donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Israyili Nuclear Bom Kab Aur Kaisi Bana


 اسرائیلی   نیوکلیر  بم کب  اور  کیسے  بنا   ؟


از  :  غلام غوث  ،  کورمنگلا  ،  بنگلور ۔  فون  :  9980827221


       جس وقت دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر آٹم بم گرائے اس کی دہشت سے جاپان نے ہتھیار ڈال دیے  اسی وقت یہودیوں نے طئے کر لیا کہ ایک نہ ایک دن جب انکا اپنا ملک بنے گا تو وہ خود کو نیوکلیر پاور بنا لیں گے اور اپنے ہر دشمن کو منھ توڑ جواب دیں گے ۔  1948  میں جب اسرائیل وجود میں آ گیا تب اسکے وزیر اعظم بین گورین  نے اپنے خواب کو سچ میں بدلنے کا تہیہ کر لیا ۔  مگر اسے معلوم تھا کہ یہ کام ناممکن ہے کیونکہ اگر اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو  امریکہ اور مغربی مملک اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔  17.2.1960میں فرانس نے اپنا پہلا نیوکلیر بم ٹیسٹ کیا ۔  اس وقت اسرائیل کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے  ۔  کچھ ہی دنوں میں اسرائیل نے نیو  کلیر  بم بنانے کا من بنا لیا  مگر سوال یہ تھا کہ وہ کونسی ایسی جگہ بنئے جہاں دوسرے ممالک کی نظر نہ پڑے اور جو مکمل ہو نے تک راز ہی راز رہے  ۔  ریگستان کے بیچ  ایک جگہ  دیمونا میں ایک بجلی گھر تھا جو اسرائیل کی نظر میں بہت موضوع جگہ تھی ۔  چناچہ اسرائیل نے طئے کیا کہ اسکا نیو کلیر پلانٹ وہیں بنے گا ۔  ایک ایسے وقت جب عرب ممالک اپنی سر زمین میں پیٹرول کے چشمے پا کر بے خود ہو گئے تھے اور فروعی مسائل اور عیش و عشرت میں مشغول ہو گئے تھے اس وقت یہودی دور اندیشی کا مظاہرہ کر رہے تھے  ۔  یہ وہ وقت تھا جب فرانس اسرائیل کو بجلی پیدا کر نے کے لئے یورانیم سپلائی کر رہا تھا  ۔  بین گورین نے طئے کیا کہ وہ فی الحال عربوں سے جنگ نہیں کرے گا  کیونکہ اگر ایسا ہوا تو دیمونا میں بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کا پتہ دیگر ممالک کو لگ جائے گا  ۔  اسے ڈر تھا کہ اگر امریکی صدر آئزن ہور کو معلوم ہو گیا تو وہ اپنی فوج کے ذریعہ اسے تباہ کر دے گا  ۔  اسے معلوم تھا کہ اگر اسرائیل نیوکلیر پاور بن گیا تو عرب اس پر حملہ نہیں کر پائیں گے  ۔  ( یہ بات اگر عرب ممالک آج بھی سمچھ گئے اور نیوکلیر بن گئے تو دنیا کی کوئی بھی حکومت ان پر حملہ نہیں کرے  گی  ) ۔  مارچ    1960  کو فرانس کو معلوم ہوا کہ اسرائیل اسکے سپلائی کئے ہوے یورانیم سے  دیمونا میں نیوکلیر پلانٹ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے  ۔  تب فرانس کے صدر ڈیگال نے اسرائیل سے اپنا نیوکلیر معاہدہ ختم کر دیا  ۔  مئی 1960میںبین گورین نے امریکی صدر سے  دو گھنٹے بات کی اور کہا کہ اسے عربوں سے سخت خطرہ ہے اور اسکے لئے اسے ایواکس اور اینٹی ایر کرافٹ میزائلس اور راڈار چاہیے  ۔  یہ سنکر آئزن ہاور نے کہہ دیا کہ وہ مشرق وسطئی میں ہتھیارر سپلائی نہیںکرے گا بلکہ وہ اخلاص کے ساتھ وہاں امن کے لئے کام کرے گا  ۔  اب اسرائیل نے دوبارہ فرانس سے رجوع کیا اور عہد کیا کہ وہ صرف پر امن ریسرچ کر نا چاہتا ہے  ۔  امریکہ کو بتایا گیا کہ جو عمارتیں دیمونا میںبنائی جا رہی ہیں وہ ٹیکسٹائل پلانٹ ہیں  ۔  آگسٹ 1960 کوامریکہ کےu2  جاسوسی جہازوں نے توثیق کر دی کہ وہ نیوکلیر پلانٹ ہی ہیں  ۔  اسرائیل نے فرانس کو یہ کہہ کر بلیک میل کیا کہ اگر وہ اسکا ساتھ نہیں دے گا تو عربوں کو ان تمام کمپنیوں کے نام بتا دے گا جو اسکی اس کام میں مدد کر رہے ہیں جسے سنکر عرب انکا  بئکاٹ کر دیں گے  ۔  ٖفرانس نے مجبوراـ اپنی کمپنیوں کو پلانٹ بنا نے کا کام مکمل کر نے کی اجازت دے دی  ۔  پہلے پہلے فرانس اصرار کر رہا تھا کہ دیمونکا کا پلانٹ انٹر نیشنل معائنہ کے لئے کھول دے مگر اس طرح بلیک میل ہو نے کے بعد ٖفرانس نے اصرار کر نا چھوڑ دیا  ۔  21.12.1960 کو بین گورین نے دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ وہاں جو پلانٹ ہیں زراعت  ، صنعت  ، صحت اور سائنس کے ریسرچ میں مدد کر نے کے لئے بنایے جا رہے ہیں  ۔  ( کاش ایران بھی ایسا ہی کر تا  )  اس طرح بین گورین نے اپنے مشن کو راز رکھنے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہاجبکہ گولڈا میر  اور یشکول وغیرہ پریشان تھے کہ اس وقت کیا ہو گا جب امریکہ کو سچائی معلوم ہو جا ئے گی  ۔  ڈسمبر 1960 میں امریکہ کے نئے صدر کینڈی نے اسرائیل سے مکمل معلومات طلب کیں تو بین گورین نے ٹال مٹول سے کام لیا اور ان سے بچنے کے لئے جنوری 1961 کو استعفعاء دے دیا  ۔  مارچ 1961 کو کینڈی کو اظلاع دی گئی کہ دیمونا میں جو پلانٹ ہے وہ بہت طاقتور اور زبردست نیوکلیر پلانٹ ہے  ۔  سکریٹری آف اسٹیٹ ڈین رسک نے کینڈی کو بتایا کہ اگر روس کو معلوم ہو گیا تو وہ عرب ممالک کو اپنے نیو کلیر ہتھیار دے دے گا اور نیوکلیر پلانٹ بھی قائم کر دے گا  ۔  ( کاش عرب اپنا عیش چھوڑ کر یہ راز جان جا تے اور روس سے نیوکلیر مدد لے لیتے ! ۔ آج بھی عرب ممالک اپنے دوست ممالک سے نیوکلیر ہتھیار خرید لیں تو اسرائیل بغیر جنگ لڑے بات چیت کے  لئے راضی ہو جائے گا  ۔  نادانوں کو کون سمجھائے  )  1961 میں جب بین گورین دوبارہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے انٹر نیشنل معائنے کے لئے رضامندی دے دی مگر جب معا ئنہ کار آئے  تو انہیں رشوت دیکر وہ خفیہ چیمبرس نہیں بتائے جہاں اصل کام چل رہا تھا  ۔  جو دو امریکی سائنٹسٹ آئے تھے انہوں نے واپس جا کر رپورٹ دے دی کہ وہاں کوئی نیوکلیر پلانٹ نہیں ہے  ۔  30 مئی کو بین گورین نے امریکہ آ کر کینڈی سے کہا کہ وہ عربوں کو یقین دلا دے کہ اسرائیل کوئی نیوکلیر بم نہیں بنا رہا ہے بلکہ وہ اس پلانٹ کے ذریعہ سمندری پانی کو صاف کر کے اسے پینے کے قابل بنا رہا ہے  ۔  بین کورین نے مغربی ممالک پر اپنا ڈر ظاہر کیا کہ مصر کے صدر عبدالناصراپنے ملک کو نیوکلیر پاور بنانے کی کوشش میں لگے ہیں اور اگر وہ کامیاب ہو گئے  اور  اسرائیل کو شکست دے دی تو اسرائیل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا  ۔  کینڈی سے اس نے یہ بھی کہا کہ کہ اسرائیل پچھلے چار ہزار برسوں سے خود کو زندہ رکھنے کی جد و جہد میں مشغول ہے جبکہ باقی سب اس  کو نیست و نابود کر نے میں لگے ہیں  ۔  یہ سب سنکر کینڈی نے کہا  "  تم جانتے ہو کہ مجھے نیو یارک کے یہودیوں نے الیکشن میں جتایا ہے  ۔  مجھے بتاو کہ  میں انکے لئے اور تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں  "۔  یہ سن کر بین گورین نے شاطرانہ انداز میں کہا کہ "  آپ وہی کیجیے جو امریکہ کے لئے مفید ہے  ۔ مجھے ایٹی ایر کرافٹ  میزائلس چاہیے نکیونکہ  ناصر نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ اسرائیل کو نیو کلیر پاور بننے سے روکنے کے لئے جنگ تک کر سکتا ہے  اور اس کے لئے ناصر نے امریکہ میں کیلی فورنیا کے ایک فرم سے بیلسٹک میزائلس بنا نے کی ٹیکنالوجی خرید رکھی ہے  "  ـ۔ 5.7.1961  کو اسرائیل نے 47 میل دور تک مار کر نے والے شیوٹ راکٹ فائر کیے ۔  دوسرے ہی سال عبدالناصر نے 350  میل دور تک مار کر نے والے چار بیلسٹک میزائلس داغے اور دنیا کو تعجب میں ڈال دیا  ۔  اسرائیل نے امریکہ سے یہ بھی کہا کہ ناصر جرمن  سائنٹسٹوں کی مدد سے 1959  سے زمین سے زمین پر دور تک وار کر نے والے میزائلس بنانے کی فیکٹریاں قائم کر رہا ہے اور ڈرٹی بم بھی بنا رہا ہے  ۔  اسرائیل نے جرمنی سے اس کی شکایت کی اور ساتھ ہی مصری پروگرام سے جڑے ہوے سات سائنٹسٹوں کو قتل کر دیا اور مصری فیکٹریوں کو پوسٹل بموں سے اڑا دیا  ۔  ان تمام باتوں کو سچ مان کر امریکہ نے آگسٹ 1962کو ہاک ایر ڈیفینس میزائلس دینے پر رضا مند ہو گیا  ۔  کینڈی اسرائیل پر نرم گوشہ رکھتا تھا کیونکہ اسے 1964 میں دوبارہ الیکشن لڑنا تھا اور اسے دوبارہ یہودیوں کے ووٹوں کی ضرورت تھی  ۔  حقیقت یہ تھی کہ مصر  کے پاس جو میزائلس تھے وہ موثر نہیں تھے اور ٹھیک نشانے پر وار بھی نہیں کر سکتے تھے  ۔  مگر اسرائیل نے امریکہ سے جھوٹ بول کر اور اسے پھسلا کر کئی قسم کے مہلک ہتھیار خرید نے کے معاہدے کر لئیے  ۔  یہودیوں نے یوروپ اور مشرق وسطی میں ہر طرف ان انجنیروں اور سائنٹسٹوں کو قتل کر نا شروع کر دیا جو عربوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور ان کے لئے کام کر تے تھے  ۔  یہ کام وہ مسلمان ایجنٹوں سے بھی کروا تے  تھے  ۔   ( خود  عرب مسلمان غداروں نے مسلم کاز کو نقصان پہنچایا ) ۔  یہ دیکھ کر یوروپی ممالک اسرائیل پر غصہ ہو گیے ۔  سی وقت روس اور امریکہ نے دیگر ممالک کو نیو کلیر بننے نہ دینے کا معاہدہ کر لیا اور اسرائیل کو صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے ارادے سے باز آ جائے  ۔  اسرائیل کو ڈر پیدا ہو گیا کہ اگر امریکہ کو اسرائیل کی سچائی معلوم ہو گئی تو وہ اسرائیل پر بمباری کر دے گا اور دیمونا پلانٹ کو تباہ کر دے گا  ۔  اسلئے پیرز نے کینڈی کو کہا کہ اسرائیل مشرق وسطی میں کبھی نیو کلیر ہتھیار نہیں بنائے گا اوور یقینا وہ پہلا ملک نہیں ہو گا  جو ایسے ہتھیار بنا ئے گا  ۔  دراصل اسرائیل نے قدم قدم پر جھوٹ اور دھوکے  اور مقفی سے کام  کر رہا تھا  ۔  اب کینڈی نے مصر اور اسرائیل دونوں سے کہا کہ وہ عہد کریں کہ وہ اپنے ملکوں میں نیو کلیر ہتھیار نہیں بنائیں گے اور گیارنٹی کے طور پر تمام کارخانے انٹر نیشنل معائنہ کے لئے کھول دیں گے  ۔  مصر تو رضامند ہو گیا مگر اسرائیل نہ ہاں کہہ سکتا تھا اور نہ ہی نہ   ۔  ایسے وقت میں دیمونا کا نیو کلیر پلانٹ مکمل تیار ہو گیا تھا اور نیو کلیر بم بنانے شروع کر دیا تھا   ۔  اپریل 1963 میں مصر  ،  شام اور عراق نے مل کر  فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے ایک فیڈریشن بنا لیا  ۔  یہ دیکھ کر اسرائیل نے کینڈی سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کو نیو کلیر بنتا دیکھ کر خاموشی اختیار کرے  مگر کینڈی نہیں  مانے  ۔  وہ  بضد تھے کہ اسرائیل نیو کلیر ہتھیار بنا نے سے باز آ جائے  ۔  امریکی دباو اتنا زیادہ تھا کہ اسے بین گورین برداشت نہ کر سکا اور 16.6.1963 کو 77 سال کی عمر میں  اپنے عہدے سے استعفی دے دیا  ۔  اسکے فورا بعد کسی نامعلوم سازش کے تحت  کینڈی کا قتل کر دیا گیا اور اسرائیل نے کھلم کھلا بم پھوڑ کر تجربہ کر لیا  ۔ کینڈی کو کیوں مارا گیا یہ اب تک راز ہی ہے  ۔  نبال سورک میں زیر زمین  ایک جھوٹا نیو کلیر پلانٹ ہے جس کے چاروں طرف اسکی حفاظت کے لئے میزائل ہیں  ۔ یہ میزائل جب زنگ آلود ہو گئے تو اسرائیل نے کسی دوسرے ملک کے ذریعہ انہیں ایران کو  فروخت کر دیا  ۔  مسٹرMordechai vanunu جو 1985 - 1976 کے درمیان دیمونا میں کام کر رہے تھے انہوں نے دنیا کے سامنے پہلی مرتبہ اسرائیل کے راز سے پردہ اٹھا یا تھا  ۔  اس لئے موساد نے انہیں اغوا کر کے جیل میں ڈال دیا  ۔  اسرائیل اپنے خفیہ سننے اور فلمانے کے آلات ملکوں اور لوگوں کے بریف کیسوں  ،  آفسوں  ،  گھروں اور انٹرنیٹشنل مواسلاتی آلات  اور فرنیچر کے اندر رکھنے کا عادی ہے  ۔  آج اسرائیل کے پاس قریبا ایک سو سے زیادہ نیو کلیر بم ہیں اور دنیا کی کوئی بھی طاقت  اسے ڈرا نہیں سکتی   ۔  جب اتنا سب کچھ ہو رہا تھا تب عرب ممالک صرف باتوں میں  ، ٹاورس بنانے میں  ،  خوبصورت عمارتیں بنانے میں اور عیش و عشرت میں  اور بڑائیاں ہانکنے میں مشغول تھے  ۔  اسرائیل نے 2006  to 1963  تک سرکاری طور پر اس بات کا اقرار نہیں کیا کہ اسکے پاس نیو کلیر بم ہیں  ۔ 11.12.2006 کو اسرائیلی وزیر اعظم یہود والمرٹ نے اپنے جرمنی کے دورے میں اس بات کا اقرار کیا کہ وہ نیو کلیر ہتھیار رکھتا ہے  ۔  اسکے مقابلے میں ایران کو دیکھیے کہ وہ نیو کلیر پلانٹ بنانے سے پہلے ہی حماقت سے اپنے راز دنیا پر فاش کر دیے اور خود کو مصیبت میں ڈال لیا  ۔  عرب ممالک کی ہر گلی میں اسرائیلی جاسوس بے دحڑک گھوم رہے ہیں اور وہ اور کوئی نہیں بلکہ خود عرب مسلمان ہیں  ۔  آج بھی اگر اسرائیل چاہے تو عرب ممالک کی کسی بھی گلی میں بموں کی بوجھاڑ کر سکتا ہے  اور کسی کو بھی چاہے قتل کر سکتا ہے  ۔  آج عرب بیرونی دشمن کو بھلا کر خود ہی ایک دوسرے کو مارنے میں مشغول ہیں ۔  انہیں سننی  ،  شیعہ  ،  عرب  ،  غیر عرب اور کردوں اور قبیلوں کی پڑی ہے  ۔  انکے ہر ادارے اور تنظیم میں اسرائیلی اور یوروپی ایجنٹ موجود ہیں جو انہیں فروعی مسائل میں الجھا کر آپس میں لڑا رہے ہیں  ۔  ( بھارت میں بھی مسلمان اس کے شکار ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس حلیے میں یہ کام کر رہے ہیں  ۔  سب کی زبان پر کلمہ ہے  اور  سب کی زبان پر اللہ اکبر ہے  مگر کون کیا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم  ۔  سچائی یہ ہے کہ سچا مسلمان فروئی مسائل اور مسلکوں کو لے کر بد زبان نہیں ہو سکتا اور کبھی ایک دوسرے کو کافر نہیں کہہ سکتا اور کبھی ضدی اور پر تشدد نہیں ہو سکتا  )   ۔  آج بھی مصر  ،  ایران  ،  ترکی  اور سعودی عرب نیو کلیر پاور بن گئے تو فلسطین کا مسلہ بغیر جنگ کئے حل ہو سکتا ہے اور عرب ممالک عزت اور امن کی زندگی گزاریں گے  ۔  کاش ایسا ہو جائے ۔

(یو این این)


   (  یہ مضمون یوروپ اور امریکہ میں لکھی ہوی کتابوں اور دستاویزات کا نچوڑ ہے  )

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 602