donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Salahuddin Babar
Title :
   DoobTi Yaden



’’ڈوبتی یادیں‘‘


تحریر:پروفیسر ڈاکٹر سید صلاح الدین بابر


    اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ دنیا کی سب سے قیمتی شے کیا ہے؟تو میرا جواب ہو گا ’’یادداشت‘‘۔قوت حافظہ یا میموری(Memory)وہ دولت ہے جس کی بدولت ہم رشتوں اور ناطوں کو پہچانتے ہیں ۔آپ تھوڑی دیر کے لئے تصور کریں کہ آپ اپنی عزیز ہستیوں کو پہچاننے کی صلاحیت کھو دیں تو آپ کے کیا احساسات ہوں گے۔میں آپ کو کسی مصنوعی،بناوٹی اور انوکھی دنیا میں نہیں لے جارہا بلکہ حقائق بارے آگاہ کرنے کی سعی کر رہا ہوں۔دنیا میں کسی بھی معلوماتی اور آگہی مہم میں میڈیا بہت اہم کردار ادا کرتا ہے مگر پاکستان میں صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔میری شدید خواہش ہے کہ پاکستان کا میڈیا بالغ ہو جائے اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھے۔تاکہ پاکستان کے عوام میں شعور پیدا ہو اور وہ درپیش مسائل کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکیں۔
یہ شعر یقینا آپ نے سنا ہو گا۔

یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

    میں یہ کہوں گا کہ یہ شعر کی حد تک تو بہت خوبصورت بات ہے لیکن خدانخواستہ جب ایسی کیفیت سے واسطہ پڑتا ہے تو سوچ کا زاویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔میری مراد یادداشت کم ہونے کی بیماری الزائیمر سے ہے۔میری قارئین سے گزارش ہے کہ اس کالم کا مقصد شعور و آگہی ہے آپ اپنے آپ کو مذکورہ بیماری کا مریض سمجھنا نہ شروع کردیں۔آج کل ہم سے ہر شخص بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے اور وہ ایک وقت کئی ذمہ داریوں اور فرائض کو انجام دینے میں مصروف ہوتا ہے ایسے میں وہ اگر کبھی کبھار بھول جاتا ہے تو عام سی بات ہے جس کے لئے فکر مند ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔قدرت کا نظام ہے کہ اکیس سے چھبیس سال کی عمر کے بعد برین سیل (نیورون )کا کام آہستہ آہستہ کم ہو جاتا ہے ۔عمر کے ساتھ خون کی رگیں سکڑنا اور تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہیں جس سے خون کی روانی میں مشکل پیش آتی ہے۔دراصل  دماغ کے مختلف حصے ہیں جن کا باہمی اشتراک ہماری تمام حرکات و سکنات کو کنٹرول کرتا ہے اور یہ ایک مربوط نظام کے تحت کام کر رہے ہو تے ہیں۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق خون میں شکر کی مقدار کی کمی سے یادداشت کی کمی واقع ہونے لگتی ہے جو اس بیماری کا پیش خیمہ ہے۔ یورپ کے معروف طبی جریدے ’’نیورون‘‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق جس وقت خون میں شکر کی مقدار کم ہوتی ہے تو دماغ کو گلوکوز کی مقدار بھی کم ملتی ہے جس کی وجہ سے دماغ کی سرگرمی کم ہوجاتی ہے اور اس سے ایک خاص نوعیت کی پروٹین الزائیمر بیماری کو متحرک کرنے کا باعث بنتی ہے۔

    تا حال اس مرض کا علاج دریافت نہیں ہو سکا اور غلطی سے بڑھاپا اور ذہنی دباؤ اس مرض کی علامات میں شمار کی جاتی ہیں ۔ یہ مرض انسان کو آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ یہ مرض سب سے پہلے جرمن طبیب نفسی (psychiatrist) اور عصبی ماہر امراضیات (neuropathologist) الوئیس الزائیمر ( Alzheimer Alois) نے 1906 میں دریافت کیا اور اسی مناسبت سے اس مرض کا نام  الزائیمر مشہور ہو گیا۔شروع میں مریض کی یادداشت ایک مختصر وقت کے لئے ختم ہو جاتی ہے جیسے وہ اپنے گھر کے افراد میں سے چند ایک کو پہچان نہیں پاتا اور کبھی کبھار جوانی کے دور کے واقعات اور تعلق والے اسے یاد آتے ہیں بلکہ سامنے بیٹھے محسوس ہوتے ہیں۔گھر سے باہر سیر کے لئے جائیں تو اچانک وہ اپنے گھر کی شناخت بھول جاتے ہیں۔ گھر کے سامنے کھڑے اپنا گھر تلاش کرتے ہیں۔ کھانا کھا چکنے کے بعد بھی انہیں اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ کھانا کھا چکے ہیں۔دن و رات کا فرق ختم ہو جاتا ہے آدھی رات کو سالوں پہلے چھوڑا گیا دفتر اچانک یاد آجاتا ہے اور تیار ہو کر اندھیرے میں دفتر جانے کی تیاری میں گھر سے باہر جانے کی ضد کرتے ہیں۔آہستہ آہستہ یادداشت کھونے کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے اور دیر تک اپنے حال سے جدا ہو جاتے ہیں۔ماضی پرانے ریکارڈ کی طرح نکل کر سامنے آ جاتا ہے۔اردو انگلش لکھنے پڑھنے والی آنکھیں لفظوں سے شناسائی کھو دیتی ہیں۔ مریض سمجھتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہو چکی ہے مگر دراصل دماغ کے وہ خلئے جس میں الفاظ کا ڈیٹا سٹور رہتا ہے صاف ہو جاتا ہے۔پاخانہ پیشاب کے لئے باتھ روم تک پہنچ نہیں پاتے اور راستے میں ہی کپڑے خراب ہو جاتے ہیں کبھی بستر پر تو کبھی کسی فرش پر۔ مریض سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑنے کا فن بھول جاتے ہیں۔ روٹی کا نوالہ بنانے کی ترکیب یاد نہیں رہتی۔ چمچ کو ہاتھ سے پکڑنا بھول جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر انگلیاں دماغ سے آزادی کا بغل بجا دیتی ہیں۔اور لکڑی کے سہارے سے بھی لا تعلق ہو جاتی ہیں۔کئی سال یہی معمولات زندگی رہتی ہے۔ اگر کبھی دست کی شکایت سے کمزوری یا نقاہت ہو جائے تو ایک دو دن بستر پر رہ جائیں تو پھر پاؤں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں رہتا۔ بچے کی طرح لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں۔ زیادہ تر وقت اپنے حوش وحواس میں نہیں رہتے۔ چند لمحوں کے لئے یادداشت لوٹ کر آتی ہے اور مریض صرف بستر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ کھلی آنکھیں اور سانسوں کی ڈور زندگی کی علامت طور پر موجود ہوتی ہے۔ یہ زندگی مہینوں نہیں سالوں پر محیط ہے۔ ایک ایک پل مریض جس تکلیف سے گزرتا ہے بیان سے باہر ہے۔اس بیماری کا دورانیہ آغاز کے بعد15 سے 20 سال تک بھی رہ سکتا ہے۔ 2006میں اس مرض میں 26.6 ملین افراد مبتلا تھے۔ ایک جائزے کے مطابق پوری دنیا میں 2050تک ہر آٹھ افراد میں سے ایک فرد اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔عوام میں الزائیمر بارے آگہی کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 9ستمبر کو الزائیمر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن 1994میں اسی بیماری کا شکار ہوئے اور 2004 میں دس سال اس بیماری سے لڑتے لڑتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔مگر اس بیماری سے نجات نہیں پا سکے۔

     یہ بیماری زیادہ تر بوڑھے لوگوں میں دیکھنے میں آئی ہے مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ 50 کی عمر کے افراد جو شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوئے۔ترقی یافتہ ممالک میں تو الزائیمر کا مرض کافی پرانا ہے۔ اور وہ سالوں سے اس کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیںمگر فی الحال کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ اس سے بچاؤ ممکن ہے کہ ڈپریشن اور سٹریس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی جائے۔ مگر اب ہمارے معاشرے میں یہ بیماری وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔جوں جوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔

 رشتوں میں محبت اور ہمدردی کے جزبات کم ہوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر معاشی ، خاندانی اور معاشرتی مسائل سے پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔زیادہ تر وہی لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جودل کی بات کسی سے نہیں کہتے۔ اپنے غم اور دکھ اپنے کسی ہمدرد سے بانٹتے نہیں اور اس طرح اندر ہی اندر کڑھتے رہنے سے دماغ میں شریانیں سکڑتی چلی جاتی ہیں۔ جب یہ بیماری سامنے آتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ 

    میں سمجھتا ہوں کہ اس کے علاج میں میڈیسن کے ساتھ ساتھ مریض کے لواحقین کو تربیت دینا بھی ضروری ہے ایسے مریضوں کو ان کی پسند کی کتب مہیا کی جائیں۔ان کے پسندیدہ لوگوں سے ان کی ملاقات کرائی جائے۔ ان میں اجنبیت کا احساس کم کیا جائے۔ان کی خوراک اور باقاعدہ ورزش کا خیال رکھا جائے۔ مریض کو الکوحل اور دیگر نشہ آور اشیاء سے دور رکھا جائے۔ اس سے مریض اور لواحقین کی زندگی بہتر انداز میں گزر سکتی ہے۔ ایک شعر غالباً ان افراد کے لئے کہا گیا ہے جنہیں مذکورہ بیماری نہیں ہے۔

روز کہتا ہوں بھول جائوں اسے
روز یہ بات بھول جاتا ہوں

    وہ افراد جو کبھی کبھار بھول جاتے ہیں انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہ اس بیماری کا شکار نہیں ہیں۔اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ بیمار ہیں یا ان کی یادداشت کمزور ہے۔بیماری خواہ الزائیمر ہو یا کوئی اور، ہر ذی روح کو دنیا میں مقررہ وقت گزارنے کے بعد آخر کار اپنے رب کے ہاں جانا ہے مگر ایسے مریضوں کی صحیح نگہداشت سے وہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں ۔ اپنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لیں کہیں کوئی ہمارا اپنا، کوئی پیاراہماری توجہ 
کا منتظر نہ ہو۔ 
 

**************************


 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 954