donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Life Sketch Of Holy Person
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Izhar Ahmad Gulzar
Title :
   Hazrat Fareeduddin Masood Ganje Shakar R.A.H.


 

فخر الاولیا، شانِ اھلِ چشت، شیخ المشائخ

 

حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر

 

 

 تحریر و تحقیق: ڈاکٹراظہار احمد گلزار


Email: izhar.dhamal94@gmail.com


    اہلِ چشت اہلِ بہشت، بہشت بھی نازاں کہ وہ کن مردانِ با صفا و وفا کی اقامت گاہ بنے گی۔ خوش قسمت ہے وہ خاک جس میں آسودہ ہیں مردانِ پاک۔ پرواز تھی جن کی درونِ افلاک۔ چشت اہلِ بہشت کو برصغیر کے روحانی تاجدار داتا علی ہجویریؒ نے اپنی نسبت خاص بخشی۔ داتا صاحبؒ کو اپنی حیات ظاہری میں تو کوئی ایسا نہ ملا جو ’’امانتِ خاص‘‘ کا اہل ہوتا مگر سنجر سے آنے والے معین الدینؒ کو داتا ؒ نے اس فیض و برکت سے نوازا کہ سلطان الہند بنا دیا۔ رب ذوالجلال کی کسی عظیم مصلحت کے تحت داتا ہجویریؒ کو تو وصال سے قبل اہل جانشین نہ ملا مگر داتاؒ کے نوازے ہوئے معین الدین حسن سنجریؒ کو خدا نے ایسی برکت دی کہ لگاتار پانچ سورج چمکے جنہوں نے کل عالم کو منور کیا۔ معین الدین چشتیؒ ، قطب الدین بختیار کاکیؒ، فریدالدین گنج شکرؒ، نظام الدین اولیاؒ، نصیرالدین چراغ دہلوی۔ یہ سارے کے سارے فقرا کا فخر ، درویشوں کی شان، اولیا کے سرتاج ، سب ہی عظیم ہیں۔ ولیوں کی اس روشن ترین لڑی کا وسطی موتی جس پر اس سے پہلے پروئے ہوئے نازاں رہے اور بعد والے مشرف ہوئے۔ سلطان الہندؒ نے قطب الاقطابؒ کو مبارک دی کہ وہ فریدؒ جیسے شہباز لامکاں کو دام میں لائے ۔ سرتاج الاولیا اور چراغ دہلویؒ کو فخر رہا کہ ان کی نسبت فریدؒ سے ہے۔

    یہ سبھی بلند تھے اور پاک بھی۔ عظمت ان کے قدموں کی دھول تھی۔ مگر ان سب عظیم اولیا کو فریدالدین گنج شکرؒ پر فخر رہا جو مجاہدے باباؒ نے کیے نہ ان سے پہلے کسی کو توفیق ملی نہ بعد والوں کو ہمت ہوئی۔ یہ اعزاز چشت اہل بہشت کے پانچ عظیم شیوخ میں سے کسی اور کو حاصل نہیں سوائے بابا فریدؒ کے کہ اپنے مرشد کے ساتھ ساتھ مرشد کے مرشد نے بھی نوازا ۔ چلۂ معکوس کا ذکر علمِ ظاہر کی کتب میں نہیں ملتا مگر باباؒ پر تو مجاہدے کی دھن سوار تھی۔ قطب الاقطابؒ نے اجازت دی اور مریدِ باصفا نے ریاضت کی انتہا کر دی۔ صدیوں بعد کسی اہلِ خرد نے سوال اٹھایا کہ 40دن الٹا لٹکے رہنے کے باوجود کھایا پیا منہ سے اور خون آنکھوں سے باہر کیوں نہ آیا۔ اس پر بندہ نواز گیسو درازؒ نے جواب دیا کہ خون اور پانی باباؒ کے اندر تھا ہی کہاں ، جو باہر نکلتا۔

    بابا فریدؒ اہلِ چشت کی روایت کے مطابق حکمرانوں سے دور رہے۔ نہ ہی ان کا نذرانہ قبول کیا ۔ خانقاہ میں سدا فاقے رہے، پانی سے سحر و افطار ہوتا رہا، مگر تعویذ کا ہدیہ لیا نہ درہم و دینار کو داخلے کا اذن ملا۔ ایسا مجاہدہ، اتنا صبر، اتنی ریاضت ، ایسی نفس کشی اولین و آخرین میں مثال ٹھہری ہے۔ ایک بار نظام الدینؒ نے سالن میں نمک ڈال دیا ، باباؒ نے خانقاہ کی حدود سے باہر پھینکوا دیا۔ سوال جائز تھا کہ جب رقم ہی کو داخلے کی اجازت نہیں تو نمک کیسے خرید لیا گیا۔ کاش فقیر کے سجادہ نشین اس غیرتِ فقر کی کچھ لاج ہی رکھ پاتے۔

    دولت اور اہلِ دولت دروازے کے باہر اذنِ حضوری کے منتظر رہے مگر اجازت ملنا تھی نہ ملی ۔ جن کو ملی اس شرط کے ساتھ کہ دولت سے ناتا توڑ کر خانقاہ میں آئو۔ دنیا اور اس کے بادشاہ حاضری کی اجازت مانگتے مگر نہ ملتی۔ فقر کے شہنشاہ نے دنیائے دنی کو طلاق بائن دے رکھی تھی۔ کچھ عزیز تھا تو خدا کی راہ میں مجاہدہ اور اس کی مخلوق کی خدمت ۔نہ مجاہدے میں کوئی ثانی ہو سکا نہ خدمت میں۔
    تجرد، فقر ، استغنا، توکل ، خودداری ، تقویٰ اور سب سے بڑھ کر عشق ، اجودھن کی خانقاہ میں ہر چیز نے اپنی انتہا دیکھی۔ یہ خزانے لٹے اور پوری کائنات میں پھیل گئے ۔ اہلِ فقر کا ناز، اہلِ چشت کی شان فریدالدینؒ کا جب وصال ہوا تو حجرے کی دیوار توڑ کر اینٹیں قبر میں لگائی گئیں۔ جب رقم نہ ہو تو اینٹیں کہاں سے خرید ی جائیں۔ زندگی فقر کی ، عادت زہدکی، خدمتِ خلق کی۔ یہ درس تھا اس درویش کا جو وصال کے صدیوں بعد بھی زندہ ہے۔ بلندیاں سرنگوں ہیں، بڑائیاں عاجز ہیں اور عظمتیں نچھاور ہیں، رحمۃ اللہ علیہ۔

    یارانِ طریقت اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وطنِ عزیز پاکستان میں سلسلہ چشتیہ کے تین بڑے بزرگوں میں پہلے نمبرپر حضرت بابافریدالدین مسعود گنج شکرؒ ہیں جب کہ دوسرے قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ (چشتیاںشریف) اور تیسرے نمبر پر غوثِ زماں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی المعروف پیر پٹھانؒ(تونسہ شریف)کا اسمِ شریف چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔

    بلاشبہ ربِ قدوس کے پیارے حبیب ﷺ، صحابہ کرامؓ اور اس کے بعد یہ اولیا کرام وبزرگان دین کا ہی فیضانِ خاص ہے کہ آج ہم کو قریہ قریہ نگر نگر ’’صدائے عظیم‘‘ سننے کو ملتی ہے اور دیے سے دیا جلانے کے مصداق انھی بزرگان دین کے روحانی چراغوں سے روشنی پھوٹتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

    خواجگانِ چشت کے عظیم بزرگ حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی ولادت باسعادت رمضان شریف کے آغاز میں ملتان شریف کے ایک قصبہ کھیت وال میں ہوئی ۔ آپؒ کے والدِ محترم کا اسمِ گرا می کمال الدین تھا، جن کا تعلق کابل کے ایک شاہی خاندان سے تھا ۔آپؒ کا سلسلہ نسب خلیفہ دوم دعائے رسول ﷺ کے ثمر سیدنا حضرت عمر فاروقؓ بن خطاب سے ملتا ہے۔ 

    بابائے فریدالدین گنج شکرؒ کی تعلیم و تربیت میں آپؒ کی والدہ محترمہ بی بی قرسم خاتون کا بڑا ہاتھ ہے جو کہ رابعہ عصر اور بہت بڑی عابدہ و زاہدہ تھیں۔ آپؒ کی دعائیں ’’مستجاب الدعوات‘‘ کا درجہ رکھتی تھیں۔ آپؒ نے بارہ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا اور بعد میں دینی تعلیم کی غرض سے کھیت وال سے ملتان کا رخ کیا۔ ملتان اُس وقت بغداد شریف کی طرح علماء اور مشائخ عظام کا مرکز تھا۔ ملتان کے محلہ سرائے حلوائی میں مولانا منہاج الدین ترمذیؒ کی مسجد میں آپؒ نے دینی تعلیم شروع کی اور کتاب نافع (فقہ کی ایک کتاب ہے) سے استفادہ کرنے لگے۔ آپؒ بڑے ذہین و فطین تھے اور علم دین سیکھنے کا جذبہ جاں گزیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں آپؒ نے قرآن پاک حفظ کیا اور عربی کی دیگر کتابیں پڑھ لیں۔

     اس مسجد میں ایک دن حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ تشریف لائے ۔ فرید الدین مسعودؒ دل جمعی کے ساتھ کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھے۔ خواجہ بختیارکاکیؒ نے فرمایا کیا پڑھ رہے ہو ؟ آپؒ نے جواباً عرض کیا کہ ’’کتاب نافع‘‘ ۔ خواجہ بختیار کاکیؒ نے فرمایا کہ ’’تم جانتے ہو کہ نافع سے تمہیں کیا نفع ہو گا؟‘‘ آپؒ نے عرض کیا کہ نہیں، ’’ میں تو بس آپؒ کی نظرِ کیمیا کا متمنی اور محتاج ہوں اور نفع تو مجھے آپؒ کی قدم بوسی اور فیضانِ نظر سے ہی ہوگا۔‘‘یہ کہہ کر آپؒ خواجہ بختیار کاکیؒ کے قدموں میں گر گئے ۔ خواجہ صاحب اس اظہار خیال سے بے حد خوش ہوئے اور آپؒ کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور بیعت فرمائی اور ساتھ فرمایا’’ظاہری تعلیم کی تکمیل بھی ضروری ہے ۔ ‘‘ بعض روایات میں ملتا ہے کہ وقتِ بیعت سلسلہ سہروردیہ کے سرخیل حضرت شیخ بہائو الدین زکریا ملتانیؒ بھی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ بعد از بیعت جب آپؒ کے پیرومرشد خواجہ بختیار کاکیؒ واپس دہلی جانے لگے تو فریدالدین ؒ نے بھی دہلی آنے کی خواہش ظاہر کی لیکن خواجہ صاحب نے ابھی تکمیل علوم و فنون کی تلقین کی اور فرمایا کہ ’’ بے علم درویش بعض اوقات نہایت خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔‘‘

    تکمیلِ علوم کے بعد آپؒ غزنی ، بغداد شریف، افغانستان اور بدخشاں وغیرہ کی سیاحت کرتے رہے ۔ بغداد شریف میں پیرانِ پیر سید نا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مزارِ اقدس پر خصوصی طور پر حاضری دی اور روحانی فیض حاصل کیا۔ دورانِ سیاحت مختلف علاقوں کے علما اور اولیائے کرام سے ملاقاتیں کرتے اور ظاہری و باطنی علوم سے استفادہ حاصل کرتے رہے۔ اسی زمانہ میں آپ نے شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ، خواجہ اجل سنجریؒ، شیخ سیف الدین باخردیؒ، شیخ سیف الدین خضرویؒ اور شیخ فریدالدین ؒ عطار نیشاپوری جیسے اولیائے کرام و بزرگانِ دین سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ اس کے بعد آپؒ دہلی میں اپنے شیخ حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ کی خدمتِ اقدس میں قدم بوسی کے لیے حاضر ہوئے۔ آپؒ کے آنے سے خواجہ صاحبؒ کو انتہائی خوشی و مسرت ہوئی اور آپؒ کو حجرہ خاص سے نوازا گیا۔ خواجہ صاحبؒ آپؒ کی روحانی تربیت ، باطنی اصلاح اور سلوک کی منازل طے کروانے کے لیے مصروف ہو گئے۔

    آپؒکو حقِ بندگی اور خدائے واحد کی عبادت و ریاضت کے پیش نظر زہد الانبیا کا لقب عطا کیا گیا ۔ عبادت و ریاضت میں مشغول ہونے کے حوالے سے ایک نہیں سینکڑوں صفحات درکار ہیں لیکن یہاں مختصر ایک واقعہ پیش کرتے ہیں۔ جب حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ دہلی میں اپنے مرشد کے ہاں مقیم اور عبادت و مجاہدہ میں مصروف تھے تو آپؒ کے دادا مرشد نائب رسولؐ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ، قطب الاقطاب حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ سے ملنے کے لیے دہلی تشریف لائے اور حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ سے ملاقات کے لیے آپؒ خود اُن کے حجرہ میں تشریف لے گئے۔ بابا صاحبؒ کثرتِ عبادت کی وجہ سے اس قدر کمزور اور ناتواں ہو گئے تھے کہ اپنے دادا مرشد کی تعظیم کے لیے کھڑے نہ ہو سکے۔

    خواجہ معین الدین چشتیؒ آپؒ کی یہ کیفیت دیکھ کر بے حد متاثر و خوش ہوئے اور ان کے لیے بارگاہِ ربِ قدوس کے ہاں دعا فرمائی ۔ غیب سے خوش خبری ملی کہ ہم نے فریدالدین مسعودؒ کو دین اسلام کی تبلیغ کے لیے منتخب کرایا ہے اور اس کو برگزیدہ کیا۔ یہی وہ موقعہ تھا کہ جب معین الدین چشتیؒ نے آپؒ کو خلعتِ درویشی عطا کرتے ہوئے روحانی فیض سے بھرپور کیا اور پھر خواجہ بختیار کاکیؒ نے بھی خلافتِ دستار اپنے دستِ مبارک سے شفقت و محبت کے ساتھ آپؒ کے سرمبارک پر رکھی۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے حضرت خواجہ بختیارکاکیؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’قطب الدین ! تم نے ایک عظیم شہباز پکڑا ہوا ہے کہ جس کا آشیانہ سدرۃ المنتہیٰ کے علاوہ اور کہیں نہیں بن سکتا۔‘‘

    دہلی میں آپؒ کی شہرت اس قدر بڑھ گئی کہ آپؒ کے حجرہ مبارک کے باہر آپؒ کی زیارت کے لیے لوگوں کا اچھا خاصا ہجوم ہونے لگا۔ آپؒ نے اس ہجوم اور شہرت کو پسند نہ کیا اور ہانسی تشریف لے آئے۔ آپؒ نے کچھ عرصہ اوچ شریف میں بھی قیام فرمایا۔ رخصت کرتے وقت آپؒ کے مرشد خواجہ بختیار کاکیؒ نے آپؒ سے فرمایا کہ ’’تم میرے وصال کے وقت پر میرے پاس نہیں ہوگے لیکن دو تین روز کے بعد فاتحہ خوانی کے لیے ضرور آئو گے۔‘‘

    چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ خواجہ صاحب ؒ کے وقت وصال آپؒ ہانسی میں ہی قیام فرما تھے۔ وصال کی خبر ملی تو فوری دہلی تشریف لائے، فاتحہ خوانی کی اور مزارِ اقدس کی زیارت کر چکے تو قاضی حمید الدین ناگوریؒ نے حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ کی وصیت کے مطابق امانتیں جس میں خرقہ خلافت، عصا، نعلین اور مصلے وغیرہ تھے، فریدالدینؒ سرکار کو عطا کیں۔

    ان دنوں دیپال پور اور اس سے ملحقہ علاقے کفر و شر کے گڑھ بنے ہوئے تھے۔ حکمران اسلام سے کوسوں دور اور لوگ بے راہ روی کا شکار اور فقرا اور مشائخ عظام کے سخت خلاف تھے۔ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ نے ظلم و ستم کے خاتمہ اور لوگوں کو راہِ راست پر لانے اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے دیپال پور کے قریب علاقہ ’’اجودھن‘‘ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قیام فرمایا۔ یہاں آپؒ نے مکان اور مسجد تعمیر کروائی اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔

    یہاں ایک بہتے ہوئے دریا کی روانی دیکھ کر آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ’’سبحان اللہ ! کیسا پاک پتن ہے۔‘‘ اس دن سے یہ علاقہ پاک پتن شریف کے نام سے مشہور ہو گیا۔

    شروع شروع میں آپؒ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ یہاں کی اکثریت کٹر قسم کے ہندو افراد کی تھی جنھوں نے آپؒ کو بہت ستایا اور بے رخی کا مظاہرہ کیا۔مگرآپؒ نے ہمت نہ ہاری اور استقامت کے ساتھ اپنے کام پر ڈٹے رہے کیوں کہ آپؒ کا مقصودصرف اور صرف رضائے الٰہی تھا نا کہ جاہ و حشمت و شہرت۔

    آپؒ نے عبادت و ریاضت ، علمی تدبر ، فہم و فراست اور حسنِ اخلاق سے لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ یقیناًکسی کو اپنا بنانے کے لیے ’’بے لوث محبت‘‘ اور ’’حسنِ اخلاق‘‘ سے بڑا کوئی اور نسخہ نہیں۔ دینِ اسلام کے سلسلہ میں مسلسل جدوجہد کے بعد آخر کا ر ایک وقت ایسا آیا کہ اس قدر ’’متلاشیانِ حق‘‘ آپؒ کے درِ دولت پر حاضرہوتے کہ آدھی رات تک آپؒ کے ہاں ہجوم رہتا۔آپؒ سب کے ساتھ محبت و اخلاص ، خندہ پیشانی اور مساوات سے پیش آتے۔ سب کو طرح طرح کے کھانے کھلاتے۔ غربا و مساکین کی مدد کرتے اور اپنے در سے کسی کو خالی نہ جانے دیتے۔ آپؒ کے اسی حسنِ عمل سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق آپؒ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہونے لگے۔ روایات میں ملتا ہے کہ آپؒ نے پنجاب میں 35ذاتوں اورگوتوں کو مسلمان کیا۔

    یہ سبھی کچھ تب ہی ممکن ہوا کہ آپؒ نے صرف گفتار سے ہی نہیں بلکہ،’’ عملی نمونہ‘‘ پیش کرتے ہوئے دینِ اسلام کی تبلیغ کا بیڑہ اٹھایا۔ آپؒ اپنے مریدین سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو نماز باجماعت ہی ادا کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا کہ اٹھارہ ہزار عالم میں جو دینی و دنیاوی نعمت ربِ قدوس نے پیدا فرمائی ہے وہ دراصل نماز ہی ہے۔ 

    آخر میں آپؒ کے چند ملفوظات پیشِ خدمت ہیں کہ یہی مضمون کا اصل حاصل ہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ 

٭جو تم سے ڈرتا ہے تم اس سے ڈرو۔
٭اپنے عیب کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھو۔

٭اگر عزت اور سربلندی کے متمنی ہو تو مفلسوں اور شکستہ دلوں کے پاس بیٹھو۔

٭اگر تم ذلیل و رسوا نہیں ہونا چاہتے تو کبھی کسی سے جھگڑا نہ کرو۔

٭جب اہلِ دولت لوگوں کے پاس بیٹھو تو دینِ اسلام کو فراموش نہ کرو۔

٭دنیاوی جاہ و مال کے لیے اندیشہ و فکر نہ ہو۔

٭جاہل اور نادان کو زندہ خیال نہ کر۔

٭باطن ، ظاہر سے عمدہ اور بہتر رکھو۔

٭خدا ترس و زیرکی سپردگی میں ملک دینا چاہیے۔

٭علم دین کی حفاظت و نگہداشت کرو۔

٭آپؒ نے فرمایا کہ ’’چار چیزیں ایسی ہیں جن کے بابت سات سو مشائخ عظام اور بزرگوں سے جب سوال کیا تو سب نے ایک ہی جواب دیا ، اولاً یہ کہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند کون ہے؟ جواب دیا گیا کہ دنیا کو ترک کرنے والا۔ ثانیاً یہ کہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بزرگ کون ہے؟ جواب دیا گیا جو کسی چیز سے متغیر نہ ہو یعنی تسلیم و رضا کا پیکر ہو۔ ثالثاً یہ کہ تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ دولت مند اور مالدا ر کون ہے؟ جواب دیا گیا کہ قناعت کرنے والا۔ اربعاًیہ کہ سب لوگوں میں محتاج کون شخص ہے؟ جواب ملا جو قناعت کو ترک کرتاہے۔

٭ایک مجلس میں آپؒ نے ’’صوفی‘‘ کے متعلق فرمایاکہ ’’حقیقت میں صوفی وہ ہے کہ جس کی برکت کی وجہ سے تمام چیزیں صفائی قبول کریں اور اسے کوئی چیز زنگ آلود نہ کر سکے۔ فرمایا کہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو دل کو غافل کر دیتی ہیں اگر بات اول آخر اللہ تعالیٰ کے لیے ہو تو زبان سے نکالے ورنہ خاموشی بہترہے۔

٭جب خدا کی مقرر کردہ تکلیف ہو تو اُس پر اعتراض نہ کرو۔

٭طریقت کے ساتھ ساتھ احکامِ شریعت کی پابندی بھی ضروری ہے۔

٭طمانیت قلب چاہتے ہو تو حسد سے دور رہو۔

٭خودی کی تکمیل اس عبادت سے ہوتی ہے جس میں ظاہر و باطن دونوں سربسجود ہوں۔

٭ وہی دل حکمت و دانش کا مخزن بن سکتا ہے جو دُنیا کی محبت سے خالی ہو۔

٭جسے لوگ مصیبت کہتے ہیں اُسے محبوب (اللہ) کی طرف سے ایک عطیہ سمجھو محبت کا تقاضا یہی ہے۔

٭انسان کی تکمیل تین چیزوں سے ہوتی ہے۔ خوف ، امید اور محبت ، خوف خُدا گناہ سے بچاتا ہے۔ اُمید اطاعت پر آمادہ کرتی ہے اور محبت میں محبوب کی رضا کو دیکھنا پڑتا ہے۔

٭ درویش وہ ہے جو زبان، آنکھ اور کانوں کو بند رکھے یعنی برُی بات نہ سننے ، نہ کہے اور نہ دیکھے۔
    5محرم الحرام 679ھ کو آپؒ پر بیماری کا غلبہ ہوا، آپؒ نے نماز عشا باجماعت ادا کی اور نماز سے فارغ ہو کر سجدے میں سر رکھتے ہوئے ’ ’ یاحیی یا قیوم‘‘ کا ورد کرنے لگے اور اسی حالت میں آپؒ دنیائے فانی سے رختِ سفر باندھتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

    آپؒ کا سالانہ عرسِ مقدس 5محرم الحرام کو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر آپؒ کے مزارِ اقدس سے ملحقہ ’’بہشتی دروازہ‘‘ کھولا جاتا ہے جس میں سے گزرنا لوگ اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔ عرس کی تقریبات میں نہ صرف پاکستان بھر سے بلکہ بیرون ممالک سے زائرین آپؒ کے آستانہ پر حاضری دیتے ہیں اور فیض پاتے ہیں۔

    دوسری طرف افسوس صدا فسوس اس بات پر کہ آج انھی بزرگوں کے آستانوں اور درباروں پر دہشت گردی اور بم دھماکے ہو رہے ہیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی دینِ اسلام کی روشنی پھیلاتے ہوئے غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کرنے اور بے راہ روی کے شکار لوگوں کو راہِ ہدایت دکھانے میں گزار دی۔
    پروردگارِ عالم کی بارگاہِ مقدس میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے اسلام میں پورا پورا داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور خرافات سے بچتے ہوئے اولیا کرام کے ساتھ محبت اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(آمین)

********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 875