donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Life Sketch Of Holy Person
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mahmood Ahmad Nasrad
Title :
   Khwaja Fariduddin Attar

خواجہ فرید الدین عطار


 ڈاکٹر محمود احمدی نژاد 

    
تاریخ تصوف کی بارہویں صدی عیسوی کے صوفیائے کرام میں خواجہ فرید الدین  عطار ایک اہم ترین ہستی ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری سے بے راہ روعقل کے اندھیروں میں عشق کا چراغ روشن کیا اور اپنی شاعرانہ توانائیوں اور کمال کو عشق الہی کے سوز سے دلوں کے گرمانے کیلئے وقف کیا۔ انہوں نے والہانہ انداز میں اپنے صوفیانہ خیالات کا پرچار کیا اور صوفیانہ شاعری کو وسعت بخشی ۔ خواجہ فرید الدین عطار کی صوفیانہ عظمت نے ان کے صوفیاء اور علماء کیلئے فیضان کا کام کیا ۔

متفرق حالات و واقعات :

خواجہ صاحب کا اصل نام محمد ہے جبکہ کنیت ابوحامد اور ابو طالب ہے اور لقب فرید الدین عطار ہے ۔ اکثر تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ آپ چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں متولد ہوئے البتہ مولانا شبلی نعمانی نے ” شعرالعجم “ میں آپ کی ولادت شعبان 513ھ لکھی ہے ۔ آپ کے والد کا نام ابوبکر ، ابراہیم بن اسحاق ہے جو نیشا پور کے اضلاع میں کد گن نامی ایک گاؤں میں رہتے تھے اور پیشہ عطاری تھا۔  خواجہ فرید الدین نیشا پور ہی میں پیدا ہوئے۔  اس وقت سلاجقہ کا دور حکومت تھا ۔  آپ نے باپ کے پیشے ہی کو اختیار کیا اسی لئے عطار کے نام سے مشہور ہوئے۔  عطار آپ کو دوا فروش ہونے کی وجہ سے بھی کہا جاتا ہے دوا فروشی کے علاوہ آپ مطب بھی کرتے تھے مولانا شبلی نعمانی ” شعرا لعجم “ میں لکھتے ہیں ۔

” خواجہ صاحب کی تصرحیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف عطار نہیں بلکہ طبیب بھی تھے اور بڑے زورو شور کا مطب تھا “

روزانہ پانچ سو آدمی خواجہ صاحب کے مطب میں آتے تھے اپنی مثنوی ” خسرونامہ “ میں لکھتے ہیں ۔

بہ داروخانہ پانصد شخص بودند
کہ در ہر روز نبضم می نمودند
میان آں ہمہ گفت و شنیدم
سخن را بہ ازیں روے  ندیدم
یوں سینکٹروں بیمار ان کے علاج سے شفاء یاب ہوتے ۔

خواجہ فرید الدین عطار بچپن ہی سے درد آشنا تھے آپ نے چھوٹی عمر ہی میں اپنے والد کے مرشد ، مشہور مجذوب قطب الدین حیدر سے فیض حاصل کیا انہوں نے اپنی جوانی کا بڑا حصہ اکتساب علوم ، تہذیب نفس اور شیوخ کی خدمت میں گزارا ۔ تذکرہ دولت شاہ کے مطابق آپ نے خرقہ مختصر مجد الدین بغدادی سے حاصل کیا۔  اعجاز الحق قدوسی ” اقبال کے محبوب صوفیہ “ میں بیان کرتے ہیں ۔

” بعضوں کا بیان ہے کہ وہ اویسی تھے ، مولا نا رومی فرماتے ہیں کہ منصور کا نورڈ یرہ سو سال بعد عطار کی روح میں چمکا اور وہ ان کے مربی ہوئے “

وہ جوانی کی عمر میں تصوف کے مراحل طے کرتے چلے جا رہے تھے مگر دنیوی مشاغل کا سلسلہ مجاہدات دریاضت میں بھی جاری رکھا۔  ان کی تصنیفات سے پتہ چلتا ہے کہ تصوف اور فقر کے اسرار و عرفان کے حقائق پر کتابیں لکھتے رہے ان کی قابل قدر تصانیف ” مصیبت نامہ اور الہی نامہ اسی زمانے کی کاوش ہیں جن کا ذکر وہ یوں کر رہے ہیں ۔

مصیبت نامہ کاند دہ جہان است
الہی نامہ کا سرار عیان است
بہ دارو خانہ ہر دو کردم آغاز
چہ گو یم ، زودر ستم زین وآں باز


اسی طرح خواجہ صاحب نے باوجود فقر اور تصوف کے عطار خانہ اور مطب کا تعلق قائم رکھا اور متعدد کتابیں اسی حالت میں تصنیف کیں۔  یہ ممکن ہے کہ اخیر میں جب جذبہ محبت زیادہ بڑھا تو خود بخود اور چیزوں سے دل اچاٹ ہو گیا اور اسی حالت میں فقیر کا واقعہ پیش آیا ۔ اکثر ارباب تذکرہ اس قصے سے متفق ہیں مولانا جامی ” نفحات الانس ‘ میں اس واقعے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ ایک دن اپنی دکان پر تشریف فرما تھے کہ ایک درویش آیا اور اس نے دکان کے سامنے کھڑے ہو کر چند بارشیاء اللہ کہا ( یعنی اللہ کے نام پر کچھ دو ) آپ اس وقت کام میں سخت مصروف تھے اس لیے درویش کی طرف توجہ نہ دی درویش نے خواجہ فرید الدین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے خواجہ چگونہ خواجہ مرد ( یعنی اے شیخ تم مرو گے کیسے ؟) آپ نے فوراً جواب دیا ” جیسے تم مرو گے “ اس پر درویش نے کہا کہ واقعی تم میری طرح مرو گے تو شیخ نے کہا کہ ہاں درویش کے ہاتھ میں لکڑی کا پیالہ تھا وہ اس نے اپنے سر کے نیچے رکھا اور کہا ” اللہ “ اس کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ درویش اپنی جان ، جان آفرین کے سپرد کر چکا ہے ۔ یہ واقعہ شیخ کے دل پر اس قدر اثر انداز ہوا کہ آپ تمام دنیاوی مشاغل چھوڑ کر راہ حق میں نکل کھڑے ہوئے۔ اس واقعہ نے خواجہ فرید الدین عطار کی قلبی آتش پر ورغن کا کام کیا خواجہ صاحب کی تحاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی عالم میں انہوں نے جستجو نہیں کرتے تھے بلکہ خود بھی معرفت کی منزلیں طے کرتے رہے ۔

مرزا مقبول بیگ بدخشانی ” ادب نامہ ایران “ میں بیان کرتے ہیں “

” اشعار سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے کوفہ ، مصر، دمشق ہندوستان اور ترکستان کی سیاحت بھی کی تھی “

خواجہ فرید الدین عطار اپنی تصنیف ” لسان الغیب “ میں لکھتے ہیں ۔

سربر آوردہ بہ محبوبے عشق
سیر کردہ مکہ و مصرو دمشق
کوفہ دے تاخر اسان گشتہ ام
سیحن و جیحونش راببریدہ ام
ملک ہندوستان وترکستان زمیں
رفتہ چوں اہل خطاا از سوئے چیں

پروفیسر براؤن اپنی تصنیف ” اے لڑیری ہسٹری آف پریشا“ میں مرزا محمد قزوینی کے حوالے سے خواجہ عطار کی کتاب ” مظہر العجائب “ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کتاب سے آپ کے انتہائی شیعہ رجحانات کا پتا چلتا ہے۔  انہی رجحانات کی وجہ سے سمر قند کے ایک عالم نے خواجہ عطار پر کفر کا فتویٰ لگایا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خوارزم شاہی امیر برقان ترکمان کے سامنے ان پر کفر کا الزام لگا کر انہیں جلاوطن کرنے کا مشورہ بھی دیا اس پر آپ مکہ معظمہ چلے گئے اور تمام مکہ کے دوران اپنی کتاب ” لسان الغیب “ تصنیف کی ۔ اس میں اپنے آپ کو ناصر خسرو سے تشبیہ دی ہے یعنی جس طرح ناصر خسرو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر بدخشاں میں عزلت نشین ہوا ، اسی طرح انہوں نے بھی مکہ معظمہ میں گوشہ نشینی اختیار کی لیکن پروفیسر براؤن کے اس خیال سے اس زمانے کے علماء کو اتفاق نہیں ۔

بہر کیف مختلف تذکروں اور خود ان کے آثار نظم و نثر سے معلوم ہوتا ہہے کہ وہ نہ صرف عارفان حق کی صحبت میں رہے بلکہ خود انہوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ تصوف اور سلوک کی منازل طے کرنے میں صرف کیا یہاں تک کہ مقام ارشاد پر فائز ہوئے اور کعبہ اہل دل بن گئے ۔

من آں ملای رومی ام کہ از نطقم شکرزیرو
ولیکن در سخن گفتن غلام شیخ عطار م

مدت حیات اور وفات :

خواجہ فرید الدین عطار نے اپنے دیوان میں اپنی عمر کے متعلق ساٹھ اور ستر سال کی عمر کی طرف اشارہ کیا ہے فرماتے ہیں ۔

مدت سی سال سودہ پختہ ایم
 مدت سی سال دیگر سوختیم
ایک اور جگہ فرماتے ہیں :

چوں زمقصود خودند یدم بوی
سوئے عمرے رہم زیاں آمد
دین ہفتادسالہ داد بیاد
مرد میخانہ مغاں آمد

مزید ان کی عمر کے سلسلے میں درج شعر بھی ان کی دیوان سے نقل کیا جاتا ہے

مرگ درآوردہ پیش وادی صد سالہ راہ 
 عمر تو افگندہ شب برسر ہفتاد ماند

رضا زادہ شفق ” تاریخ ادبیات ایران “ میں لکھتے ہیں کہ آپ نے سو برس کی عمر میں وفات پائی اکثر جدید قدیم تذکرہ نگار 627ھ ہی کو آپ کا سال وفات مانتے ہیں یوں خواجہ فرید الدین عطار کی عمر 114 سال کے لگ بھگ بنتی ہے ۔

 

 ڈاکٹر محمود احمدی نژاد 

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 637