donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Urdu Shayari Me Ram Ramayan Aur Dussehra


اردوشاعری میں رام، رامائن اور دسہرہ


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

email: ghaussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook


قدیم ہندو روایات کے مطابق بھگوان رام ایشور کے اوتار تھے۔ ہندو مذہب میں، انھیں وشنو کے 10 اوتاروں میں سے ساتواں مانا گیا ہے۔ رام کی زندگی کی کہانی مہارشی بالمیکی نے لکھی ہے جسے رامائن کا نام دیا گیا ہے۔اس پر تلسی داس نے بھی بھکتی شاعری کی اور ’’رام چرتر مانس‘‘ رچی تھی ۔ شمالی ہندوستان میں رام خاص طور پر زیادہ قابل پرستش مانے جاتے ہیں۔انھیں ایک مثالی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اساطیری روایات کے مطابق رام، ایودھیا کے راجہ دشرتھ اور رانی کوشلیا کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ رام کی بیوی کا نام سیتا تھا (جو لکشمی کا اوتار مانی جاتی ہیں) رام کے تین بھائی تھے۔ لکشمن، بھرت اور شتروگھن۔ ہنومان، بھگوان رام کے، سب سے بڑے پرستار مانے جاتے ہیں۔ رام نے راکشس ذات کے بادشاہ راون کو قتل کیا ۔ہندو مذہب کے کئی تہوار، جیسے رام نومی، دسہرہ اور دیوالی، رام کی زندگی کی داستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ہندو روایتوں کے مطابق ان کی پیدائش لاکھوں سال قبل اجودھیا میںہوئی تھی۔ وہ بچپن سے ہی شانت سوبھائو کے بہادر مرد تھے۔ انہوں نے ’’اصول‘‘ کو ہمیشہ اولین مقام دیا تھا۔ اسی وجہ سے انہیں ’’مریادا پروشوتم‘‘ رام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ بے انتہا خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاق وکردار میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اپنے اخلاق اور سلطنت کی وجہ ہندوستانی سماج میں انہیں جومقام حاصل ہوا ،ویسا دنیا کے کسی دیگر مذہبی یا سماجی لیڈر کو شاید ہی ملا ہو۔ ہندوستانی سماج میں انہوں نے زندگی کی جو مثال قائم کی اس کی اہمیت آج بھی پورے ہندوستان میں برقرار ہے۔ وہ ہندوستانی زندگی، فلسفہ اور بھارتی ثقافت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی ریاست اجودھیاکو خوشحال سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے بھارت میں جب بھی سوراج کی بات ہوتی ہے تو’’ رام راج‘‘ کی مثال دی جاتی ہے۔ 

مذہب کے راستے پر چلنے والے رام نے اپنے تینو ںبھائیوں کے ساتھ گرو سے تعلیم حاصل کی اور راکششوں کا قتل کرکے زمین کو فتنہ و فساد سے پاک کیا۔ان کے گرو وشوامتر انہیں متھلا لے گئے ،جہاں کے راجہ نے اپنی بیٹی سیتا کی شادی کے لئے سوئمبر منعقد کیا تھا ۔بہت سارے راجہ، مہاراجہ اس تقریب میں آئے تھے مگر سوئمبر کو رام نے جیتا اور سیتا سے ان کی شادی ہوگئی۔اجودھیا میں ان کی زندگی کا آغاز پرسکون ہوامگر بعد میں ان کی زندگی میں کئی اتار چڑھائو آئے جو اس قصے کو دلچسپ بناتے ہیں۔ان کے والد راجہ دشرتھ نے اپنی حکومت کا کام کاج اپنے بیٹے رام کو سونپنے کا سوچا ،جس سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ رام کی سوتیلی ماں نے اپنے بیٹے بھرت کو راجہ بنانا چاہا اور رام کو چودہ سال کابنواس دے دیا۔راجہ دشرتھ کی تین رانیاں تھیں،کوشلیا، سمترا اور کیکئی۔ سمترا کے دو بیٹے تھے لکشمن اور شتروگھن جب کہ کیکئی کے بیٹے بھرت تھے۔ رام کی ماں کوشلیا تھیں۔ریاست کی روایت کے مطابق راجہ کا سب سے بڑا لڑکا ہی راجہ بننے کا اہل ہوتا تھا، اس لئے رام کو ایودھیا کا بادشاہ بننا تھا۔رانی کیکئی نے ایک بارراجہ دشرتھ کی جان بچائی تھی اور دشرتھ نے انہیں یہ وعدہ دیا تھا کی وہ زندگی میں کسی بھی لمحے ان سے کچھ بھی مانگ سکتی ہے۔ اس وعدے کی آڑ میں اس نے اپنے بیٹے بھرت کو راجہ بنوایااور دشرتھ کے ذریعے رام کو 14 سال کا بن باس دلایا ۔وعدوں میں بندھے راجہ دشرتھ کو مجبورا یہ تسلیم کرنا پڑا۔ رام نے اپنے والد کی اطاعت کی۔رام کی بیوی سیتا اور ان کے بھائی لکشمن بھی ان کے ساتھ بن باس گئے تھے۔

بن باس کے دوران کے واقعات

بن باس کے دوران، راون نے سیتا کو اغوا کرلیا تھا۔ راون ایک راکشس اور لنکا کا راجہ تھا۔ رامائن کے مطابق، سیتا اور لکشمن کٹیا میں اکیلے تھے، تب ایک ہرن کا کلام سن کر سیتا پریشان ہو گئیں۔ وہ ہرن راون کا فرستادہ انسان تھا۔ اس نے راون کے کہنے پر سنہری ہرن کا روپ بنایا تھا۔ سیتا اسے دیکھ کر موہت ہو گئیں اور رام سے اس ہرن کا شکار کرنے کی درخواست کی۔ رام اپنی بیوی کی خواہش پوری کرنے چل پڑے اور لکشمن سے سیتا کی حفاظت کرنے کو کہا ۔وہ ہرن انھیں بہت دور لے گیا۔ موقع ملتے ہی رام نے تیر چلایا اور ہرن کو مارڈالا۔ مرتے مرتے اس نے زورزور سے "اے سیتا! اے لکشمن" کی آواز لگائی ۔ اس آواز کو سن سیتا فکر مند گئیں اور انہوں نے لکشمن کو رام کے پاس جانے کو کہا۔ لکشمن جانا نہیں چاہتے تھے، پر اپنی بھابھی کی بات پرانکار نہ کر سکے۔ لکشمن نے جانے سے پہلے ایک لائن کھینچی جو لکشمن ریکھا کے نام سے مشہور ہے ۔واپس آئے تو سیتا غائب تھیں۔راون انھیں اغوا کرکے لے جاچکا تھا۔ رام، اپنے بھائی لکشمن کے ساتھ سیتا کی تلاش میں در در بھٹک رہے تھے۔ تب وہ ہنومان اور سگریو نامی دوبانروں سے ملے۔ یہی ہنومان، رام کے سب سے بڑے بھکت بنے۔رام نے بانروں کی فوج کی مدد سے راون کو شکست دی، اس کا قتل کیااور اس کی جگہ پر اس کے بھائی کو لنکا کا راجہ بنایا۔ وہ سیتا کو واپس اجودھیا لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہاں آئے تو پورے ملک میں چراغاں کیا گیا اور خوشیاں منائی گئیں۔اسی سے دیوالی کی شروعات مانی جاتی ہے۔

اردو شاعری میں رامائن کی روایات

     اردو شاعروں نے جن مذہبی شخصیات پر نظمیں تحریر کی ہیں ان میں ایک شری رام چندر بھی ہیں،جن کے واقعات رامائن میں بیان کئے گئے ہیں۔ رام کو بھارتی تہذیب کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے واقعات ملک کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ یہ داستان اس قدر مشہور ہے کہ بھارت کے باہردوسرے ممالک میں بھی صدیوں سے لوگ اسے جانتے ہیں۔ہمارے ملک میں ہر سال اس کی یاد میں دسہرا منایا جاتا ہے اور واقعات کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے رام لیلا ہوتی ہے، جس میں رامائن کے واقعات کو ڈرامے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

   اردو شاعروں میں اقبالؔ کو عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ اقبال نے مختلف موضوعات پر نظمیں کہی ہیں،مختلف شخصیات پر نظمیں لکھی ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے شری رام چندر پر بھی نظم کہی ہے۔ اپنی اس نظم میں انھوں نے رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’سب فلسفی ہیں خطۂ مشرق کے رام ہند‘‘ ۔

  رام کوئی تاریخی وجود نہیں بلکہ ایک اساطیری کردار ہے مگر اس کردار کو اس قدرشہرت ملی کہ آج یہ کردار بھارتیوں کے دل ودماغ پر ثبت ہوچکا ہے اور مورخین کو لگتا ہے کہ ممکن ہے یہ کردار کبھی موجود رہا ہو۔اقبال کو بھی اس کردار نے متاثر کیا ہے اور انھوں نے رام کی عظمت کو اپنی نظم کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔نظم کا عنوان ہے’’ رام‘‘۔ اس نظم کے کچھ شعر ملاحظہ ہوں۔

لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند
سب فلسفی ہیں خطۂ مشرق کے رامِ ہند
ہے رام کے وجود پر ہندستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند

    رامائن کے واقعات بہت طویل ہیں اور اس ایک داستان میں کئی چھوٹی چھوٹی داستانیں ہیں۔اس کتاب کے جہاں دوسری زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں اردو میں بھی ہوئے ہیں۔ بلکہ ایسے شعراء بھی گزرے ہیں جنھوں نے رامائن کا اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ اردو میں اس موضوع پر جو نظمیں کہی گئی ہیں وہ داستان کے کسی ایک پہلو کو پیش کرتی ہیں۔ ایسی ہی نظم چکبستؔ کی ہے جس کا عنوان ہے ’’رامائن کا ایک سین‘‘۔ چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

       

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہ وفا کی منزلِ اول ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کااہتمام
دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام

اظہارِ بیکسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس  تو غم ہوگا اور بھی

 

دسہرہ کیا ہے؟

دسہرہ ہندوؤں کا ایک اہم تہوار ہے۔بھگوان رام نے اسی دن راون کا قتل کیا تھا۔ اسے باطل پر حق کی فتح کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دسہرہ سال کی تین انتہائی مسعود تاریخوں میں سے ایک ہے۔اس دن لوگ نئے کام شروع کرتے ہیں۔قدیم دور میں راجے ،مہاراجے اسی دن سفر کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ اس دن جگہ جگہ میلے لگتے ہیں۔ رام لیلا کا انعقاد ہوتا ہے۔ راون کا بڑا پتلا بنا کر اسے جلایا جاتا ہے۔ دسہرہ یا وجے دشمی بھگوان رام کی فتح کے طور پر منایا جائے یا درگا پوجا کے طور پر، دونوں ہی شکلوں میں یہ طاقت اورعبادت کا تہوار ہے۔

دسہرے کا ثقافتی پہلو

دسہرے کا ثقافتی پہلو بھی ہے۔ بھارت زراعت پر انحصار کرنے والا ملک ہے۔ جب کسان اپنے کھیت میں سنہری فصل اگاتا ہے اور اناج کی شکل میں جائیداد گھر لاتا ہے تو مسرت اور امنگ کی انتہا نہیں رہتی۔ اس خوشی کے موقع پر وہ پوجا کا یہ تہوارمناتا ہے۔ ہندوستان کے مختلف خطوںمیں یہ تہوار مختلف انداز میں منایا جاتا ہے۔ مہاراشٹر میں یہ سماجی فیسٹیول کے طورپربھی منایا جاتا ہے۔ہماچل پردیش میں کلو کی دسہرہ بہت مشہور ہے۔ دیگر مقامات کی ہی طرح یہاں بھی دس دن یا ایک ہفتہ بھر قبل سے  اس تہوار کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ عورتیں اور مرد سب خوبصورت کپڑے پہنے اور بن سنور کر نرسنگا، بگل، ڈھول، نگاڑے، بانسری وغیرکے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ پہاڑی لوگ اپنے دیہی دیوتا کا دھوم دھام سے جلوس نکال کر پوجا کرتے ہیں۔دیوتاوں کی مورتیوں کو بہت ہی دلکش پالکی میں خوبصورت طریقے سے سجایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے بنیادی دیوتا رگھوناتھ جی کی بھی پوجا کرتے ہیں۔ اس جلوس میں تربیت یافتہ رقاص رقص کرتے ہیں۔اس طرح جلوس بنا کر شہر کے اہم حصوں میں گھومتے ہیں۔

پنجاب میں دسہرہ نوراتر کے نو دن کے اپواس سے شروع کرتے ہیں۔اس دوران یہاں لوگوں کا استقبال روایتی مٹھائی سے کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی راون دہن کے انعقاد ہوتے ہیں، اور میدانوں میں میلے لگتے ہیں۔

بنگال، اوڈیشہ اور آسام میں یہ تہوار درگا پوجا کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ یہاں کے لوگوں کا سب سے زیادہ اہم تہوار ہے۔یہ پورے بنگال میں پانچ دنوں کے لئے منایا جاتاہے۔ اوڈیشہ اور آسام میں 4 دن تک تہوار چلتا ہے۔ یہاں دیوی درگا کی مورتی کو عظیم الشان اور خوبصورت پنڈالوں میںبراجمان کرتے ہیں۔ ملک کے نامور فنکار درگا کی مورتی تیار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ دیگر دیوی دویوتائو ںکے بھی کئی مجسمے رکھے جاتے ہیں۔تہوار کے دوران شہر میں چھوٹے موٹے اسٹال بھی مٹھائیوں سے بھرے رہتے ہیں۔اس موقع پر ایک دن ’’سندور کھیلا‘‘ ہوتا ہے جس میں خواتین ایک دوسرے کو سندور لگاتی ہیں۔اختتام پر مجسموں کو بڑے بڑے ٹرکوں میں بھر کر وسرجن کے لئے لے جایا جاتا ہے۔تمل ناڈ، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں دسہرہ نو دنوں تک چلتا ہے جس میں تین دیویاں لکشمی، سرسوتی اور درگا کی پوجا کرتے ہیں۔ کرناٹک میں میسور کا دسہرہ بھی پورے ہندوستان میں مشہور ہے۔

گجرات میں مٹی کاخوبصورت اوررنگین گھڑا دیوی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس کو کنواری لڑکیاں سر پر رکھ کر ایک مقبول رقص کرتی ہیں جسے گربا کہا جاتا ہے۔گربا رقص اس تہوار کی شان ہے۔ مرد اور عورتیں دو چھوٹے رنگین ڈنڈوں کو موسیقی کی تال پر آپس میں بجاتے ہوئے گھوم گھوم کر رقص کرتے ہیں۔کشمیر کے اقلیتی ہندو نوراتر کے تہوار کو عقیدت سے مناتے ہیں۔ خاندان کے تمام بالغ رکن نو دنوں تک صرف پانی پی کر روزہ کرتے ہیں۔ 

دسہرہ بھارت کا قدیم تیوہار ہے۔صدیوں سے منایا جارہا ہے۔ یہ رام کی راون پر فتح کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ برائی پر اچھائی کی جیت کی یادگار ہے۔اس موضوع پر اردو میں بہت سی نظمیں کہی گئی ہیں۔ اردو کے ایک شاعر نوبت رائے نظرؔؔ کے خیال میں دسہرہ عظمت ہندوستان کی یادگار ہے اور ہندووں کی قدیمی فتح ونصرت کا نشان ہے۔ ہم یہاں نظرؔ کی اسی نظم کچھ مصرعے آپ کی نذر کر رہے ہیں،جس کا عنوان ہے ’’دسہرہ‘‘۔

ہے دسہرہ یادگارِ عظمتِ ہندوستاں

ہندووں کی قدیمی فتح ونصرت کا نشاں
اِک مٹی سی یہ نشانی دولت واقبال کی
یاد دلواتی ہے ان ایامِ فرخ فال کی
دل میں ہمت ہاتھ میں اپنے فقط تیروکماں
لشکرِ کفار میں جس سے تھا شورِ الاماں
باندھ کر وہ پل سمندر کو کیا ہم نے عبور
جس کو حیراں دیکھ کر ہیں آج تک اہلِ شعور
یہ دسہرہ عشرۂ عشرت ہے اپنے واسطے
خالقِ کونین کی رحمت ہے اپنے واسطے


٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 768