donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Nayi Duniya Ki Talash Mei.n Hindustan Ne Jamaye Khula Mei.n Qadam


 

بسی بسائی دنیا کے عوام کو بلکتا چھوڑکر

 نئی زندگی کی تلاش میں ہندستان نے جمائے خلاء میں قدم


    ایک بسی بسائی ہوئی دنیا کو بھکمری کے لئے چھوڑ کر نئی دنیا اور نئی زندگی کی تلاش میں پانچ نومبر کو ہندستان نے مریخ مشن کا آغاز کیا۔ یقینا سائنسی نقطہ نظر سے اس مشن کی کافی اہمیت ہے لیکن اس خلائی مشن پر ایک ناراضگی بھی ہے کیونکہ جن سیکڑوں کروڑوں روپئے کے استعمال سے ہندستان کے غریب عوام کو دو وقت کی روٹی میسر ہوسکتی تھی ، اس رقم کو سائنس کی نئی تحقیق کیلئے خلاء میں بھیج دیا گیا۔ گرچہ یہ ترقی کی جانب بڑھایا گیا مثبت قدم ہے لیکن کیوں ایسے کسی مشن کو شروع کرنے سے قبل یہاں کے عوام اور انکی ضرورتوں پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا گیا؟ آج بھی بیشتر افراد  بالخصوص دیہی آبادی کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا سخت مشکل ہے۔ حکومت نے بے شمار پروجکٹس نکالے لیکن اسکا کوئی خاطر خواہ اثر ہوتا نظر نہیں آیا۔ مرشد آباد ضلع سمیت ملک کی زیادہ تر آبادی سطح افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کئی علاقوں میں بھکمری اور معاشی تنگی سے مجبور افراد سوکھی گھاس کھانے کو مجبور ہیں ۔ انکی شومئی قسمت کی انتہا تو یہ ہے کہ سوکھی گھاس بھی اب علاقے سے ختم ہوگئی ہے۔ہندستان میں پہلے غریبی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ا ور اب مہنگائی اس کارخانے کی طرح ہوگئی ہے جہاں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں افراد غرباء بن رہے ہیں۔ آج کی اس مہنگائی نے جہاں متوسط طبقہ کی ناک میں دم کر رکھا ہے تو غریبوں کا حال کیا ہوگا، اسکا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ راقم الحروف نے جب بازاروںکا چکر لگایا تو یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا کہ چند غریب افراد دوپہر میں بازار ختم ہوجانے کے بعد وہا ں سے انتہائی سڑی گلی سبزیاں چن رہے تھے۔ سبزیوں کی حالت ایسی تھی کہ شاید کوئی انسان اسے پکانا تو دور دیکھنا بھی پسند نہ کرے۔ ان لوگوں سے اسکا سبب پوچھنے پر انہوں نے کہاکہ سبزیوں اور پھلوں کا سڑا گلا حصہ کاٹ کر جو بچے گا اس سے کسی طرح وہ لوگ اپنے پیٹ کی بھوک مٹالیں گے۔ انہوں نے اس پر بھی شکر ادا کرتے ہوئے کہاکہ قدرت نے اچھا کیا جو چیزوں کے سڑنے یا باسی ہونے کا نظام بنایا ورنہ انہیں یہ کھانا تک نصیب نہیں ہوپاتا۔ یہ وہ آزاد ہندستان نہیں ہے جسکا خواب مجاہدین آزادی نے دیکھا تھا۔  انہوں نے اپنا لہودیکر جس چمن کو گلزار کیا آج اس میں کانٹے ہی کانٹے اگ آئے ہیں۔ جس ہندستان میں کبھی ڈال ڈال پر سونے کی چڑیا کا بسیرا تھا آج وہیں مفلسی اور غربتی نے ڈیرا ڈل دیا ہے۔ چند بدعنوان لیڈروں کی وجہ سے پورا نظام درہم برہم ہوتا جارہا ہے۔امیر امیر ہوتا جارہا ہے اور غریب مزید غریبی کا شکار ہورہا ہے سرکاری ملازمین کو الگ سے مہنگائی بھتہ دیا جاتا ہے۔ وزراء کو معقول تنخواہ اور بے تحاشہ مراعات کے علاوہ پارلیمنٹ میں انہیں انتہائی کم قیمت پر کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ملک سے غریبی تو ختم نہیں کی گئی البتہ غریبوں کو ختم کرنے کا معقول انتظام کیا جارہا ہے۔ شمالی بنگال میں بند چائے باغات کی وجہ سے بے روزگار مزدوربھکمری کے شکار ہیں۔ مرکز کی حکومت نے جب دیکھا کہ انکے دعوئوں سے حقیقت کا کوئی میل نہیں ہے اور لاکھ چھپانے کی کوشش کے باوجود غریبی کا بڑھتا گراف منظر پر آرہا ہے تو انہوں نے دور کی کوڑی کھیلی اور غریبی ناپنے کا پیمانہ ہی بدل دیا۔ چند دنوں پہلے دیہی علاقوں میں 27روپئے اور شہری علاقوں کیلئے 33روپئے یومیہ کمانے والے غریب نہیں ہیں۔ جتنی کوشش حکومت غریبی چھپانے کے لئے کررہی ہے اگر اتنی ہی سنجیدہ کوشش غریبی دور کرنے کے لئے کی گئی ہوتی تو شاید آج نظارہ ہی کچھ اور ہوتا۔

  کیا ہے یہ مشن:

اس مشن پر کْل ساڑھے چار ارب روپے لاگت آئی ہے۔ ہندستان کا پہلا خلائی مشن ’منگل یان‘ مریخ کی جانب روانہ ہوگیا ہے جس کے بعد ہندستان سرخ سیارے پر کامیابی سے خلائی مشن روانہ کرنے والا پہلا ایشیائی ملک بن گیا ہے۔ 1.35 ٹن وزنی مصنوعی سیارہ ہندستان کے معیاری وقت کے مطابق دوپہر دو بج کر اڑتیس منٹ پر ملک کی مشرقی ساحلی ریاست آندھرا پردیش میں سری ہری آوٹا کے خلائی مرکز سے روانہ ہوا۔

مریخ کی جانب بھیجا جانے والا یہ سیارہ 30 نومبر تک زمین کے مدار میں رہے گا اور اس کے بعد بنگلور میں واقع خلائی مرکز میں نصب ریموٹ نظام کے ذریعے اسے مریخ کے نو مہینے کے طویل سفر پر روانہ کیا جائے گا۔

مریخ زمین سے 40 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ’منگل یان‘ 12 ستمبر 2014 کو مریخ کے مدار میں داخل ہوگا۔ اس مشن پر کْل ساڑھے چار ارب روپے لاگت آئی ہے اور اسے ہندستان کے خلائی پروگرام میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اگر یہ مشن مریخ کے مدار تک کامیابی سے پہنچ گیا تو ہندستان کی خلائی ایجنسی اسرو امریکہ، روس اور یورپی یونین کی خلائی ایجنسیوں کے بعد چوتھی ایسی ایجنسی ہوگی جو مریخ تک جہاز پہنچانے میں کامیاب ہو گی۔

اس خلائی جہاز میں پانچ مخصوص آلات موجود ہیں جو مریخ کے بارے میں اہم معلومات جمع کرنے کا کام کریں گے۔

ان آلات میں مریخ کی سطح پر زندگی کی علامات اور میتھین گیس کا پتہ لگانے والے سینسر، ایک رنگین کیمرہ اور سیارے کی سطح اور معدنیات کا پتہ لگانے والا تھرمل امیجنگ سپیکٹرومیٹر جیسے آلات شامل ہیں۔

2008 میں چاند کے لیے ہندستان کی بغیر انسان کی مہم انتہائی کامیاب رہی تھی۔ اس مہم سے ہی چاند پر پانی کی موجودگی کا پہلا پختہ ثبوت ملا تھا۔

" اس ضمن میں سائنسداں کے رادھا کرشن نے کہاکہ مریخ پر کسی بھی مشن کو کسی خاص وقت میں ہی بھیجا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس مستقبل قریب میں سب سے پہلے جو موزوں مدت ہے وہ نومبر 2013 ہے۔ ہمیں کسی بھی حالت میں 30 نومبر تک جہاز کو لانچ کر دینا ہے کیونکہ اس دوران زمین اور مریخ کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوتا ہے۔"

پی ایس ایل وی راکٹ اور منگل یان مصنوعی سیارہ ہندستان کے خلائی ادارے اسرو نے تیار کیا ہے اور ادارے کے سربراہ کے رادھا کرشنن نے کہا ہے کہ ’مریخ مشن خلائی تحقیق کا اختتام نہیں آغاز ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم مریخ تک پہنچنے اور مریخ کے مدار میں کامیابی کے ساتھ گردش کرنے کی ہندستانی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس مشن کے ذریعے بعض اہم سائنسی تجربے کرنے ہیں۔‘

مریخ پر روس ، امریکہ اور یورپی ایجنسی نے پچاس سے زیادہ مشن روانہ کیے ہیں جن میں سے تقریباً بیس مشن کامیاب رہے۔ چین نے بھی 2011 میں مریخ کے لیے اپنا سیارہ بھیجا تھا لیکن وہ مشن ناکام ہو گیا تھا۔

ہندستان کے سائنسی تجزیہ کار پلو باگلہ کا کہنا ہے کہ ہندستان کے مریخ مشن کا بہت گہرا تعلق قومی افتخار سے ہے۔’اگر مریخ پر ہندستان چین سے پہلے پہنچتا ہے تو آپ تصور کیجیے کہ چین کو پیچھے چھوڑ کر ہندستان کے قومی جذبے کو کتنا حوصلہ ملے گا۔‘
لیکن ڈاکٹر رادھا کرشنن کہتے ہیں کہ ’ہمارے اس مشن کا مقصد دوسرے ملکوں سے مقابلہ کرنا نہیں ہے۔ خلا میں ہماری اپنی ذمے داریاں ہیں اور ہم خلائی ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہونا چاہتے ہیں۔‘

ہندستان اس طرح کا مشن چاند پر کامیابی کے ساتھ پہلے ہی بھیج چکا ہے۔ مریخ کے اس مشن کو پوری دنیا میں بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔

اسرو کے لیے کام کرنے والے بنگلور کے پانچ سو سے زیادہ سائنسدانوں نے اس دس کروڑ ڈالر کی مہم پر دن رات کام کیا ہے۔ اس مشن کا رسمی اعلان وزیر اعظم من موہن سنگھ نے گزشتہ سال اگست میں ہی کر دیا تھا کہ ہندستان سرخ سیارے پر خلائی جہاز بھیجے گا۔

ہندستان مریخ مہم کو اپنے حریف چین کو سرخ سیارے تک پہنچنے کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دینے کے موقعے کے طور پر دیکھتا آیا ہے، خاص طور پر تب جب مریخ جانے والا پہلا چینی سیٹلائٹ ’رائڈنگ آن آے رشئین مشن‘ نومبر 2011 میں ناکام ہوگیا تھا۔ جاپان کی جانب سے ایسی کوشش سنہ 1998 میں ناکام رہی تھی۔

دوسری جانب 2003 میں چین اپنا پہلا انسانی خلائی جہاز کامیابی سے لانچ کر چکا ہے جس میں ہندستان کو ابھی کامیابی نہیں ملی۔ چین نے 2007 میں چاند کے لیے اپنا پہلا مشن شروع کیا تھا۔
مریخ کے لیے 1960 سے اب تک تقریباً 45 مشن شروع کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے ایک تہائی ناکام رہے ہیں۔

خیال رہے کہ مریخ کے لیے بھیجی جانے والی مہمات میں سے ’مارز ایکسپریس‘ کے علاوہ کوئی بھی مہم کامیاب نہیں ہوئی۔ اس مہم میں یورپ کے بیس ممالک کو نمائندگی حاصل ہے۔

تاہم ہندستان کا دعویٰ ہے کہ اس کی مریخ مہم پر پچھلی نصف صدی میں سیاروں سے متعلق سب سے ہم اخراجات آئے ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں نے اس سائنسی مقصد پر سوال اٹھائے ہیں۔

دہلی سائنس فورم نامی تھنک ٹینک کے ڈاکٹر رگھونندن کا کہنا ہے، ’یہ مہم اعلیٰ معیار کی نہیں ہے اور سائنس سے منسلک اس کے مقاصد بھی محدود ہیں‘ جبکہ ماہرِ اقتصادیات جادریذ نے کہا کہ یہ مہم ’یہ مشن سپرپاور بننے کی ہندستان کی گمراہ کن خواہش کی تکمیل کا حصہ ہے۔‘

ان باتوں کو رد کرتے ہوئے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کا کہنا ہے، ’ہم 60 کی دہائی سے ہی سنتے آ رہے ہیں کہ ہندستان جیسے غریب ملک کو خلائی مہمات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں، ’اگر ہم بڑے خواب دیکھنے کی ہمت نہیں کریں گے تو صرف مزدور ہی رہ جائیں گے۔ ہندستان آج اتنا بڑا ملک ہے کہ اعلیٰ ٹیکنالوجی اس کے لیے بے حد ضروری ہے۔‘

****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 610