donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Life Sketch Of Holy Person
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Makhdoom Bihar Shaikh Sharfuddin Yahya Maneri



مخدوم بہار شیخ شرف الدین یحیٰ منیری


جن کی زندگی انسانیت کی خدمت میں گزری


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 


مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمتہ اللہ علیہ کا علم ظاہر و باطن میں اعلیٰ مقام ہے۔ آپ علوم شریعت و طریقت کے بحر بیکراں اور رشد و ہدایت کے سرچشمہ تھے۔ آپ سے ایک دنیا فیضیاب ہوئی اور آپ کے مکتوبات و ملفوظات اور تصنیفات و تالیفات سے آج بھی فیضان کا سلسلہ جاری ہے۔ دلی تو صوفیہ و علماء کا مرکز تھی مگر آپ نے جس علاقے کو رشد و ہدایت اور اصلاح کے لیے منتخب کیا وہ ایک دور افتادہ علاقہ تھا۔ یہاں اصلاح و تربیت کی زیادہ ضرورت تھی۔ ایک مشکل کام کا آپ نے بیڑا اٹھایا اور اسے انجام تک پہنچایا۔

خاندانی پس منظر:

مخدوم شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری علیہ الرحمہ کے اجداد بیت المقدس سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ یہ خاندان بیت المقدس کے محلہ قدس خلیل کا رہنے والا تھا۔ خاندان کے سربراہ امام محمد تاج فقیہ علیہ الرحمہ ریاست بہار کے منیر نامی قصبہ میں آئے جو پٹنہ سے قریب واقع ہے۔ اسی قصبے کی مناسبت سے شیخ شرف الدین یحیٰ کو منیری کہا جاتا ہے۔آپ کے خاندان کا یہاں کے راجہ سے معرکہ ہوا اور جیت کے بعد یہ خاندان یہیں مقیم ہو گیا۔ یہ ۵۷۶ھ کی بات ہے۔ امام محمد تاج فقیہ کے تین صاحبزادے تھے جن کے نام شیخ اسرائیل، شیخ اسمٰعیل اور شیخ عبدالعزیز تھے۔ خاندان کے سربراہ تو واپس بیت المقدس چلے گئے مگر ان کے لڑکے یہیں رہے۔ شیخ اسرائیل کی شادی شیخ شہاب الدین سہروردی پیر جنگجوت کی صاحبزادی بی بی رضیہ سے ہوئی تھی۔ شیخ شہاب الدین سہروردی بلند پایہ صوفی تھے اور انھوں نے کاشغر کی حکومت ترک کر کے راہ سلوک اختیار کیا تھا۔ شیخ اسرائیل ہی مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے والد محترم ہیں۔

ولادت:

مخدوم کی ولادت ۲۶ یا ۲۹ شعبان المعظم ۶۶۱ھ کو ہوئی۔ آپ نے نواحِ پٹنہ کے قصبہ منیر کو اپنے قدموں سے شرف آگیں فرمایا۔ تب دلی میں سلطان ناصرالدین محمود تخت نشیں تھا اور حضرت نظام الدین اولیاء اپنے مرشد بابا فریدالدین گنج شکر سے روحانی تربیت لے رہے تھے۔

تعلیم و تربیت:

حضرت مخدوم نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ انتہائی پاکیزہ تھا۔ ہر طرف دینداری اور روحانیت کی فضا تھی۔ آپ کی والدہ خود ولیہ تھیں اور بعض روایتوں کے مطابق اس قدر متقی تھیں کہ بغیر وضو اپنے ہونہار بچے کو دودھ نہیں پلاتی تھیں۔ آپ کے والد، دادا اور نانا بھی انتہائی پاکیزہ خصلت بزرگ تھے۔ اسی روحانیت کے ماحول میں آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہونے لگی۔ اس دوران قصبہ منیر میں ایک ایسے عالم و ماہر فن کی آمد ہوئی جن کے علم کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تھے علامہ اشرف الدین ابو توامہ جو بخارا کے رہنے والے تھے۔ وہاں سے دلی تشریف لائے اور جب ان کا علمی شہرہ ہر طرف ہونے لگا، دور دراز سے تشنگانِ علم جمع ہونے لگے تو سلطان غیاث الدین بلبن نے انھیں دلی چھوڑ کر سنار گائوں (بنگال) چلے جانے کا حکم دے دیا۔ سنار گائوں جاتے ہوئے ابو توانہ منیر میں ٹھہرے اور یہیں مخدوم بہار کی ملاقات ہوئی۔ آپ کے خاندان نے علامہ کی خوب خاطر تواضع کی اور استاد و شاگرد ایک دوسرے کے قریب ہو گئے۔ یہ اگرچہ آپ کے بچپن کا زمانہ تھا مگر علمی تشنگی سے مجبور ہو کر والدین کی اجازت سے استاد کے ساتھ چل پڑے۔ علامہ ابو توامہ نے سنار گائوں پہنچ کر ایک مدرسے اور خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور آخری عمر تک یہیں درس و تدریس کے کام انجام دیتے رہے۔ مخدوم صاحب نے اپنے استاذ کے ساتھ بائیس سال گزارے اور خود بھی مختلف علوم و فنون میں استاد کامل بن گئے۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ اور علم کلام کے علاوہ عقلی علوم میں منطق و فلسفہ اور ریاضیات کی تکمیل کی۔ اسی کے ساتھ روحانی تربیت بھی ہوتی رہی۔ آپ نے علمی اور روحانی دونوں میدانوں میں بلند مقام پایا۔

شادی:

مخدوم صاحب نے جب تمام علوم میں ید طولیٰ حاصل کر لیا تو آپ کے استاد علامہ ابو توامہ نے اپنی لخت جگر کے ساتھ نکاح کر دینا چاہا۔ اپنے استاد کی دلجوئی ملحوظ خاطر تھی لہٰذا آپ نے نکاح کر لیا اور پھر ایک بچے کے باپ بھی بن گئے۔ بچے کا نام مخدوم ذکی تھا۔ کچھ دن بعد جب آپ کو خبر ملی کہ منیر میں آپ کے والد انتقال کر چکے ہیں تو مخدوم ذکی کے ساتھ اپنے وطن آ گئے۔

شیخ کی خدمت میں:

مخدوم صاحب کے دل میں معرفت حق کی آگ سلگ رہی تھی۔ آپ نے تعلیم تو حاصل کر لی تھی مگر روحانیت میں تکمیل باقی تھی۔ تلاش و جستجو آپ کی فطرت میں تھی۔ لہٰذا منزل تک پہنچے بغیر دم لینا مزاج کے خلاف تھا۔ منیر میں زیادہ مدت تک ٹھہر نہیں پائے اور والدہ سے اجازت لے کر روحانیت کی تکمیل کے لیے نکل پڑے۔ تب دلی نہ صرف دارالسلطنت تھی بلکہ روحانی مرکز بھی تھی۔ حضرت نظام الدین اولیاء کا شہرہ بام عروج پر تھا اور بڑے بڑے مشائخ یہیں جلوہ افروز تھے۔ مخدوم علیہ الرحمہ نے دلی میں مشائخ سے ملاقاتیں کیں اور روحانیت میں گفتگو کی مگر آپ کی جستجو کو قرار تب ملا جب حضرت نجیب الدین فردوسی علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی۔ مرشد کامل بھی گویا آپ ہی کے منتظر تھے۔ ایک طرف مرشد کو دیکھ کر آپ پسینہ پسینہ ہو رہے تھے اور جسم پر لرزہ طاری تھا تو دوسری طرف مرشد کا انتظار گویا ختم ہونے کے قریب تھا۔ طالب صادق کو دیکھتے ہی فرمایا ’’آئوآئو۔۔۔ درویش! برسوں سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں تاکہ تمہاری امانت تمہارے سپرد کروں۔‘‘ اچانک تڑپتے دل کو قرار آ گیا۔ جیسے مسافر کو منزل مل گئی ہو، جیسے دریا سمندر سے ہم آغوش ہو گیا ہو، جیسے آنسوئوں کو کوئی دامن مل گیا ہو۔ ایک دوسرے کے تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ روح نے روح کو پہچان لیا تھا۔ بلاتاخیر حضرت نجیب الدین فردوسی نے مخدوم کے ہاتھ کو ہاتھ میں لے کر کاملیت کے مقام تک پہنچا دیا اور بیعت و خلافت کے ساتھ ساتھ شجرہ و خرقہ بھی عطا فرما دیا۔ کچھ نصیحتیں لکھ کر دیں اور الوداع کہا۔ مخدوم صاحب نے کچھ دن قیام کی اجازت چاہی مگر نہیں ملی۔ حکم ہوا وقت کم ہے۔ جلد رخصت ہو جائو اور ہاں راستے میں کوئی ایسی ویسی بات سننے کو ملے تو دلی واپس نہ آنا۔

مرشد کے حکم سے اب سرتابی کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا وطن کی طرف چل پڑے۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ آپ کے بڑے بھائی بھی تھے۔ سفر کے دوران ہی مرشد کے انتقال کی دلدوز خبر ملی مگر حکم سے مجبور تھے۔ اب دلی واپس نہیں ہو سکتے تھے۔ سفر جاری رکھا۔ راستے میں ایک جنگل ملا جسے بہیا کا جنگل کہا جاتا تھا۔ یہ ضلع شاہ آباد میں تھا۔ یہاں آپ نے مور کی آواز سنی تو بیخودی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ حالت جذب میں آ گئے اور مستانہ وار نعرہ بلند کرتے ہوئے جنگل میں غائب ہو گئے۔ آپ کے بھائی نے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ تھک ہار کر گھر واپس آئے اور والدہ محترمہ سے واقعہ بیان کیا۔ والدہ کو صدمہ تو بہت ہوا مگر صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

بہار شریف میں:

بہار شریف ضلع نالندہ میں واقع ہے اور پٹنہ سے قریب ہے اس کی شہرت ساری دنیامیںحضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی نسبت سے ہے۔ سوانح نگاروں کے مطابق مخدوم کے غائب ہونے کے تقریباً چالیس سال بعد آپ کو راجگیر کے جنگل میں دیکھا گیا۔ یہ چالیس سال آپ نے کہاں اور کن حالات میں گزارے کوئی نہیں جانتا البتہ مشہور ہے کہ ان چالیس سالوں میں آپ نے دشت و بیابان میں رہ کر بڑے مجاہدے کیے واللہ اعلم بالصواب۔ جب راجگیر کے جنگل میں آپ کے ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو عقیدتمندوں کا ہجوم بڑھنے لگا اور پھر آپ نے یہاںسے قریب بہار شریف کے مقام پر قیام کر کے اصلاح امت، اشاعت دین اور اصلاح نفس کا کام شروع کیا۔

خدمات:

حضرت مخدوم نے تقریباً ایک سو بیس برس کی طویل عمر پائی۔ اس دوران آپ نے بڑے پیمانے پر رشد و ہدایت درس وتدرس اور تبلیغ دین کا کام کیا۔ عمر عزیز کے تقریباً ستر سال حصول علم اور جنگل و بیان میں بیتے۔ مگرباقی پچاس سال بہار شریف میں بندگان خدا کی خدمت میں گذرے۔ ان پچاس سالوں میں بڑے پیمانے پر آپ نے رشد و ہدایت کا کام کیا۔ چونکہ آپ بنیادی طور پر ایک متبحر عالم تھے اور مختلف علوم و فنون میں دسترس رکھتے تھے لہٰذا آپ کا علمی کارنامہ بھی نمایاں ہے۔ بہت سے تشنگانِ علوم نے آپ سے فیض پایا۔ دور دراز علاقوں سے طلباء حصول علم کے لیے آتے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر جاتے۔ علم تفسیر میں آپ کو کامل مہارت تھی اور قرآن کے مشکل مقامات کو بھی آپ آسانی سے سمجھا سکتے تھے۔ سخت سوالوں کے جواب سہل انداز میں دے سکتے تھے۔ آپ کی گفتگو آسان اور عام فہم زبان میں ہوتی تھی جسے کم علم شخص بھی سمجھ سکتا تھا۔ تفسیر زاہدی آپ کی نظر میں ایک معتبر تفسیر تھی۔ علاوہ ازیں تفسیر کبیر کی بھی تعریف کرتے تھے۔

حضرت مخدوم کو علم حدیث میں دستگاہ حاصل تھی اور بڑے بڑے ماہرین آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا باعث فخر سمجھتے تھے۔ آپ نے علم حدیث کی اشاعت کا بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اللہ نے آپ کو فقہ میں بھی مہارت عطا فرمائی تھی اور قرآن و احادیث سے مسائل کے استنباط میں اجتہاد کے درجے پر فائز تھے۔ مگر دیگر فقہاء کی طرح سخت گیر نہیں تھے اور فطرت انسانی کے تقاضے کو سمجھتے تھے۔

دینی علوم کے علاوہ فلسفہ و حکمت میں بھی آپ کو دخل تھا اور بعض اوقات اپنی تحریروں میں بلند پایہ فلسفی نظر آتے ہیں۔ کئی بار منطق کا سہارا لے کر بھی گفتگو کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ علم کلام کی گتھیاں سلجھاتے ہیں اور حسب ضرورت ریاضی و ہندسہ کے مسائل بھی حل کرتے ہیں۔ الغرض آپ کی شخصیت مختلف علوم و فنون کی جامع تھی مگر سب سے نمایاں پہلو تصوف اور روحانیت کا تھا۔

تصنیفات:

حضرت مخدوم علیہ الرحمہ صاحب دل، صاحب زبان اور صاحب قلم تھے۔ آپ کی تصنیفات آج بھی بندگانِ خدا کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ ان تصنیفات میں جہاں ایک طرف طریقت کے اسرار و رموز اور نکات کا بیان ہوتا ہے وہیں دوسری طرف شریعت کے احکام کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ کہیں فلسفہ و منطق کی گتھیاں سلجھائی جاتی ہیں تو کہیں روحانیت کے درجات بتائے جاتے ہیں۔ آپ کی تصنیفات میں ایک کتاب شرح آداب المریدین ہے۔ آداب المریدین، حضرت ابوالنجیب سہروردی علیہ الرحمہ کی تصنیف ہے جس کی شرح آپ نے تحریر فرمائی ہے۔ یہ کتاب علم تصوف میں ہے۔ تصوف کے موضوع پر ایک رسالہ ’ارشاد الطالبین‘ کے نام سے آپ نے لکھا تھا۔ مسئلہ توحید پر ایک اہم کتاب ’’ارشاد السالکین‘‘ آپ نے تصنیف فرمائی۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نور حق کی جلوہ گری کائنات کے ذرے ذرے میں پائی جاتی ہے اور حقیقت واحدہ مختلف صورتوں میں ہر جگہ جلوہ گر ہوتی ہے۔ ’’رسالہ مکیہ و ذکر فردوسیہ‘‘ میں ذکر و فکر کی ہدایتیں ہیں اور طریقے بتائے گئے ہیں۔ ’’فوائد المریدین‘‘ میں احکام شریعت کا بیان ہے اور ان کے فضائل بتائے گئے ہیں۔ ’’رسالہ اشارات‘‘ میں تصوف کے مسائل کو فلسفیانہ نقطہ نظر سے سمجھایا گیا ہے۔ ’’رسالہ اجوبہ‘‘ میں لوگوں کے مختلف سوالوں کے جواب ہیں۔ ’’فوائد رکنی‘‘ میں مختلف قسم کی ہدایتیں ہیں۔ ’’معدن المعانی‘‘ آپ کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جسے آپ کے مرید مولانا زین بدر عربی نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کا خلاصہ ’’لطائف المعانی‘‘ ہے۔ آپ کے دیگر رسائل عقائد شرفی، اورادِ کلاں، اورادِ اوسط، اور اورادِ خرد ہیں۔ ان رسالوں میں وظائف بتائے گئے ہیں۔ حضرت مخدوم کے ملفوظات کے کئی مجموعے ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں۔ خوانِ پرنعمت، راحت القلوب، مخ المعانی، مونس المریدین، گنج لایفنی، فوائد الغیبی، مغزالمعانی اور تحفہ غیبی۔ فی الوقت آپ کی ۳۵ تصانیف موجود ہیں مگر ایک روایت کے مطابق تصانیف کی تعداد سترہ سو تک پہنچتی ہے۔

مکاتیب کے مجموعے:

حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے جہاں اپنے آستانے پر آنے والے بندگان خدا کی رہنمائی وعظ و نصیحت سے فرمائی وہیں جو لوگ نہیں آ سکتے تھے ان کی ہدایت کے لیے خطوط تحریر فرمائے۔ آپ نے جو خطوط لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے بھیجے ان کی تعداد نہیں معلوم۔ جو دستیاب ہو سکے انھیں کتابی شکل مل گئی ہے اور یہ برسوں سے عوام الناس کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ ان خطوط میں شریعت و طریقت کے مختلف مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ ان مکتوبات سے جہاں آپ کے علمی مقام کا پتہ چلتا ہے وہیں نثر نگاری میں آپ کے منصب و مرتبے کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انتہائی سادہ، سلیس اور شگفتہ اندازِ تحریر ہے۔ مکتوب الیہ کی فہم و فراست کے مطابق دلائل و امثال پیش کرتے ہیں۔ بلند، محققانہ مسئلہ بھی آسان زبان میں سمجھاتے ہیں۔ یہ خطوط پراثر ہیں اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کی اثر انگیزی میں کمی نہیں آئی ہے۔ جس دور میں یہ خطوط لکھے گئے اہل علم کی زبان فارسی تھی۔ لہٰذا خطوط بھی اسی زبان میں ہیں۔ عہد حاضر میں ان کے اردو تراجم دستیاب ہیں۔

اس وقت خطوط کے تین مجموعے دستیاب ہیں جن میں ’’مکتوبات صدی‘‘ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ یہ مکتوبات مرید خاص قاضی شمس الدین حاکم چوسہ کے نام لکھے گئے۔ قاضی صاحب بے حد مصروف آدمی تھے اور فرائض منصبی کے سبب بہار شریف نہیں آ سکتے تھے۔ لہٰذا ان کی تعلیم اور رہنمائی کے لیے یہ خطوط لکھے گئے۔ ان خطوط میں تصوف کے اہم مسائل زیر بحث آئے ہیں۔ دوسرا مجموعہ مکتوبات دو صدی ہے۔ اس میں مختلف لوگوں کے نام ارسال کئے گئے خطوط ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مضامین کا تکرار بھی کئی جگہوں پر دکھائی دیتا ہے۔ ان دونوں مجموعوں کے مرتب مولانا زین بدر عربی ہیں جو مخدوم کے خاص مرید تھے اور مکتوبات کو بھیجنے سے قبل ان کی نقل اپنے پاس محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ تیسرا مجموعہ خطوط ’’مکتوبات بست و ہشت‘‘ ہے۔ اس میں اٹھائیس مکتوبات ہیں جو حضرت مظفر بلخی کے نام تحریر کئے گئے ہیں۔ مخدوم علیہ الرحمہ نے اپنے اس چہیتے مرید کو تقریباً دو سو خطوط تحریر کئے تھے مگر ان کی وصیت کے مطابق یہ خطوط ان کے ساتھ قبر میں دفن کر دئیے گئے۔ صرف اٹھائیس خطوط کسی طرح باقی رہ گئے تھے جو اس مجموعے میں شامل ہیں۔

’’بزم صوفیہ‘‘ کے مصنف صباح الدین عبدالرحمن کے مطابق انھوں نے ایک غیر مطبوعہ مجموعے کو انڈیا آفس میں دیکھا تھا جس میں مخدوم کے ایک سو پچیس خطوط ہیں۔ یہ خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم کے نام لکھے گئے ہیں جو آپ کے مرید تھے۔

مخدوم کے مکتوبات کے مجموعے شروع سے ہی مقبول ہو گئے تھے۔ اہل تصوف نے جس طرح حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو حرز جاں بنایا اسی طرح مخدوم کے مکتوبات کو بھی سر آنکھوں پر رکھا۔ ان کی ہر دور میں پذیرائی ہوئی اور صوفیہ نے مشعل ہدایت کے طور پر انھیں راہ سلوک طے کرنے میں استعمال کیا۔ ان مکاتیب کے مداحوں میں حضرت نصیرالدین چراغ دہلی، حضرت جلال الدین بخاری، شاہ عبداللہ شطاری، شاہ محمد غوث گوالیاری، حضرت احمد لنگر دریا ہیں۔ شاہ محمد غوث گوالیاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے مریدین کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر مرشد قریب نہ ہو تو رہنمائی کے لیے شیخ شرف الدین کے مکاتیب پڑھیں۔ اکبر کا درباری عالم ابوالفضل بھی ان مکاتیب کی تعریف کرتا ہے۔ مخدوم کی تصانیف اور ملفوظات کے مجموعوں سے زیادہ آپ کے مکاتیب مقبول ہیں۔

آخری وقت:

حضرت مخدوم علیہ الرحمہ آخری وقت میں اکثر ہندی کے دو دوہے پڑھا کرتے تھے:

شرفا گور ڈراون، نس اندھیاری رات
وان نہ پوچھے کوئی تم سے، کاہے تمری جات
جی مگن میں ہے کہ آئی ہیں سہانی رتیاں
جن کے کارن تھے بہت دن سے بنائی گتیاں

۷۸۲ھ میں ۶؍ شوال، جمعرات کی شب میں بعد نماز عشاء مخدوم نے انتقال فرمایا۔ دوسری صبح کو تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ نے پڑھائی۔ بہار شریف میں آپ کی قبر آج بھی خلائق کی زیارت گاہ ہے اور عقیدتمندوں کا ہجوم شب و روز یہاں لگا رہتا ہے۔

*******************

 

 

 


    
          آج بھی انقلاب برپا کرسکتی ہیں ،مخدوم شرف الدین منیری کی تعلیمات
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
حضرت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری رحمتہ اللہ علیہ دینیات کے ایک بڑے عالم اور تصوف کے امام تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تعلیمات میں جہاں قرآن و حدیث کی روح نظر آتی ہے وہیں تصوف کا جمال بھی دکھائی دیتا ہے۔ آپ نے شریعت و طریقت کو جداگانہ طور پر نہیں دیکھا بلکہ ایک ہی چراغ کے اجالے کی طرح محسوس کیا۔ دونوں ہی خالق کی معرفت کا پتہ دیتے ہیں اور اس تک رسائی کا راستہ بتاتے ہیں۔ انسان کی حیات کا مقصد معرفت خداوندی کا حصول ہے اور اس کے بغیر زندگی فضول ہے۔ ذیل میں مخدوم علیہ الرحمہ کے افکار و نظریات کی کچھ جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں جو آپ کے مکاتیب کے مجموعے ’’مکتوبات صدی‘‘ سے ماخوذ ہیں۔
معرفت حق:
حضرت مخدوم، معرفت حق کو مومن کی زندگی کا بنیادی سبب سمجھتے ہیں۔ وہ اس پر زور دیتے ہیں اور اس کے لیے قرآن و حدیث سے دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’معرفت مومن کی روح کا جوہر ہے، جس شخص کا خدا کی معرفت میں کوئی حصہ نہیں گویا حقیقتاً اس شخص کا وجود ہی نہیں ہے اور پیدا کرنے والے کی معرفت پیدا ہونے والوں کی معرفت سے ظاہر ہوتی ہے اور پیدا کرنے والے کی معرفت سے عارفوں کو بقا اور نجات حاصل ہوتی ہے۔ معرفت کا پہلا جز، یہ ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات کو مجبور، عاجز اور خدا کا قیدی سمجھے اور سب چیزوں سے اپنے لگائو اور نسبت کو توڑ دے اور سمجھے کہ بس ایک ہی خدا ہے۔ اس کی ذات ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی اور اس کے صفات بھی ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں۔‘‘     (۴۵واں مکتوب)
عرفاء کے نزدیک اللہ کی معرفت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ذات میں کامل یقین ہو۔ حضرت مخدوم نے اس کے بعد ایک اور راستہ بتایا ہے معرفت کا۔ یہ ہے مصنوع کے ذریعے صانع کی پہچان کا۔ ہر چیز اپنے بنانے والے کے متعلق بتاتی ہے۔
ہر ذرہ چمکتا ہے انوارِ الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدائی ہے
ہماری اپنی ذات بھی ہمارے خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔ مخدوم لکھتے ہیں:
’’اور دوسرا راستہ صانع اور خالق تک پہنچنے کے لیے اپنے نفس کی پہچان ہے جیسا کہ کہا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ (جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا)۔ خدائے برتر نے پہلے پہل اپنی قدرت آسمانوں کی پنہائی میں پیش کی۔ یعنی پیدا کرنا اور پھر نیست و نابود کرنا اور مخلوقات کی حالتوں کا بدلنا، جیسے رات اور پھر دن کا ہونا اور کسی چیز کی زیادتی اور پھر کمی، کشادگی اور تنگی اور دنیا اور اس کے سوا جو کچھ کہ دنیا کی حالتوں میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے تاکہ خدا کی وحدانیت کے پجاری ان میں غور سے دیکھیں اور خدا کی معرفت حاصل کریں۔‘‘     (ایضاً)
عرفانِ ذات بھی معرفت خداوندی کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر انسان اپنی ذات کو پہچان لے تو یقینا خالق کی ذات کو سمجھنا اس کے لیے آسان ہو جائے گا۔ ہمارے جسم کا نظام آخر کیسے بنا؟ اور پھر کس طرح یہ برسوں سے بغیر کسی رکاوٹ کے کام کر رہا ہے؟ کیا دنیا کی کوئی مشین اس کا متبادل ہو سکتی ہے؟ کیا لاکھ کوششیں کر کے انسان اس کا ثانی پیدا کر سکتا ہے؟ سر سے پیر تک ہمارے جسم میں لاکھوں عجائبات ہیں۔ اگر کسی ایک عجوبے پر بھی غور کیا جائے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر DNA کو لیا جا سکتا ہے۔ اس دنیا کے کروڑوں افراد کے ڈی این اے میں محض 0.01 فیصد کا فرق ہوتا ہے۔ مگر اسی فرق سے ہر شخص ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ نہ تو دو آدمیوں کی شکلیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور نہ عقلیںایک جیسی ہوتی ہیں۔ ہر فرد کی جسمانی بناوٹ ایک دوسرے سے الگ، سب کی آنکھیں ایک دوسرے سے جدا، سب کی ناک ایک دوسرے سے مختلف۔ حد یہ ہے کہ دو افراد کی انگلیوں اور ہتھیلیوں کی لکیریں ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتیں۔ جسم کے خلیات مماثلت نہیں رکھتے۔ اگر دو افراد کا Blood Group ایک ہوتا ہے تو بھی Blood Cells مختلف ہوتے ہیں۔ ایک انسانی جسم خدا کی لاکھوں حکمتوں کا پتہ دیتا ہے۔ اسی لیے حضرت شیخ شرف الدین منیری علیہ الرحمہ عرفانِ نفس کو معرفت خدا وندی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اور طریقت والے لوگ معرفت کے راستہ میں اپنی ذات میں کھو جاتے ہیں اور اپنے وجود ہی سے تلاش کی ابتدا کرتے ہیں اور اپنی ذات ہی سے کثیف اور لطیف کی کل باتیں ڈھونڈتے ہیں اور خداوند تعالیٰ کی معرفت کی دلیلیں اور نشانیاں پا لیتے ہیں۔ ان فی ذلک لذکریٰ لاولی الالباب۔ (اس میں خاص لوگوں کے لیے ذکر و فکر کا موقع ہے)۔‘‘     (ایضاً)
معرفت حق کے لیے تلاش و جستجو اور غور و فکر لازم ہے بشرطیکہ یہ غور و فکر درست سمت میں کی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے طبیب، حکیم اور سائنسداں انسانی جسم، مخلوقات کے بدن اور کائنات کے ذرے ذرے میں غور و فکر کرتے ہیں مگر وہ معرفت سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کا تدبر درست سمت میں نہیں ہوتا۔ انسانی جسم کو جو لوگ خدا کی کارسازی، ہنرمندی، فنکاری اور حکمت کا نمونہ سمجھنے کے بجائے گوشت پوست کا لوتھڑا سمجھ کر غور و فکر کریں گے وہ کیسے نور معرفت تک پہنچ سکتے ہیں؟
خدا تعالیٰ کی معرفت کے لیے عقل کے ساتھ ساتھ اس کا فضل بھی درکار ہے۔ اس دنیا میں ایک چیز ایسی نہیں جو خدا کی ذات کی معرفت نہ کراتی ہو مگر عجیب بات ہے کہ روزانہ اسے دیکھنے والے، اس میں تدبر کرنے والے معرفت سے محروم ہیں۔ اس لیے معرفت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل بھی انسان پر ہو۔ حضرت مخدوم تحریر فرماتے ہیں:
’’۔۔۔اور پانے کا سبب جستجو اور تلاش نہیں بلکہ اسی کی عطا و بخشش ہے۔ بہترے ڈھونڈنے والے ایسے ہیں جنہوں نے آج تک نہیں پایا اور بہت سے پانے والے ایسے ہیں جنہوں نے بغیر تلاش و جستجو کے پا لیا۔ جہاں تک تلاش کرنے کا تعلق ہے، سب برابر ہیں مگر پانے میں فرق ہے۔ بتوں کے پجاری اس کو بت کے اندر ڈھونڈنتے ہیں اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اور یہودی حضرت عزیز علیہ السلام سے اس کو مانگتے ہیں۔‘‘
قصر دل میں جب کسی دن آپ کا آنا ہوا
یہ ہوئی رفعت کہ بامِ عرش تہہ خانہ ہوا

آتش عشق:
دردِ دل کتنا پسند آیا اسے
میں نے جب کی آہ، اس نے واہ کی
سوزِ دل، محبت سے حاصل ہوتا ہے اور اس کی تصوف میں خاص اہمیت ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جس سے قدسیانِ معصوم بھی محروم ہیں۔ اس کی لذت سے صرف انسانی قلب ہی محظوظ ہو سکتا ہے۔ صوفیہ نے اس پر بہت کچھ کہا ہے اور بہت کچھ لکھا ہے۔ حضرت مخدوم علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
’’۔۔۔دوسری مخلوقات کو محبت سے کوئی لگائو نہیں ہے کیونکہ ان کی ہمتیں بلند نہیں ہیں۔ فرشتوں کا کام جو سیدھے طریقہ پر چل رہا ہے وہ اس لیے ہے کہ ان تک محبت کا گذر نہیں ہوا ہے اور یہ اونچ نیچ جو انسان کے ساتھ پیش آیا کرتی ہے اس لیے ہے کہ اس کو محبت سے سروکار ہے۔ یحبہم و یحبونہ۔ (وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ ان سے محبت کرتا ہے) تو جس کے دماغ میں ذرا بھی اس کی محبت کی بو پہنچتی ہے اس سے کہہ دو کہ سلامتی سے اپنا دل اٹھا لے اور اپنی ہستی کو خیر باد کہہ دے۔ المحبۃ لاتبقی ولا تذر۔ (محبت کچھ باقی نہیں رکھتی اور کچھ بھی نہیں چھوڑتی)۔‘‘     (۴۶واں مکتوب)
یعنی—
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
تصوف کا بنیادی مقصد محبت الٰہی ہے۔ یہاں عبادت و ریاضت، مجاہدہ و تزکیہ نفس سب کا بس ایک مقصد ہے، محبت۔ شمع پر نثار ہونے والے پروانے کو دیکھ کر دنیا اس کی بے عقلی پر افسوس کرتی ہے مگر سوز جگر کے لطف کو تو بس پروانہ ہی سمجھ سکتا ہے۔ مخدوم رقم طراز ہیں:
’’ایک فقیر اس کے راستے میں چلتے چلتے مجبور ہو گیا تھا۔ ایک زمانہ تک اس کی جستجو اور رنج و مصیبت میں رہا اور عرصہ تک اپنی جان سے بے زاری کا اظہار کرتا رہا۔ آخر جب مر گیا تو اس کے سینے پر لکھا ہوا دیکھا گیا ’’یہ اللہ کی محبت کا مارا ہے۔‘‘     (ایضاً)
خالق کی تلاش میں سرگرداں لوگ اسے اپنے اپنے انداز میں ڈھونڈتے ہیں۔ کوئی اس کی اطاعت میں اسے تلاش کرتا ہے تو کوئی خود کو رنج و الم میں ڈال دیتا ہے۔ کوئی دیوانوں کی طرح صحرانوردی کرتا ہے تو کوئی بیابانوں کی خاک چھانتا ہے۔ اس کی تلاش میں۔۔۔
’’ایک قوم مٹی کے ڈھیلوں کی پجاری بن گئی اور ایک گروہ نے پتھر کی پرستش شروع کی۔ ایک قوم ساری توجہ مشرق کی طرف کر کے سورج کو بھگوان سمجھنے لگی تو ایک گروہ نے مغرب کی طرف منہ پھیرا۔ کوئی ہر وقت اس کے لیے دوڑ لگاتا ہے تو کوئی اس کی تلاش و جستجو میں سرگرداں ہے اور خدا وند کریم اس سے کہیں برتر و غالب ہے اور راستہ دشوار و لمبا ہے اور اس کی نزدیکی بہت دور ہے اور اس کا وصال ہجر ہے اور مخلوق کے ہاتھ میں صرف قیل و قال ہے۔‘‘     (ایضاً)
محبت میں بس جستجو ہے۔ سب محبوبِ حقیقی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ذرے ذرے میں اس کے انوار کی کرنیں ہیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ جب تقاضہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو لن ترانی کہہ کر وصال کی تڑپ کو بڑھا دیا جاتا ہے اور وعدۂ فردا پر ٹال دیا جاتا ہے۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
’’اصحاب تحقیق نے کہا ہے یہ جہاں اور وہ جہاں دونوں کے دونوں طلب کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص کہے کہ وہ جہانِ طلب کے لیے نہیں بنا ہے تو یہ محال ہے۔ یہ درست ہے کہ نماز اور روزہ باقی نہیں رہے گا مگر یہ بھی تو طلب کا ایک جزو ہے۔ قیامت کے بعد ہر ایک شریعت مٹا دی جائے گی لیکن یہ دو چیزیں ہمیشہ ہمیش قائم رہیں گی۔ الحب للہ والحمد للہ (اللہ کے لیے محبت اور اللہ کی حمد و ثنا)۔ کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے حج، جہاد، روزہ، نماز کے  احکام منسوخ کر دئیے جائیں مگر محبت کا پیمان منسوخ نہیں کیا جا سکتا اور بہشت میں روزانہ جس جس کی شکل تیرے سامنے آئے خداوند تعالیٰ کی معرفت کا ایک عالم تجھ کو نظر آئے گا کہ اس سے پہلے تو نے کبھی دیکھا نہ ہوگا۔ یہ ایسا کام ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور خدا نہ کرے کہ ختم ہو۔‘‘                            (ایضاً)

قرار جز دلِ عاشق کجا حسیناں را
وہ آخر آئے مرے دل میں جابجا ہو کر
دنیا میں صرف محبت کا دم بھرا جا سکتا ہے۔ وصال کی آرزو کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ خواہش دنیا میں پوری نہیں ہوگی۔ اس کے لیے آخرت کا سفر ضروری ہے۔
اڑ کے جانا بامِ جاناں تک مگر درکار تھا
مرغ دل کو بازوئے مرغِ نظر درکار تھا
’’حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محبت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس کی بندگی ہی میں اسے آرام حاصل ہو اور اس کو بوجھ نہ سمجھے اور نہ اس کی تھکن محسوس ہو۔ جیسا کہ ان لوگوں میں سے کسی نے کہا ہے، جو کام محبت کے لیے ہو اس میں سستی اور غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ یعنی اس کا جسم تو تھک جائے مگر اس کا دل نہ تھکے۔‘‘     (۴۷واں مکتوب)
یہ تو ایک نشانی محبت کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے دعویٰ محبت آسان ہے مگر تقاضہ محبت کی تکمیل مشکل ہے۔ محبت قربانی چاہتی ہے، محبت تیاگ چاہتی ہے، محبت سوائے محبوب کے سب سے انقطاع کا تقاضہ کرتی ہے۔ جس دل میں محبوب کا مسکن ہو اس میں کسی اور کو جگہ دینا محبت میں شرک ہے۔ لہٰذا اس گلی میں وہ قدم بھی نہ رکھے جسے جان و دل عزیز ہوں کیونکہ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم ہے رکھنا۔ یہاں جان و دل کی خیر نہیں۔
یہ گھر کبیرا پریم کا، خالہ کا گھر ناہیں
جو شیش بھوئیں دھرے، سو پیٹھے گھر ما ہیں
دل والوں کا دل:
انسان کے لیے نہیں دولت سوائے دل
در  در  پھرو جہان میں ہو کر گدائے دل
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دل کو انسانی جسم کی اصلاح و فساد کا مرکز بتایا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ گوشت کا یہ لوتھڑا انسان کی پوری زندگی پر حاوی رہتا ہے۔ اسی لیے تصوف میں اس کے اصلاح پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ تمام صوفیہ اپنے مریدین کو دل کے اصلاح کی وصیت کرتے رہے ہیں اور صوفی لٹریچر کا ایک بڑا حصہ اس موضوع پر ملتا ہے۔ حضرت شیخ شرف الدین منیری نے بھی اس پر توجہ کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’دل ایک شاہی خزانے کی حیثیت رکھتا ہے مگر غور سے دیکھو کہ اس خزانے میں تم کیا رکھتے ہو؟ اگر اس میں جواہرات بھرے ہیں تو بے شک یہ خزانہ کہا جا سکتا ہے اور اگر اس میں کوڑا کرکٹ ہے تو یہ گھاس پھوس کا انبار ہے۔ یہیں سے بزرگوں نے کہا ہے کہ ایک خزانہ تو بہشت میں ہے جس کو نعمت کہتے ہیں اور ایک خزانہ عارفوں کے دل میں ہے اس کا نام محبت ہے۔ رب العزت کی قسم کہ ہزاروں ہزار بہشت محبت کے خزانے کے ایک موتی کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتے۔ بہشت کے خزانے کامحافظ ایک فرشتہ ہے جس کا نام رضوان ہے اور محبت کے خزانے کا نگہبان خود حضرت خداوند جل و علا ہے۔‘‘             (۸۰واں مکتوب)
سوگند بے دلوں کی تجھے اے خدائے دل
دینا ہو کچھ مجھے تو نہ دینا سوائے دل
وہ دل جو خدا اور محبوبِ خدا کی محبت سے آشنا ہو اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں۔ ایسے ہی دل کے متعلق مندرجہ بالا اقتباس میں بتایا گیا کہ محبت کے جواہرات سے پُر دل جنت اور اس کی نعمتوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ کیونکہ جنت کی نگہبانی ایک فرشتہ کرتا ہے اور دل کی نگہبانی خالق جنت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں کسی کو دولت عطا فرماتا ہے تو کسی کو جاہ و حشمت، کسی کو نیک نامی دیتا ہے تو کسی کو شہرت، کسی کو رعب و دبدبہ تو کسی کو سلطنت۔ مگر قابل رشک ہے وہ بندہ جسے وہ اپنی محبت عطا فرما دے۔ دل کی قیمت بھی اسی محبت کے سبب بڑھتی ہے۔ مخدوم علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اب تم اپنے دل کے خزانے کو دیکھ کر خود سمجھ لو کہ تمہاری کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ لیکن جو دل خدا کے ساتھ اٹکا ہوا ہے اپنی قیمت کے تحت نہیں آتا۔‘‘     (ایضاً)
انسان کی قدر و قیمت اس کے دل سے طے ہوتی ہے۔ اگر اس کے دل میں حرص و ہوس، بغض و حسد کی غلاظت ہے تو وہ ایک بے وقعت انسان ہے اور اگر اس کے دل میں محبت الٰہی کے موتی ہیں تو وہ ایک انمول دل کا مالک ہے جس کی قیمت دونوں جہاں کی دولتیں بھی نہیں بن سکتیں۔ آدمی اپنی قیمت کا اندازہ خود اپنے دل میں جھانک کر کر سکتا ہے۔ اسے کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس کا دل خود اس کی شخصیت کا آئینہ ہے۔

شریعت و طریقت:
عوام الناس میں شریعت و طریقت کے مفہوم کو لے کر کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ طریقت، شریعت سے الگ کوئی راستہ ہے اور بعض شریعت و طریقت سے ناواقف عناصر صوفی کا لبادہ پہن کر ان غلط فہمیوں میں اضافہ کرتے پھرتے ہیں۔ اس طرح کی غلط فہمیاں ماضی میں بھی رہی ہیں اور اہل علم و صوفیہ نے انھیں دور کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے اپنے ایک مکتوب میں شریعت و طریقت کے لطیف فرق کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’طریقت کی راہ بھی شریعت ہی سے نکلی ہے۔ شریعت و طریقت میں جو فرق ہے اس کو ہم بیان کرتے ہیں۔ تم اسی سے سمجھتے جائو۔ شریعت میں توحید، طہارت، نماز، روزہ، حج، جہاد، زکوٰۃ اور دوسرے احکامِ شرایع و معاملاتِ ضروری کا بیان ہے۔ طریقت کہتی ہے کہ ان معاملات کی حقیقت دریافت کرو، ان مشروعات کی تہہ تک پہنچو، اعمال کو قلبی صفائی سے آراستہ کرو، اخلاق کو نفسانی کدورتوں سے پاک کرو جیسے ریاکاری ہے، ہوائے نفسانی ہے، ظلم و جفا ہے، شرک و کفر ہے، وغیرہ وغیرہ۔‘‘     (۲۵واں مکتوب)
شریعت کے احکام پورا کرنا شریعت پر عمل ہے مگر دل کے اخلاص کے ساتھ شرعی حکم کو بجا لانا طریقت ہے۔ قلبی صفائی اور اخلاقی بلندی کے ساتھ احکام شریعت پر عمل آوری ہی طریقت ہے۔ اس مسئلے کو مزید آسان زبان میں سمجھاتے ہیں مخدوم علیہ الرحمہ:
’’اچھا، اس طرح  نہ سمجھے ہو تو یوں سمجھو۔ ظاہری طہارت، ظاہری تہذیب سے جس امر کو تعلق ہے وہ شریعت ہے۔ تزکیہ باطن تصفیہ قلب سے جس کو لگائو ہے وہ طریقت ہے۔ کپڑے دھو کر ایسا پاک بنا لینا کہ اس کو پہن کر نماز پڑھ سکیں، یہ فعل شریعت ہے اور دل کو پاک رکھنا کدورت بشری سے یہ فعل طریقت ہے۔ ہرنماز کے لیے وضو کرنے کو شریعت کا ایک کام سمجھو اور ہمیشہ باوضو رہنے کو طریقت کا دستورالعمل تصور کرو۔ نماز میں قبلہ رو کھڑا ہونا شریعت ہے اور دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہو جانا طریقت ہے۔ حواسِ ظاہری سے جن معاملاتِ دینی کا تعلق ہے اس کی رعایت ملحوظ رکھنا شریعت ہے اور جن معاملاتِ دینی کو قلب و روح سے تعلق ہے اس کی رعایت کرنا طریقت ہے۔‘‘     (ایضاً)
مندرجہ بالا اقتباس سے شریعت و طریقت کا فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے اور ایک معمولی فہم و فراست والے شخص کے لیے بھی اسے سمجھنا آسان ہو جاتا ہے مگر اسے فہم سے قریب تر کرنے کے لیے حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے مزید روشنی ڈالی ہے اور طریقت پر عمل کو انبیاء کی سنت پر عمل قرار دیا ہے۔ تحریر فرماتے ہیں:
’’انبیاء علیہم السلام کا یہی معمول رہا کہ دین کا جو کام خود کرتے ہیں وہی امت کو بھی حکم دیتے مگر بعض اخلاق و اعمال ایسے مہتم بالشان و کوہِ وقار ہیں کہ اگر امت پر ان کا بوجھ ڈال دیا جائے تو ضعیف الحال امت پس جائے۔ اس لیے آسانی کے خیال سے امت کو ان کی تکلیف نہیں دیتے، اپنا وردِ خاص بنا لیتے ہیں اور معمول کر لیتے ہیں۔ جیسے تہجد کی نماز، صدقہ نہ لینا، سیر ہو کر نہ کھانا، دنیا سے اعراض کرنا، جس سے زندگی باقی رہے اتنے ہی کھانے پر قناعت کرنا، مکان و لباس بھی محض بقدرِ ضرورت رکھنا، وغیرہ وغیرہ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ جس امر کے لیے امت کو مکلف بنایا جائے وہ شریعت ہے اور جو کام ایسا ہے کہ تخفیف امت کے لیے انبیاء علیہم السلام اپنی ذات کو اس کا پابند کریں اور لازمہ احوال بنا لیں وہ طریقت ہے۔‘‘     (ایضاً)
گویا شریعت کی روح تک پہنچنا اور شریعت میں دی گئی رعایت کو بھی ترک کر دینا طریقت ہے۔ وہ عمل جس کی بجا آوری لازمی نہیں، اختیاری ہے اس کو اپنے لیے لازم کر لینا طریقت ہے۔ جو اعمال انبیاء نے اپنے اوپر لازم کر رکھے تھے مگر امت کی آسانی کے لیے اس کا حکم نہ فرمایا انھیں اپنا لینا طریقت ہے۔
طریقت جہاں ایک طرف انسان کو معرفت حق کو دعوت دیتی ہے وہیں دوسری طرف اسے خلوص و للہیت کا پیکر بننے پر بھی ابھارتی ہے۔ یہاں صرف ظاہری عمل کافی نہیں ہوتا بلکہ باطنی پاکیزگی بھی لازمی ہوتی ہے۔

امراضِ باطن:
انسان جسم و روح سے مرکب ہے۔ لہٰذا اس کے مسائل جس طرح جسم سے متعلق ہیں اسی طرح روح سے بھی متعلق ہیں۔ صوفیہ کا کام جسم کی اصلاح نہیں، روح کی اصلاح ہے۔ وہ اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انسان روحانی اعتبار سے صحت مند رہے کیونکہ روحانی صحت کا اثر نہ صرف اس کی زندگی بلکہ آخرت پر بھی پڑتا ہے۔ حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے اس موضوع پر انتہائی حسین پیرایے میں گفتگو کی ہے:
’’۔۔۔انسان دو جوہر مختلف سے پیدا ہوا ہے۔ ایک علوی، دوسرا سفلی۔ جس طرح جوہر سفلی، یعنی یہ جسم جو آب و آتش، خاک و باد سے بنا ہے اس کو مرض قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح جوہر علوی، یعنی ارواح کو بھی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ جس طرح امراض سفلی کے لیے اطباء ہیں کہ ان کے علاج سے مرض دور ہو جاتا ہے صحت حاصل ہوتی ہے او رہلاکت سے آدمی بچ جاتا ہے، اسی طرح امراض علوی کے لیے بھی اطبا ہیں جن کے علاج سے جملہ امراض باطنی اگرچہ وہ محسوس نہیں ہوتے اور عقل میں نہیں آتے مگر سب کے سب دفع ہو جاتے ہیں اور ہلاکت کے محل سے نجات ہوتی ہے۔ جوہر سفلی کے امراض و علل کے طبیب تو حکماء ہیں او رجوہر علوی کے امراض و علت کے طبیب انبیاء ہیں، ان کے بعد مشائخ ہیں، کیونکہ یہی لوگ انبیاء کے خلیفہ ہیں۔‘‘     (۱۹واں مکتوب)
انبیاء کرام دنیا میں انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے آتے رہے۔ انھوں نے بندگانِ خدا کو خالق و مالک تک پہنچنے کا راستہ بتایا مگر آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو گیا۔ حالانکہ جب دنیا میںانسان ہے تو اس کی اصلاح کی ضرورت بھی پڑے گی،لہٰذا اس کی ذمہ داری خالق کائنات نے اپنے کچھ نیک بندوں کو سونپ رکھی ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ ظاہر ہے علماء صرف علمی وارث نہیں بلکہ عملی وارث بھی ہیں۔ جو عمل اللہ نے انبیاء کے ذمے کر رکھا تھا اب وہ علماء کے سپرد ہے۔ یہی علمائ، طریقت کے امام بن کر لوگوں کے باطنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اسی لیے اہل تصوف کا قول ہے کہ الشیخ فی قومہ کا النبی فی امتہٖ۔ (اپنی قوم میں شیخ کی وہی حیثیت ہے جو نبی کی اپنی امت میں)۔ ظاہر ہے جس طرح انبیاء اپنی امت میں اصلاح کا کام کرتے ہیں، ہدایت و رہنمائی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، اسی طرح شیوخ بھی انسانیت کی فلاح و صلاح کے لیے تن ،من ،دھن سے کوشش کرتے ہیں اور ان کے طفیل لوگوں کی ظاہری و باطنی اصلاح ہوتی ہے۔
بات ہو رہی تھی کہ طبیب انسان کے جسمانی امراض کا علاج کر کے اسے تندرست کرتا ہے اسی طرح مشائخ اس کی باطنی بیماریوں کی تشخیص کرتے ہیں اور پھر روحانی نسخوں سے اس کا علاج کرتے ہیں۔ حضرت مخدوم نے اس تعلق سے تحریر فرمایا ہے:
’’۔۔۔جس طرح طبیب نبض دیکھ کر بیمار کے علت و مرض سے واقف ہو کر مختلف ادویہ اور شربت بیمار کی قوت کا اندازہ کر کے بتاتا ہے اور کسی دوا سے دو ماشہ اور کسی سے تین ماشہ اور کسی سے چار ماشہ لے کر معجون تیار کرتا ہے اور بعض چیز کا استعمال جائز اور بعض کا استعمال خطرناک کہتا ہے، تاکہ طبیعت مریض کی اعتدال پر آ جائے اور مائل بہ صحت ہو جائے اور ہلاکت سے محفوظ رہے۔اسی طرح پیغمبر وقت یانائب پیغمبر کو جب وقوف ہو جاتا ہے کہ اس شخص کے اعتقاد میں کیا کیا مرض لاحق ہے تو احکام شریعت سے ایک ایسا نسخہ تجویز کر دیتا ہے کہ وہ بیمارِ باطن استعمال کر سکے اور اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ کبھی دو رکعت، کبھی تین رکعت، کبھی چار رکعت سے ایک معجون مرکب تیار ہوتی ہے اور کوئی چیز حلال اور کوئی چیز حرام کر دی جاتی ہے تاکہ عقیدت کی تشویشیں، خواہشات کے اختلافات اور امراض کی رنگا رنگی، شریعت کے ساتھ اعتدال پذیر ہو اور صحت عاجل ہو، خطرۂ ہلاکت سے نجات ملے۔‘‘     (ایضاً)
جہاں مرض جسمانی ہوتا ہے وہاں دوائیں بھی مادی ہوتی ہیں اور جہاں مرض روحانی ہوتا ہے وہاں علاج بھی روحانی دوائوں سے ہی ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی ماہر ادویہ نے ایسی کوئی دوا تیار نہیں کی جس سے کبر و نخوت، بغض و حسد، بداخلاقی و بے مروتی، نفرت و دشمنی جیسے امراض کا علاج کیا جا سکے۔ ان بیماریوں کا علاج تو صرف روحانی اطباء یعنی انبیاء اور ان کے جانشیں مشائخ ہی کر سکتے ہیں۔ صوفیہ راہ سلوک پر چلنے والوں کو مختلف مجاہدوں سے گذارتے ہیں۔ برسوں عبادت و ریاضت کراتے ہیں۔ اوراد و وظائف میں مشغول رکھتے ہیں۔ اس کا مقصد ان روحانی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ کشمیر کے ایک مشہور صوفی شیخ العالم شیخ حمزہ رینہ کا معمول تھا کہ اگر کوئی آپ کی خدمت میں راہ سلوک پر چلنے کے ارادے سے آتا تو اسے مجاہدے کے دوران نہ صرف عبادت و ریاضت کا حکم دیتے بلکہ اس سے باورچی خانے اور اصطبل کی خدمات بھی لیتے۔ بڑے بڑے علماء اور حکومت کے عہدیداروں سے یہ خدمات لی جاتیں۔ یہاں تک کہ انھیں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانے کو بھی کہا جاتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ معمولی قسم کے کام اگر لوگوں کے سامنے کئے جائیں گے تو دل کے اندر سے تکبر کا مرض نکل جائے گا اور جو شخص خود کو عالی مرتبت تصور کرتا تھا اس کے اندر انکساری پیدا ہو جائے گی وہ خود کو خدا کا ایک معمولی بندہ سمجھنے لگے گا۔
خاک جب خاکسار ہوتی ہے
کس قدر باوقار ہوتی ہے
مشائخ دراصل روحانی طبیب ہیں۔ یہ انسان کی روحانی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ اگر جسمانی مرض لاحق ہو جائے تو یہ کم خطرناک ہوتا ہے جب کہ روحانی مرض نہ صرف سماج، زندگی بلکہ آخرت کو بھی متاثر کرتا ہے۔

معراجِ عشق:
حدیث شریف میں نماز کو مومنین کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ تحفہ ہے جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی شب خالق کائنات کی طرف سے عطا فرمایا گیا۔ اس تحفے سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا جو مقامِ قاب قوسین سے رب کائنات نے اپنے بندوں کے لیے بھیجا ہے۔ عام بندوں کے لیے معراج جسمانی ممکن نہیں تھی نہ انھیں وہ حشمت حاصل ہو سکتی تھی کہ براق برق خرام دروازے پر آئے۔ لہٰذا مومنین کے لیے نماز کو ہی معراج بنا دیا گیا۔ نماز آخر کس طرح مومنین کے لیے معراج ہے؟ اس سوال کو بڑی خوبی سے حل کرنے کی کوشش کی ہے حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے:
’’دیکھو تمہیں کس طرح معراج نصیب ہوتی ہے۔ پہلے تم نے طہارت کی، پاک و صاف کپڑا پہنا، اس کے بعد خراماں خراماں مسجد آسماں رفعت میں داخل ہوئے۔ وہاں اول اول مومنانِ ملک صفت کے ساتھ بندگانہ و عاجزانہ کھڑے ہو گئے۔ پھر اس وقت تک واپس نہ ہوئے جب تک اچھی طرح خلوتِ راز میں نشست نہ ٹھہری۔ سبحان اللہ و بحمدہٖ۔‘‘     (۳۲واں مکتوب)
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہو گیا کہ نماز مومنین کی معراج کس طرح سے ہے۔ دراصل نمازی خود آسمان کے پاکیزہ ماحول میں داخل نہیں ہوتا بلکہ مسجدیں اپنی پاکیزگی اور رفعت شان میں آسمان کے مماثل ہو جاتی ہیں۔ اس طرح فرشتوں کی صفوں میں شامل ہونے وہ آسمان پر نہیں جاتا بلکہ نمازیوں کی صفوں کو ملکوتی صفات کا حامل بنا دیا جاتا ہے۔ یہ صفیں روحانیت اور پاکیزگی کے اعتبار سے فرشتوں کی صفوں کی طرح ہو جاتی ہیں۔ پھر نمازی دورانِ نماز رب العالمین کے ساتھ راز و نیاز میں رہتا ہے۔ جب نماز میں استغراق کی کیفیت پیدا ہو جائے اور نمازی کے سامنے خود معبود کا جلوۂ جہاں آرا ہو تو اس سے بڑھ کر معراج کیا ہے اور اگر نماز کے بعد بھی نمازی کے سامنے یہ جلوہ ہو تو ہر وقت اس کے لیے معراج کا سماں ہے۔ صوفیہ ایسی ہی نماز کی تلقین کرتے ہیں۔ محض ارکان نماز کو ادا کر لینا شریعت کی رو سے نماز ہو سکتی ہے مگر طریقت اسے بے روح کا جسم تصور کرتی ہے۔ حضرت مخدوم تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک عزیز کا قول ہے کہ وجود صخرہ و کعبہ سے پہلے محبانِ ازلی کا قبلہ بارگاہِ حضرت لم یزل تھا اور جو لوگ احاطہ قدس کے رہنے والے تھے اور فضائے انس کے باشندے تھے، ان مشتاقوں کا قبلہ بھی وہی تھا، جو حی و قیوم لایزل ہے۔ اس فنا کی جگہ اور رنج و غم کے محل میں صخرہ و کعبہ کو جو قبلہ بنایا گیا صرف تسکین و تسلی کے لیے تاکہ طالبان و سالکانِ راہ کے دل مطمئن رہیں۔‘‘     (ایضاً)
قدس و کعبہ کو قبلہ علامتی طور پر بنایا گیا۔ جس عابد کا دل خالق قدس و کعبہ میں لگا ہوا ہو وہ کعبہ و صخرہ کی طرف کب متوجہ ہوتا ہے اور یہی نماز عشق ہے۔ یہی معراج مومنین ہے۔ نماز میں استغراق ہوگا تب ہی وہ معراج کے مقام تک پہنچ سکتی ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نماز میں تھے، آپ کے جسم سے تیر کھینچ لیا گیا مگر احساس نہیں ہوا۔ اس کا سبب یہی تھا کہ آپ مشاہدۂ محبوب میں مشغول تھے اور جس کے سامنے خالق کا جلوہ ہو وہ خلقت میں کب محو ہو سکتا ہے۔ یہی کیفیت وقت شہادت شہید کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے جلوہ محبوب ہوتا ہے۔ لہٰذا جسم کے کٹنے کا اسے احساس نہیں ہوتا۔
کچھ خبر کوچۂ جاناں کی بھی ہے اے واعظ
عشق بازوں کی ہے جنت تری جنت کے سوا

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1791