donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Saudi Me 7 Hazar Baras Qadeem Basti Par Tahqeeq Shuru

سعودیہ میں 7ہزار برس قدیم بستی پر تحقیق شروع


نجران میں واقع اس تاریخی بستی ’’اخدود‘‘ کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ فصیل میں گھری عمارت میں کئی قلعے اب تک محفوظ ہیں۔ سوختہ انسانی ہڈیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ مکمل ریسرچ میں 30سال لگ  سکتے ہیں۔وزارت سیاحت

    سعودی عرب کی تاریخی بستی ’’اخدود‘‘ کے پتھروں پر تراشیدہ نقوش اور لوحات پر درج تحریریں بستی کے قدیم ہونے کی کہانی سناتی ہیں۔ سات ہزار برس قدیم اس بستی کا نام قرآن کریم میںمذکورہے۔ عربی خبررساں ادارے العربیہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جنوبی علاقے نجران سے پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر جنوبی پٹی کے ’’تصلال‘‘نامی پہاڑ پر واقع اس بستی کو ایک تاریخی فصیل نے گھیر اہوا ہے‘ جس کی لمبائی 235اور عرض 220 میٹر ہے۔ العربیہ کے مطابق بستی کی تاریخ قبل اسلام سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں پائے جانے والی تختیوں سے معلوم ہواہے کہ اس کی بنیاد 600قبل مسیح میں رکھی گئی۔ اس تاریخی بستی کی بنیادوں میں رکھے جانے والے پتھر تراشیدہ ہیں، جن میں سے ہرایک کی اونچائی چارمیٹر تک ہے۔ فصیل بہت مضبوط اورپختہ ہے اوراتنا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ عمارت پر شکوہ انداز سے ایستادہ ہے۔ بستی کی کھدائی کے دوران ایسی تختیاں بھی پائی گئی ہیں جس سے اس بستی کی تاریخی وسیاسی حیثیت کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ بستی کسی زمانے میں پورے جنوبی خطے کا مرکز رہی ہے ، جبکہ اس کی گود میں ایک نہیں، کئی تہذیبیں جنم لیکر عروج وترقی کی سیڑھیاں طے کرچکی ہیں۔ یہاں کی بلند عمارتیں اور پختہ طرز تعمیر جہاں اسکے قدیم ہونے کا پتہ دیتی ہیں، وہیں اسکے تمدن کی بھی داستان سناتی ہیں۔ العربیہ کی رپورٹ کے مطابق بستی کے بڑے قلعوں کی عمارتیں فصیل کے اندر ہیں۔ ان عمارتوں کی دیواروں سے بوسیدگی کے آثار ٹپکتے ہیں۔ جگہ جگہ سے تراشیدہ پتھروں پر گزرے زمانے کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ دیواروں پر لکیریں پڑ چکی ہیں اور بعض مقامات ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں۔ کہیں کہیں دیواریں طوفانی پانی کے بہائو کے سبب منہدم ہوچکی ہیں۔ تاہم دیواروں کی بنیادیں کھوکھلی نہیں اور عمارت ابھی تک کھڑی ہے۔ کھدائی کے دوران اس بستی سے کافی ساری ایسی نشانیاں دستیاب ہوئی ہیں، جس سے یہاں کے باسیوں اورمعماروں کے بارے میں کسی حد تک معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ بستی سے برآمد ہونے و الی تختیوں سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں کے باشندوں کامشغلہ ایک زمانے میں کتے پالنے کا تھا۔ جبکہ اونٹوں کو پالنے کا بھی یہاں کے باسیوں کا شوق رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے یہاں بنائے جانے والے تاریخی گھاٹ ابھی تک بستی کے قرب وجوار میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ فصیل کے باہر پہاڑ کی چوٹی پر طویل ساخت پر مٹے ہوئے کھنڈرات کی نشانیاں موجود ہیں، جس کی بنیادیں، ٹوٹی ہوئی اینٹیں اور دیگر بہت ساری پرانی اشیا پائی جاتی ہیں۔ کھدائی کے دوران پائے جانے والی تختیوں پر قوم ثمود سمیت کئی مشہور اقوام کا پتہ دینے والی نشانیاں پائی گئی ہیں جبکہ سب سے حیران کردینے والی اشیاء میں سے انسانی جسم کی جلی ہوئی ہڈیاں اوران کی راکھ ہے، جو پندرہ سوسال گزرنے کے باوجود بھی آج تک بستی کے اندر بنے ہوئے گڑھوں میں پڑا ہوا ملتا ہے۔ عرب کے مٹنے والے قبائل جنہیں ’’بائدہ‘‘ کہاجاتا ہے‘ ان کی زندگی کی کافی تفصیلات یہاں سے ظاہر ہوتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بستی کی اس فصیل کے باہر کسی حد تک دور ایک بہت بڑی فصیل نما عمارت کے اندر ایک اور قلعہ نما عمارت ہے۔ جس کی پوری ہیئت اندرونی قلعے کے مقابلے میں زیادہ واضح اورسلامت ہے۔ قلعے کے اندر ایک کمرہ بناہوا ہے، جس کے اندر تعمیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی شاہی دربارکی ہے۔ اس کمرے کی چھت گرچکی ہے تاہم اس کی بلند وبالا دیواریں ابھی تک موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نجران کی اس بستی میں یہ دو عمارتیں بہت ہی پرانے زمانے سے چلی آرہی ہیں، لیکن ابھی تک دیگر مٹ جانے اورمنہدم ہونے والی عمارتوں کے مقابلے میں ان کاوجود تقریباً برقرار ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر فصیل کے اندر اور فصیل کے باہر بنے ہوئے دونوں قلعوں کو پتھروں اور گارے سے بنایا گیا ہے۔ گارا تو پانی کی وجہ سے تقریباً دیواروں کاساتھ چھوڑ چکا ہے، تاہم تراشیدہ کافی حد تک بچ گئے ہیں ۔ قلعے کے نزدیک ایک کنواں اور ایک مسجد بنی ہوئی ہے۔ کنویں کی حالت سے پتہ لگتا ہے کہ وہ بہت پرانا ہے جبکہ مسجدکی بنیادوں میں پائی جانے والی تختیوں سے معلوم ہوتاہے کہ وہ مسجد سے قبل بھی کوئی عبادت خانہ رہ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نجران سعودی عرب کے جنوب میں واقع وہ علاقہ ہے، جہاں پورے عرب جزیرے کی پرانی اور تاریخی عمارتوں کی نشانیاں بہت حد تک اپنی ہیئت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان آثار کا تعلق اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے بھی گہراہے۔ العربیہ کی رپورٹ کے مطابق نجران کے ان آثار پر تحقیق کے نتیجے میں ایسی بے شمار تختیاں اور دیگر اشیاء برآمد ہوسکتی ہیں، جن سے گزرنے والی ان قوموں کی پوری زندگی اور ان کے طرز معاشرت کے بارے میں تفصیلی معلومات سامنے آسکتی ہیں۔ سعودی وزارت سیاحت کی جانب سے اس منصوبے کیلئے رقم مختص کی گئی ہے۔ تاریخی علاقوں کے اندر ماہرین کی ٹیمیں بھیجی جانے لگی ہیں اور سعودی عرب کی حکومت نے اس حوالے سے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نجران کا علاقہ اپنے اندر شمار تاریخی آثار کا خزانہ لئے ہوئے ہے۔ نجران کی مذکورہ بستی کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ بروج میں ہے۔ ایک یہودی بادشاہ نے پندرہ سوسال قبل بستی کے عیسائی باشندوں کو آگ میں جلا ڈالا تھا۔ محکمہ آثار کے مدیر صالح کا کہنا ہے کہ نجران کے اندر مدفون آثار کے بارے میں پوری تحقیق کرنے اور ان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کم از کم تیس سال کا عرصہ درکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ بستی دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہی ہے۔ اتنی تاریخی بستی کے تاریخی رازوں کی نقاب کشائی قرآن کریم نے کی ہے۔


********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 691