donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Pandit Jawahar Lal Nehru Aur Youm Atfal


ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ


پنڈت جواہر لال نہرو اور یوم اطفال


    ہندوستان صدیوں سے تہذیب و تمدن کا گہوار رہا ہے۔ یہاں بڑی بڑی شخصیتیں پیداہوتی رہی ہیں۔ مہاتما گاندھی ، مولانا ابوالکلام آزاد، رابندر ناتھ ٹیگور ،علامہ اقبال، شبلی نعمابی، سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر راجندر پرساد جیسی عظیم شخصیتیں اس سرزمین کو رونق بخشتی رہی ہیں اور اپنے کارنامے سے فیض یاب کرتی رہی ہیں۔ ایسی ہی شخصیتوں میں ایک اہم شخصیت پنڈت جواہر لال نہرو کی ہے۔

    موتی لال نہرو اور سروپ رانی کے گھر میں۱۴ نومبر ۱۸۸۹ء کو ایک گوہر نایاب نے جنم لیا ۔ وہ گوہر نایاب پنڈت جواہر لال نہرو بن کر ہندوستان کے تاریخی اوراق کا ایک حصہ بن گیا۔ موتی لال نہرو ایک مشہور و معروف بیرسٹر تھے۔ وہ انگریزوں کے غلامی کے خلاف مختلف تحریکوں میں حصہ لیتے رہے تھے۔ اسی طرح ان کے چشم و چراغ کے دل میں بھی آزادی کے خواب موجیں مار رہے تھے۔ موتی لال نہرو کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے نور نظر کو اعلیٰ تعلیم دیں۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیم کے لئے نہرو کو کیمبرج یونیورسٹی لندن بھیجا گیا۔

    پنڈت جواہر لال نہرو کا اہم کارنامہ ملک کی آزادی حاصل کرنا تھا۔ انہوں نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاداور علی برادران کے ساتھ مل کر آواز اٹھائی۔ سیاسی سطح پر کئی مسائل آتے رہے ۔ وہ بڑی دانشمندی کے ساتھ ان مسائل کو سلجھاتے رہے۔ آخر کار ہندوستان آزاد ہوا اور پنڈت جواہر لال نہرو اس آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ وہ اپنی آخری سانس تک اس پروقار عہدہ پر فائز رہے۔ ان کے دور قیادت میں ہندوستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں متوازن رہی۔ یہی وجہ ہے ہندوستان کی تاریخ میں ان کا نام بڑے ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے اور لیا جاتا رہے گا۔

    پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریری صلاحیت بڑی زبردست تھی۔ وہ جب تقریر کرتے تو عوام کا دل موہ لیتے تھے اورلوگ چاہتے کہ پنڈت جی یوں ہی تقریر کرتے رہیں۔ اپنی تقریروں سے لوگوں کا دل جیتے والے جواہر لال نہرو انگریزوں کے خلاف شعلہ بیانی سے دلوں میں آگ بھرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ نہرو جی میں تحریری صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ جب انہوں نے اپنی مشہور کتاب ڈسکوری آف انڈیا(Discovery of India) لکھی تو لوگوں نے ان کی تحریری صلاحیت کو قبول کیا۔ انہوں نے اس ملک کی تاریخ اپنی زبان میں لکھ کر اپنا اور اپنے دیش کا نام روشن کیا۔ آج بھی ڈسکوری آف انڈیا تاریخ ، تہذیب و تمدن اور ادب کے طلباء کے لئے ایک قیمتی خزانہ تسلیم کی جاتی ہے۔ یہ کتاب ہر شعبۂ حیات میں پنڈت نہرو کے ذہن کی عکاسی کرتی ہے اور ان کی ادبی صلاحیتوں کی غماز بھی ہے۔ اس کتاب میں نہرو جی نے تاریخ کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑے سلیقے سے بیان کیا ہے اور ایک ادیب کی طرح ان کا جائزہ لیا ہے۔ تاریخ پر ان کی دوسری کتاب Glimpses of World Historyہے۔ یہ بھی بہت مقبول کتاب ہے۔

    نہروجی کی سیاسی سوجھ بوجھ کو زمانے نے ہمیشہ سراہا ہے۔ اپنی سمجھداری سے انہوں نے انگریزوں کے خلاف بہت فائدہ اٹھایا۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی اپنی دوراندیشی سے ملک کو سنوارنے کا کام کیا۔ کانگریس پارٹی نہروجی کی وجہ سے پورے ہندوستان میں پہنچانی گئی اور سیکولر پارٹی کی حیثیت سے جانی پہچانی گئی۔

    نہرو جی کو اپنے اہل و عیال سے بھی بڑا گہرا لگائو تھا۔ ان کی چہیتی بیٹی محترمہ اندرا گاندی تھیں۔ ہر والد کی طرح وہ بھی اپنی بیٹی سے بے حد پیار کرتے تھے ۔ آزادی کی تحریک کے دوران جب وہ جیل میں قید و بند کی زندگی گذار رہے تھے اس وقت وہ اپنی بیٹی کو جیل سے خط لکھتے رہے۔ وہ خطوط اپنی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس خط میں وہ اپنی بیٹی سے نصیحت کی باتیں کرتے ہیں اور ملک کے لئے کچھ کر گذرنے کا حوصلہ جگاتے ہیں۔پیش ہے ان کے خط کا ایک مختصر سا حصہ:

’’تم بڑی خوش قسمت ہوکہ اپنے ملک کی آزادی کی جدوجہد کو دیکھ رہی ہو۔ تم اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہو کہ بہادر عورت تمہاری ماں ہے۔ اگر تم کو کسی بات میں کوئی شبہہ ہو یا تم کسی پریشانی میں مبتلا ہو تو تم کو ماں سے بہتر کوئی ساتھی نہیں مل سکتا۔

    میری دعا ہے کہ تم ایک دن بہادر سپاہی بنو اور ہندوستان کی خدمت کرو۔‘‘

 (پنڈت جواہر لال نہرو کا خط اپنی بیٹی کے نام،۲۶؍اکتوبر ۱۹۳۰ئ)

    پنڈت نہرو کے تربیت یافتہ بیٹی نے ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ نہروجی کے بعد ہندوستان کی باگ ڈور ان کی بیٹی اندراگاندھی نے سنبھالی ۔ ایک لمبے عرصے تک وہ ہندوستان کے وزیر اعظم کے باوقار کرسی پرفائز رہیں اور ہندوستان کو عالمی نقشہ پر لانے کی کوشش کرتی رہیں۔

    جواہر لال نہرو گلاب اور بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے۔ان کے کوٹ کی جیب میں ہر وقت تازہ گلاب کا پھول ہوتا۔ اسی طرح وہ اکثر بچوں کو پیار کرتے نظر آتے۔ وہ بچوں کے بارے میں اکثر فرماتے ’’بچے پھولوں کی کلی کے مانند ہیں‘‘۔ وہ اکثر کہتے بچوں سے پیار اور اس کی تربیت نہایت ضروری ہے کیونکہ وہ کسی ملک کے مستقبل ہیں ۔۱۴؍ نومبر کا دن چاچا نہرو کی یاد تازہ کراتا ہے کیونکہ ان کی پیدائش کی تاریخ وہی ہے ۔ چاچا نہرو اس دن بچوں کے ساتھ گزارتے۔ وہ ان کے ساتھ کھیلتے ، کھاتے پیتے ، تحائف دیتے ، مزیدار باتیں سناتے اور زندگی میں کچھ بہتر کر گزرنے کا حوصلہ عطاکرتے۔ انہیں صرف ہندوستان کے ہی نہیں پوری دنیا کے بچوں سے پیار تھا۔ بچے بھی اسی طرح انہیں عزیر رکھتے اور پیار سے ’’چاچا ‘‘کہتے ۔اس طرح وہ امن و انسانیت کے مسیحا تھے۔ آج بھی جب لفظ ’’چاچا‘‘ سننے کو ملتا ہے تو نہروجی کا نقش ہمارے ذہن میں ابھرتا ہے۔

     جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش کو یوم اطفال (Children's Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر زیادہ تر تعلیمی اداروں میں کلچرل پروگرام منعقد کیا جاتا ہے ۔ بچے اتنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں گویا ان کے لئے تہوار کا دن ہو۔ بچوں کی خوشی دیکھ کر نہرو جی سے ان کی سچی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔     

    اس موقع پر ہمیں چاہئے کہ ہم نہروجی کی شخصیت کے روشن پہلوئوں کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کریں۔ صرف پروگرام منعقد کرلینے سے سچی عقیدت حاصل نہیں ہوپاتی ہے بلکہ سچی عقیدت تو یہ ہے کہ ہم ان کے بتائے راستوں اور اصولوں پر کاربند ہونے کی کوشش کریں۔ بچے کسی بھی قوم وملک کے معمار ہیں اس لئے ہمارا فریضہ ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کریں۔ استاذ کا فرض ہے کہ بچوں کو نہروجی کے آدرشوں سے واقف کرائیں اور ان کی شخصیت کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کریں۔

 

٭٭٭
    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 914