donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Life Sketch Of Holy Person
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hazrat Shaikh Abdul Qadir Jeelani Ki Talimaat


حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی تعلیمات


جو آج کی دنیا کے لئے مشعل راہ ہیں


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ اُن صوفیہ میں سے ایک ہیں جنھیں عالمی شہرت حاصل ہے۔ عہدِ حاضر میںآپ کی تعلیمات سے واقفیت کا واحد ذریعہ وہ کتابیں ہیں جو آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ آپ کی کتابوں میں شریعت پر عمل کی خاص تلقین ملتی ہے۔ اسی لئے ’غنیۃ الطالبین‘ کا بیشتر حصہ فقہی مسائل پر مشتمل ملتا ہے۔ کتاب کے اخیر میں صوفیانہ موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اسی طرح فتوح الغیب‘ میں بھی صوفیانہ اور اخلاقی مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ ہم یہاںانھیں دونوں کتابوں سے ان کے افکارو نظریات پیش کریں گے۔     

اللہ پر بھروسہ

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اور دیگر صوفیہ کی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور توحید کی تعلیم پر دیا جاتا ہے۔ جس انسان کے دل میں اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ موجود ہوگا وہ دوسروں کی بہ نسبت زیادہ خود اعتمادی کا مالک ہوگا۔ وہ ساری دنیا سے بے خوف ہوگا اور حق وانصاف کے معاملے میں کسی کے دبائو میں نہ آئے گا۔ علاوہ ازیں اور بھی کئی خوبیاں ایسے انسان کی شخصیت میں پیدا ہوجائیں گی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’جب بندہ مصائب میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے پہلے وہ کوشش کرتا ہے۔ جب اس طرح نجات نہیں پاتا تو دوسروں مثلاًبادشاہوں، حکام اور دنیا داروں سے مدد طلب کرتا ہے اور اگربیمارہوتو دکھ درد سے بچنے کے لئے طبیبوں سے رجوع کرتا ہے۔ اگر یہ بھی اس کو نجات نہ دلاسکیں تو وہ اپنے خالق ومالک کے دربار میں گڑگڑاکردعاء کرتاہے۔

الغرض جب وہ خود اپنی مشکل سے نجات پاسکتاہے، اس وقت تک دوسرے لوگوں سے مدد طلب نہیںکرتااور جب تک وہ مخلوق سے امداد واعانت اور حاجت روائی پاتا ہے تووہ اپنے خالق کی طرف رجوع نہیںکرتا۔ جب خالق ومالک بھی اس کو نجات نہ دے تو وہ اس کے در پر گرپڑتا ہے اور آہ وزاری کرتا ہے، اور ہمیشہ اسی سے امید رحمت باندھے ہوئے خوف ورجا کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ جب اس پر بھی اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبولیت نہیں بخشتا تو وہ تمام ظاہری اسباب سے تعلق توڑ لیتا ہے۔ ایسے میں اس پر قضا وقدر کا عمل جاری ہوجاتا ہے، جو اسے تمام اسباب وعلائق سے بے نیازکر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ خود مٹ جاتا ہے اور روح باقی رہتی ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسے فاعلِ حقیقی ہی کا عمل جانتا ہے۔ اس طرح وہ توحیدِ کامل کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ الغرض وہ یقین کرلیتا ہے کہ فاعلِ حقیقی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اور ہر حرکت وسکون اسی کی مرضی کے تابع ہے۔ خیروشر، سود وزیاں، جودوسخا اسی کے ہاتھ میں ہے۔اسی طرح نفع یا نقصان، موت وحیات عزت وذلت اور دولت مندی یا محتاجی اسی کے قبضہ وقدرت میں ہے۔‘‘                          

 (فتوح الغیب،مقالہ۳)

تصوف کی ابتدا اور انتہا توحید ہے۔ شرک کو یہاں دخل نہیں۔ اسی کے ساتھ اپنے پیدا کرنے والے مالک پر مکمل اعتماد تصوف میں لازم ہے۔ اس کے بغیر کوئی سالک، صوفی نہیں ہوسکتا۔ ساتھ ہی آدمی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مالک کی مرضی میں راضی رہے اور سراپا پیکرِ تسلیم ورضابن جائے۔ اوپر کے اقتباس میں تمثیلی اندازمیں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آدمی رفتہ رفتہ اللہ کی ذات میں اعتماد کرنے لگتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ابتدا میں اس کا اعتقاد پوری طرح راسخ نہ ہو،مگر دھیرے دھیرے اس میں پختگی آتی جاتی ہے۔ خاص طور پر مصیبتوں اور پریشانیوں میں اس کا اعتقاد مزید پختہ ہوجاتا ہے، جب کوئی اسے سہارا نہیں دیتا تو اسے بس ایک ہی سہارا نظر آتا ہے اور وہ ہے اللہ کا سہارا۔ غیر ارادی طور پر انسانی شعور میں پختگی آتی جاتی ہے اور اس کا ایمان کامل ہوتا جاتا ہے۔  

ہرطرف اسی کا جلوہ
صاحب میرا ایک ہے دوجا کہا نہ جائے
دوجاصاحب جوکہوںصاحب کھڑا رسائے

اللہ ہے اور وہ ایک ہے۔ یہ دعویٰ محض ایک دعویٰ ہی نہیں، بلکہ کائنات کی ہر چیز اس دعوے کی دلیل ہے۔ اگر آدمی غور کرے تو دنیا کی ہر شے بتاتی ہے کہ کسی خالق ومالک کا وجود ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اسی مضمون کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں:

’’عقلمند آدمی کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے وجود اور ترکیب پر غور کرے، پھر تمام مخلوقات اور موجودات پر نظر کرے،اور ان سے ان کے خالق اور ازسرِ نو پیدا ہونے والے پردلائل پکڑے۔ کیونکہ صنعت اور مخلوق اپنے صانع اور خالق کی ہستی پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ تمام موجودات اس کی قدرت وحکمت سے ہیں۔‘‘

 (فتوح الغیب،مقالہ۷۴)

ہر ذرہ چمکتا ہے انوارِ الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

کائنات کا ذرہ ذرہ اِس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہمیں بنانے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہے۔ بغیر بنانے والے کے کسی شے کا وجود نہیں ہوسکتا۔ زمین کے سینے کو چیر کر نکلنے والی گھاس بھی اپنے خالق ومالک کے ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ دنیا کی ہر چیز میں ایک حکمت ودانائی، کاریگری اور کارسازی نظر آتی ہے،جسے کوئی بھی باشعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ اتنی حکمت کے ساتھ اشیاء کو پیدا کرنے والی ہستی خود بھی حکیم ہوگی۔ 

اسی طرح دنیا کا منظم نظام یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اسے چلانے والی ہستی ایک ہے۔ اگر کئی ہستیاں مل کر چلاتیں تو اس نظام میں اختلاف پیدا ہوجاتا اور سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر درہم برہم ہوجاتا۔ ایک ہی ہستی ہے جو زمین، آسمان، چاند، سورج اور ستاروں وسیاروں کے نظام کو چلارہی ہے۔ یہ سب اسی کی مرضی کے تابع ہیں۔ کائنات کی ہر شے مجبورِ محض ہے اور اسی کی مرضی کی پابندہے۔  
تسلیم ورضا

حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

’’اے ! محتاج اگر دنیا اور اہل ِدنیانے تجھ سے منہ موڑ لیا ہے، اگر تو گمنام اور بھوکا پیاسا ہے،اگر برہنہ جسم ،پیاسا جگرہرگوشۂ زمین ،مسجد اور ویرانے سے دھتکارا ہوا ہے،اگر تواسی طرح ہر دروازے سے لوٹایا ہوا ہے، ہر مراد سے محروم ہے۔ اے! شکستہ ارمانوں اور آرزووں سے بھرے دل والے،ہرگز تو یہ بات نہ کہہ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے تنگدست اور محتاج بنایا ہے اور دنیا تجھ سے اٹھالی ہے،اور مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ اس نے مجھے پریشان کیا سکونِ قلب نہیں دیا۔اس نے مجھے رسوا کیا ہے۔ دنیا میں سے کفایت بھر نہ دیا،اس نے مجھے گمنام بنایا۔ میرے بھائیوں اور مخلوق میں مجھے رفعت اور منزلت نہیں بخشی۔ دوسروں کو اس نے اپنی عظیم نعمتیں عطا فرمائیں۔ وہ رات دن اس کی عظیم نعمتوں میں محو ہیں۔ انھیں اس نے مجھ پر اور میرے ہمسایوں پر فضیلت دی ہے۔ حالانکہ ہم دونوں ایماندار اور مسلمان ہیںاور ہماری والدہ حضرت حوا اور ہمارے باپ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ تونے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ یہ سب کیوں کیاہے؟اصل یہ ہے کہ تیری مٹی ریت سے پاک اور عمدہ ہے اور صبر ورضا،علم ویقین اور موافقت کی صورت میں رحمتِ الٰہی کی بارش تجھ پر مسلسل برسنے والی ہے،اور تیرے ایمان وتوحید کی روشنیاں جمع ہونے والی ہیں۔ تیرے ایمان کا درخت اپنی بنیاد اور جڑ کے اعتبار سے مضبوط ،قائم اور ثمردار بڑھنے والا گھنا اور بلند شاخوں والا ہے۔ اس میں ہر روز زیادتی اور نموہے۔ لہٰذا اسے پرورش کے لئے کسی کھاد وغیرہ کی ضرورت نہیںہے۔اللہ تعالیٰ نے تیرے معاملے کو اس پر پورا کردیااور تجھے آخرت میں جنت عطا فرمائی اور تجھے اس کا مالک بنا یا۔اسی طرح وہ آخرت میں تجھے ایسی نعمتیں عطا فرمائے گاکہ نہ اسے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل پر ان کا وہم وگمان گزرا ہے۔‘‘

 (فتوح الغیب، مقالہ۲۵  ) 

دنیاوی دولت کی کمی،عیش وعشرت کے سامان کی قلت اور ظاہری جاہ وحشم کا نہ ہونا اس بات کی علامت نہیں کہ بندے کی طرف اللہ کی نگاہِ رحمت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کو اللہ نے دنیا کی دولت دی ہے اور تیرے لئے آخرت کی نعمتوں کو پسند فرمایا ہے۔ عام طورپر دنیاوی شان وشوکت سے محرومی کے سبب لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ انھیں مایوسی ہونے لگتی ہے اور دوسروں کو اچھی حالت میں دیکھ کر وہ خود پر اور اپنی قسمت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیںمگر یہ کوئی مایوسی کی بات نہیں بلکہ ایسے حالات میں انسان کو صبر کرنا چاہئے اور اسے یہ سوچنا چاہئے کہ کسی کو اگر اللہ نے دنیا میں جاہ وحشمت عطا فرمائی ہے تو مجھے آخرت میں عطا فرمائے گا۔ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے مگر آخرت کی دائمی ہے۔ پھر ناشکری کرنے سے تو حالات نہیں بدل جاتے ، اب ایسے میں ناشکری کا مظاہرہ کرنے سے کیا فائدہ۔ البتہ تکلیف دہ حالت میں بھی اللہ کے سامنے صبر ورضا کے مظاہرے سے اس کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ بعض لوگ تو دنیاوی نقصان اور خود کو دوسروں کے مقابلے کمتر محسوس کرکے ڈپریشن کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈپریشن کے شکار مریض دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں ہیںاور دن بہ دن ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس مرض کا سب سے بڑا سبب اللہ کی مرضی میں راضی نہ ہونا ہے۔ اچھے برے حالات زندگی کا حصہ ہیں جو اللہ کی طرف سے مقدر ہیں۔ انسان چاہ کر بھی انھیں نہیں بدل سکتا ،ایسے میں اس کی مرضی کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کرنا ،ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ توحیدِخالص بھی یہی ہے کہ انسان ہرحالت میں اللہ کی مرضی کے آگے سرِتسلیم خم کردے۔ اس کی مرضی میں راضی رہے۔ 

قدم قدم پہ مرے پاؤں ڈگمگاتے ہیں 
شکستہ حال ہوں مجھ کو سنبھال دے اللہ

مومن کی صفات

ایمان والے کے اندر بہت سی صفات ہونی چاہیئں۔ ان صفات کے بغیر انسان، کامل مومن نہیں ہوسکتا۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان صفات کو تین سطروں میں بیان کردیا ہے۔لکھتے ہیں:
’’ ہر مومن مسلمان کے لئے تمام حالات میں تین باتوں پر مضبوطی سے قائم رہنا ضروری ہے۔

اول،اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ہے۔
دوم، تمام ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرنا ہے۔
سوم، جوکچھ اللہ رب العزت سے مقدر ہے اس پر راضی رہنا۔‘‘

(فتوح الغیب،مقالہ ،۱)

اصل میں ان تین سطور میں بہت بڑی بڑی شرطیں بیان کردی گئی ہیں۔ایمان کی ابتدا ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ آدمی اللہ کی ذات وصفات کا اقرار کرتے ہوئے، اسکے تمام احکام پر عمل کا پختہ ارادہ کرلے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ مومن بھی رہیں اور غیراللہ کے احکام کی پابندی بھی کریں۔ قانون بنانے کا حق اللہ کا ہے،بندوں کا نہیں اور اللہ نے اپنے قوانین کا مجموعہ ہمیں قرآن کی شکل میں دے دیا ہے، اب ان احکام وقوانین کے مقابلے کسی دوسرے قانون کی گنجائش نہیں بچی۔ ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ اسی پر عمل کرے۔ بغیر اس کے وہ مکمل مومن نہیں ہوسکتا۔ مومن کے لئے دوسرا حکم یہ ہے کہ وہ تمام ناپسندیدہ باتوں کو چھوڑ دے۔جو ناپسندیدہ یا دوسرے لفظوں میں ناجائزوحرام افعال ہیں ،ان کی نشاندہی بھی قرآن میں کردی گئی ہے۔ ان کاموں سے اجتناب کرنا ہرمومن کے لئے ضروری ہے۔ مومن کے لئے تیسرا حکم یہ ہے کہ وہ اللہ کی مرضی میں راضی رہے۔ اصل میں اِس دنیا میں بہت سے مسائل صرف اس لئے جنم لیتے ہیں کہ انسان اللہ کی مرضی میں راضی نہیں رہتا۔ اس کے اثرات اس کی ذہنی حالت پر بھی پڑتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ مومن اللہ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دے۔ توحید کی تکمیل بھی تب ہی ہوتی ہے جب بندہ مکمل طور پر اللہ کی مرضی کے تابع ہوجائے۔

مومن کی آزمائش

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے مومن بندہ کو اس کی قوت ایمان کے مطابق آزمائش میں ڈالتا رہتا ہے،تو جس کا ایمان زیادہ قوی ہوتا ہے اس کی آزمائش بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔ رسول کی آزمائش نبی کی آزمائش سے بڑھ کرہوتی ہے، کیونکہ رسول کا ایمان نبی کے ایمان سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ پھر نبی کی آزمائش ابدال سے زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ اس طرح ابدال کی آزمائش ولی کی آزمائش سے زیادہ ہے، کیونکہ ہر ایک کی آزمائش اس کے ایمان ویقین کی پختگی کے مطابق ہے۔ اس کی بنیاد رسول کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے ،بیشک ہم گروہِ انبیاء کی مصیبت وآزمائش عام لوگوں سے سخت تر ہوتی ہے۔‘‘

(فتوح الغیب،مقالہ۲۲ )

ہر آدمی کی زندگی میں کچھ اونچ نیچ آتا رہتا ہے مگر جو لوگ ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں، ان پر آزمائشوں کے دور بھی زیادہ آتے ہیں۔ سب سے پختہ ایمان رسولوں کا ہوتا ہے،پھر انبیاء کا گروہ ہے۔ لہٰذا اس جماعت کی آزمائش بھی اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ سب سے سخت تر آزمائش۔ تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء ورسل کو ان کی قوموں نے کس کس طرح سے ستایا۔ کسی کو آرے سے چیرا گیا تو کسی کو پانی میں ڈبویا گیا۔ کسی کو اپنا گھربار چھوڑنا پڑا تو کسی کو سولی پر چڑھانے کی کوشش ہوئی۔ نبی آخرالزماں ﷺکو طائف کی گلیوں میں اس قدر پتھر مارے گئے کہ آپ کا پورا جسم لہو لہان ہوگیا۔ آج بھی اگر کوئی انسان سچائی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اس کے راستے میں دشواریاں کھڑی کی جاتی ہیں۔طرح طرح سے اسے ستایا جاتا ہے ،پریشان کیا جاتا ہے اور زندگی دوبھر کردی جاتی ہے،لیکن سچے انسان کی خوبی یہی ہے کہ وہ ان آزمائشوں سے گزرتا جاتا ہے اور کبھی سچائی اور ایمانداری کے راستے سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا۔

دنیاوآخرت

دنیا میں آدمی جو کچھ کرے گا اس کی جزا یا سزا اسے آخرت میں ملے گی۔ اس لئے دنیا میں کوئی بھی

مل کیا جائے اس کے نتیجے پر نظر رکھ کر۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’تو اپنی آخرت کو اصل سرمایہ اور اپنی دنیا کو اس کا نفع بنا۔ تو سب سے پہلے اپنا وقت آخرت کے حصول میں صرف کر۔ ہاں اگر اس سے کچھ وقت بچ جائے تو اسے ذریعۂ معاش کی طلب میں صرف کر اور اپنی دنیا کو اصل مال اور آخرت کو اس کا نفع نہ بنا، پھر اگر کچھ وقت بچ رہے تو اسے کارِ آخرت میں صرف کر۔ پانچ وقت کی نمازیں اور دیگر ارکان وواجبات اطمینان وتسلی کے بغیر جلدی جلدی ادا کرے یا بار وتکلیف سمجھتے ہوئے، سرے سے ادا ہی نہ کرے اور سو جائے۔ تیری شب لہوولعب میںاور دن خواہشات کی پیروی میںگزرجائے۔اور تو شیطان کی پیروی کرنے والا دنیا کے بدلے آخرت کو بیچنے والا،نفس کا غلامِ بے دام بن جائے حالانکہ تجھے نفس کومغلوب کرنے، اسے سلامتی کے راستوںپر چلانے کا حکم دیا گیاہے اور وہ سلامتی کے راستے اس کے مولیٰ کی عبادت کے راستے ہیں۔‘‘

 (فتوح الغیب،مقالہ۳۶ )

انسان، اس دنیا میں دنیا کمانے نہیں آیا ہے بلکہ آخرت کمانے آیا ہے۔ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے دوبارہ نہیں ملتی،لہٰذا عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ آدمی اس زندگی کو غنیمت جانے اور اسے اللہ کی عطا تصور کرتے ہوئے، اس کا استعمال آخرت بنانے کے لئے کرے۔ جہاں دنیا کاہرشخص ’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘ میں یقین رکھتا ہو وہاںآخرت رخی زندگی گزارنا مشکل ہے، مگر جو لوگ آخرت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ،وہ اسی عالم میں دوسروں کے برعکس ایک بامقصد زندگی جیتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے اس سلسلے میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ، دنیا وآخرت دوسوکنیں ہیں کہ اگر ایک کو راضی کرے گا تو دوسری تجھ سے ناراض ہوجائے گی۔ وہ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’جو شخص آخرت کی بھلائی چاہتا ہے اسے چاہئے کہ نفس اور اسبابِ دنیاوی سے بے رغبت ہوجائے۔‘‘    

(فتوح الغیب،مقالہ۵۴ )

اوپر کے اقتباس میں دنیاوی اسباب کو چھوڑنے کی بات نہیں کہی گئی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ رہبانیت کی بات ہوتی۔ یہاں صرف بے رغبتی کی بات کہی گئی ہے۔ تصوف میں رہبانیت کا نہیں ،صرف بے رغبتی کا حکم ہے۔ اسباب تو زندگی کا حصہ ہیں۔ زندگی قائم رکھنے کے لئے ان کی ضرورت ہے،لیکن بے رغبتی سے آدمی ،مادہ پرستی اورزرپرستی سے بچ سکتا ہے، جو آخرت کی بھلائی کے لئے لازم ہے۔       

مال و دولت

مال ودولت انسان کی ضرورت کی چیزہے۔ اس کے بغیر زندگی نہیں گزرسکتی۔ صوفیہ کا خیال ہے کہ آدمی صرف اتنی دولت حاصل کرے،جتنی کہ اس کی ضرورت کے لئے کافی ہو۔ اسی کے ساتھ اسے چاہیے کہ جب اللہ دولت دے تو وہ اس کی محبت میں کھو کر اللہ کوفراموش نہ کرے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’جب اللہ تعالیٰ تجھے مال وجائداد عطا فرمائے تو اس مال ودولت کی وجہ سے اس کی عبادت سے منہ پھیرے تو اللہ تعالیٰ تجھے دنیاوآخرت میں حجاب قائم کردے گا۔ اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرا مال ودولت چھین لے اور تیرا حال بدل دے اور منعم حقیقی سے منہ موڑکر اس کی دی ہوئی نعمت میں مشغول ہونے کی سزا کے طور پر وہ تجھے محتاج کردے۔ اگر تونے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی بجاآوری میں مال ودولت کو حائل نہ ہونے دیاتو وہ مال، دولت ہمیشہ کے لئے تجھے بخش دیا جائے گا اور اس میں ذرہ بھر بھی کمی نہ ہوگی۔تو اپنے مولیٰ کریم کا خادم اور مال ودولت تیری خادم ہوگی،پھر تو دنیا میں نازونعمت کی زندگی بسر کرے گا اور آخرت میں عزت واکرام اور خوشحالی سے جنت الماویٰ میں صدیقین ،شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔‘‘

(فتوح الغیب،مقالہ۱۲)

دولت بھی اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے مگر تب جب اس کا استعمال آخرت کمانے کے لئے کیا جائے۔ اگر اسے دنیا کی عیش وعشرت پر خرچ کیا جائے یا برے کاموں میں لگایا جائے تو یہ دولت مصیبت بھی بن جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ دولت انسان کو اس کے پروردگار سے غافل بھی کر دیتی ہے۔ یہ غفلت دولت کے زوال کا سبب بن سکتی ہے اور شکر کے سبب یہ برقرار رہ سکتی ہے۔ اس لئے اگر دولت مل جائے تو آدمی کو دولت دینے والے مالک سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دولت پر خدا کا شکر ادا کرنے سے آخرت کا بھی بھلا ہوگا۔

حسد کی برائی

حسد اور جلن ایک قسم کی نفسیاتی برائی ہیں۔ حسدسے آدمی کا کچھ بھلا نہیں ہوتا بلکہ الٹا وہ اپنے اندر کی آگ میں جلتا اور کڑھتا رہتا ہے۔ اس برائی کو صوفیہ پسند نہیں کرتے ۔ تصوف میں تو ہر شخص کی خیر خواہی کا حکم ہے۔ یہاںہر کسی کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کو کہا گیا ہے۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ للہ علیہ فرماتے ہیں:

’’اے مومن! کیا بات ہے میں تجھے اپنے ہمسائے کا حاسد دیکھتا ہوں۔ تو اس کے کھانے، پینے ، لباس ومکان، عورت ومال اور مولیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی عطا پر حسد کرتا ہے۔ تجھے معلوم نہیں،حسد ایک خطرناک مرض ہے،جو ایمان کو کمزور اور مولیٰ سے دوراوراللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث ہے۔ کیا تونے رسول اکرمﷺکی وہ حدیث نہیں سنی کہ بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ، حسد کرنے والا میری نعمتوں کا دشمن ہے۔‘‘  

(فتوح الغیب، مقالہ ۳۷)

ہر آدمی کو اس کے مقدر کا حصہ ملتا ہے۔ نہ اس میں ذرہ برابر کمی ہوتی ہے اور نہ بیشی۔ جب کسی کو اس کے حصہ کی نعمت ملی ہے تو اس کی بربادی کی آرزوکرنا گویا اللہ کی مرضی میں راضی نہ ہونا ہے۔ انسان جس طرح اپنے لئے اچھی خواہش رکھتا ہے اسی طرح دوسروں کے لئے بھی اسے اچھی خواہش رکھنی چاہئے۔ دوسروں کا برا چاہنا تنگ نظری کی بات ہے اور اخلاقی خرابی ہے۔ دوسروں کی برائی چاہنا انسانیت کے خلاف بھی ہے۔ ویسے بھی کسی کے چاہنے سے کسی کا برا نہیں ہوسکتا تو پھر کیا حاصل کسی کی برائی کی چاہت کرکے۔ 

ہم سے مجبور کا غصہ بھی عجب بادل ہے
اپنے ہی دل سے اٹھے اپنے ہی دل پر برسے


٭٭٭

  

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 782