donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Aziz
Title :
   Chand Aham Aur Zaruri Sawalat Aur Unke Jawabat

چند اہم اور ضروری سوالات اور ان کے جوابات 


تحریر: علامہ یوسف القرضاوی… ترتیب:عبدالعزیز


    ہیجان انگیز مناظر سے متاثر ہونا: 

    سوال: میں کالج کا اسٹوڈنٹ ہوں۔ میں ایک دین دار لڑکا ہوں اور الحمدللہ نماز، روزے اور دوسری عبادات کا پابند ہوں؛ لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک غلط عادت میں مبتلا ہوں۔ میں جب بھی کوئی ہیجان انگیز منظر دیکھتا ہوں تو میری شہوت جاگ اٹھتی ہے اور میرے کپڑے گیلے ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے مجھے بار بار غسل کرنا پڑتا ہے اور یہ بات میرے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ اس مصیبت سے چھٹکارا پانے میں آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ امید ہے آپ میری رہنمائی فرمائیں گے۔ 

    جواب: سب سے پہلے تو میں آپ کو اس بات پر مبارکباد دیتا ہوں کہ نوجوانی کی عمر میں بھی آپ کو دین سے الفت و محبت ہے اور آپ نماز و روزے اور دوسری عبادتوں کے بھی پابند ہیں۔ امید ہے کہ اپنی آئندہ زندگی میں بھی آپ دین کو اسی مضبوطی کے ساتھ تھامے رہیں گے۔ امید ہے کہ آپ قیامت کے دن ان سات قسم کے لوگوں میں شامل ہوں گے جنھیں اللہ تعالیٰ کا سایہ نصیب ہوگا۔ اس دن جبکہ اللہ کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا اور سورج سوا نیزے پر ہوگا۔ ان سات قسموں میں سے ایک قسم ان نوجوانوں کی ہے جنھوں نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ہے۔ 

    آپ کو اپنی اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کیلئے سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ آپ ہر ممکن طریقہ سے ان مناظر اور ان جگہوں سے اپنے آپ کو بچائیے جو آپ کیلئے ہیجان انگیز ثابت ہورہے ہیں۔ آپ ہر ممکن کوشش کیجئے کہ آپ کا التفات ان مناظر کی طرف نہ ہو۔ عربی میں ایک کہاوت ہے کہ ’’عقل مند وہ نہیں ہے جو برائیوں میں گھرنے کے بعد ان سے نکلنے کی تدبیر کرے بلکہ عقل مند وہ ہے جو اس بات کی تدبیر کرے کہ وہ برائیوں میں گھرنے ہی نہ پائے‘‘۔ 

    ساتھ ہی آپ کسی اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جنسیات کے ماہرین کے پاس کوئی ایسی دوا ہو جس سے آپ کا علاج ہوسکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔

    آخر میں آپ سے یہ کہوں گا کہ ہیجان انگیز مناظر دیکھنے کے بعد جو چیز بھی عضو تناسل سے نکلتی ہے ، کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہ منی ہو۔ کبھی منی کے بجائے صرف مذی نکلتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ منی نکل گئی۔ غسل کرنا صرف منی میں واجب ہے۔ مذی میں غسل نہیں ہے۔ صرف وضو کرلینا اور مذی کی جگہ پر پانی کے چھینٹے مار لینا کافی ہے۔ 

    ترمذی اور ابو داؤد کی روایت ہے کہ سہل بن حنیفؒ فرماتے ہیں کہ انھیں مذی کی وجہ سے کافی پریشانی ہوتی تھی کہ بار بار انھیں غسل کرنا پڑتا تھا۔ انھوں نے اس پریشانی کا تذکرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ وضو کرلینا اور مذی کی جگہ پر پانی کے چھینٹے مار لینا کافی ہے۔ غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم بندوں پر احسان ہے کہ اس نے مذی میں غسل کو واجب نہیں کیا۔ 

    محبت اور شادی:

    سوال: میں ایک لڑکے سے محبت کرتی ہوں اور ہم دونوں نے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر شادی کا عہد و پیمان بھی کرلیا ہے۔ اس کے بعد اس لڑکے نے میرے گھر والوں سے میرا رشتہ مانگا تو میرے گھر والوں نے انکار کر دیا، کیونکہ وہ میری شادی کسی اور سے کرانا چاہتے ہیں، تو کیا اس عہد و پیمان کے بعد میرا کسی اور سے شادی کرنا جائز ہوگا؟ 

    جواب: اسلامی شریعت کے مطابق شادی ایک ایسا بندھن ہے جسے درج ذیل متعلقین کی باہمی رضامندی کے بعد ہی عمل میں آنا چاہئے: 

    (1  اسلام نے حکم دیا ہے کہ لڑکی کی رائے ضرور معلوم کرنی چاہئے، اس پر کسی قسم کی زبردستی نہ ہو۔ اس کی شادی زبردستی اس شخص سے نہ کرائی جائے جسے وہ ناپسند کرتی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نکاح کو ناسخ قرار دیا جس میں لڑکی کی شادی ایسے شخص کے ساتھ کرا دی گئی جسے وہ ناپسند کرتی تھی۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک لڑکی حضورؐ کے پاس آئی اور بیان کیا کہ میرے والد میری شادی ایسے شخص سے کرانا چاہتے ہیں جسے میں سخت ناپسند کرتی ہوں۔ آپؐ نے اس سے فرمایا کہ تم شادی کرلو، جیسا تمہارے والد چاہتے ہیں۔ اس نے کہاکہ میں اس شخص کو ناپسند کرتی ہوں۔ آپؐ نے پھر فرمایا کہ اپنے والد کی بات مان لو۔ لڑکی نے بار بار انکار کیا اور آپؐ نے بار بار اسے اپنے والد کی بات مان لینے پر اصرار کیا۔ اس لڑکی کے مصمم انکار کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں اس بات کا پورا حق ہے کہ تم اس شادی سے انکار کردو اور اس کے والد کو حکم دیا کہ اس کی پسند سے شادی کرائی جائے۔ اس پر لڑکی نے کہاکہ اب میں اپنے والد کی پسند سے شادی کرتی ہوں۔ میں تو صرف لوگوں کو یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ اپنی لڑکیوں پر اس قسم کی زبردستی جائز نہیں ہے۔ 

    (2  اس طرح لڑکی کے ولی کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔ حدیث ہے کہ ’’جس عورت نے بغیر اپنے ولی کی اجازت کے خود سے اپنی شادی کرلی، اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے‘‘۔ 

    شریف لڑکی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اپنا رشتہ خود تلاش کرے اور خود سے اپنی شادی کرلے۔ آج کل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے بھولی بھالی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر گھر سے بھگا لے جاتے ہیں اور کسی اور جگہ جاکر شادی کرلیتے ہیں۔ اس میں لڑکے کے گھر والوں کی رضامندی شامل نہیں ہوتی ہے۔ لڑکی کو ہوش اس وقت آتا ہے جب اسے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ زبردست دھوکا ہوا ہے، لیکن اب وہ دھوکے بازوں کے دام میں اس طرح پھنس چکی ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ شریعت نے ولی کی رضامندی کو ضروری قرار دے کر لڑکی عزت و شرافت کی حفاظت کا بندوبست کیا ہے۔ 

    (3  اسی طرح لڑکی کی ماں سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے۔ حدیث ہے: ’’عورتوں سے ان کی بیٹیوں کے سلسلے میں مشورہ کرو‘‘ (مسند احمد)۔ 

    اس حدیث کی رو سے لڑکیوں کی شادی سے متعلق ان کی ماؤں سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ مائیں باپوں کے مقابلے میں اپنی بیٹیوں کی طبیعت ، ان کی پسند و ناپسند اور ان کے میلان و رجحان کو زیادہ بہتر طور پر جانتی ہیں۔ 

    جب یہ تینوں متعلقین کسی رشتے کیلئے باہم رضامند ہوں تب ایسی شادی عمل میں آتی ہے جسے ہم واقعی خانہ آبادی سے تعبیر کرسکتے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں مودت و رحمت اور سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ 

    جہاں تک آپ کے سوال کے جواب کا تعلق ہے تو میں یہی کہوں گا کہ آپ کا بغیر اپنے ولی کی اجازت کے کسی لڑکے کے ساتھ شادی کا عہد و پیمان کرلینا صحیح نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتادیا ولی کی رضامندی کسی بھی شادی کیلئے ضروری ہے اور آپ کا معاملہ یہ ہے کہ ولی کی رضامندی تو دور کی بات ہے ولی کو اس رشتے کا علم نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اس عہد و پیمان کو ٹوٹنے دیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس عہد و پیمان کی کوئی قیمت بھی نہیں ہے اس لئے کہ آپ کے ولی کی رضامندی اس میں شامل نہیں ہے۔ اس عہد کے ٹوٹنے کا خوف آپ کو نہیں ہونا چاہئے، ساتھ ہی میں ولیوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی پسند و ناپسند کا ضرور خیال کریں، اس لئے کہ شادی کو کامیاب بنانے میں اس پسند و ناپسند کا بڑا دخل ہے۔ 

    حجر اسود: 

    سوال: ایک کتابچہ ہمارے سامنے ہے جس میں صاحب مقالہ نے حجر اسود (کعبہ میں نصب سیاہ پتھر) کے سلسلہ میں کلام کیا ہے۔ صاحب مقالہ نے ان تمام احادیث کو ماننے سے انکار کردیا جو حجر اسود کو بوسہ دینے اور اسے لمس کرنے کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ حجر اسود کو بوسہ دینا عقیدۂ توحید کے خلاف ہے اور اس میں پتھروں کو پوجنے سے مشابہت ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ 

    جواب: اس عہد میں ہمارے بعض اہل علم کا سطحی مطالعہ ایک بڑی مصیبت ہے۔ علم اور تجربے میں پختہ ہونے سے قبل اور کسی جید عالم دین کی طرف رجوع کئے بغیر فتوے بازی اسی سطحی مطالعے کی دین ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ دین کے معاملے میں شک پیدا کرنے والے یا تو جاہل لوگ ہوتے ہیں یا ایسے اہل علم لوگ جن کے اذہان میں کچھ خاص باتیں بیٹھ جاتی ہیں۔ حجر اسود کو بوسہ دینا اور اس جیسے دوسرے مسائل میں شک و شبہ پیدا کرنا اور اس سلسلہ میں وارد احادیث کو جھٹلانا واضح گمراہی اور علم حدیث سے ناواقفیت ہے۔ 

    علم حدیث کے چند قواعد اور اصول ہیں۔ علماء حدیث نے یہ اصول اسی لئے وضع کئے ہیں تاکہ صحیح اور ضعیف کے درمیان تمیز کی جاسکے۔ گھڑی ہوئی حدیثوں کی نشاندہی کی جاسکے۔ اس راہ میں علماء حدیث نے جو قابل قدر کارنامے انجام دیئے ہیں اور جتنی محنت کی ہے، اس سے کوئی بے خبر نہیں ہے۔ ذیل میں میں حجر اسود کو بوسہ لینے کے سلسلے میں چند احادیث کا تذکرہ کرتا ہوں۔

    بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حجر اسود کو بوسہ لینے کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ ابن عمرؓ نے جواب دیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے لمس کرتے اور بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ 

    بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے۔ نفع و نقصان تیرے بس میں نہیں۔ اگر میں آنحضرتؐ کو تجھے بوسہ لیتے نہ دیکھتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا۔ 

    امام طبریؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایسا اس لئے کہا تھا کہ لوگ ابھی ابھی جہالت اور پتھروں کو پوجنے کے دورسے نکلے تھے۔ حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر لوگوں پر واضح کر دیا کہ حجر اسود کو بوسہ دینا صرف حضورؐ کے اتباع میں ہے۔ پتھروں کی تعظیم و تکریم کی خاطر نہیں۔ 

    یہ وہ احادیث ہیں جن کے صحیح ہونے پر تمام علماء امت کا اتفاق و اجماع ہے۔ مزید برآں حجر اسود کو بوسہ دینا ایک ایسی سنت ہے، جس پر حضورؐ کے زمانے سے آج تک ہر دور میں عمل ہوتا آیا ہے اور آج تک کسی نے بھی اس سلسلے میں کسی شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا۔ گویا تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع و اتفاق ہے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت کسی گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتی۔ گویا پوری امت کا کسی بات پر متفق ہونا ہی اس بات کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ 

    اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام میں بہت سے اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے، جنھیں ہم ’’امر تعبدی‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی وہ عبادات یا عمل جسے ہم محض اس لئے ادا کرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے، خواہ اس کی حکمت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ ان تعبدی عبادات اور اعمال کی ایک بڑی حکمت یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ کون اللہ کے احکام کا تابع ہے اور کون اپنی عقل کے تابع ہے۔ حجر اسود کا بوسہ لینا بھی امر تعبدی ہے۔ 

    ذرا غور کریں، حجر اسود کو بوسہ لینا کیونکر پتھروں کو پوجنے کے مشابہ ہوسکتا ہے، جبکہ حج کے دوران ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جہاں جہاں جاتے ہیں وہاں ابراہیم علیہ السلام کا نام اور ان کی یاد وابستہ ہوتی ہے اور یہ ابراہیم کون تھے؟ یہ وہ تھے جنھوں نے ایک کلہاڑی سے پتھروں کی تمام مورتیوں کو مسمار کر ڈالا تھا۔ 


موبائل: 9831439068  

 azizabdul03@gmail.com

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 923