donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gul Bakhshalvi
Title :
   Islami Jamhuriya Pakistan Ka Aik Suba


اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک صوبہ

 

خیبر پختون خوا

(صوبہ سرحد سابقہ)

تاریخ کے حوالے سے

(انسائیکلوپیڈیا سے ماخوذ) 


گل بخشالوی


    اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چار صوبوں میں واحد صوبہ جس کا نام اس کی تاریخ سے ماخو ز نہیں باقی تین صوبے یعنی پنجاب ،سندھ اور بلوچستان کے نام صدیوں سے ان کی تاریخی نسبت سے مشہور چلے آرہے ہیں اس صوبے کا نام 1901ءمیں وائسرائے ہند لارڈ کرزن اس وقت کے پنجاب کے پختون اضلاع پر مشتمل ایک الگ صوبہ بنا کر اس کا نام شمال مغربی سرحدی صوبہ ،نارتھ ویسٹ فرنٹیر رکھا ۔انگریز اس صوبت کا نام پختونستان یا پٹھانستان بھی رکھ سکتے تھے لیکن سرحد کے پاردوسری طرف افغانستان سے ان کے تعلقات خوشگوار نہ تھے کیونکہ افغان حکومت اور عوام کا جھکاؤ روس کی طرف تھا۔

    شمال مغربی سرحدی صوبہ کہلانے سے قبل زمانہ قدیم میں اس صوبے کو گندھارا ،بگرام ،پشکال وتی اور کئی دوسرے ناموں سے پکارا جاتا رہا ۔اس صوبے کے شمال میں ہندوکش کے پہاڑی سلسلے،جنوب میں بلوچستان اور پنجاب کے کچھ علاقے مشرق میں پنجاب کا ضلع اٹک اور دریائے سندھ کے علاقے اور مغرب میں افغانستان واقع ہے۔صوبہ سرحد کا رقبہ 39284 مربہ میل ہے اس میں سرحدی اضلاع بھی شامل ہیں ۔سرحدی اضلاع کا رقبہ 10511مربع میل ہے اور قبائلی علاقے 28772مربع میل میں پھیلے ہوئے ہیں ۔

    1981ءکی مردم شماری کے مطابق صوبہ سرحد کی کل آبادی ایک کروڑ 8لاکھ 50ہزار نفوس پر مشتمل تھی جبکہ قبائلی علاقوں کی آبادی 21لاکھ 75ہزار تھی صوبے کی زیادہ سے زیادہ لمبائی 408میل اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 380میل ہے ۔صوبہ سرحد میں چار مختلف قسم کے علاقے شامل ہیں یعنی سرحدی اضلاع وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے وفاق کے زیر انتظام غیر قبائلی علاقے اور شمالی علاقہ جات (اُس وقت کے )سرحدی اضلاع ۔ڈویژنوں پر مشتمل تھے ۔

۱....    مالاکنڈ ڈویژن

(دیر ۔سوات۔مالاکنڈ۔چترال)
۲....    پشاور ڈویژن

(پشاور ۔مردان ۔صوابی)
۳....    ہزارہ ڈویژن

(کوہستان ۔مانسہرہ۔ایبٹ آباد)
۴....    کوہاٹ ڈویژن(کوہاٹ ۔کرک)
۵....    ڈیرہ اسماعیل خان

(بنوں ۔ڈیرہ اسماعیل خان)

....وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے جن کو عرفِ عام میں فاٹا کہا اور لکھا جاتا ۔ پہلے پولیٹکل ایجنسیاں کہلائی جاتی تھیں ان ایجنسیو ں ،مہمند ایجنسی ،خیبر ایجنسی ،کرم ایجنسی ،اورکزئی ایجنسی ،شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان ۔

....وفاق کے زیر انتظام دوسرے علاقے ۔ایف آر پشاور،ایف آر کوہاٹ،ایف آر بنوں،ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان ،فاٹا اور وفاق کے زیر انتظام دوسرے علاقوں کا نظم ونسق سرحدی اضلاع سے بالکل الگ تھلگ ہیں ۔ان علاقوں میں حکومت پاکستان کے حکام مقامی قبائل سردارو ں کے تعاون سے نظم ونسق اور امن وامان برقرار رکھتے اور پاکستانی سرحدوں کی حفاظت کرتے ۔یہاں صوبہ سرحد کے دوسرے اضلاع کی طرح نہ پولیس تھی اور نہ عدالتیں ،قبائلی علاقے کے لوگ اپنے تنازعات اپنے جرگوں میں طے کرتے حکومت ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی تھی۔شمالی علاقہ جات کا اب ایک ڈویژن بنایا گیا ہے جو گلگت ڈویژن کہلاتا ہے اس میں پانچ اضلاع شامل ہیں ۔دیا میر ،غذر ،اسکردو ،گلگت اورگھانچی۔

    صوبہ سرحد غیور پختونوں کا خوبصورت گلشن ہے ۔بلند وبالا پہاڑی سلسلوں ،تاریخی دروں ،صحت افزاءمقامات ،قدرتی جھیلوں اور آبشاروں کی وجہ سے خاص اہمیت کا صوبہ ہے ۔ایبٹ آباد ،نتھیا گلی ،ایوبیہ ،مری ،وادی کاغان،وادی لولوسر،جھیل سیف الملوک ،سوات ،کانسرستان،وادی کالام،وادی بحرین،سیدوشریف ،کوہ ہندوکش ،کوہ سلیمان ،کوہ سفید ،درئہ خیبر ،درئہ لواری ،درئہ کرم ،درئہ ٹوچی ،درئہ گومل ،دریائے سندھ ،دریائے کنہار،دریائے ہرو،سرن،دریائے چترال،دریائے سوات ،سرحد کے پہاڑی علاقوں میں معدنیات کے گراں قدر خزانے موجود ہیں ۔سوات کے خوبصورت وادی کے اطراف کے اُونچے پہاڑوں میں زمرد جیسا قیمتی پتھر موجود ہے ۔چترال میں سرمہ اور ابرق کی کانیں ہیں اُونچے پہاڑوں کا گوندسلاجیت ایک قیمتی دوا کے طور پر استعمال اور فروخت ہوتا ہے ۔مہکتی وادیوں میں دیودار اور چنار جیسے قیمتی درخت موجود ہیں ۔ان علاقوں میں دوسرے جنگلی جانوروں کے علاوہ چیتے ،ریچھ اور بٹیرے بھی پائے جاتے ہیں ۔صوبہ سرحد کی آبادی کی اکثریت خوشحال ہے پہلے کی نسبت پانی اور بجلی عام ہوگئی ہے ۔صوبہ سرھد کے پہاڑی سلسلوں اور وادیوں میں قیمتی جڑیبوٹیاں ،بنفشہ ،زیرہ ،ابرک سنبل اور زہرہ کے علاوہ میدانی علاقو ں میں ہر قسم کا سبزہ ،اناج اور پھل بکثرت پیدا ہوتے ہیں ۔

    صوبہ سرحد تاریخی لحاظ سے قدیم ترین انسانی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے بدھ مت کا تو یہ سب سے بڑا مرکز تھا ،ٹیکسلا کے کھنڈرات اس کے شاہد ہیں یہاں بدھوں کی عبادت گاہیں ہزاروں کی تعداد میں تھیں پھر قبائلی دور آیا ،مختلف قبائل مختلف اوقات میں چھوٹی چھوٹی خودمختار حکومتوں کی صورت میں حکومت کرتے رہے ۔را جہ پال کی شکست کے بعد پنجاب کےساتھ سرحد بھی غزنوی حکومت کے زیر انتظام آیا ۔1191ءمیں شہاب الدین غوری نے صوبہ سرحد کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ۔غوری کے بعد اس کے غلام تاج الدین بلدوز نے غزنہ پر قبضہ کرکے سرحد کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ۔اس نے سلطنت کی سرحدیں بڑھانے کی خاطر پنجاب پر حملہ کیا لیکن قطب الدین ایبک کے ہاتھوں شکست کھائی اور صوبہ سرحد سلطنت دہلی کا حصہ بن گیا ۔سلطان الشمس کی تحت نشینی کے وقت بلدوز نے پھر سرحد پر قبضہ کر لیا لیکن الشمس نے اسے شکست فاش دی اور گرفتار کر لیا ۔

    1261ءمیں خوارزم شاہ نے چنگیز خان سے شکست کھائی تودرئہ خیبر کے راستے صوبہ سرحد میں نکل آیا چنگیزخان بھی اس کا پیچھا کرتے ہوئے پشاور تک آیا لیکن وہیں سے واپسی اختیار کی ۔1290ءمیں علاؤالدین خلجی نے پشاور کو فوجی چھاپہ بناکر منگولوں کے حملوں کی روک تھام کا اہتمام کیا لیکن خلجی خاندان کے بعد صوبہ محمد تفلق کے زیر نگین آیا ۔امیر تیمور کی آمد سے لے کر اس کی واپسی تک صوبہ سرحد کانظام حکومت پرامن رہا امیر تیمور کی واپسی کے بعد یہ سرزمین مختلف قبائل کی تحویل میں رہی ۔1451ءمیں اس علاقے کو بہلول لودھی نے لودھی سلطنت میں شامل کر لیا اور 1526ءتک سرحد کا سارا علاقہ سلطنت دہلی کا حصہ رہا ۔

     1526ءمیں بابر ابراہیم لودھی کو شکست دے کر صوبہ سرحد کو مغلیہ عملداری میں شامل کر لیا ہمایوں نے باپ کی وصیت کے مطابق افغانستان اور سرحد کا علاقہ اپنے بھائی کامران مرزا کی تحویل میں دے دیا لیکن شیر شاہ سوری نے اسے شکست دے کر اس علاقے کو سوری سلطنت میں شامل کر لیا ۔ہمایوں جب دوبارہ برسرِ اقتدار آیا تو سرحدپھر مغلیہ سلطنت کا حصہ بن گیا اکبر کے دور حکومت میں افغان قبیلہ یوسف زئی ،اکبر کے دین الہٰی اور مذہبی پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا اور بغاوت پر اُتر آیا اکبر نے راجہ مان سنگھ اور پھر راجہ بیربل کے زیر کمان دوفوجی مہمیں سرحد روانہ کیں لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی اکبر کے بعد جہانگیر اور شاہجہان نے سرحد کے قبائل کو حکمت عملی سے قابو کیا اور مختلف قبائل کو مختلف مواقع پر ایک دوسرے پر فوقیت دی ان کیلئے قصبے آباد کےے خٹک قبیلے کی پشت پناہی کرکے یوسف زئی قبیلے کو ان سے لڑاتے رہے ۔1656ءمیں جب اورنگزیب عالمگیر مغلیہ سلطنت کا سربراہ ہوا تو یوسف زئی قبیلے کو پھر خودمختاری حاصل ہوئی خاص طور پر جب خوشحال خان خٹک نے جب مغلیہ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو خٹک اور یوسف زئی دوست بن گئے لیکن عالمگیر کی سیاسی حکمت عملی نے پھر ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا اور خوشحال خان خٹک کی کوششیں ناکام ہوگئی۔1848ءتک صوبہ سرحد مختلف ٹکڑوں میں تقسیم رہا اور سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے لگا ۔جس کی وجہ سے اکثر قبائل خود مختار ہوگئے اور کوئی منظم حکومت قائم نہ ہوسکی بکھرے ہوئے قبائل کو ایک کرکے احمد شاہ ابدالی نے ایک منظم حکومت قائم کی لیکن ان کی وفات کے بعد پھر شیرازہ بکھر گیا قبائل کی باہمی آویزش سے فائدہ اُٹھا کر 1822ءمیں سکھ صوبہ سرحد پر مسلط ہوگئے جب سیّد احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل نے سکھوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور صوبہ سرحد میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کیا تو انہیں غداروں کی وجہ سے شکست ہوئی لیکن سکھ حکومت کے پاؤں اُکھڑ گئے ۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1849ءمیں پشاور ،ہزارہ،کوہاٹ ،بنوں ،ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کو صوبہ پنجاب کا حصہ بنایا اور مالاکنڈ ایجنسی کے علاوہ دیگر چار ایجنسیاں بھی پنجاب کے زیر انتظام دے دی گئیں ۔1901ءمیں وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے پنجاب سے پشاور ،ہزارہ ،کوہاٹ ،بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو علیحدہ کر دیا اور ان علاقوں پر مشتمل نئے صوبے کا اعلان کرتے ہوئے اس کا نام شمال مغربی سرحدی صوبہ رکھ دیا ۔پٹھانوں نے انگریز راج کو کبھی تسلیم نہیں کیا ۔بیسویں صدی کے آغاز سے جب حصول آزادی کیلئے ‘آئینی جدوجہد کا آغاز ہوا تو پختونوں نے انگریزوں سے آزادی دلانے والی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا ۔انہوںنے تحریک خلافت اور تحریک ہجرت میں تاریخی اور شاندار کردار ادا کیا جہاں تک نظریہ پاکستان سے وابستگی کا تعلق ہے اس جذبے میں صوبہ سرحد کی عوام کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔1924ءمیں جب فرنٹیرانکوائری کمیٹی کے نام سے سرڈینس برے کی قیادت میں ایک وفد صوبہ سرحد کی سیاسی حالات کا جائزہ لینے صوبہ سرحد آیا تو انجمن اسلامیہ ،ڈیرہ اسماعیل خان کے صدر سردار محمد گل خان نے اس کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا ہندو مسلم اتحاد کبھی حقیقت کاجامہ نہیں پہن سکتا ۔اس لےے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو علیحدہ علیحدہ رہنے دیا جائے ۔جنوب میں 23کروڑ ہندوؤں کی حکومت ہو اورشمال میں آٹھ کروڑ مسلمانوں کی حکومت ہو راس کماری سے آگرہ تک کا علاقہ ہندوؤں کا ہو اور آگرہ سے پشاور تک مسلمانوں کا ۔یادرہے کہ 1924ءکی یہ آواز چوہدری رحمت اعلی کے کتابچے ”اب یا کبھی نہیں “اور علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد سے بہت پہلے کی بات ہے ۔
    صوبہ سرحد کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں میاں عبدالعزیز ،بیرسٹر سیّد سکندر شاہ ،ابتداہی سے مسلم لیگ سے وابسطہ رہے لیکن صوبے پر قیام پاکستان سے تین چار سال پہلے تک خان عبدالغفار خان کے خدمتگاروں اور ان کے حلیف جماعت نیشنل کانگریس کا زور رہا اگرچہ مسلمانانِ سرحد کے آئینی حقوق کی اصل جنگ قائد اعظم نے لڑی ۔1926ءکے مرکزیاسمبلی کے بجٹ اجلاس میں ان کی تحریک پرمرکزی اسمبلی کے رکن نے یہ قرار داد پیش کی کہ مرکزی اسمبلی گورنر جنرل ان کونسل سے سفارش کرتی ہے کہ دستور ہند کی ان دفعات کو جن کا تعلق قانون ساز کونسلوں اور وزراءکے تقررسے ہے صوبہ سرحد میں بھی نافذ کرے اور وہاں 1919ءکی آئینی اصلاحات بلا توقف نافذ کی جائیں 1918ءمیں قائد اعظم محمد علی جناح کے مشہور چودہ نکات میں سے ایک نقطہ یہ بھی تھا کہ سرحد اور بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح آئین نافذ کیا جائے

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 784