donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Life Sketch Of Holy Person
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafiz Md. Fakhruddin
Title :
   Seerat Hazrat Junaid Boghdadi Alaihe Rahma

 سیرتِ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ

 

از :حافظ محمد فخر الدین 

 

علم تصوف دینِ اسلام کا وہ اعلیٰ ترین علم ہے جس کے ذریعہ بندگانِ خدا کو عرفانِ محمدی اور معرفتِ خداوندی حاصل ہوتی ہے جو تخلیق انسانی کا مقصد اصلی ہے تصوف کی بنیاد قرآن و سنت سے علم تصوف کے معلم اولین آقائے رحمت اللعٰلمین ﷺ اور تعلیم تصوف کے طلبہ صادقین ، اصحاب سید المرسلین دور رسالت مآب ﷺ میں لفظ تصوف یا صوفی رائج نہیں تھا بلکہ اس کو احسان یا زہد سے یاد کیاجاتا لفظ تصوف یا صوفی کا باضابطہ استعمال دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ہوا ۔

تمام سلاسل تصوف و طریقت خلفائے راشدین کے واسطے سے سید المرسلین ﷺ کو پہنچتے ہیں تیسری صدی ہجری اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ تصوف کے اصل خطوط اس صدی میں واضح کئے گئے ، تصوف کے اصول و ضوابط قواعد و شرائط وضع کئے گئے اور تصوف اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس صدی میں جلوہ گر ہوا ۔ تیسری صدی ہجری تدوینِ تصوف کی صدی ہے تدوینِ تصوف میں صوفیائے کبار کا اہم کردار رہا ،جنہوں نے اپنی خدادا صلاحیتوں کے ذریعہ قرآں و سنت کی روشنی میں تصوف و طریقت کی تدوین فرمائی۔ صوفیائے کبار نے الہامِ الٰہی کے ذریعہ منشائے خداوندی کے مطابق اس کے اصول وضوابط قواعد و شرائط کو وضع فرمایا تصوف کی بنیادوں کو قرآن و سنت سے مستحکم فرمایا ، تدوین تصوف کا فریضہ انجام دینے میں سید الطائفہ امام الصوفیہ ابو القاسم خواجہ جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے مرکزی و بنیاد کردار ادا فرمایا ہے جس کا اعتراف تمام صوفیائے کبار نے اپنے اپنے عہد میں فرمایا ہے۔ یقیناًاللہ اور اس کے رسول نے تدوینِ تصوف کیلئے خواجہ جنید بغدادی علیہ الرحمہ کی ذاتِ بابرکت کو منتخب فرمایا تھا اور وہ تمام اوصاف وکمالات آپ کی ذات بابرکت میں ودیعت فرمائے تھے جو اس عظیم کام کو انجام دینے کیلئے درکار تھے۔ تصوف کی اُمہات الکتب میں بے شمار صوفیائے کبار سے یہ بات منقول ہے کہ اللہ پاک نے حضرت جنید بغدادیؒ کو صرف سات برس کی عمر صغیر میں درجۂ اجتہاد پر فائز فرمایا تھا اور وہ مجددِ روحانیات تھے ۔ 

تیسری صدی ہجری جو تصوف کے تدوین کی صدی ہے اس پوری صدی کو حضرت جنیدی بغدادی کی صدی قرار دیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تیسری صدی ہجری میں علماء و فقہا اُدبا و شعراء ، صوفیہ و عرفاء اولیاء کا مرجع حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ہی تھی ۔ شیخ کی حیات اس پوری صدی کو محیط اور ذاتِ بابرکت اہل صدی پر حاوی ہے اس صدی کے اوائل میں ولادتِ باسعادت اواخر میں وصال باکمال ہوا ۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک جس بندے کو جس کام کیلئے پیدا فرماتا ہے وہ کام اس کیلئے آسان فرمادیتا ہے اللہ پاک کو حضرت جنیدی بغدادی سے تدوین تصوف کی عظیم خدمت لینا مقصود تھا اس لئے انہیں ایسے خاندان اور گھرانے میں پیدا فرمایا جس کے افراد تقویٰ و طہارت ، عشق و محبت ، علم و عمل کے زیور سے خوب آراستہ تھے۔ 

حضرت جنیدی بغدادی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت تیسری صدی ہجری کے اوائل میں عراق کے عروس العباد شہر بغداد میں ہوئی۔ ارباب سیرو تاریخ نے آپ کے سال ولادت کے بارے میں اختلاف کیا ہے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آپ کی ولادت 210تا220کے درمیان ہوئی۔ خواجہ جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے پدر بزرگوار حضرت محمد قواریری سلوک طئے کئے ہوئے بزرگ اور ایک سچے دیانت دار تاجر تھے اور مادر ماجدہ عارف وقت اور قطب ارشاد ضیاء الدین سری السقطی کی ہمشیرہ حقیقی ہونے کا شرف رکھتی تھیں۔ یہی وجہہ تھی کہ حضرت جنید بغدادی کو روح پرور علمی ماحول میسر آیا جو ارتقائے روحانی اور معرفت ربانی کے حصول میں معاون ثابت ہوا،ا س کے علاوہ شہر بغداد جہاں آپ کی نشو ونمائی ہوئی ان دنوں علم و عرفان دین و دانش کا گہوارہ تھا جہاں ہر علم کے ماہر استاذ اور ہرفن کے امام جلوہ افروز تھے جو تشنگان علوم و فنون کو خوب سیراب کررہے تھے کہیں قال اللہ وقال الرسول کی صدائے دلنواز تھی تو کہیں شیوخ و صوفیہ سالکان راہ طریقت کے قلوب کو نور بصیرت سے منور فرمارہے تھے ۔ خواجہ جنیدی بغدادی علیہ الرحمہ بچپن ہی سے غیر معمولی ذہانت اور صلاحیت کے مالک تھے ۔ فہم و فراست آپ کو ورثہ میں ملی تھی آپ کے بچپن کے چند واقعات بہت سی کتابوں میں ملتے ہیں جو آپ کی غیر معمولی ذہانت و صلاحیت ، فہم و فراست کو واضح کرتے ہیں خود حضرت جنید بغدادی سے منقول ہے کہ ایک دفعہ مکتب سے تعلیم حاصل کرکے گھر لوٹے تو دیکھا کہ والد گرامی رورہے ہیں سبب دریافت فرمایا تو والد محترم نے بتایا کہ زکوٰۃ کی کچھ رقم تمہارے ماموں سرسقطی کے یہاں بھیجا تھا اُنہوں نے قبول نہ فرمایا۔ جنید بغدادی عرض کرتے ہیں کے باباجان وہ رقم مجھے دیجئے میں ابھی ماموں جان کی خدمت میں پیش کرکے آتا ہوں ، زکوٰۃ کی رقم لے کر سری سقطی کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور وہ رقم حضرت سری سقطی کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کرتے ہیں کہ ماموں جان اس خدائے بزرگ و برتر کے واسطے زکوٰۃ کی اس رقم کو قبول فرمائے جس نے آپ کو فضیلت و بزرگی اور میرے والد کو عدل سے نوازا ہے ۔ حضرت سرق سقطی نے دریافت فرمایا کہ بیٹا بتاؤ تو سہی مجھے کونسا فضل اور تمہارے والد کو کونسا عدل دیا گیا ہے ،حضرت جنید بغدادی نے فرمایا صاف ظاہر ہے اللہ نے آپ کو فقر اور درویشی بخشی اس سے بڑھ کر اور کیا فضل ہوگا اور میرے والد کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ یہ روپئے اس کے مستحقین تک پہنچائیں ،یقیناًیہ عدل ہے۔ یہ سن کر حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ نے فرمایا رقم سے پہلے میں تمہیں قبول کرتا ہوں ۔
اس واقعہ کے بعد حضرت سری نے اپنے سعادت مند بھانجے کو اپنی صحبت میں رکھ لیا اور ان کی خاص تربیت فرمانی شروع کی۔ اس طرح کا ایک اور واقعہ جو خود حضرت سے منقول ہے فرماتے ہیں کے ایک روز میں حغضرت سری سقطی کی مجلس میں تھا وہاں کافی مشائخ تشریف فرماتھے ۔ حضرت سری نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کونسی ایسی چیز ہے جو آنکھوں سے نیند اُڑادے ہر ایک اپنی اپنی رائے کااظہار کرنے لگا کوئی کہنے لگا بھوکے رہنا کسی نے کہا پانی کم مقدار میں پینا ،میرے بولنے کی باری آئی تو میں نے جواب دیا دلوں کا اس بات کو جان لینا کہ اللہ کو ہر شخص کے بارے میں پوری طرح خبر ہے کے اس نے کیا کچھ کمایا ہے۔ حضرت سقطی نے یہ سن کر فرمایا بیٹا تم نے خوب جواب دیا۔ اس کے بعد اُنہوں نے مجھے اپنے قریب جگہ دی اور اس واقعہ کے بعد سے وہ ہمیشہ تمام مشائخ پر مجھے ہی مقدم رکھتے تھے ۔ مذکورہ واقعات سے حضرت جنید کی غیر معمولی ذہانت اورصلاحیت ، فہم و فراست کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

حضرت جنید لڑکپن کے ایک اور واقعہ کو تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کررکھا ہے ۔ حضرت سری کے یہاں چار سو مشائخ وقت تشریف فرما تھے ، شکر کے موضوع پر گفتگو ہورہی تھی ۔ ہر ایک باری باری موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔ لیکن شکر کی حقیقت بدرجہ اتم واضح نہ ہوسکی ۔ حضرت سریؒ نے جنید کو پاس بلایا، اور فرمایا بیٹا تم بھی شکر کی تعریف بیان کرو ۔ سارے مشائخ حیران تھے کہ ایک بچے سے شکر کی حقیقت پوچھی جارہی ہے بلکہ اُن کی حیرانی کی کوئی انتہاء نہ رہی جب آپ نے بڑوں کی سی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا اور جواب بھی ایسا کہ جو اپنے موضوع پر حرفِ آخر ہو۔ حضرت جنید نے فصیح و بلیغ پیرائے میں بہ زبان عربی جواب دیا کہ شکر یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ذریعہ انسان اُس کی نا فرمانی نہ کریں ، اُس کی عطاکردہ نعمتوں کو صرف اُس کی اطاعت میں صرف کرے ۔ 

حضرت جنیدنے سب سے پہلے علوم شریعت کو حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے اور نوبرس کی عمر میں تجوید اور ترسیل کیساتھ قرآن مجید کو حفظ کیا اس کے بعد دس سے پندرہ سال کی عمر میں حدیث شریف پڑھنے اور کتابت حدیث کا خوشگوار فریضہ انجام دینے میں گذار ۔ آپ نے علم حدیث حضرت سری سقطی کے علاوہ دیگر اکابر محدیثن سے حاصل کیا ۔علم حدیث میں مہارت حاصل کرنے کے بعد علم فقہا کی طرف اپنی توجہ مبذول کی اور 16سے 20سال کی عمر کے دوران اپنے عہد کے ممتاز بغدادی فقہا ابوعبیدہ ابوثور کے علاوہ دیگر فقہاسے علم فقہہ کو حاصل کیا اور بیس سال کی عمر شریف میں اپنے استاد ابوثور کی موجودگی میں منصب افتاء پر فائز ہوئے۔ آپ جو فتویٰ دیتے وہ عالم اسلام میں مستند و مسلم تسلیم کئے جاتے اس کے علاوہ آپ نے طویل عرصہ درس و تدریس وعظ و تزکیہ کا فریضہ انجام دینے میں گذارا۔آپ کے حلقہ درس و تدریس وعظ و تذکیہ سے لاکھوں بندگانِ خدا فیضیاب ہوئے۔ حضرت جنید اپنے وعظ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے وعظ کہنا یونہی شروع نہیں کیا بلکہ چالیس ابدال کے اصرار بیحد اور مرشد گرامی کے حکم ، آقائے کائنات ﷺ کی ایماء پر کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ایک شب زیارت رسول ﷺ سے مشرف ہوا ۔رسول اللہ ﷺ فرمارہے ہیں اے جنید ،لوگوں کے سامنے وعظ کہو ،کیونکہ تمہارے وعظ سے ان کو ہدایت ملے گی اور اللہ تعالیٰ تمہارے کلام کو ایک عالم کی نجات کا ذریعہ بنائیگا۔ صبح حضرت سری سقطی کی خدمت میں پہنچے اور خواب عرض کرناچاہتے تھے کہ حضرت سری نے فرمایا مشائخ کبھی سفارش قبول نہ کی میں نے بھی کہا پھر بھی قبول نہ کیا اب رسول اللہ ﷺ کا حکم آیا ہے ان کا ہی حکم مان لو ،حضرت جنید بغدادی نے عرض کیا آپ اس بات کو کیسے جان گئے، حضرت سری فرماتے ہیں میں نے خواب میں اللہ کو فرماتے سنا کے ہم نے محمد ﷺ کو جنید کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جنید کووعظ گوئی کی تاکید کریں حضرت جنید نے کہا کہ ،میں اس شرط پر وعظ کہہ سکتا ہوں کہ چالیس افراد سے زیادہ کا مجمع نہ ہو ،آپ کی مجلس وعظ میں موجود چالیس افراد میں سے22افراد پر غشی طاری ہوئی اور اٹھارہ انتقال کرگئے۔ 

حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ نے منطق الطیر میں حضرت جنیدؒ کی مجلس وعظ کا تذکرہ اس طرح کیا ہے کہ مقتدائے دین جو ایک بحر زخار کی مانند ہیں انہوں نے ایک رات بغداد میں تقریر کی ایسی تقریر کہ اُس کی عظمت کے سامنے بلند آسمان بھی تشنگی میں اپنا سر آستانہ پر رکھ دیا۔ حضرت جنیدؒ کے وعظ کے بارے میں اُوپر جو واقعہ گذرا ایسی طرح ایک اور واقعہ ایک بزرگ سے منقول ہے کہ کسی بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ تشریف فرماہیں ، اور حضرت جنیدؒ حاضر خدمت ہیں ، اتنے میں ایک حاضر ہوااور احضور اکرم ﷺ سے فتویٰ طلب کیا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہ فتویٰ جنید لے لو ۔ وہ شخص عرض کرنے لگا یا رسول اللہ ﷺ ، آپﷺ کی موجودگی میں کسی دوسرے سے میں فتویٰ کیونکر لے سکتا ہوں ۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو جس طرح اپنی اپنی اُمت پر ناز ہے ، اُسی طرح مجھے اپنی اُمت میں سے جنید پر ناز ہے ۔ حضرت جنید بغدادیؒ بڑے جلیل القدر صوفی جید عالم و فقہی تھے ۔ اُن کے زندگی ایک نمونہ تھی صوفیا ، علماء فقہا، اور متکلمین سب ان کا احترام کرتے تھے ۔ حضرت جنید کی شخصیت اتنی موثر جامع اور ہمہ گیر ہے کہ پورے گروہ صوفیہ میں ایسی شخصیت نظر نہیں آتی ۔ حتیٰ کہ اُن کے اساتذہ میں بھی کوئی ایسی زبردست شخصیت نہیں ہے جس کے حلقے میں ہر طرح کے لوگ جمع ہوتے ہوں ۔ اور جس سے ہر طرح کے افراد نے استفادہ کیا ہو۔ مفسیرین و محدیثین ، متکلمین علماء و فقہا صوفیا و اولیاء عرفاء و اتقیاء سب ان کے یہاں حاضری دیتے اور اُن سے مستفید ہوتے ۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے ہم عصر ایک معتزلی عالم ابوالقاسم الکعبی نے ایک دفعہ ابوالحسین فارسی کو بتایا کہ میں نے بغداد میں تمہارے ایک شیخ کو دیکھا جن کا نام جنید ہے میری آنکھوں نے ایسی شخصیت نہیں دیکھی اُن کے پاس مصنفین الفاظ اور اُن کی بندش دیکھنے کو فلسفی اُن کی نکتہ رسی اور نازک خیال سننے کو شعراء فصاحت و بلاغت اور خوش گفتاری کا اندازہ کرنے کو کلام والے معنی و مطالب سمجھنے کو ، اہلِ عرفان رموزِ معرفت اور اہلِ طریقت اسرارِ طریقت کو حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا کرتے ہیں ۔ الغرض حضرت جنید بغدادی کی ذات بابرکت علماء و فقہا شعراء و ادباء صوفیہ اور اولیاء مفسرین و محدیثین کے درمیان آفتاب روشن کی طرح ہے ۔ جس کی روشنی ہرایک مستفید ہوتا ہے ۔حضرت جنید بغدادی کے لئے ایک بڑا خراجِ عقیدت تو یہ ہے کہ تصوف کے تمام سلاسل نے بالاتفاق اُن کو اپنا پیشوا تسلیم کیا ۔ اور ہر عہدکے صوفیا اپنے انتساب انہی کی طرف کرتے رہے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ تصوف کے سلاسل اپنے اوراد اور اذواق میں باہم مختلف ہیں لیکن اپنے نسب میں سب حضرت جنید پر متفق ہیں ۔ تصوف کے تمام سلاسل حضرت جنیدؒ کے واسطے ہی سے اوپر کو پہنچتے ہیں ۔ حضرت سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش علیہ الرحمہ نے کشف المہجوب جن دس سلسلوں کو حق پر قائم قرار دیا ہے ان میں سے ایک سلسلہ جنیدیہ جس کے مؤسس حضرت جنیدؒ ہی ہیں اور باقی 9سلسلوں میں سے 5سلسلے ایسے ہیں جن کے بانیوں کا حضرت جنید سے گہرا قریبی اور روحانی تعلق ہے ، اس کے علاوہ سلاسل اربعہ قادریہ چشتیہ نقشبندیہ اورسہروردیہ ان چاروں سلسلوں میں سے دو قادریہ اور چشتیہ کا حضرت کی ذاتِ گرامی سے بلاواسطہ تعلق ہے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ، حضرت شہاب الدین عمر سہروردیؒ ، حضرت شیخ ابواسحق چشتیؒ کا سلسلہ طریقت صرف ایک واسطہ سے حضرت جنید بغدادی کو پہنچتا ہے ۔ اسی طرح نقشبندیہ سلسلہ بھی حضرت جنید بغدادی کو پہنچتا ہے ۔ 

حضرت جنید بغدادی کی پوری زندگی یاد حق اور خدمتِ خلق میں بسر ہوئی ۔ شب و روز عبادت و ریاضت میں گذارتے ہوئے مسلسل چالیس سال تک آپ نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرمائی۔ مسلسل روزے رکھتے کبھی کبھی ا فطار کرتے۔ روزانہ چار سو رکعت نفل اور تین ہزار تسبیح پڑھتے ،خود بھی پابند شرع تھے، اور مریدین و متوسلین کو بھی پابندی و شریعت کا حکم دیتے ۔ حضرت جنید مریدوں کو ہدایت کرتے کہ وقت کی بڑی اہمیت ہے وقت سب سے قیمتی شئے ہے ۔ آپ فرمایا کرتے آدمی کو تین حالتوں میں کسی ایک حال میں ہونا چاہئے۔ اپنا احتساب کرنے میں یا فرائض ادا کرنے میں یا اپنے احوال کا جائزہ لے کر مستقبل کی تربیت کرنے میں حضرت جنید کے اقوال و تعلیمات بے شمار ہیں ۔یہاں چند ذکر کی جاتی ہیں فرماتے ہیں ہمارا علم تصوف قرآن و سنت کی وجہہ سے مضبوط ہے جو قرآن حفظ نہ کرے اور نہ ہی حدیث لکھے تصوف میں اس کی اقتداء نہ کی جائے۔ آپ فرمایا کرتے تھے تمام مدارج صرف فاقہ کشی ،ترکِ دنیا اور شب بیداری سے حاصل ہوئے ہیں ۔ فرمایا کہ صوفی وہ ہے جو خدا اور رسول ﷺ کی اس طرح اطاعت کرے کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے میں حدیث شریف ۔حضرت جنید بغدادی نے تکمیل سنت کیلئے ایک خاتون کے ساتھ نکاح فرمایا جن سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی تولد ہوئے ۔ ابو محمد جریری کہتے ہیں حضرت جنید بغدادی کا وقت وفات قریب آیا تو میں ان کے سرہانے کھڑا تھا جمعہ کا دن تھا اور وہ تلاوت قرآن میں مصروف تھے۔ میں نے عرض کیا ابو القاسم اپنے نفس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے ، اُنہوں نے جواب دیا اے ابو محمد آج مجھ سے زیادہ اس کا کوئی محتاج نہیں ہے یہی تو وقت ہے کہ میرا نامہ اعمال لپٹا جارہا ہے آپ نے سورہ بقرہ کی ستر آیتیں تلاوت فرمائیں تھیں کہ آپ کی روح قفص عنصری پرواز کرگئی۔ غسل دیتے وقت لوگوں نے جب آنکھ میں پانی پہنچانا چاہا تو غیب سے آواز آئی ہمارے محبوب کی آنکھوں سے پانی دور رکھ ،کیونکہ اس کی آنکھیں ہمارے ذکر کی لذت سے بند ہوئی ہیں اور اب ہمارے دیدار کے بغیر کھل نہیں سکتی ۔ آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے فرزند حضرت قاسم جنیدی نے پڑھائی۔جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی آپ کا وصال بکمال 27رجب بروز جمعہ 297ہجری 910عیسویں میں ہوا ۔ آپ کی ذات بابرکت سے تصوف و طریقت کے تمام سلسلے فیضیاب ہوئے ۔بے شمار صوفیائے کرام آپ کے مسلک و مشرب کو اختیار کیا اور آپ کو اپنا امام و پیشوا تسلیم کیا ۔ آپ کی تعلیمات صبح قیامت تک ہر ایک کیلئے مشعل راہ ہیں۔ آپ کے اقوال تصوف میں حجت و دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 639