donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Tasweer Hazar Dastan Sahi Magar Modlil KahaN


تصویر ہزار داستاں سہی  مگرمدلل کہاں

 
زبیر حسن شیخ

اسلحہ ہویا ہتھیار، اوزار ہو یا قلم، انسانی تہذیبی ارتقا میں بنیادی طور پر یہ سب طاقت و قوت کی علامت رہے ہیں...اظہار و بیان کا ذریعہ رہے ہیں ... تغیر و تبدل اور انقلابات کا وسیلہ رہے ہیں...انسانی تاریخ نے قتل عام اور غارت گری کا طویل دور دیکھا ہے… تہذیبی ارتقا کا وہ دور جب ہتھیار و اوزار ہی قلم کا کام دیتے تھے....جب کاغذ قلم الفاظ اور تحریر کا وجود نہیں ہوا کرتا تھا… جب طاقت و قوت کے اظہار کے لئے ہتھیار و اوزار کا استعمال عام ہوا کرتا تھا....جب اظہار و بیان کے لئے تصویروں اور خاکوں کو مختلف اوزاروں سے پتھر پر کندہ کیا جاتا تھا….جب رنگوں اور تصویروں کو اظہار کا موثر ذریعہ مانا جاتا تھا..... اس وقت بھی انسان کے پاس اظہار و بیان کے مختلف اسالیب ہوا کرتے تھے... انسانی کردار کو،  احساسات و افکارات کو، عقاید کو، واقعات و انقلابات کو اورآسمانی آفات کو بیان کرنے کے لئے فن مصوری، تصویر کشی، نقش نگاری یا پینٹنگ کا استعمال عام ہوا کرتا تھا….اسی فن سے تہذیب جدیده میں مزاحیہ تصاویر یا کارٹون کا فن وجود میں آیا.....انسانی تاریخ نے تصویر کشی اور فن مصوری کا عروج بھی دیکھا جہاں طنزیہ، مزاحیہ اور سنجیدہ موضوعات کی تصویر کشی کی جاتی...کبھی عریانی، فحاشی، جنگ و جدل، وصل و فراق، محبت و عقیدت کو منہ بولتی تصاویر میں ڈھالا جاتا تو کبھی ماورائی طاقتوں اور دیومالائی کرداروں کو اصنام میں ڈھال کر زندہ کر دیا جاتا...پھر اپنے عروج پہ پہنچ کر اس فن نے عقائد پر کاری ضرب لگانی شروع کردی.. حتی کہ خالق حقیقی نے اس فن کی مذمت کی اور اس سے پیدا شدہ غلو کی مخالفت میں ایسے فن کو فتنہ و فساد کا باعث قرار دے دیا...ہدایت کا سرچشمہ نازل کر  قلم، الفاظ اور تحریر کی اہمیت کو واضح کردیا اور ان کے استعمال کے عام ہونے  اور ان کے مدلل  و  طاقت ور ہونے کی نشانیاں فراہم کردی...تاکہ کارخانہ حیات میں قلم کی اہمیت اجاگر ہو جائے  اور جس سے افکارات و بیانات کو لفظوں کی شکل میں ڈھالا جاسکے اور جس سے زبان و ادب کو تحریر میں منتقل کیا جاسکے...اور  اس طرح انسانی تہذیبی ارتقا میں قلم کلیدی کردار ادا کرسکے.. شر و فساد ، ظلم و جبر، نا انصافی کے خلاف قلم ایک پر امن ہتھیار بن سکے ... تحریر میں دعوی کے ساتھ دلائل بھی پیش کئے جا سکیں جو فن مصوری، نقش نگاری اور تصویر کشی میں ممکن نہیں...الغرض انسانی تہذیبی ارتقا کو اسلحہ، ہتھیار و اوزار کا ایک بہترین متبادل قلم کی شکل میں فراہم کردیا گیا.....چہ جائیکہ اسلحہ  ہتھیار اور اوزار کی اہمیت اپنی جگہہ ہمیشہ قائم رہی.... اسے سرے سے ممنوع نہیں قرار دیا گیا .. نہ کسی مذہب میں نہ کسی عقیدے میں، نہ کسی دور میں نہ کسی ملک یا خطے میں،   نہ کسی قانون میں اور نہ ہی کسی انسانی گروہ میں...ہتھیار اور اسلحہ انسانی تہذیبی ارتقا میں فتنہ و شر سے نجات کا اہم ذریعہ بنے رہے.. اورہمیشہ رہیں گے...گرچہ انہیں سے ظلم و جبر اور استبداد و استحصال بھی روا رہا ہے....

انسانی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب مصوری اور تصویر کشی میں آزادی افکار و اظہار و بیان پر کوئی پابندی نہیں تھی.... اس دور میں تصویروں کا سہارا لے کر سچائی یا حق سے انکار بھلے ہی کیا گیا ہو لیکن حق کے ساتھ کبھی گھٹیا مذاق نہیں کیا گیا جیسا تہذیب جدیدہ میں کیا جانے لگا ہے.....ہوسکتا ہے انسانی حس مزاح اور افکار و بیان کی قدریں اس دور میں انحطاط پذیر نہیں ہوئی ہونگی.... اور مزاح کا معیار موجودہ دور سے بہتر رہا ہوگا.....سچائی کا دبدبہ رہا ہوگا کہ اسکے احترام میں اخلاقیات سے گری حرکتیں نہیں کی جا تی ہونگی....دشمنی کا بھی اپنا وقار رہا ہوگا اور انحراف کا اپنا معیار بھی....حق کے خلاف اکسانے، ورغلانے، بھڑکانے، طیش دلانے کا چلن عام نہیں ہوا ہوگا....اور شاید انسانی عقل کو ایسے قوانین بنانے کا شعور حاصل نہیں رہا ہوگا جس میں موشگافیوں سے اور انتہا پسند بحث و مباحث سے باطل کو حق اور شر کو خیر ثابت کر دیا جاتا... ایسی قدریں پرورش نہیں پائی ہونگی کہ انسانی قلب و ذہن کو اسقدر مسلسل طیش دلایا جائے کہ وہ قلم کے بجائے ہتھیار اٹھا لے... لیکن اب صحافت جدیدہ کی آڑ میں قلم کا استعمال ایسے سارے غلط کاموں کے لئے کیا جانے لگا ہے....اور ان کے علاوہ  قلم کا استعمال فحاشی، عریانی اور لہو و لعب کے لئے  بھی ہورہا ہے .....حق کے خلاف ورغلانے اور ظلم و جبر کی امداد کرنے اور سیاسی سازش رچنے کے لئے بھی  ہورہا ہے.....اب تصویر کشی یا کارٹون بنانے کا کوئی تخلیقی معیار باقی نہیں رہا ... فن کا وقار بھی نہیں رہا.... جھوٹ اور سچ اور حق و نا حق کی تمیز ممکن نہیں رہی .. اب عزت و احترام کے جذبے اور احساسات کا فقدان ہے.... بلکہ الفاظ سے زیادہ گھٹیا تصویروں اور تصویر کشی کا معیار ہوگیا ہے.. تصویریں اور تصویری خاکے لاکھ معنی خیز اور منہ بولتے ہوں لیکن کبھی مدلل نہیں ہو سکتے....طنز و مزاح کے گنے چنے پیرائے ہوا کرتے ہیں... بے شک ایک تصویر ہزار داستان ہو سکتی ہے.... اور ہزار جملوں سے زیادہ شاید موثر بھی ہوسکتی ہے.... لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ غیر مدلل ہو تی ہیں... اس لئے تصویرکشی یا کارٹون کے فن میں احتیاط  ضروری ہوجاتی ہے ...عقلی اور منطقی بحث میں ان سے کچھ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا سوائے اس کے کہ تہذیب جدیدہ میں مغرب نے اسے آزادئ  رائے کی آڑ میں  ادب سے تعبیر کردیا... اور ورغلانے اور اکسانے اور شر و فساد پھیلانے کے قوانین کی خلاف ورزی کر صحافت غلیظہ کی گود میں اسے تحفظ فراہم کردیا... مغرب نے اس فن میں بے حد  غلو سے کام لیا ہے.... ورنہ طنز و مزاح اور نقد کا استعمال کر عقائد پر حملہ ماضی میں بھی بارہا ہوا ہے، اور  تحریر و تصویر  دونوں کے ذریعہ ہوا ہے  .. ہر ایک مذہب پر ہوا ہے اور انکے بانیوں اور عقیدت مندوں پر بھی ہوا ہے....لیکن احترام کی ایک حد فاضل ضرور قائم رکھی گئی ہے... اور غیر صحت مندانہ تنقیدیں نہیں کی گئیں جو بیمار ذہن اور ذہنیت کی عکا سی کرتی  ہو.... جیسے حالیہ برسوں میں تحریروں اور مزاحیہ تصویروں کے ذریعے تنقید کی گئی، اور مذہب و عقائد پر کی گئیں ...اور انکے  قابل صد  احترام   بانی پر کی گئیں  جنکے اعلی  ترین  کردار کی گواہی  انسانی   تہذیبی  ارتقا کے  ہر ایک مرحلہ پر  ثبت ہے  ...  ما ضی میں بھی  مذہب و عقائد پر تنقیدیں ہوئی    لیکن کبھی کسی نے کسی پر کلاشنکوف سے حملہ نہیں کیا... دلیلیں چاہے غلط ہی کیوں نہ دی گئی   ہوں،  یا کسی غلط فہمی یا کج فہمی کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہوں،  تنقید کے ساتھ پیش کی گئیں اور احترام کے دائرے میں پیش کی گئیں.. ادب و قلم کو رسوا کر کے تنقید نہیں کی گئی... انتقامی جذبوں اور متعصبانہ رویوں میں لت پت ہو کر تنقید کے تیر نہیں چلائے گئے.....لیکن حیف صد حیف کہ انسانی  ذہنی ارتقا اب اس جمود  کا شکار ہو چلی ہے کہ الفاظ و بیان کا ہنر عریاں و فحش   ادب و فنون  کے تلے دب کر رہ گیا ہے... انسانی ذہن کے پاس صحت مند تنقید کے لئے الفاظ و بیان کا قحط  ہوگیا ہے.. اور یہ مغربی تہذیب کی دین ہے.....جہاں فحش لٹریچر اور عریاں تصاویرکے طفیل حق کی مخالفت میں قلم کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے..... قلم کو بد نام کیا جا رہا ہے....ادب کو رسوا کیا جارہا ہے.. صحافت کو برہنہ کیا جارہا ہے.... اور غلاظت کو جدت کا نام دیا جارہا ہے.....ادب و صحافت کا معیار بھی مغربی  افکار کے ساتھ ساتھ گرتا جارہا ہے.....ان وسائل کو طیش دلانے، اکسانے اور آزادئ رائے کے نام پر سازش رچنے، شر و فساد و فتنہ پھیلانے اور قلمی دہشت گردی کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ..

اگر ناحق انسانی قتل گناہ  ہے تو شر و فساد اور فتنہ گناہ ِعظیمہ ہے... اور اسے روکنے کے لئے اگر قتل ہی واحد حل باقی رہ جاتا ہو تو انسان یہ گناہ کرتا آیا ہے.... اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے.... پھر چاہے یہ گناہ غیر منظم اور غیر قانونی افراد سے ادا ہو یا منظم گروہ یا قانونی ریاست یا کسی سیاسی یا عسکری جماعت سے.....یا پھر جمہوریت یا ملوکیت سے .... ہر کوئی اس گناہ کا ارتکاب کرتا آیا ہے اور دلائل بھی دیتا آیا ہے.... چاہے مخالفین اسے قبول کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں... ان میں سے ہر ایک کے پاس اپنا اپنا پیمانہ اور نصاب ہوتا ہے...قتل کے اپنے اپنے طریقہ کار ہوتے ہیں ... بہر حال فساد کی روک تھام کے لئے قتل ضروری واقع ہوا ہے جس سے کوئی بھی انسانی گروہ انکار نہیں کرتا....یہی قانون قدرت بھی ہے... ورنہ انسانی معاشرے میں امن کا قیام غیر ممکن ہو جائے......رہا سوال یہ کہ شر و فساد و فتنہ کی فی الحقیقت تعریف کیا ہے اور اسکا فیصلہ اور تصفیہ کون کریگا تو انسانی علم، عقل اور وسائل دور جدید میں اس مقام پر جا پہنچے ہیں کہ اس کا فیصلہ کرنا کچھ مشکل نہیں رہا....انسان کو اب اس بات کا احساس شدت کے ساتھ ہوتا جارہا ہے کہ اسکے تخلیق کردہ ملکی قوانین شر و فساد و فتنہ کی حقیقی تعریف اوراس کے رموز و نکات اور اسکے وسیع اثرات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں...کیونکہ یہ قوانین انسانی جذبات و احساسات کے عمل دخل سے انکار کرتے ہیں...جبکہ شرو فساد و فتنہ کا جذبات، نفسیات و احساسات سے گہرا تعلق ہوتا ہے... بہ نسبت حالات و واقعات کے  جن پر انسانی قوانین کا انحصار ہوتا ہے.... انسانی نفسیات، جذبات و احساسات فتنہ و فساد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں..... انسان ایکدوسرے کی مخالفت میں ہتھیار و اوزار اٹھاتا آیا ہے اورقلم بھی...بہر کیف دونوں گروہ نفسیات کا شکار ہو کر اول انتہا پسندی اور پھر دہشت گردی پر آمادہ ہوجاتے ہیں ....دہشت گردی اسلحہ و ہتھیار سے ہو یا قلم سے، فرد سے ہو یا گروہ سے، جمہوریت  سے ہو یا ملوکیت سے ، بہر کیف دہشت گردی ہی کہلائے گی.....

اہل علم و نظر سے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ انسانی فطرت میں یہ صلاحیت ودیعت کردہ ہے کہ وہ برا ئی، ظلم اور ناانصافی سے کراہیت محسوس کرتا ہے....اور ان کے خلاف  آواز اٹھاتا آیا ہے اور احتجاج کرتا آیا ہے ..... ضرورت پڑنے پر انکی روک تھام کے لئے طاقت، ہتھیار اور اسلحہ کا استعمال بھی کرتا آیا ہے......اگر ایسا نہ ہوتا تو انسانی تاریخ خونی تصادم اور خونی انقلابات سے مبرا ہوتی......یہ اور بات کہ ہر دور میں مختلف انسانی گروہ کے لئے حق اور باطل کے مختلف پیمانے رہے ہیں.... اور مختلف ادوار میں اسی فطری صلاحیت کے استعمال میں تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہی ہیں....جہاں انسانی گروہ حق و باطل اور اچھائی برائی کے اپنے اپنے پیمانے مقرر کرتا رہا اور ظلم و نا انصافی کے نئے نئے کاروبار متعارف کرتا رہا ونہیں خالق حقیقی انسانی ذہنی ارتقا کی مناسبت سے ہدایت کے سر چشمے بھی نازل کرتا رہا.....انسانی تاریخ کا کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا جب حق و باطل یا اچھا ئی برا ئی میں خونی جنگیں نہ ہوئی ہوں....چاہے گروہ کے درمیان ہوئی یا اہل اقتدار اور مختلف اقلیت کے درمیان.. ہر دور میں حق و انصاف کے حصول کو کبھی جنگ سے تو کبھی امن سے ممکن بنایا جاتا رہا.... امن کے نفاذ کے لئے اور باطل کے خاتمہ کے لئے جنگیں ناگزیر بھی ہوئی ہیں.. ارتقا کے اولین دور میں انسانی عقل کی رسائی اسلحہ، اوزار یا ہتھیار تک ہی محدود رہی... اور اس کا کوئی امن پسند متبادل انسان کے پاس نہیں تھا....ہدایت کے اولین سرچشموں میں اس متبادل کے متعلق کوئی تفصیلی ہدایت بھی نہیں دی گئی تھی.... کیونکہ انسانی ذہن ابھی  ارتقا کے اس مرحلہ میں داخل نہیں ہوا تھا جہاں اسے کسی متبادل سے واقف کرایا جاتا اور انسانی عقل اس کا مناسب استعمال جان پاتی......حتی کہ خالق حقیقی نے انسانی ذہنی ارتقا کے عروج کی مناسبت سے ہدایت کے آخری سر چشمہ کا نزول فرما کر انسان کو قلم جیسی نعمت سے سر فراز کردیا.... جب علم و دانش اپنے عروج پر جا پہنچے  تھے.. پھر قیامت تک ہدایت اوراحکامات پرمہر بھی ثبت کردی گئی.... الغرض انسانی تاریخ نے پھر وہ دور بھی رقم کیا جب قلم کو اسلحہ و ہتھیار کے مقابلے ایک پر امن علامت مانا گیا....ایک بہترین اور طاقت ور وسیلہ یا ذریعۂ اظہار مانا گیا....لیکن تہذیب جدیدہ میں اس کا ناجائز استعمال یوں ہونے لگا کہ اسلحہ اور ہتھیار سے زیادہ جس کی ضرب کاری ہوتی چلی گئی...اور قلم کی سیاہی اور سرخی میں یہ ضرب نظر نہیں آئی......یہ  وہی قلم تھا جسے کبھی اہل فکر اور مصلح افراد کا ہتھیار مانا جاتا.....اہل صحافت و اہل ادب  کی تلوارمانا گیا.....جس پر معاشرہ کی آئینہ داری کا ذمہ رکھا گیا.... جو انسانی معاشرہ کے کردار و اقدار و معیار کا پیمانہ تھا،  حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے کا،  سچائی سے پردہ اٹھانے کا، جھوٹ کو بے نقاب کرنے کا، بے قابو سیاست و تجارت و معیشت پر نظر رکھنے کا، اخلاقیات و عقائد، تہذیب و تمدن اور زبان و بیان کی ترویح و ترسیل کا پیمانہ......لیکن اب یہ سوال منہ کھولے کھڑا ہے کہ موجودہ دور میں کیا واقعی قلم اور اہل قلم کی یہی تعریف باقی ہے...کیا واقعی اہل قلم کا کردار اور معیار انہیں اوصاف کی عکا سی کر رہا ہے... کیا قلم کی طاقت صرف الیکٹرونک میڈیا تک محدود نہیں ہوگئی ہے؟....کیا الیکٹرونک میڈیا قلم کی سب سے بڑی علمبدردار بن کر نہیں ابھری ہے.... کیا وہ واقعی مذکورہ صفات کی حامل ہے؟.... کیا وہ واقعی جمہوریت کے چوتھے ستون کا کردار ادا کرنے میں کامیاب رہی ہے؟...... کیا ٹی وی صحافت کا واقعی کوئی مثبت کردار باقی رہا ہے؟ ... کیا یہ صحافت سچائی کو برہنہ کرنے کی خاطر خود بھی ننگی ہورہی ہے؟ ... کیا یہ آزادئ افکار و اظہار کے نام پر اکسانے ورغلانے، طیش دلانے، فتنہ پیدا کرنے، سنسنی پیدا کرنے اور قلبی و ذہنی انتشار پیدا کرنے کی مجرم نہیں ہے؟  کیا یہ عریانی و فحاشی کی تشہیر کا سستا سامان مہیا کرنے کی گناہ گار نہیں ہے؟  کیا مزاحیہ تصویر یا کارٹون   یا مزاحیہ مضمون نگاری کے اصول و قوانین جدید صحافت و ادب میں متعارف کئے جانے باقی ہیں..... کیا مغربی افکار کے بوجھ تلے موجودہ ٹی وی صحافت چر مرا رہی ہے؟  کیا یہ سیاست صارفیت، مادیت، فسطائییت اور سرمایہ داری کی زر خرید بن گئی ہے....  کیا موجودہ صحافت جمہوریت کا کھوکھلا اور دیمک زدہ  ستون ہے.... کیا یہ قوانین کی حدود سے باہر آگئی ہے... کیا یہ اپنی بقا کے لئے باقی تینوں ستونوں کو کھوکھلا کر رہی ہے؟  کیا صحافت نے قلم پر اجارہ داری کر لی ہے اور ادب کی طاقت و قوت پر دولت کے زور سے تصرف حاصل کر لیا ہے... کیا اب یہ بکاو اشیا کی طرح بازار میں موجود ہے.... کیا یہ سیاسی سازشوں کا شکار ہوگئی ہے یا سازشوں میں خود بھی  شامل ہے؟..... کیا یہ صحافت واقعی سیکولر ہے، کیا اس صحافت میں سب کچھ سچ اور حق ہے، گر ہے تو کتنا فیصد ہے؟ کیا یہ صحافت اخلاقیات پر قائم ہے؟... کیا یہ متعصب نہیں ہے؟ ٹی وی صحافت کا یہ دور انسانی تہذیبی ارتقا اور ذہنی ارتقا میں کیا کردار ادا کر رہا ہے.. یہ سب جاننا اب بے حد ضروری ہے.....ورنہ مذہبی، نسلی تعصب کے نام پر ... صحافت و ادب کا یونہی خون ہوتا رہے گا...یونہی تصویر کشی اور کردار کشی کی جا تی رہے گی.. یونہی نازک جذبات اوراحساسات کو بھڑکایا جاتا رہے گا...یونہی آزادی افکار و رائے کے نام پر بے وجہ  ضد میں آکر لوگ قتل ہوتے رہیں گے.....اور انسانیت یونہی سر نگوں ہوتی رہے گی...دہشت گردی اسلحہ و ہتھیار سے ہو یا قلم سے یوںہی جاری رہے گے.....


********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 488