donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Life Sketch Of Holy Person
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Hazrat Ummul Banain Ki Sekhawat

 

حضرت ام البنین کی سخاوت


    ایک خاتون جو اعزاز و اکرام کی چوٹی اور بلندی پر تھیں ، اپنے خدا اور لوگوں کے درمیان (یعنی خلفاء و امرا ء کے) عزت کے جھنڈے بلند کررہی تھیں اور یہ کچھ اس کے لئے محقق بھی ہوگیا، یہ خاتون ام البنین بنت عبدالعزیز بن مروان امویہ قریشیہ تھیں جو عمر بن عبدالعزیز کی بہن اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کی بیوی اور چچا زاد تھیں اور ولید کے بیٹوں عبدالعزیز ، محمد ، عائشہ کو انہوں نے جنم دیاتھا۔


     حضرت ام البنین بنت عبدالعزیز کی سیرت لکھنے والوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ اپنے دور کی با فضیلت خاتون تھیں اور ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے اپنے اوقات کو فقہ اور دوسرے علوم حاصل کرنے میں خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ رہیں۔ حضرت ام البنین نے اکابر علماء اور بڑے تابعین سے علم حاصل کیا۔


     حضرت ابوزرعہؒ نے اپنے طبقات میں شامی عورتوں میں سے جس نے حدیث بیان کی کے تحت لکھا ہے کہ ام البنین عبدالعزیز بن مروان کی بیٹی ہیں ان سے ابن ابی عبلہ نے روایت کی ہے۔ علامہ ابو نصر بن ماکولا نے ’’اکمال ‘‘ میں جن لوگوں نے ام البنین  سے حدیث روایت کی ہے کہ بیان میں لکھا ہے کہ ام البنین بنت عبدالعزیز بن مروان عمر بن عبدالعزیز ؒ کی بہن ہیں، ان سے ابراہیم بن ابی عبلہ نے روایت کی ہے۔


روشن پہلو

     ام بنین بنت عبدالعزیز امور دین کی سمجھ میںبلند مرتبہ پر فائز تھیں ، اسی طرح وہ ابتدا اسلام میں ہی تعریف کی جانے والی عبادت گزار خاتون تھیں، یہ بہت زیادہ نماز پڑھنے والی تھیں اور اللہ تعالیٰ سے مناجات میں مستغرق ہوجاتیں، یہاں تک کہ ارد گرد کے لوگوں کو بھول جاتیں۔ ان سے منقول ہے کہ وہ عام عورتوں اور اپنے گھروں کی عورتوں کو بلواتیں اور ان کے ہاں جمع ہوکر باتیں کرتیں پھر یہ نماز پڑھنے لگتیں تو اللہ کے سامنے لمبا قیام کرتیں اور نماز پڑھنے کے بعد جب ان کی طرف متوجہ ہوتیں تو فرماتیں کہ تم سے بات کرنا پسند کرتی ہوں لیکن جب نماز پڑھنے کھڑی ہوتی ہوں تو میرے ذہن سے نکل جاتا ہے اور میں بھول جاتی ہوں۔


     حضرت ام البنین ؒ ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتیں اور قرآن کریم سے دل لگائے رکھتیں۔ صبح و شام تلاوت کا مشغلہ رہتا، ان کو جب بھی کوئی دیکھتا تو وہ ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرتی اور اللہ کے ذکر میں سرجھکائے ملتیں، انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم ان کے شوہر کے بارے میں بھی بتائیں یعنی ولید بن عبدالمالک جنہوںنے جامع مسجد بنو امیہ بنوائی تھی ہر روز تین مرتبہ قرآن ختم کرتے اور رمضان المبارک میں سترہ مرتبہ قرآن ختم کرتے تھے اور ام البنین اس باعزت فضیلت میں ان کا مقابلہ کرتی تھیں۔


    ان کی اللہ تعالیٰ سے خشیت الگ چیز تھی وہ اس میں عام عورتوں سے مختلف تھیں اور اللہ کے ذکر میں اللہ کی خشیت اور ہیبت اپنے دل میں محسوس کرتی تھیں اور وہ اپنی بصیرت سے یہ سمجھتی تھیں کہ خوش بخت وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اس بارے میں ان کا قول زریں ہے کہ : لوگ چیزوں سے زیب و زینت اختیار کرتے ہیں ان میں سب سے بہتر اور عظیم چیز اللہ کی لوگوں کے دل میں ہیبت ہے۔


    حضرت ام البنین ہر ا س چیز سے جو اللہ کو راضی کرے اور قریب کردے اللہ کا تقرب حاصل کرتی تھیں۔ ان کی روشن زندگی کی ایک تصویر علامہ ابن جوزی ؒ نے ذکر کی ہے کہ یہ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتیں اور اللہ کے راستے میں ایک گھوڑا بھیجتیں یہ تابعیہ تقویٰ اور پرہیز گاری اور اللہ کے خوف کے میدان میں بلند مرتبہ پر فائز تھیں۔ کوئی عورت ان کے درجہ کو نہیں پہنچ سکی ، یہ اپنے امور کو وقت اور عقل کے ساتھ تولتیں اورکوئی سامان یا مال سوائے اس کے جو شرعی طورپر آتا قبول نہیں کرتی تھیں اور ہر اس ہدیہ کو چھوڑ دیتیں جو کسی غیر شرعی جگہ سے آتا ہے۔

     علامہ طبری نے اپنی بہترین کتاب ’’تاریخ الام والملوک‘‘ میں ایک قصہ نقل کیا ہے جو ان کی شدت ورع پر اشارہ کرتا ہے، کہتے ہیں کہ: حضرت ولید بن عبدالملک نے حج کیا اوریمن سے محمد بن یوسف بھی حج پر آیا ہواتھا اور وہ ولید کے لئے بہت سارے تحفے لایا تھا تو ام البنین نے اپنے شوہر سے کہا کہ اے امیر المومنین! محمد بن یوسف کے تحائف مجھے دے دیں تو ولید نے وہ تحائف ام البنین کو دے دینے کا حکم دیا، تو ام البنین کے قاصد ین، محمد بن یوسف کے پاس گئے تو اس نے انکار کردیا اورکہا کہ پہلے انہیں امیر المومنین دیکھیں گے اور ان کی رائے معلوم کی جائے گی اور وجہ تھی کہ تحائف بہت ہی زیادہ تھے۔


    ادھر حضرت ام البنین نے ولید کو کہا کہ امیر المومنین! آپ نے محمد بن یوسف کے ہدایا مجھے دئیے جانے کا حکم دیا تھا،مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں تو ولید نے کہا وہ کیوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے پتہ چلا ہے یہ لوگوں کے مال غصب کرتا ہے اور ان کو مشکل کاموں کا حکم دیتا اور ان پر ظلم کرتا ہے اور یہ غصب شدہ مال محمد بن یوسف ولید کے لئے لایا ہے تو اس نے کہا کہ اللہ کی پناہ! تو ولید نے اسے حکم دیا اور اسے رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان پانچ قسمیں دلوائی گئیں کہ اس نے کوئی چیز غصب نہیں کی اور نہ کسی پر ظلم کیا اورمال بغیر خوشی کے کسی سے نہیں لیا۔ تو اس نے قسم کھالی اور ولید نے تحائف قبول کرکے ام البنین کو دے دئیے تو محمد بن یوسف(جھوٹی قسم کھانے پر) ایسی بیماری میں مرا کہ اس کے جسم کے حصے علیحدہ ہوگئے تھے ۔

حضرت ام البنین کی سخاوت اور فیاضی


    حضرت ام البنین سے جب بھی پوچھا جاتا کہ سب سے اچھی چیزآپ نے کیا دیکھی؟ وہ کہتیں کہ اللہ کی وہ نعمتیں جو اس نے مجھے دیں اور ان کی سیرت میں لوگوں کو زیادہ اچھی بات ان کا فطری فیاض پن لگتی ہے اور ان کے جودو کرم کے قصے ہیں جو ان کی شخصیت کے کمال، ان کی طبیعت کے حسن اور ان کے کمال ادب پر اور اللہ کے انعامات اور نعمتوں پر اس کے شکر اور اعتراف پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ سخاوت انہیں اپنے والد عبدالعزیز بن مروان سے ورثہ سے ملی تھی جو خود بڑے فیاض شخص تھے ، وہ بخل اور بخیل دونوں کی مذمت کرتے تھے اور ان کے بارے میں اقوال بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ بخلاء کے بخل میں اللہ کے ساتھ سو ظن داخل ہوتا ہے ، یہ بڑی خطرناک بات ہے۔


    اور لوگوں کے دلوں میں حضرت ام البنین کے لئے ان کے خصال حمیدہ اور افعال کریمہ اور ان سے اچھے سلوک کی وجہ سے بڑی محبت تھی وہ یہ سمجھتی تھیں کہ خرچ کرنا اور سخاوت کرنا یہ رزق کو زیادہ کرتا ہے۔


     حضرت ام البنین کی سخاوت کی مشہور باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عورتوں کو اپنے ہاں بلواتیں، انہیں بہترین کپڑے پہننے کو دیتیں اور انہیں بہت سے دینار دیتیں اور فرماتیں کہ کپڑے تمہارے لئے ہیں اور دیناروں کو اپنے پر تقسیم کردینا وہ اس سے یہ چاہتی تھیں کہ ان عورتوں کو خرچ کرنے اور سخاوت کی تعلیم و ترغیب دی جائے۔


    حضرت ام البنین کے جودو کرم میں بہت سے اقوال زریں منقول ہیں جو بھلائی اور ا س کے کام کرنے کو بہت پسند کرنے پر دال ہیں، اس بارے میں ان کاایک بہترین قول وہ ہے جو حضرت ابراہیم بن ابی عبلہ نے ذکر کیا ہے، کہتے ہیں:


    ’’میں بخل کواتنا ناپسند کرتی ہوں کہ اگر وہ کوئی کپڑا ہوتا تو میں اسے نہ پہنتی اور اگر کوئی راستہ ہوتا تو اس پر چلتی بھی نہیں۔‘‘۔

    حضرت ام البنین کا یہ عقیدہ تھا کہ سخاوت کا بدلہ دوسرے صالح اعمال کے ساتھ جنت میں دیاجائے گا۔ ان کے حالات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ مال خرچ کرنے اور مشروع راستے میں خرچ کرنے کو وہ بہت پسند کرتی تھیں اور اس پر بھی اللہ کی نعمت کا نزول سمجھتی تھیں اور دراہم ودنانیر کو ان کے گھر کا راستہ معلوم نہ تھا وہ جلدہی انہیں خرچ کردیتی تھیں۔

    ان کی سخاوت کے بارے میں اقوال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر قوم کی کسی چیز کے بارے میں خواہش رکھی گئی ہے اور میری خواہش خرچ کرنے اور عطیہ دینے میں ہے۔ خدا کی قسم صلہ رحمی اور دوسروں کی مدد کرنا مجھے شدید بھوک میں بہترین کھانے اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ پسند ہے۔

    انفاق پر زیادہ حریص ہونے اور مال کو اس کی اصل جگہ میں رکھنے اور بھلائی کے نشان بنانے کی حرص کی وجہ سے ام البنین فرماتیں کہ میں نے کسی سے کسی بارے میں حسد نہیں کیامگر یہ کہ وہ بھلائی کے کام کرتا ہو، بس میں یہ پسند کرتی ہوں کہ اس بھلائی میں اس کیش ریک بن جائوں اور ام البنین کے حیرت انگیز بہترین اقوال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ : بھلائی صرف عمل میں لانے سے حاصل ہوتی ہے۔

    ان کے بھلائی کے کام اور ان پر اعانت کے قصوں میں سے ایک ثریا بن علی بن عبداللہ سے منقول ہے کہ جب ثریا کے شوہر سہیل کا انتقال ہوا یا غالباً اسے طلاق ہوگئی تھی ، یہ حضرت ولید بن عبدالملک کے پاس آئیں وہ اس وقت دمشق میں خلیفہ تھے ، ثریا پر ایک قرض تھا یہ ام البنین کے پاس پہنچی، اتنے میں ولید داخل ہوئے اور کہا کہ یہ تمہارے پاس کون خاتون ہیں۔ ام البنین نے عرض کیا کہ ثریا بنت علی ہے۔ اپنی کچھ ضروریات اور قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں میرے پاس آپ سے مدد لینے آئی ہے تو اس کی ساری ضرورتیں پوری کردی گئیں اور وہ ام البنین کی شکر گزار ہوکر لوٹی۔


حضرت ام البنین کی رفعت مکانی

    ام البنین ؒ اس سے معروف تھیں کہ وہ ایک نافذ رائے رکھتی تھیں اور بہت زیادہ ادب اور اچھی محمود صفات کی حامل تھیں اور اسی لئے ان کے چچا عبدالملک بن مروان ان کے مرتبہ کو ملحوظ رکھتے اور ان کی بڑی عزت توقیر کرتے اور ان کی وجاہت کو متعارف کراتے اور ان کی ضروریات کو پورا کرتے کیونکہ یہ ان کی بھتیجی ان کے بیٹے اور ولی عہد کی شریک حیات تھیں۔

    حضرت ام البنین ہی عبیداللہ بن قیس الرقیات کا عبدالملک سے خون معاف کرانے کا سبب بنیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ عبیداللہ بن قیس مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کی مسلسل مدح کرتا رہتا تھا۔ جب مصعب شہید ہوئے تو اسے خلیفہ نے طلب کرلیا تو انہوں نے عبداللہ بن جعفر طیار سے مدد مانگی کہ شاید وہ عبدالملک کے ہاں ان کی سفارش کردیں تو عبداللہ بن جعفر نے اس کے معاملے کی حقیقت بتلائی کہ تجھ پر ہلاکت ہو، وہ بہت زیادہ تجھے بلا رہے ہیں اور تجھے بہت ہی ڈھونڈ رہے ہیں لیکن میں ام البنین عبدالعزیز کو لکھ دیتا ہوں ۔ عبدالملک ان کی بات بہت مانتا ہے تو عبداللہ بن جعفر نے انہیں لکھا کہ وہ اپنے چچا عبدالملک سے عبیداللہ بن قیس الرقیات کے بارے سفارش کرے۔


    جب ام البنین کو یہ خط ملا تو وہ اپنے چچا کے پاس آئیں اور انہیں سلام کیا۔ عبدالملک نے حسب عادت پوچھا کہ کوئی حاجت ہے تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں چچا جان ایک حاجت ہے تو عبدالملک نے کہا کہ سمجھو تمہاری ہر ضرورت پوری ہوگئی، لیکن ابن قیس رقیات کے بارے میں نہیں تو ام البنین نے کہا کہ امیر المولمنین اس کو مستثنیٰ نہ کریں تو عبدالملک نے ان کے رخسار پر ایک طمانچہ لگایا تو انہوں نے اپنے رخسار پر ہاتھ رکھ لیا اور بہت شدید اثر لیا اور اپنا سرزمین پر رکھ دیا توعبدالملک نے کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھائو، ام البنین میں نے تمہاری ہر ضرورت پوری کی، چاہے وہ ابن قیس رقیات کے بارے میں ہوتو انہوں نے اپنے رخسار سے ہاتھ ہٹایا اور کہا کہ میری حاجت یہ ہے کہ آپ ابن قیس کو امان دے دیں اور اس نے مجھے لکھا ہے کہ میں آپ سے سفارش کروں، عبدالملک نے کہا اسے امان ہے۔


     عبیداللہ بن قیس کو عبدالملک سے امان حاصل ہوگئی۔ وہ ام البنین کا شکر گزار ہوا۔ اس کی وساطت اور سفارش کرنے پر اس کی وجہ سے ایک ظاہر موت ٹل گئی اور اس کی حالت بجائے خوف کے امن اور سکون میں بدل گئی اور اس کے بعد اس نے عبدالملک کی مدح کی وہ قصیدہ بہت مشہور ہے۔


حضرت ام البنین اورحجاج بن یوسف

    اس خاتون کی زندگی کے کئی روشن پہلو ہیں اور محمود فضائل ہیں ، جن سے یہ اچھے فضائل کی حامل خواتین کے پہلے درجے میں جا پہنچیں تو یہ جو کچھ ہم نے پڑھا، اس کے مطابق یہ بیان پر مکمل عبور رکھتیں اور اپنے مقابل کو مضبوط دلائل سے چت کردیتی تھیں اور انہیں ہر ایک پر مضبوط دل پختہ ارادہ عطا ہوا تھا، اسی طرح ایک روشن واقعے سے یہ مشہور ہوئیں اور اس کو اپنی فصاحت اور جرأت سے لگام ڈال دی اور اس کو منطقی دلائل سے خاموش کردیا۔ مختلف کتب تواریخ میں یہ قصہ مذکور ہے۔


     حضرت ولید بن عبدالملک کے پاس حجاج بن یوسف آیا، انہوں نے اسے آنے کی اجازت دی تو وہ اندر داخل ہوا، اس نے کالا عمامہ پہنا ہوا تھا، عربی کمان اور تیر اس نے لٹکائے ہوئے تھے تو ام البنین نے ولید کے پاس کسی کو بھیجا اورپوچھا کہ یہ مسلح دیہاتی کون تمہارے پاس ہے تو ولید نے کہلوایا کہ یہ حجاج بن یوسف ہے تو وہ ڈر گئیں اور دل میں خوف محسوس کرنے لگیں اور کہا کہ اگر تمہارے پاس اکیلے میں ملک الموت آجائے، وہ اس سے بہتر ہے کہ حجاج بن یوسف تمہارے پاس آئے اس نے تو ایک مخلوق اور اہل طاعت کو ظلماً اور دشمنی میں قتل کیا ہے تو حجاج ام البنین کی رائے کو سمجھ گیا اور کہنے لگا۔


    ’’امیر المومنین عورتوں کی میٹھی باتوں اور رنگین اقوال کو خود سے دور رکھو، عورت تو گلدستہ ہے ، وہ ذمہ داری اٹھا نہیں سکتی، آپ انہیں کوئی بات نہ بتلائیں اورنہ ہی کسی راز میں شریک رکھیں، ان کو ان کی زینت سے زیادہ استعمال نہ کریں اور ان سے مشورہ کرنے سے بچتا ، ان کی رائے بے وقعت اور کمزور ہوتی ہے اور ان کی طلب صرف دنیاوی اشیاء کی محبت ہے اورکسی عورت کو کسی امر کا مالک نہ بنا دینا کہ وہ خود سے تجاوز کرجائے اور انہیں اپنے پاس کسی کی سفارش نہ کرنے دینا، ان کے ساتھ زیادہ نہ بیٹھا کریں کہ یہ نہ بیٹھنا آپ کی عقل کو زیادہ رکھے گا اور آپ کی فضیلت کو ظاہر کرے گا۔‘‘


     پھر حجاج وہاں سے اٹھ کر چلا گیاتو ولید بن عبدالملک ، حضرت ام البنین کے پاس آئے اور انہیں حجاج کی باتوں اور رائے کے بارے میں بتلایا تو ام البنین نے کہا کہ اے امیر المومنین میں چاہتی ہوں کہ آپ اسے کل مجھے سلام کرنے کے لئے حاضری کا حکم دیں، اس نے کہا کہ میں کروں گا، دوسرے دن حجاج آیا تو ولید نے کہا کہ ام البنین کو سلام کرکے آئو، اس نے کہا کہ اس سے مجھے معاف رکھیں ، امیر المومنین ولید نے کہا تجھے کرنا پڑے گا ، ا س کے سوا کوئی چار ہ نہیں۔

    حجاج کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ ان کی اپنے بارے میں رائے کو جانتا تھا اور اس سے پہلے محمد بن یوسف کے بارے میں بھی اور ان سے ملنا کسی خیر کی علامت نہیں تھی لیکن اس حکم سے کوئی حیلہ اسے بچا نہیں سکتا تھا اور اس شکل سے نکلنے کاکوئی راستہ بھی نہ تھا۔

    چاروناچار وہ ام البنین کی طرف چلا، ان کی جگہ تک آیا تو وہ بہت دیر تک اندر رہیں، پھر اسے اجازت دی اور اسے کھڑا رکھا، بیٹھنے کی اجازت بھی نہ دی، پھر اس سے کہا تو امیر المومنین پر عبداللہ بن زبیر الاشعت کے قتل کا احسان جتلاتا ہے؟ اور پھر اسے اس کی قباحتیں گنوائیں اور عورتوں کے بارے میں جو اس نے گزشتہ روز ولید کو کہاتھا اس کا جواب دیا اور اس سے اس کی بد صورتی اور بد خلقی کا ذکر بھی کیا اور کہا اب جواب دو۔ اللہ کہنے والے کو قتل کرے اور غزالہ حرور یہ کا نیزہ تیرے دونوں کندھوں کے درمیان پڑے۔ تو مجھ پر شیر ہے اور جنگوں میں شتر مرغ ہے، سخت مصیبت میں سیٹی کی آواز سے ڈر کر بھاگ جاتا ہے تو لڑائی میں غزالہ کے مقابلہ میں کیوں نہ نکلا ، کیا تیرا دل پرندے کے پروں میں تھا۔

    پھر ام البنین نے ایک باندی کو حکم دیا جس نے اس کو سوار کرکے بے یارو مدد گار دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا، جب وہ ولید کے پاس آیا تو ولید نے پوچھا ابو محمد کیا ہوا۔ اس نے کہا امیر المومنین وہ چپ ہی نہ ہوئی اور مجھے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے اچھا لگ رہا تو ولید خوب ہنسا حتیٰ کہ اپنے پائوں زمین پر مارنے لگا اورکہا کہ حجاج یہ عبدالعزیز بن مروان کی بیٹی ہے۔ بہرحال تو یہ تھیں حضرت ام البنین بنت عبدالعزیز تابعی دور کی ایک با فضیلت خاتون ایک اچھے اور محمود خصائل کی مالک جن کی فضیلت اور روشن عقل کی گواہی موجود ہے۔

     اللہ تعالیٰ ام البنین پر رحمت نازل فرمائے جس نے اچھائیوں کے محل بنا ڈالے اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے ، ان کو خوب ثواب عطا فرمائے اور اپنے کرم اور عفو سے ان کی جنت میں داخل فرمائے ۔ آمین (بحوالہ : دور تابعین کی نامور خواتین)

 

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 603