donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz
Title :
   May 1857 Ki Tahreek Azadi Me Ulma Ka Kirdar


مئی ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں علماء کا کردار


عارف عزیز

(بھوپال)

 

 ۱۰؍مئی ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے اقتدار کے خلاف ہندوستانیوں کی ولولہ انگیز جدوجہد تاریخ میں ’انقلابِ عظیم‘ کے نام سے درج ہے لیکن انگریز مورّخوں نے اِسے ’غدر‘ کا نام دیا ہے، حالانکہ یہ فرنگی اقتدار کے خلاف سرفروشانہ جدوجہد تھی، جس سے خرد مندانِ مغرب تھرا اُٹھے، اُن کی برتری و فوقیت کا سارا غرور خاک میں مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مغلیہ شہنشاہیت کی رگوں میں تازہ خون دوڑنے لگا، بہادرشاہ ظفرؔ نے انتظامِ حکومت سنبھال کر انگریزوں کے اقتدار کے خاتمہ کا اعلان کردیا اور خود انقلاب کے قائد بن گئے، ملک کا بیشتر حصّہ دہلی، آگرہ، اودھ، الٰہ آباد، کانپور، لکھنؤ، بنارس، جھانسی، روہیل کھنڈ اور بہار انگریزوں کے قبضہ سے نکل گئے، معزول راجے، نواب، رئیس، جاگیردار، زمیندار دوبارہ اپنی گدی سنبھالنے لگے۔ پوری ایک صدی غیر ملکی حاکموں کی عملداری میں گزارنے کے بعد ہندوستانی عوام کی یہ پہلی متحدہ کوشش تھی، ملک کو اغیار کے ہاتھوں سے نکال کر حریت کا پرچم لہرانے کی۔

 اِس انقلاب کے لیے ماحول و فضا تو عرصہ سے تیار ہورہے تھے، جس میں نواب سراج الدولہ کی قربانی، سلطان ٹیپو کی شہادت، علماء حق کے فتوے، انگریز حکمرانوں کے حد سے بڑھے مظالم اور مذہبی عقائد، تہذیبی و ثقافتی اقدار پر حملے سب اپنا اثر دکھا رہے تھے۔ عام ہندوستانیوں کی طرح علماء حق بھی اِس کی سنگینی و سفاکی کا احساس کرکے اپنے مدارس اور خانقاہوں سے نکل پڑے تھے اور عام لوگوں میں آزادی کا صور پھونکنے میں مصروف ہوگئے۔ خاص طور پر حضرت سید احمد شہید اور حضرت اسماعیل شہید نے انگریزوں کا تسلط ختم کرنے اور مسلمانوں میں آگہی و بیداری کا چراغ روشن کرنے کے لیے اپنے ہم وطنوں کو ایسا جگایا اور اِس جوش وخروش سے جہاد کی دعوت دی کہ ہمالیہ کی چوٹیوں سے لیکر بنگال کے میدانوں تک یہ تحریک پھیل گئی۔ شب وروز کی اِس جدوجہد سے علماء و مشائخ اپنے حجروں سے نکل کر میدانِ عمل میں آکھڑے ہوئے ۔ اِس تحریک میں انقلاب کی ضرورت و اہمیت کا احساس، شوقِ شہادت، جوشِ جہاد، جذبۂ حریت، احساسِ ذلت کا انسداد اور تدبیر وتنظیم کا مظاہرہ سبھی کچھ شامل تھے۔

اِس لیے پورے اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی کا پودا علماء کرام کے خون سے سینچا گیا، اُن کی سرفروشی کا جذبہ، وطن سے محبت، عزتِ نفس کا تحفظ، غیرملکی اقتدار سے نفرت، مشنریوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف شدید ردّعمل کا یہ نتیجہ تھا، علماء نے عام ہندوستانیوں میں بیداری و بے چینی کو بھڑکایا تو اُس کے ردّعمل میں مئی انقلاب کا آغاز ہوا، حالانکہ یہ علماء نہ پیشہ ورانہ سپاہی تھے، نہ تنخواہ دار فوجی، نہ اُنھوں نے کبھی تلوار اُٹھائی تھی، نہ فوجہ مشق میں حصّہ لیا تھا، صرف اپنے عقیدہ و مذہب کے دفاع کے لیے وہ جہاد پر کمربستہ تھے، اُن کی تحریک نے تمام ہندوستانیوں کو اپنی ذلت و رسوائی کا انتقام لینے کے لیے کھڑا کردیا۔

یوں تو دنیا کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی فکروذہن کے لوگوں نے ہر رونما ہونے والے انقلاب اور تبدیلی کی لہر کو روکنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہندوستان وہ ملک ہے جہاں علماء کرام نے انقلاب اور حصولِ آزادی کے لیے ہراول دستہ کے طور پر کام کیا، جس سے وحشت زدہ ہوکر لارڈ میکالے یہ کہہ اُٹھا کہ ’ہمیں ہندوستان میں اپنا اقتدار مستحکم کرنا ہے تو اِس کے لیے ایک ایسی نسل تیار کرنا ہوگی جو جوشِ جہاد سے عاری بظاہر ہندوستانی ہو لیکن عقل و دماغ کے لحاظ سے فرنگی۔

۱۸۵۷ء کے انقلاب کے لیے دیوانہ وار جدوجہد کا آغاز ۳۴ویں پیدل فوج کے ایک سپاہی منگل پانڈے کی انگریز حاکموں کے خلاف کھلی بغاوت سے بنگال میں ہوا، جس کو گرفتار کرکے سزائے موت دے دی گئی، اِسی کے ساتھ اُس جمعدار کو پھانسی پر چڑھادیا گیا، جس نے منگل پانڈے کی بغاوت پر انگریزوں کے حق میں وفادارانہ ردّعمل ظاہر کرنے کے بجائے ضمیر کی آواز پر خاموش رہنے کو ترجیح دی تھی۔ پھر بنگال کی یہ آگ پورے ملک میں پھیل گئی اور اُس نے ۲۴؍اپریل ۱۸۵۷ء کو میرٹھ چھاؤنی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، جہاں سب سے پہلے گھڑسواروں کے تیسرے رسالہ میں شامل ۹۰ میں سے ۸۵ سپاہیوں نے اُن کارتوسوں کو چھونے سے انکار کردیا جن کے بارے میں افواہ گرم تھی کہ اُن میں گائے یا سور کی چربی لگائی گئی ہے، اِن سپاہیوں کا کورٹ مارشل ہوا اور دس دس سال کی سزا پریڈ گراؤنڈ میں لے جاکر سنائی گئی اور ذلیل کرکے اُن کی وردیاں اُتاردی گئیں، اِس ذلت آمیز سلوک کے ردّعمل میں ۱۰؍مئی کو تیسرے سوار دستہ کے تمام سپاہیوں نے قیدخانے پر حملہ کرکے پہلے اپنے قیدی ساتھیوں کو آزاد کرایا، اُس کے بعد ایک نئے جوش وجذبے کے ساتھ وہ انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے میرٹھ سے دہلی کی جانب کوچ کرگئے۔ ۱۱؍مئی کی صبح یہ سپاہی دہلی کے لال قلعہ کے سامنے جمع تھے اور بہادرشاہ ظفرؔ کو انقلاب کی قیادت کے لیے آمادہ کررہے تھے۔ جنگل کی آگ کی طرح بغاوت کی یہ آگ دوسرے شہروں میں بھی پھیلنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب، مظفرنگر، علی گڑھ، اِٹاوہ، مین پوری، رُڑکی، ایٹہ، متھرا، لکھنؤ، بریلی، شاہجہاں پور، مرادآباد، بدایوں، اعظم گڑھ، سیتاپور، وارانسی، ہاتھرس انگریزوں کے قبضے سے نکل گئے۔ تین ماہ تک دہلی آزاد رہا، جہاں بہادرشاہ کا حکم چلتا رہا لیکن انگریز شاطروں نے آزادی کے اِس مرکز کو توڑنے کے لیے پورا زور لگادیا، اُنھوں نے عوام کے جذبۂ آزادی کو کچلنے کے لیے مکاری و عیاری دونوں سے کام لیا، لہٰذا ۲۰؍ ستمبر کو اُنہیں اپنے ناپاک مقاصد میں کامیابی ملی اور دہلی پر پھر اُن کا اقتدار بحال ہوگیا۔

جس کے بعد شہر میں قتل عام شروع ہوا، امراء و رؤساء کی حویلیوں کو لوٹا جانے لگا، بہادرشاہ ظفرؔ کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو ہڈسن نے گولی کا نشانہ بنادیا اور اُن کی لاشیں کئی دن تک دہلی دروازے پر لٹکی رہیں تاکہ انگریزوں کا دبدبہ قائم رہے۔ جن ہندوستانیوں نے اِس انقلاب میں حصّہ لیا، اُنھیں چن چن کر سولی پر چڑھادیا اور اُن کے مکان مسمار کردیئے گئے، دہلی میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان جتنے امام باڑے، مساجد اور مکانات تھے اُن سب کو ڈھادیا گیا، صرف محلہ کوچۂ چیلاں میں ۱۴

و لوگوں کے سر کاٹ کر پھینک دیئے گئے۔
ایک انگریز ولیم ہارورڈ رسل لکھتا ہے کہ ’میں نے دہلی میں انسانی خون کی جو ارزانی دیکھی، اُس کے بعد میری دعا ہے کہ ایسا دوسرا منظر اپنی زندگی میں نہ دیکھوں‘۔

حقیقت یہ ہے کہ اِس ہولناک شکست کا وہ ردّعمل سامنے آیا جو آبادی کو خس وخاشاک کے ڈھیروں اور انسانی بستیوں کو لاشوں کے انبار میں تبدیل کردیتا ہے، ایک مشتِ خاک کی بھی کوئی قیمت تھی، لیکن انسانی سروں کی اِتنی بھی نہیں، شریف اور پردہ نشین عورتوں پر بھنگیوں نے چڑھائی کرکے اُن کے زیورات تک نوچ لئے ، پورا شمالی ہند میدانِ حشر کا نقشہ پیش کررہا تھا، مرزا غالبؔ کے الفاظ میں ’چوک مقتل اور گھر زنداں کے نمونے بن گئے تھے‘۔

۱۸۵۷ء کی اِس جنگِ آزادی میں مسلمانوں اور علماء کرام نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ، اِس تحریک کے پرچم تلے ہزاروں مسلمان اور مدارس کے طلباء و اساتذہ جمع تھے لہٰذا شکست کے بعد ایک ایک کرکے اُن کو ہی موت کے گھاٹ اُتارا جارہا تھا۔ ایک اندازہ کے مطابق اِس جنگ میں دو لاکھ مسلمان اور اکیاون ہزار علماء کرام شہید ہوئے، انگریزوں نے ایسی درندگی کا مظاہرہ کیا جس کی نظیر تاریخ میں تلاش کرنے سے نہیں ملتی۔ انگریز مورّخ ایڈورڈ ٹانسن اپنی یادداشت میں رقم طراز ہیں کہ ’انگریزوں نے علماء کرام کو ختم کرنے کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا اُس کو عملی جامہ پہنانے میں اُنھوں نے صرف تین سالوں میں چودہ ہزار علماء کو تختۂ دار پر چڑھادیا، اُن کے جسموں کو تانبے سے داغا گیا اور سور کی کھالوں میں بند کرکے تندور میں ڈالا گیا‘۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ’مجھے اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ہے کہ اِن میں ایسا کوئی عالم نہ تھا جس نے انگریزوں کے آگے سر جھکایا ہو یا معافی مانگی ہو، سارے کے سارے صبروبرداشت کا بے مثال مظاہرہ کرکے آگ میں پک گئے‘۔تاریخ بتاتی ہے کہ دلّی کے چاندنی چوک سے لیکر پٹنہ تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں۔

اِس جنگِ آزادی کا ایک روشن پہلو ہندو مسلمانوں کا اتحاد بھی تھا، دونوں فرقے کیونکہ انگریز حکومت میں اپنے مذہبی اور تہذیبی تشخص کو لیکر فکرمند تھے، اُن کا ماننا تھا کہ اِس حکومت میں اُن کا جان و مال، عزت و ناموس کچھ محفوظ نہیں ہے۔ یہ کسی سیاسی مصلحت سے نہیں بلکہ صدیوں کے باہمی روابط اور رہن سہن کا فطری نتیجہ تھا لہٰذا انگریزوں کے جبرواستبداد اور سیاسی استحصال کے خلاف مشترکہ اقدام کا سیلہ بنا جس کا نقطۂ عروج ۱۹۴۷ء میں ملک کی مکمل آزادی کی صورت میں سامنے آیا اور آج بھی ہندومسلم اتحاد کا یہ باب قوم کو اتحادِ عمل کا درس دے رہا ہے۔

(یو این این)

(بشکریہ آل انڈیا ریڈیو، بھوپال)

٭٭٭

www.arifaziz.com
E-mail:arifazizbpl@rediffmail.com
Mob.09425673760

Comments


Login

You are Visitor Number : 805