لیے راجیو گاندھی کی نادانی یا سوچے سمجھے منصوبے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

ملیانہ اور ہاشم پورہ میں جوکچھ ہوا، وہ گجرات کے فسادات سے کم نہیں تھا بلکہ بہت کچھ گجرات جیسا تھا— گجرات کے قتل عام کے لیے مودی اور مودی کیبنٹ کی سچائیاں سامنے آئیں تو ہاشم پورہ کے لیے پی اے سی کے جوان سامنے تھے۔ حکومت کے اعداد وشمار اس لیے بھی معنی نہیں رکھتے کہ کہ اس وقت ہاشم پورہ اور ملیانہ کی گلیاں خون میں رنگ گئی تھیں— اور جو ظلم پی اے سی کے جوانوں نے کیا، اس کی مثال کے لیے ہٹلر اور نازیوں کی مثالیں بھی شاید کم پڑ جائیں۔ ہزاروں چشم دید گواہ تھے۔ معصوم بے گناہ مسلمانوں کو جس طرح ٹرک میں بھربھر کر تحفظ دینے کے بہانے سے لے جایا گیا اور بے رحمی سے بہیمانہ انداز میں انہیں قتل کیاگیا، اس کے لیے ۲۸ سال انتظار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ فیصلہ اگر ۲۸ برس بعد آیا تو ایک ایسی حکومت یوپی میں تھی جو مسلمانوں کے ووٹ لے کر اقتدار میں آئی تھی۔ ایک ایسی حکومت جس پر سیکولرزم کا تمغہ لگا تھا۔ لیکن غور کریںاور ملائم کی اب تک کی زندگی کے صفحے دیکھیں تو اس حقیقت سے نقاب اٹھ جاتا ہے کہ یہ حکومت کبھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں رہی۔ ہاں ملائم اور اکھیلیش کی حکومت نے مسلمانوں کو سبز باغ ضرور دکھائے مگر ہر وہ کام کیا جو مسلمانوں کے خلاف جاتا تھا۔ اکھیلیش حکومت کے تین برسوں میں ۲۰۰ سے زیادہ فسادات ہوئے۔ مظفر نگر میں نسل کشی اور غارت گری کے شرمسار کردینے والے واقعات سامنے آئے۔ متھرا میں مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، فیض آباد میں قتل اور مسجدوں پر حملہ ہوا۔ بریلی شریف میں دوسال قبل رمضان کے مہینے میں گولیاں چلیں۔ غازی آباد میں قرآن پاک کی حرمت پامال ہوئی۔ چھ مسلم نوجوانوں کا قتل اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں پر مقدمہ چلا۔ مولانا خالد مجاہد کے قتل کے بعد اکھیلیش حکومت نے قتل پر پردہ پوشی کا جو ڈرامہ کھیلا، اس سے بھی سماجوادی کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا۔ ایماندار آئی پی ایس افسر ضیاء الحق کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ پرتاپ گڑھ میں مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل، درگاہ شریف کو نذرآتش کیا گیا۔ ملائم سنگھ ہی ہیں جنہوں نے پہلی بار مرکزی حکومت سے مدرسوں کی جانچ کرائے جانے کی مانگ کی اور یہ بیان دیا کہ مدرسوں میں دہشت گردی کے امکانات ہیں۔ ملائم کی آنکھوں کے سامنے بابری مسجد شہید ہوگئی۔ وہ چاہتے تو بابری مسجدکی شہادت کو روکا جاسکتا تھا۔ ۱۹۸۹ میں جب پہلی بار ملائم سنگھ یادو وزیر اعلیٰ بنے تو ان کی آگ اگلتی تقریر یاد کیجئے، جس میں کہاگیا تھا کہ مسلمانوں کے گھر سے اسلحے نکلتے ہیں اور نکلتے رہیں گے۔ مظفرنگر، شاملی اور میرٹھ میں بے قصور مسلمان مارے جاتے ہیں۔ ان کے راحت کیمپوں پر بلڈوزرچلتے ہیں۔ ہزاروں مثالیں ہیں، ملائم کبھی مودی کی تاجپوشی کرتے ہیں۔ ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں— مسلمانوں کی حق تلفی اترپردیش میں عام بات ہوگئی ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ اس یقین کے برعکس نہیں ہے، کہ مرکز کا دبائو نہ بھی ہو، تب بھی ریاستی حکومت کے سامنے ۲۰۱۷ میں ہونے والا اسمبلی انتخابات تو ہوگا ہی، جس کے لیے صرف ڈیڑھ سال بچے ہیں اور اس کم عرصے میں یوپی حکومت، غیر مسلموں کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں دکھا سکتی۔ ہاشم پورہ میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل عالم کے بعد فیصلہ کے لیے ثبوت کے نہ ہونے کو ذمہ دار ماننا حکومت اترپردیش کی کمزوریوں کو سامنے لاتا ہے۔ صرف سابق آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن کی کتاب ۲۲ ہاشم پورہ ان ثبوتوں کے لیے کافی ہے کہ ۲۲ مئی کی شام وردی والوں نے مسلمانوں کی ہلاکت اور بہیمانہ قتل کے لیے کیسا ڈرامہ کھیلا تھا۔ اس لیے کہنا مشکل نہیں کہ شروع سے ہی یوپی حکومت فیصلے کے لیے بڑے دبائو میں تھی اور اس دبائو کے لیے قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑانا حکومت کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔


ہاشم پورہ کے ملزمین کا آسانی سے بری ہوجانا مودی حکومت کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گجرات قتل عام کے ایک ایک کرکے سارے ملزمین آزاد کیے جارہے ہیں۔ عشرت جہاں فرضی انکائونٹر معاملے کے ملزم آئی پی ایس افسر بنجارا اور پی پی پانڈے کے بھی اچھے دن آچکے ہیں۔ نرودا پٹیا میں مودی کی قریبی مایا کوڈنانی اور بابو بنجارا کو ثبوت اور عینی شہادت کے ہوتے ہوئے بھی ضمانت مل چکی ہے۔ اور اب یوپی حکومت کی کمزوریوں کی وجہ سے ہاشم پورہ کے سبھی ملزمین بری کردیئے گئے تو یہ مان کر چلیے کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ فرقہ پرست طاقتوں کے مسلم مخالف خوفناک اور اشتعال انگیز بیانات نے پہلے ہی مسلمانوں کی زمین تنگ کردی ہے۔ آر ایس ایس جس مسلم مخالف ایجنڈے پر کام کررہی ہے، اس میں مسلمانوں کے لیے کسی بھی انصاف کی امید باقی نہیں بچی ہے۔ واردات کے وقت غازی آباد کے پولیس کمشنر وبھوتی نارائن کی کتاب ۲۲ ہاشم پورہ سے یہ دو اقتباسات دیکھئے۔

’’پہلا فیصلہ یہ کیا گیا کہ ہاشم پورہ قتل کے سلسلے میں دونوں ایف آئی آر کی تفتیش سی آئی ڈی سے کرائی جائے۔ تفتیش گزشتہ ۴۸ گھنٹوں سے ہمارے پاس تھی ۔ لاشوں کو نکالنے، ان کا پوسٹ مارٹم کرانے ،دفنانے اور غازی آباد میں امن نظام قائم رکھنے کے دباؤ میں ابھی تک میں ادھر توجہ نہیں دے پایا تھا لیکن مجھے پوری امید تھی کہ اگلے چند دنوں میں ہم مکمل طور پر تفتیش میں لگ سکیں گے اور قاتلوں اور ان واردات کرانے والوں تک پہنچ سکیں گے۔ منظم روم سے ہی ایک ریڈیوگرام پولیس ڈائریکٹر جنرل دیاشنکر بھٹناگر کی طرف سے داخلہ سکریٹری ماتاپرساد کے لئے بھیجا گیا جس میں وزیر اعلیٰ کا یہ حکم درج تھا کہ تفتیش غازی آباد پولیس سے لے کر سی آئی ڈی کی کرائم برانچ کو سونپ دی جائے۔‘‘

’’مجھے اب تک یاد ہے کہ وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ جیسا زمینی حقیقت سے منسلک لیڈر بڑی شدت سے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پی اے سی اتنی خطرناک کیسے ہو گئی تھی کہ ڈھیروں بے قصور لوگوں کو پکڑ کر لے گئی اوربے رحمانہ طریقے سے انہیں مار ڈالا؟پولیس ڈائریکٹر جنرل دیاشنکر بھٹناگر انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ پی اے سی کا ضرورت سے زیادہ استعمال اورٹریننگ کو مکمل طور پر نظر اندازکرنا اس صورتحال کے لئے ذمہ دار ہے۔‘‘

وبھوتی نارائن عینی ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر مکمل طور پر پی اے سی کے جوانوں کو اس ناقابل معافی گناہ کے لیے ذمہ دار مانتے ہیں۔ تعجب اس بات پر بھی ہے کہ مقدمہ چلنے کے دوران بھی یہ ملزمین اپنی ڈیوٹی دیتے رہے۔ حکومت اور انصاف سے مسلمانوں کی امید ایک بار پھر ختم ہوئی ہے۔ ۲۲ ہاشم پورہ سے ایک اور اقتباس دیکھئے۔

’’دو گھنٹے سے زیادہ چلے تبادلہ خیال کے دوران جس میں وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھ آئے اعلیٰ افسران کے علاوہ میں اور ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی بھی موجود تھے، کافی کچھ ایسا ہوا جس کی وجہ سے مجھے لگنے لگا کہ اگر میں نے پرائیویسی کی چادر اپنے سر سے نہیں اتار پھینکی تو ہاشم پورہ کسی اندھی سرنگ میں سما جائے گا اور ملک میں آزادی کے بعد کی سب سے بڑی کسٹوڈیل کلنگ کا راز عوام کے پاس پہنچنے کے پہلے ہی سرد خاموشی میں دفن ہوجائے گا۔‘‘

حقیقت ہے کہ یہ پورا معاملہ ملزمین کے بری ہوجانے سے ٹھنڈے بستے میں جا چکا ہے۔ مسلمانوں کے زخم ہرے ہیں لیکن اس معاملہ میں ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کو لے کر بھی انصاف پرچھائی دھند ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ بس ایک ہی سوال ہے، اس پر تشدد اور فرقہ پرست ماحول میں مسلمان اپنے لیے کسی انصاف کی امید کرتے ہی کیوں ہیں؟


 tabassumfatima2020@gmail.com


*********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 541