donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Alam Naqvi
Title :
   Tahqeeq Ki Tanhayi Door Hone Ke Aasar

تحقیق کی تنہائی دور ہونے کے آثار 


 عالِم نقوی


علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا شمار ملک کے دس اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں نہیں ہوتا ۔ Top50یاTop100یاTop200میں اس کا نام ہے یا نہیں ، سر دست ہم نہیں بتا سکتے کیونکہ متعلقہ اعدادو شمار ہمیں دستیاب نہیں ، لیکن ، وطن عزیز کا جو اعلیٰ ترین تعلیمی ادارہ آئی آئی ٹی بامبے ، ملک میں سر فہرست (No1)ہے ، دنیا میں اسکا نمبر 222ہے ! اور دنیا کے چار سو اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کی فہرست میں ممبئی کے علاوہ ، IITدہلی (235)IITبنگلور (276)اورآئی آئی ٹی روڑکی(351)کے سوا اور کسی ہندستانی ادارے کا نام شامل نہیں ۔ رینکنگ کا بنیادی معیار اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کا معیار ہوتا ہے ۔ اب اے ایم یو کے شعبہءفلسفہ کے مرحوم استاد پروفیسر وحید اختر نے من حیث ا لقوم ہماری تحقیق دشمنی کا مرثیہ ان الفاظ میں پڑھا تھا کہ 
        تحقیق کی تقدیر میں تنہائی لکھی ہے 

ادب ، سوشل سائنسز اور پیور PUREسائنسز وغیرہ کے شعبوں میں تو خیر سے کسی بڑی تبدیلی کی کوئی خبر ہمارے علم میں نہیں ہے لیکن اکتوبر ۲۰۱۴ کے اخباروں میں شائع تین خبریں بتاتی ہیں کہ اطلاقی (Applied)سائنسز اور بایو ٹکنا لوجی کے شعبوں میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے ۔ 
آٹھ اور نو اکتوبر ۲۰۱۴ کے اخباروں کے مطابق 

اطلاقی طبیعات Applied Physicsکے شعبے نے دو غیر معمولی کارنامے انجام دیے گئے ہیں ۔ ایک تو انہوں نے کوڑے کچرے اور فضلے سے توانائی یا ایندھن (بایو فیول )تیار کرنے کی سستی اور آسان ٹکنالوجی کھوج نکالی ہے ۔ اور بجلی کے بغیر گندہ پانی صاف کرنے والا ایک ایسا آلہ Mini Plant تیار کر لیا ہے جو سستا تو ہے ہی PORTABLEبھی ہے ۔ یعنی اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک کہیں بھی اپنے ساتھ لے جانا بھی آسان ہے ۔ یہ دونوں کارنامے شعبہ کے سربراہ پروفیسر سید عالم حسین نقوی اور اسی شعبے سے وابستہ سائنسدانوں ڈاکٹر برج راج سنگھ نے انجام دیے ہیں ۔ 

اگلے مہینے نومبر ۲۰۱۴ میں گاندھی نگر گجرات میں ہونے والی سائنس کانگریس میں دیگر ماہرین اور متعلقہ وزارتوں کے نمائندوں کے سامنے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرنے کے ساتھ وہ اپنی ان دونوں ایجادات کا عملی مظاہرہ بھی کریں گے ۔ 

کناڈا میں رہنے والے ایک علیگ ہندستانی انجینیر مدن موہن چاو ¿لہ نے جو وزیر اعظم کے کلین انڈیا مشن سے بھی وابستہ ہیں وہ حکومت کی مدد سے ان ضروری سستی اور کفایتی ایجادات کو گاو ¿ں گاو ¿ں پہنچانے کے عزم کا اعلان بھی کر چکے ہیں ۔ گندگی ، پانی کی آلودگی اور سستے ایندھن کی کمی آج ملک کے بنیادی مسائل ہیں ۔ اور یہ ایجادات ان مسائل کے معقول اور سہل ا لحصول حل پر مشتمل ہیں ۔ کچرے اور فضلے سے بایو گیس اور توانائی کا حصول کوئی نئی بات نہیں لیکن مسلم یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی مذکورہ ایجادات کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں نینو ٹکنالوجی کا استعمال ہوا ہے اور وہ ابھی تک کی تمام موجود سہولتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ آسان ، سستی کفایتی اور آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جا سکنے والی ہیں ۔ جبکہ بایو گیس کے سبھی موجودہ پلانٹ مہنگے تو ہیں ہی بڑے اور بھاری بھرکم بھی ہیں یعنی وہ خلقی طور پر PORTABLEنہیں ہیں ۔ 

 علی گرھ مسلم یو نیورسٹی کے میڈکل کالج سے آنے والی ایک خبر جہاں ایک طرف یو نیورسٹی کے اعلیٰ سائنسی معیار تحقیق کا اشاریہ ہیں وہیں اس نے پورے ملک کو ہوشیار کرنے کا کام بھی کیا ہے ۔ ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۴ کے دی ٹائمز آف علی گڑھ میں (جو بامبے ٹائمز کی طرح TOIکا لوکل سپلی منٹ ہے )یہ وہشت ناک خبر شایع ہوئی کہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں وہ ”سپر بگ “دریافت ہوا ہے جس کا کوئی علاج تا حال دنیا میں نہیں ہے جیسا کہ موجودہ طبی دنیا کا دعویٰ ہے ۔ سپر بگ سے مراد وہ جر ثومہ ہے جس پر فی ا لحال کوئی موجودہ اینٹی بایو ٹک دوا اثر نہیں کرتی ۔ اس کا نام مسلم یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے NDM$رکھا ہے ۔ ان سائنس دانوں اسد ا للہ خان اور داکٹر شاداب پرویز کا کہنا ہے کہ میڈیکل کالج کے جنرل وارڈ سے نکلنے والے گندے پانی Sewage Waterکے ۵۲ نمونوں کی جانچ کے دوران اس مہلک اور قاتل جرثومے کی دریافت ہوئی جو پورے ملک کے طبی مقتدرہ Medical Authoritiesکے لیے جو سر دست ایبولا کے ممکنہ خطرے سے متفکر ہیں ، ایک سنگین خطرے کی گھنٹی ہے ۔ یہ جرثومہ ابھی تک صرف فرانس ، کیمرون ، ڈنمارک اور چک ریپبلک میں پایا گیا ہے لیکن ماہرین نے نہ جانے کیوں اس کا نام این ڈی ایم رکھ چھوڑا ہے جس میں این ڈی سے مراد نئی دہلی ہے جبکہ علی گڑھ سے قبل ابھی تک نہ صرف نئی دہلی بلکہ ملک کے کسی بھی گوشے میں اس جرثومے کی موجودگی کی اطلاع نہیں ملی تھی ۔ ڈاکٹر خان اور ڈاکٹر شاداب نے بتایا کہ وہ صرف یہ دیکھنے کے لیے میڈیکل کالج کے گندے پانی اور کچرے کی جانچ کر رہے تھے کہ کہیں اس میں کچھ جراثیم کی مزید نشو و نما تو نہیں ہو رہی ہے ۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب انہیں اس میں سپر بگ ملا ۔ تاہم انکا کہنا ہے کہ یہ نیا جرثومہ کس حد تک مہلک ثابت ہو سکتا ہے اس کی جانچ ابھی جاری ہے ۔ پھر بھی اس کے ناقابل علاج ہونے کی وجہ سے اس کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اس دریافت کے معنی یہ بھی ہیں کہ علی گڑھ اور اسکے مضافات بھی اس جرثومے کی پیدا کردہ بیماریوں سے محفوظ نہیں ۔ 

افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ یہ جرثومہ جس پر کوئی اینٹی بایوٹک دوا اثر نہیں کرتی انہی اینٹی بایوٹک دواو ¿ں کے اندھا دھند استعمال ہی کی بدولت پیدا ہوا ہے ۔ اکثر بلا ضرورت اور بیشتر ضرورت سے بہت زیادہ اینٹی بایو ٹک دواو ¿ں کے استعمال کی لعنت ہی اس جرثومے کی خالق ہے ۔ حال ہی میں حکومت ہند کی متعلقہ اتھاریٹیز نے ملک کے تمام ڈاکٹروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کم از کم عام نزلے زکام کھانسی اور بخار میں اینٹی بایوٹک دواو ¿ں کا استعمال فوراًبند کردیں ۔ ٭

 (روزنامہ اُردو ٹائمز کا اداریہ(ممبئی

 


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 523