donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Engr Nawed Ahmad
Title :
   Israyil Kaise Qayem Hua

 اسرائیل کیسے قائم ہوا


انجینئر نوید احمد


اسرائیل 14مئی 1948ء کو وجود میں آیا ۔اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے ۔اور یہ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹوں  سے جو نسل جاری ہوئی ،اسے قرآن حکیم میں بنو اسرائیل یا یہود کے نام سے مویوم کیا گیا ۔یہود کا اولین مسکن ارض فلطین تھا ۔حضرت یعقوب کے بیٹے حجرت یوصفؑکو جب مصرمیں مقتدر منصب حاصل ہوا تو یہود فلطین سے ہجرت کر کے مصر متقل ہو گئے ۔حضرت موسیٰ علیہ السالام کے زمانے میں ہیود مصر سے ہجرت کر کے صحرائے سینا میں آ گئے ۔اس وقت ارض فلطین پر ایک مشرک  قوم ’’عمالقہ‘‘قابض تھی ۔حجرت موسیٰ علیہ السلام نے فلطین کو عمالقہ سے آزاد کرانے کے لئے یہود کو جہاد کا حکم دیا ۔لیکن یہود نے جہاد سے انکار کر دیا ۔جس کی سزا کے طور پر انہیں چالیس سال تک صحرا میں بھٹکنے کی سز ا دی گئی ۔بعد ازاں حضرت یوشع بن نوں ؑ کی قیادت میں یہود کی نئی نسل نے جہاد کرکے فلطین پر قبضہ کر لیا ۔یہ قبضہ بھی عارضی ثابت ہوا ۔اور کچھ عرصہ بعد یہود کو فلطین سے نکال دیا گیا۔اب یہود نے حضرت طالوت کی قیادت میں منظم ہو کر دوبارہ جہاد کیا  اور 1020ق م میں پہلی بار فلطین پر یہود کی مظبوط حکومت قائم ہو گئی ۔حضرت طالوت کے بعد حضرت دوادؑ اور پھر حضرت سلیمانؑ منصب خلاف پر فائز ہوئے ۔

حضرت سلیمان ؑ نے بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی تعمیر کروایا جیسے یہود کا قبلہ قرار دیا گیا ۔حضرت سلیمانؑ کے بعد یہود میں اختلافات پیدا ہو گئے ۔ور فلطینی     ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی ۔شمالی ریاست کا نام اسرائیل اور جنوبی ریاست کا نام یہود رکھا گیا۔اسرئیل پر 721قبل مسیح میں آشور یوں نے قبضہ کر لیا اور یہود ا کو 587ق م میں بخت نصر نے تباہ کر دیا ۔150برس بعد ایران کے بادشاہ کنجورس (ذوالقرنین)نے یہود کو بابل سے آزا کر دیا۔یہود دوباہ فلطین میں آئے اور حضرت عزیر کی قیادت میں دوبارہ منظم ہوئے ۔اس کے بعد یہود یونانیوں کے ساتھ مسلسل بر سر پیکار رہے نا آنکہ 175قبل مسیح میں یہود کو فیصلہ کن کامیابی حاصل ہوئی ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پر یہود کی اکثریت نے ان کی نبوت کو تسلیم نہ کیا ۔لہٰزا حضرت عسیٰ علیہ السلام کو مرتد قرار دے کر سولی دینے کی کوشش کی ۔یہود کو اس جرس کی سزا یہ ملی کہ 70ء میں زومیوں نے ارض فلطین پر قبضہ کر کے ہیکل  سلیمانی کو دوسری بار شہید کر دیا ۔

610ء میں نبی کریم ﷺ پر ظہور نوبت ہوا اور 10سال بعد آپؑ نے سغر معراج کے دوران مسجد حرام سے بیت المقدس تک سغر کیا ۔نبی کریم ﷺ کے وصال کے پانچ سال بعد 637ء میں مسلمانوں نے بیت المقدس  فتح کر لیا، یہ حضرت عمر کا دور تھا ۔عیسایوں نے پرامن معابدیے کے ذرایعے بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کیا۔معاورہ کرتے وقت عیسایئوں نے مطالبہ کیا کہ یہودیوں کو اس شہر میں داخلے کی اجازت نا دی جائے ۔لیکن حضرت عمرؑ نے مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔البتہ معابدے میں یے طے ہوا کہ یہودی ا س علاقے میں آباد نہ ہو سکیں گے ۔مسلمانوں کے تمام ادوار میں یہودیو ں نے پابندی کو ختم کرانے کی کوشش کی ۔لیکن کوئی مسلمان حکمران تیار نہ ہوا ۔پہلی جنگ عظیم کے بعد جب بیت المقدس پر  طانیہ کا قبضہ ہوا تو 1817ء میں اعلان بافور کے زریعے یہود نے بیت المقدس میں آباد ہونے کی اجازت حاصل کر لی ۔یہود نے فلسطینیوں سے سے منہ مانگے داموں جائیدادیں خریدیں ۔دستاویز ات کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ فلاں جائید اد دو ہزار سال قبل ہمارے فلاں بزرگ کے نام تھی،جس پر آج کوئی فلطینی قابض ہے ۔برطانوی حکومت نے اس طرح کے دعوے قبول کئے اور یوں ئیود ے فلطین میں آباد ہوتے چلے گئے ۔برطانیہ اور امریکہ کی ملی بھگت سے 1948ء میں ایک یہودی ریاست اسرائیل کے نام سے قائم کر دی گئی ۔اسرائیل کے قیام کو کوئی بھی باضمیر انسان جائز قرار نہیں دے گا ۔اور نا ہی تسلیم کرے گا ۔یہاں تک کے یہود کے خالصتاندہبی عناصر بھی اسرائیل کے قیام کو نا جائز سمجھتے ہیں ۔معروف یہودی سکالر ڈاکٹر ہلمیر بلجر نے اپنے مقابلے ’’کیا اسرائیل بائبل کی پشین کوئیوں کی تکمیل ہے ‘‘میں لکھنا ہے ’’یہ ایک نا قبل تردید حقیقت ہے کوئی پکاندہبی یہودی یہ نہیں مانتا کہ موجودہ اسرائیل ریاست اس طریقہ عمل سے وجود میں آئی ،جو بائبل کے احکامات سے زدہ بھی مطابقت رکھتا ہو۔‘‘اگر کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتا ہے تو گویا یہ ایک ظلم اور دھاندی کو سند عطا کرنے کا عمل ہے ۔ابن الوقتی کا تقاضا ہے کہ امریکہ کے دبائو میں آکر اسرائل کو تسلیم کر لیا جائے ۔لیکن اصول پرستی  کا تقاضا ہے کہ استحصال اور جبر کے سامنے ہر گز نہ گردن جھکائی جائے ۔

 

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 609