donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zaheeruddin Siddiqui
Title :
   Shadi Ke Mauqe Par Baratiyon Ki Zeyafat Aik Samaji Masla

 
شادی کے موقع پرباراتیوں کی ضیافت ایک سماجی مسئلہ


ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد 

9890000552

 

    آج کل شادیوں کا موسم ہے، جگہ جگہ شادیوں کی دھوم نظر آرہی ہے، ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اور کہیں کہیں استطاعت سے بڑھ کر شادی کی تیاریوں میں لگا ہوا ہے، شادی خانے آباد ہیں ۔مایوں بٹھانے سے لیکر ہلدی، مہندی، سانچق، اور نہ جانے کتنی رسومات کی ادائی کے بعد ہی ہم کو لگتا ہے کہ ہمارے گھر شادی ہو رہی ہے۔ ریتوں اور رسموں کے ہاتھوں مجبور ہمارا سماج یہ سمجھ رہا ہے کہ عقد نکاح بھی دوسری رسموں کی طرح ایک رسم ہے ورنہ شادی کا اصل مزہ تو ان رسموں اور رواجوں سے محسوس ہوتا ہے جس کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جوڑا گھوڑا، لین دین اور جہیز کے نام پر ایک لمبی فہرست کی تکمیل شادی کا لازمی حصہ بن گئی ہے۔ ایسے پر فتن حالات میں کچھ لوگ وقت کے دھارے میں بہنے کی بجائے مخالف سمت میں پرواز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، ان غیر شرعی، مشرکانہ رسموں رواجوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ نکاح کو اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہو جائے اس حدیث پاک کے احیاء کی کوشش کر رہے ہیں، بغیر جوڑے کی رقم لئے، بنا جہیز کی فہرست دیئے شادی کی سنت ادا کرنا چارہے ہیں تو یہ تبدیلی کچھ لوگوں کوبرداشت نہیں ہو رہی ہے۔ہمارے مشاہدے اور تجربہ میں ایسے واقعات بھی ہیں جہاں لڑکی والوں نے محض اس لئے رشتہ سے انکار کر دیا کہ انہیں اپنی بیٹی کی شادی سادگی سے کرنامنظور نہیں تھی۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو صاحب مال ہیں اللہ نے ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں کی تو پھر ہم کیوں نہ دل کھول کر اپنے ارمان نکالیں؟کیوںاپنی لاڈلی بیٹی کی شادی سادگی سے کریں اور زندگی بھر لوگوں کے طعنے برداشت کریں کہ دیکھوں لڑکی کی شادی ایسی خاموشی سے کر دیئے کہ کانوں کان خبر نہیں ہوئی، ضرور کچھ بات ہوگی، لڑکی میں کچھ عیب ہوگا۔ یہ بیچارے یہ نہیں جانتے کہ دھوم دھام سے شادی کرنے کے بعد بھی لوگ باگ یہی کہتے ہیں کہ کیا ہوا دھوم دھام سے شادی کی تو؟ بہت مال کما کر رکھا ہے، اوپر کی کمائی ہے، ارے انہوں نے تو لڑکے والوں کو خرید لیا ہے، لڑکے کے مطالبات پورے کرکے اپنی بیٹی کے عیب چھپا لئے، وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ یہ تو دنیا ہے نہ گدھے پر بیٹھنے دیتی ہے اور نہ ہی پیدل چلنے دیتی ہے، اور اسی دنیا والوں کی خاطر ہم اپنی آخرت اور اپنے بچوں کی ازدواجی زندگی خراب کر رہے ہیں۔ ہمیں دنیا والوں کی بہت فکر ہوتی ہے کہ وہ کیا کہیں گے لیکن یہ فکر نہیں ہوتی کہ ہمارے اس عمل سے ہمارا اللہ راضی ہوگا یا نہیں۔چنانچہ اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے آرہے ہیں ، ہر سال طلاق، خلع اور علیحدگی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ظاہری بات ہے جس کام میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو نظر انداز کیا جائے گا وہاں برکتیں اور رحمتیں کہاں سے نازل ہوںگی؟ ارمانوں کی بات بھی خوب ہے، سارے ارمان شادی بیاہ کے موقع سے ہی یاد آتے ہیں۔ ارمان ہیں کیا چیز؟ سوائے اس کے کہ اپنے نفس کی خواہشوں کی تکمیل ، دکھاوا، نام و نمود، واہ واہی حاصل کرنا، چاہے اس کے لئے ہمیں بعد میں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، ہمارا خدا ہم سے ناراض ہو جائے، رسول پاک ﷺ کے کتنے ہی احکامات پامال کرنا پڑے، ارمان ضرور پورے ہوں گے۔

    شائد کچھ لوگوں کے سمجھ میں یہ بات آگئی ہے اسی لئے وہ شادی کی بے جاء رسومات کو ختم کرکے نکاح کو آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جوڑے کی رقم اور جہیز کے لین دین کو لڑکی والوں پر ظلم سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح شادی کے دن لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کی دعوت طعام کی بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ دراصل یہ مسئلہ جائز، نا جائز یا حرام و حلال کاکوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے کہ جس کی وجہہ سے عقد نکاح کے تکمیل پر کوئی سوالیہ نشان لگ جائے، بلکہ یہ سماج سے ان رسموں اور رواجوں کو ختم کرنے کی کوشش ہے جس کے بغیر شادی کا تصور ہی باقی نہیں رہا۔ جو لوگ زندگی کی حقیقتوں پر نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ محض ان ہی رسموں رواجوں کی وجہہ سے لڑکیوں کی شادیاں کتنی مشکل ہو گئی ہیں، خصوصاً غریب اور مفلس لڑکیوں کے ماں باپ اپنی لاڈلی کی شادی کے لئے کس قدر پریشان ہیں۔ ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ہے۔ رات دن اس فکر میں گھل رہے ہیں کہ لڑکیوں کی شادی کے انتظامات کہاں سے پورے ہوںگے؟ اور جب کوئی راستہ نہیں پاتے ہیں تو پھر حرام اور حلال کی تمیز بھول جاتے ہیں۔ یا تو حرام طریقوں سے پیسہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر سود کی لعنت اپنے سر پر اٹھائے زندگی بھر بیٹی کا قرض ادا کرتے رہتے ہیں۔ بات صرف ایک بیٹی کی ہو تو پھر بھی ٹھیک ہے مگر ایک سے زیادہ بیٹیاں ہو ں تو سوچیے ان کی کیا حالت ہوتی ہوگی، زندگی بھر قرض کے بوجھ سے آزاد نہیں ہو پا رہے ہیں۔ مشاہدے میں ایسے واقعات بھی آئے ہیں کہ محض دعوتیوں کی تعداد کو لیکر تنازعہ کھڑا ہو گیا لڑکے والوں کی یہ ضد تھی کہ اتنے لوگوںکو شادی کی دعوت دی جائے اور لڑکی والے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہم اتنے لوگوں کو کھانا کھلانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اور اس تنازعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ رشتہ ہی ٹوٹ گیا۔ اب بتائیے کہ رشتہ جڑنا زیادہ ضروری تھا یا لڑکے والوں کا اصرار جائز تھا؟ہاں اگر بارات کسی دوسرے شہر سے آرہی ہو تو وہ صورت حال مختلف ہوتی لیکن مقامی بارات کے لئے یہ اصراراور پھر اس کیوجہہ سے رشتہ ہی ختم کردینا کیاکسی بھی طرح درست قرار دیا جاسکتا ہے؟صاحب استطاعت لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ہم کو اللہ نے ہر چیز سے نوازا ہے اس لئے ہم یہ سب کچھ کر رہے ہیں لہٰذا کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ بات صحیح بھی لگتی ہے، لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک ہی خاندان کے دو بھائیوں کی آمدنی ایک جیسی نہیں ہوتی، اب اگر ایک بھائی اپنی بیٹی کی شادی پر دولت کا اسراف کر رہا ہے خوب دھوم دھام سے شادی کر رہا ہے تو کیا دوسرے بھائی پر لازم نہیں ہو جاتا کہ وہ بھی اس کی برابری کرنے کی کوشش کرے؟ چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اس کی بیٹی اپنے باپ کے بارے میں کیا سوچے گی؟ دوسری بات کیا آپ کے بے جاء اخراجات اور دولت کی نمائش سے سماج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا؟ اب اگر کچھ لوگ اس بات کی کوشش کر رہے ہیںکہ لڑکے والوں کی طرف سے کھانے کا مطالبہ نہ کیا جائے یا لڑکے کے گھر شادی کا کھانا نہ کھایا جائے تو اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس انکار کا استقبال کرنا چاہئے۔ رہ گئی یہ بات کہ دعوت دینے پر دعوت قبول کرنا سنت نبوی  ﷺہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ اگر اللہ نے آپ کو طاقت دی ہے تو آپ لڑکے والوں کو شادی سے پہلے یا بعد میں کسی وقت بھی دعوت دے سکتے ہیں جسے وہ ضرور قبول کریں گے، لیکن اس کو شادی کا ایک لازمی جز مت بنائیے۔ یہ مت سمجھئے کہ جوڑے گھوڑے کی رقم کے بغیر، جہیز کے لین دین اور کھانے دانے کے بغیر شادی مکمل ہی نہیں ہوتی۔ یا لڑکے والے اگر ان چیزوں سے بچنا چاہ رہے ہیں تو اس میں کوئی غلطی ہے۔ اسے کھلے دل سے قبول کیجیے اور دیگر لوگوں کو بھی ترغیب دیجیے کہ نکاح کو آسان بنائیں۔ ان رسموں رواجوںکا ہم پر اس قدر غلبہ طاری ہوگیا ہے کہ مہر جو لڑکی کا حق ہے وہ بھی اگر نقد ادا کیا جارہا ہے تو لڑکی والوں کو انوکھا لگ رہا ہے وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا بات ہے مہر کی رقم نقد کیوں دے دیئے؟ کیوںکہ سماج میں نقد مہر ادا کرنے کا مزاج ہی ختم ہو گیا تھا۔ شوہر کے انتقال پر مہر کی رقم معاف کروانے کی رسم آج بھی عام ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مہر کی رقم نقد ادا نہ کی جائے؟ واقعہ یہ ہے کہ ہم برسوں پرانی روایات کے اسیر ہو گئے ہیں۔ بزرگوں سے جو روایات چلی آرہی ہیں ہم اس سے ہٹ کر کوئی چیز کو برداشت نہیں کرنا چاہتے اسی لئے نئی تبدیلیاں ہم کو شاق گزر رہی ہیں۔دوسری جانب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ، نئی نسل پرانی روایات کو آج کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کر رہی ہے، اور جہاں کہیں اسے یہ لگتا ہے کہ قدیم رسم و رواج ہمارے معاشرے کے لئے نقصان دہ ہیں تو وہ اس سے کنارہ کش ہونے کو ہر وقت تیارہے۔ یہی وجہہ ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں تبدیلیاں نمودار ہو رہی ہیں۔ بزرگوں کا بھی کام ہے کہ وہ آج کے ماحول سے اپنے آپ کو ہم اہنگ کریں اور نئی مثبت تبدیلیوں کا خیر مقدم کریں۔

****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 625