donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Life Sketch Of Holy Person
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafiz Asmatullah
Title :
   Hazrat Sulaiman A.S. Ke Waqeyat Se Mustafadat


حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات سے مستفادات


اسامہ عاقل حافظ عصمت اللہ

،بھوارہ ،مدھوبنی

(بہار)

 ولقدبعثنا فی کل امۃرسولاًان اعبدوااللہ واجتنبواالطّاغوت فمنھم من ھدی اللہ ومنھم حقت علیہ الضلالۃفسیروافی الارض فانظرواکیف کان عاقبۃ المکذبین۔

(سورۃ النحل ۱۶۔آیت ۳۶)

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!)صرف اللہ کی عبادت کرو اور اسکے سوا تما م معبودوں سے بچوپس بعض لوگوں کو توا للہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی ،پس تم خودزمین میں چل پھر کر دیکھ لوکہ جھٹلانے والوں کا انجام کیساکچھ ہو ا؟

1-  تمہید:-

(انبیا ء کرام کی بعثت کا مقصد )

جب جب اس دنیا میں برائی پھیلی اور لوگ اپنے مالک حقیقی سے دور ہونے لگے ایک اللہ کو چھوڑ کر سیکڑوں معبودان باطلہ کی پرستش میں مشغول ہوگئے اور عابد کو معبود سمجھ کر اسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے لگے تو اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنما ئی کے خاطر انبیا ء کرام کو بھیجا تاکہ لوگ ضلالت و جہالت کے گڈھے سے نکل کر رشد وہدایت کے روشن شاھرا ہ پر چلے آئیں ۔

اس دنیا کے اندر جتنے بھی انبیا ء کرام تشریف لائے ان کا مقصد ایک ہی تھا یہی توحید ۔ جس کی وضاحت قرآن یوں کی ہے ۔

’’ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولاًان اعبدوااللہ واجتنبواالطاغوت‘‘تفصیلی طور پر بھی قرآن نے اس کا تذکرہ اس طرح کیا ہے ۔ نوح علیہ سلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے :

لقد ارسلنانوحاًالی قومہ فقال یقوم اعبدوااللہ مالکم من الہ غیرہ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم

(سورۃاعراف ۷: آیت ۵۹)

ہم نے نوح علیہ السلام کو انکی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم !تم اللہ کی عبادت کر واسکے سوا کوئی تمہا را معبود ہونے کے قابل نہیں ،مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔

ہود علیہ السلا م کے با رے میں قرآن کہتا ہے :

والیٰ عادٍاخاھم ھوداًقال یٰقوم اعبدوااللہ مالکم من الٰہٍ غیرہ افلاتتقون ۔(سورۃ اعراف۷ :آیت ۶۵)
اور ہم نے قوم عاد کی طرف انکے بھائی ہود علیہ السلام کو بھیجا ۔انہوں نے فرمایا اے میری قوم !تم اللہ کی عبادت کرو ، اسکے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ، سو کیا تم نہیں ڈرتے ۔

صالح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے :

والیٰ ثمود اخاہم صالحاًقال یا قوم اعبدوااللہ مالکم من الہ غیرہ قدجاء تکم بینۃمن ربّکم ناقۃاللہ لکم اایۃ فدروھا تا کل فی ارض اللہ ولاتمسوھا بسوئٍ فیا خذکم عذاب الیم

(سورۃ اعراف۷:آیت ۷۳)

اور ہم نے ثمود کی طرف انکے بھائی صالح علیہ السلام کو بھیجا ۔انہوں نے فرمایا اے میری قوم !تم اللہ کی عبادت کرواسکے سوا کوئی تمہارامعبود نہیں ۔ تمہارے پاس تمہارے پرودگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے ۔ یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اسکو چھوڑدو کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسکو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آپکڑے۔

شعیب علیہ السلام کے بارے میںقرآن کہتا ہے:

والیٰ مدین اخاھم شعیباًقال یقوم اعبدوااللہ مالکم من الٰہٍ غیرہ قد جاء تکم بینۃ من ربکم فاوفواالکیل والمیزان ولا تبخسواالناس اشیاء ھم ولاتفسدوافی الارض بعد اصلاحھاذالکم خیرلکم ان کنتم مؤمنین

(سورۃ اعراف۷:آیت ۸۵)


اور ہم نے مدین کی طرف انکے بھائی شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ انہوں نے فرمایا اے میری قوم !تم اللہ کی عبادت کرو اسکے سواکوئی تمہارامعبود نہیں ، تمہارے پاس تمہارے پرودگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے ۔ پس تم ناپ اور تول پوراپوراکیاکرواورلوگوں کو انکی چیزیں کم کرکے مت دو اور روئے زمین میں ، اسکے بعد کہ اسکی درستی کردی گئی ، فساد مت پھیلاؤ، یہ تمہارے لئے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو۔

موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے :

ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ باٰیاتناالی فرعون وملائہ فظلمو ابھافانظرکیف کان عاقبۃ المفسدین

(سورۃ اعراف ۷: آیت۱۰۳)

پھرا ن کے بعد ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے دلائل دے کر فرعون اوراسکے امراکے پاس بھیجا ،مگر ان لوگوں نے ان کا بلکل حق ادا نہ کیا سو دیکھئے ان مفسدوں کاکیا انجام ہو ؟

 مذکورہ آیات سے معلوم ہواکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کو مبعوث کیا انکا مقصد لوگوں کو توحید کی دعوت دینا تھا ۔ جب ہم قرآن کریم کی آیات کو پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوجاتی ہے کہ اس طرح کی اور بھی بہت ساری آیات قرآنیہ ہیں جنکے اندر توحید کی دعوت دی گئی ہے اور تمام انبیاء کرام کے آنے کا مقصد بیان کیا گیا ہے ۔

 2:-  حضرت سلیمان علیہ السلام کی حالات زندگی

نام ونسب اور کنیت :    سلیمان بن داؤد بن ایشابن عابرابن سلمون بن عمینااداب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہوذابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔

آپ کی کنیت ابوالربیع۔ نبی اللہ بن نبی اللہ تھی ۔

(قصص الانبیاء /۵۵۲ علامہ عماد الدین ابن کثیرمترجم مولانا محمد اصغر صاحب )

حضرت داؤد علیہ السلام کی سو بیویاں تھیں ان میں سے ایک کانام اوریاتھا انہیں سے حضرت سلیمان علیہ السلام پیدا ہوئے ۔حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے انکے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو سلطنت اور نبوت سے سرفراز کیا۔ آپ کی سلطنت پوری دنیاکے اندر پھیلی ہوئی تھی ،اللہ تعالیٰ نے آپ کوجن وا نس چرند پرنداور دیگرمخلوقات پر حاکم بنایاتھا اور آپ تمام مخلوقات کی باتوں کو بخوبی سمجھتے تھے کیوںکہ اللہ کے نبی ہونے کے ناطے آپ کو یہ اعجاز بخشا تھا ۔ آپ متقی اور پرہیزگار بندے تھے ۔ کثرت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے اور ہر سال کے مہینے تین روزہ رکھتے ، اپنے رعایاکے ساتھ عدل و انصا ف کے ساتھ پیش آتے جانوروںسے بھی محبت کرتے اور انکے ساتھ حسن سلوک کرتے ۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سلیمان بن داؤد نے کہاکہ میں آج رات کو سو عورتوں کے پاس چکر لگاؤںگاہر ایک بچے کو جنم دیگی جو اللہ کی راہ میں لڑیگا۔اور آپ نے انشاء نہ کہا توکسی سے بچہ نہ جناسوائے ایک عورت کے اسنے بھی بچے کا ایک حصہ جنم دیا۔آگے آپ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے فرمایاتھا اگر آپ انشاء اللہ کہتے تو سو بچے ہوتے جو راہ خدا میں قتال کرتے ۔

(مسند ابویعلی)

حضرت ابن عباسؓ نے روایت کی کہ رسول اکرم ﷺسے مروی ہے آپ نے فرمایاجب اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام نماز ادافرماتے توسامنے ایک درخت اگادیکھتے آپ اس سے پوچھتے تیراکیانام ہے ؟ وہ کہتا فلاں۔آپ پوچھتے تو کس فائدہ کے لئے ہے ؟ نسل بڑھانے کے لئے یاکسی دوا کیلئے ۔ تو ایک مرتبہ آپ نماز ادا فرمارہے تھے کہ آپ نے ایک درخت کوسامنے دیکھا تو اس سے پوچھا تیرا کیا نام ہے ؟ عرض کیا خرو ب آپ نے پوچھا کس چیز کے لئے ہے تو ؟ عرض کیا اس گھر کی خرابی ویرانی کیلئے(یعنی آپ کواشارہ کیاگیاکہ آپ کی وفات قریب ہے )تو آپ نے دعا کی اے اللہ سال بھر تک جنوں سے میری موت کو مخفی رکھنا تاکہ انسان جان لیں کہ جن غیب کا علم نہیں جانتے ۔

پھر آپ نے اس درخت کی عصا بنائی ۔ اور اس پر ٹیک لگا لی ۔ اور ایک سال تک یوں ہی کھڑے رہے اور جن کام کرتے رہے ۔ پھر لکڑی کو کیڑے نے کھا لیا (تو آپ گڑے اور پھر پتا چلا کہ اپ تو ایک سال سے وفات پاچکے ہیں)تو  پھر انسان کو پتہ چلا کہ اگر جن غیب جانتے تو ایک سال تک ذلت کے ساتھ کام میں نہ پھنسے ہوتے ۔

(قصص الانبیاء : ۵۷۱علامہ ابن کثیر)

حضرت سلیمان علیہ السلام کی مدت خلافت اور عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔
۱۔ حضرت سلیمان علیہ السلام صرف ۵۲ سال زندہ رہے اور آپ کی بادشاہیت ۴۰سال رہی ۔
۲۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت ۲۰ سال رہی اورآپ کی کل عمر ۵۰سے چند سال اوپر تھی۔آپ نے اپنی سلطنت کے چوتھے سال میں بیت المقدس کی بنیاد کی ابتد اکی ۔ آپ کے بعد آپ کا فرزند جسعام ۱۷سال بادشاہ رہا ۔ اور اسکے بعد بنی اسرائیل کی سلطنت پارہ پارہ ہوگئی ۔

(حوالہ سابق :۵۷۳)

3  : -  حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات سے مستفادات :

حتی اذااتواعلیٰ وادالنمل قالت نملۃ یایھاالنمل ادخلو امسٰکنکم لا یحطمنکم سلیما ن وجنود ہ وھم لایشعرون

(سورۃنمل ۲۷ :آیت ۱۸)

جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیوں !اپنے اپنے گھڑوں میںگھس جاؤ ، ایسا نہ ہوکہ بے خبری میںسلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روندڈالے ۔

فتبسم ضاحکامن قولھا وقال رب او زعنی ان اشکر نعمتک الّتی انعمت علی وعلی والدیّ وان اعمل صالحاًترضاہو وادخلنی برحمتک فی عبادک الصالحین

(سورۃ نمل ۲۷:آیت ۱۹)

۱۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا اعجاز ہے کہ اس نے اپنے نبی سلیمان علیہ السلام کو انسان کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کی آواز سکھائی تھی اوروہ اسکو بخوبی سمجھتے تھے ۔ ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کوچاہے تو اپنی کوئی بھی نعمت عطاء کر سکتاہے۔

۲۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے جیونٹی کی بات سن کر ہنس دئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوںکا شکریہ ادا کئے اور دعا کی کہ تم مجھ سے خوش ہوکر اپنے نیک بندوں میں شامل کرلے ۔جب کسی بھی شخص کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے نوازے تواس کو اللہ کو بھول نہیں جانا چاہئے ،بلکہ اسکی عطاکردہ نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور اللہ سے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اے اللہ تو مجھے توفیق دے کہ میں نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو راضی ہوجائے او ر اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل کرلے۔

۳۔وتفقد الطیرفقال مالی لااریٰ الھدھد…

(سورۃ نمل ۲۷:آیت ۲۰تا۲۶)

ھد ھد پرندے نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو قوم سبا کے بارے میں یہ خبر دی کہ وہاں عورت بادشاہت کر رہی ہے اور وہ خود اور وہاںکے لوگ اللہ واحد کو چھو ڑ کر سورج کی پرستش کرتے ہیں ۔حالانکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔

ھد ھد ایک پرندہ ہو نے کے باوجود جب سورج کی پرستش کرنے والوںکو دیکھا تو اسے اللہ کی وحدانیت یاد آگئی اور اسنے سلیمان علیہ السلام سے ان کے بارے میں بتایا ۔ وہ ایک پرندہ ہے ، اور ہم تو مسلمان ہیں اس لئے ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی فکر کریں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبودان کی پوجا کرتے ہیں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم انہیں شرک کے نقصانات سے آگاہ کرائیں اور جہنم کی آگ سے ڈرائیں تاکہ وہ اللہ کی وحدانیت کو سمجھ جائیں۔

۴۔ووھبنا لداؤدسلیمان نعم العبد …

(سورۃص۳۸:آیت ۳۰تا۳۴)

گھوڑے کے معائینے کی وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی عصر کی نماز یا وظیفہ چھوٹ گیا تو آپ نے ان گھوڑوں کو ذبح کر دیا حالاںکہ وہ بہت ہی عمدہ اور قیمتی گھوڑے تھے ۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق لینا چاہئے جب ہمارے پاس زیادہ مال دولت ہو جائے یا کوئی کام کرتے رہیںتو اللہ کو ہرگذنہ بھولیں بلکہ ہر حال اللہ تبارک وتعالیٰ کو یاد رکھیں اور اگر کبھی ہمار ا کوئی عبادت چھوٹ جائے توہمیں اس پر افسوس کرنا چاہئے اور ندامت شرمندہ ہوکر پھر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے ۔ کیوںکہ نعمت وہی دینے والا ہے ۔

۵۔ ولقد فتنا سلیمان والقینا علیٰ کرسیہ جسداًثم اناب

(سورۃ ص ۳۸:آیت ۳۴)

حضرت سلیمان علیہ السلام کے انشا ء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے انکی سو بیویوں میں سے صرف ایک سے لڑکا پید اہوا وہ بھی ادھورا۔اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی جو ہر عیوب سے ونقائص سے پاک ہوتے ہیں اور ان سے گناہ بھی سرزدنہیں ہوتی ہے وہ اگر انشاء اللہ نہ کہیں تو اللہ انکے کام کو پورا نہیں کرتا ہم تو اللہ کے ایک بندے ہیںاور انبیا ء کے مقابلے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے تو ہمیں بدرجہ ء اولا کسی بھی کام کو کرنے سے قبل اللہ کانام لینا چاہئے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے کام کرنا چاہئے تاکہ ہماراکام پورا ہوجائے ادھورا نہ رہے۔

خاتمہ :- اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیا ء کرام کو اس دنیا میں اس لئے بھیجا کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لائیں اور…قرآن مجید کے اندر انبیاء کرام کا تذکرہ اس لئے آیا ہے کہ مسلمان انکی سیرت کوپڑھیں اور ان سے سبق حاصل کریں کہ انہوں نے کون سے حالا ت میں کس طرح کا کام کیا۔ اگر ہم انبیاء کرام کی زندگی کوسامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو بسر کرینگے تو ہمیں ہرموقع پرکامیابی ملے گی ۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیا ء کرام کی زندگی ہی کوہمارے لئے نمونہ بنایا ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو انبیاء کرام کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی توفیق دے مزید یہ کہ اللہ ہمیں اسی طرح سے صبرو استقامت ، ہمت و شجاعت اور جواںمردی و جاں بازی عطافرمائے جس طرح انبیاء کرام کے اندر تھی ۔

(یو این این)

*******************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 694