donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Bhopal Ke Mumtaz Urdu Sahafi


بھوپال کے ممتاز اردو صحافی


عارف عزیز، بھوپال


وسط ہند کی اہم ریاست بھوپال میں اردو صحافت کی ایک تابناک تاریخ رہی ہے ، جس کے ثبوت کے لئے یہ حوالہ کافی ہے کہ اِس شہر سے اردو کے دو سو پچپن اخبارات و رسائل اب تک منظر عام پر آچکے ہیں اور صحافیوں کی کئی نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں، جنہوں نے نہ صرف بھوپال بلکہ ہندوستان اور برصغیر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ تحریک آزادی کے دوران بھی اِس شہر میں بہت کم سیاسی رہنما ایسے تھے جو اخبارات نہ نکالتے ہوں یا جنہوں نے اپنے قلم کا استعمال برطانوی سامراج اور شخصی استبداد کے خلاف نہ کیا ہو۔

قلم کے دھنی اور جری اِن صحافیوں میں چند اہم نام ابوسعید بزمی، قدوس صہبائی، حکیم سیدقمرالحسن، جوہر قریشی، مولانا محمد مسلم اور اشتیاق عارف کے ہیں ، جبکہ قمر اشفاق اور اشفاق مشہدی ندوی وہ اخبار نویس ہیں جنہوں نے صحافت کو مشن کے طور پر اپنایا اور ملک کی تعمیر نیز قوم کی بیداری کا وسیلہ بناکر ملکی سطح پر اپنی شناخت قائم کی۔

جنگ آزادی میں تحریر و تقریر کے ذریعہ جن صحافیوں نے انگریز حکمرانوں اور شخصی فرمانرواؤں کے خلاف جہاد چھیڑا، اُن میں ابوسعید بزمی سرِفہرست ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ، گہری سوجھ بوجھ کے مالک اور ہمہ گیر صلاحیتوں کے حامل تھے، سیاست ہی نہیں شاعری، افسانہ نگاری، تاریخ نویسی اور صحافت کے شعبوں میں اُنہوں نے اپنے جوہر دکھائے۔ خاص طور پر غیر منقسم ہندوستان میں صحافی کی حیثیت سے جو شناخت قائم کی وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ بھوپال اور یہاں کے اخبارات تو ابوسعید بزمیؔ کی سرگرمیوں کے مرکز رہے ہیں، اِس کے علاوہ سہ روزہ ’مدینہ‘ بجنور کے سب سے کم عمر چیف ایڈیٹر کے منصب پر کام کرکے اُنہوں نے ملک گیرت شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ بھوپال سے باہر رہتے ہوئے ۱۹۴۰ء میں وہ لیجس لیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے لیکن وطن واپسی پر اُنہیں گرفتار کرلیا گیا،بزمیؔ صاحب نے ۱۹۴۲ء کی ’’ہندوستان چھوڑو تحریک‘‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ’زمزم‘ لاہور، ’شہباز‘ لاہور، ’احسان‘ لاہور و کراچی کو وہ ایڈٹ کرتے رہے۔ اُن کی معروف تاریخی و تنقیدی کتابوں میں ’انقلاباتِ عالم‘ ،’مولانا آزاد تنقید و تبصرہ‘ اور ’مسلمان کیا کریں‘ شامل ہیں۔ افسانوں کا مجموعہ ’زندگی کے جائزے‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ ابوسعید بزمیؔ بلندپایہ ادیب، مشاق صحافی اور مورخ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجہ کے مقرر بھی تھے۔ اُن کے تاریخی اور ادبی مضامین ہندوستان کے مشہور رسائل ’نگار‘ لکھنؤ، ’جامعہ‘  دہلی، ’معارف‘ اعظم گڑھ، ’تیج‘ دہلی ، ’ہمایوں‘ لاہور میں شائع ہوتے رہے۔ ’احسان‘ کی ادارت کے زمانہ میں وہ امریکہ گئے ، جہاں اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانے سے ستمبر ۱۹۵۲ء میں انتقال ہوگیا، افسوس کہ اِس کہنہ مشق صحافی، مجاہدِ آزادی اور ادیب و مورخ سے بھوپال کی نئی نسل ناواقف ہے۔ اِس شہر میں جہاں وہ پیدا ہوئے، پلے بڑھے، قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے، اُن کے نام سے کوئی یادگار موجود نہیں ہے۔

برصغیر کی اُردو صحافت میں بھوپال کی نمائندگی کرنے والا دوسرا نام قدوس صہبائی کا ہے جو مطلع صحافت و ادب پر ۱۹۳۴ء میں اُبھرا اور تیزی سے روشن ہوگیا، قدوس صہبائی نے صحافت کا سبق ہندوستان کے بطلِ جلیل مولانا شوکت علی سے ممبئی میں تعلیم کے دوران حاصل کیا اور ’’خلافت‘‘ میں کام کرنے کے بعد بھوپال لوٹے تو یہاں سب سے پہلے ’’صبح وطن ثانی‘‘ خان شاکر علی خان کے ساتھ نکالا ، اِس کے بعد ریاست بھوپال میں جمہوری تحریکات کو آگے بڑھانے کے لئے ’’ریاست‘‘ جاری کیا، وہ دوسرے بھوپالی تھے جس نے مشہور زمانہ سہ روزہ ’مدینہ‘ بجنور کی ادارت سنبھالی اور کم عمری کے باوجود کافی شہرت حاصل کی ، بعد ازاں ’ہند‘ کلکتہ، ’مسلمان‘ دہلی، ’نظام‘ بمبئی،’استقلال‘ کوئٹہ کو ایڈٹ کیا اور پاکستان منتقل ہونے کے بعد انگریزی صحافت میں قدم رکھا تو ۲۵ سال تک اِس میدان کے بھی شہہ سوار رہے، اُن کے افسانوں کے چار مجموعے منظرعام پر آئے اور ادبی صحافت میں بھی انہوں نے بڑا نام پیدا کیا، خاص طور پر ’نظام‘ بمبئی میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ترقی پسند تحریک کو آگے بڑھانے میں حصہ لیا اور اُس دور کے ممتاز ترقی پسند احمد ندیم قاسمی، سجاد ظہیر، کیفی اعظمی، مجروح سلطانپوری وغیرہ کو متعارف کرایا۔

حکیم سید قمرالحسن نے وسط ہند کے مشہور روزنامے ’ندیم‘ بھوپال کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے سابق ریاست بھوپال میں ہی نہیں آزادی کے بعد کے جمہوری ہندوستان میں بھی اردو صحافی کی حیثیت سے ایک منفرد مقام پیدا کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعہ حالات کا تجزیہ کرکے صحیح نتائج تک پہونچنے کی دیانت دارانہ کوشش کی، دوسری طرف اپنے زیرنگرانی صحافیوں کی ایک سے زیادہ نسلوں کی تربیت کا کام انجام دیا ۔ حکیم قمرالحسن نے آزادی سے قبل کے اُس دور میں جب ’ندیم‘ کا انحصار سرکاری گرانٹ پر تھا کبھی عوام کے جائز مطالبات کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی زیر ادارت ’ندیم‘ نے حکومت اور عوام کے درمیان ایک کڑی کا کام کیا اور دیانت و صداقت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، اُس دور میں ’ندیم‘ کے کئی تاریخی نمبر سہ رنگی تصاویر کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے ممبر کی حیثیت سے حکیم صاحب نے جن نیشنل کانفرنسوں اور سیمناروں میں شرکت کی اُس میں بھوپال کی نمائندگی کا حق ادا کردیا ۔ معروف شاعر اور دانشور اخترسعید خاں کے بقول : ’مولانا ابوالکلام کے سلسلے کی وہ آخری کڑی تھے، اُن کے بعد کوئی ایسا نہیں رہا جو صحافت کو ادب بناسکے‘، حکیم صاحب کا سینچا ہوا پودا ’ندیم‘ اپنی عمر کے ۷۸ ویں سال میں آج بھی شائع ہورہا ہے۔

جوہر قریشی بڑی پہلودار شخصیت کے مالک تھے۔ کیا صحافت، کیا سیاست ، کیا طنزومزاح ،کیا شعروشاعری اِن کے وسیلہ سے انہوں نے جو نام کمایا اس کی مثال بھوپال کے کسی دوسرے قلم کار صحافی کے یہاں نہیں ملتی۔ وہ بھوپال کے واحد صحافی تھے جس نے کئی شخصیتوں کی تعمیر و تشکیل میں حصہ لیا۔ جوہر قریشی شوخ طبع ہی نہیں سخن فہم اور سخن سنج بھی تھے۔ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۶۲ء تک ہفت روزہ ’آزاد‘، ’ترجمان‘، ’نئی راہ‘ ، ’الجبل‘ کے علاوہ روزنامہ ’نیا بھوپال‘ میں شائع اُن کی تحریروں میں شوخی سے زیادہ طنز کی کاٹ ہوتی، اُنہوں نے مرحوم ریاست بھوپال میں اپنے قلم سے وہ لہریں پیدا کیں کہ بارہا حکومت کے ایوان ہل گئے۔ ’موجِ نربدا‘ اُن کا مستقل کالم تھا جس کا لوگوں کو انتظار رہتا تھا اور جس میں وہ رعایت لفظی اور بزلہ سنجی کے سہارے ایسی گہری باتیں کہہ جاتے کہ قاری کو اصلاحِ حال کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔

مولانا محمد مسلم نے بھی ’ندیم‘ کے ذریعہ اپنی صحافتی زندگی کا آغازکیا، وہ اول خاکسار تحریک سے وابستہ رہے، آزادی کے بعد دہلی میں جماعت اسلامی کے ترجمان ہفت روزہ’دعوت‘ میں طویل عرصہ تک کام کیا۔ اُن کے ایڈیٹر بننے کے بعد دعوت پہلے سہ روزہ ہوا کوئی پندرہ برس تک روزنامے کی حیثیت سے نکلتا رہا اور ہندوستان کے مقبول اخباروں میں شمار ہوتا تھا۔ اردو ایڈیٹرس کانفرنس کی تشکیل اور مسلم مجلس مشاورت کے قیام میں بھی اُن کا بڑا رول رہا ہے، وہ وقارِ اسلامی اور وقارِ ملی کے مرتے دم تک علمبردار رہے اور اپنے عمل و کردار سے اُس کا نمونہ بھی پیش کیا۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک بیدار ملت دیکھنا چاہتے تھے اور ساری زندگی اِس مقصدکے لئے مستعد و بے چین رہے۔ اِن ہی مقاصد کے حصول کے لئے بارہا قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اصابتِ رائے ، دوربینی و دوراندیشی کااپنے مخالفوں سے بھی اعتراف کرایا۔
بھوپال کی اُردوصحافت کے ایک اور شہ سوار اشتیاق عارف ہیں، جنہوں نے ’ندیم‘ سے اپنی صحافت کا آغاز کیا۔ اُس کے بعد روزنامہ ’افکار‘ نکالا۔ مسلم مجلس مشاورت کے ترجمان روزنامہ ’قائد‘ لکھنؤ میں ادارتی ذمہ داری نبھائیں اور ’آفتابِ جدید‘‘ بھوپال کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ملکی سطح پر متعارف و مشہور ہوئے۔ اشتیاق صاحب کی گوناگوں صلاحیتوں کا گواہ آخر الذکر ’آفتاب جدید‘ ہے جسے چھ ماہ کی مختصر مدت میں اُنہوں نے بامِ عروج پر پہونچا دیا۔ اشتیاق صاحب نے بھوپال سے شائع ہونے والے خواتین کی ماہنامے ’افشاں‘ ، محنت کشوں کے ہفت روزہ ’مزدور‘ اور عوامی روزنامے ’الحمرائ‘ (اول بار) کے مدیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں نیز ’افکار‘ کے وسیلہ سے حق گوئی و بیباکی کی نادر مثالیں پیش کیں۔ عمر کے آخری مرحلہ میں انہوں نے اپنی صحافتی یادداشتوں کو مرتب کیا جو’’یادوں کی بازیافت‘‘ کے نام سے انتقال کے بعد منظرعام پر آئیں۔

بھوپال کی اردو صحافت کا ایک اور اہم نام قمر اشفاق ہیں، جن کے لئے یہ اظہار کافی ہوگا کہ وہ روزنامہ ’ندیم‘ میں ۴۷ برس سے ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہیں اور حکیم قمرالحسن صاحب کے تربیت یافتہ ہیں۔ ۷۷ برس پرانے اُردو روزنامے میں نصف صدی سے کچھ کم عرصہ تک صحافتی ذمہ داریاں نبھانا معمولی بات نہیں ۔ اِس کی اہمیت کا اندازہ وہی لگاسکتے ہیں جنکی نظر آزادی کے بعد کے ہندوستان میں اُردو صحافت کے نشیب و فراز پر رہی ہے یا جنہوں نے بھوپال میں اخبارات کو طلوع اور غروب ہوتے دیکھا ہے۔ قمر اشفاق صاحب اردو کے ایک آئیڈیل صحافی اِس لئے بھی ہیں کہ برسوں انہوں نے ’ندیم‘ کو تن تنہا نکالا یعنی کاغذ کی اِس کشتی کواکیلے کھیتے رہے۔

اِس سلسلہ کے آخری صحافی اشفاق مشہدی ندوی ہیں جو چالیس برس سے اُردو صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں ۔ چھبیس سال تک ہفت روزہ’ ایاز‘‘ کو مرتب کرنے کے بعد چودہ سال سے روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ نئی دہلی کے بھوپال میں نمائندے کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ درمیان میں وہ نئی دہلی سے شائع ہونے والے  ہفت روزہ’’ قومی ایکتا‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ اُن کے قلم سے نکلنے  والے بے لاگ سیاسی تجزیئے اور سلگتے مسائل پر رپورٹیں پورے ملک میں توجہ سے پڑھی جاتی ہیں۔

بھوپال کے ممتاز صحافیوںکا یہ تذکرہ مولانا سعیداللہ خاں رزمی، قمرجمالی، مفتی صدیقی، مقصود عرفان، صغیر بیدار، حامد حسن شاد، نعیم کوثر، مقصود اصغر، ڈاکٹر رضیہ حامد،انعام لودھی، خالدہ بلگرامی ، اقبال مسعود اور مشاہد سعید کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔ اردو صحافت کے یہ سبھی شہ سوار اِس لائق ہیں کہ اُن پر باقاعدہ کام ہو اور نئی نسل اُن کے کارناموں سے آگاہ رہے۔

(یو این این)

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 544