donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : K. Ashraf
Title :
   Mazhab Aur Khauf


 

مذہب اور خوف

 

کے اشرف

 

مذہب اور خوف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوف کا مذہب کے بغیر تصور ممکن ہے لیکن مذہب کا خوف کے بغیر تصور ممکن نہیں۔

خوف انسان کی فطرت ثانیہ ہے۔ انسان نے اپنے طویل ارتقائی سفر میں انفرادی اور اجتماعی طور پر  بہت سے ایسے واقعات کا سامنا کیا اور اب بھی کرتا ہے  جن سے بل واسطہ یا بلا واسطہ اسے کئی طرح کے اندوہناک نتائج کا سامنا کرنا پڑا یا پڑتا ہے۔


کبھی وہ  بیمار ہوا، کبھی پانی میں ڈوبا، کبھی آگ میں جلا، کبھی بلندی سے گر کر ہلاک ہوا، کبھی کسی طاقت ور جانور نے اسے ہلاک کر ڈالا، کبھی کسی دوسرے انسان نے اسے مار ڈالا، کبھی حکمرانوں نے اسے قید وبند میں ڈالا اور اس پر تشدد کیا۔  کبھی ڈاکوں نے اس پر حملہ کیا، اس سے اس کا مال چھین لیا اور اسے زخمی کیا یا ہلا ک کر ڈالا۔یہ سب خطرات کبھی اسے فطرت کی طرف سے لاحق ہوئے اور کبھی اپنے سے زیادہ طاقت ور انسانی اور غیرانسانی قوتوں کی طرف سے۔ان سب عوامل کے نتیجے میں انسانوں کے ذہنوں میں خوف کے جذبے نے جنم لیا۔

ان عوامل کے نتیجے میں لاحق ہونے والے خوفوں کا مختلف انسانوں نے مختلف طریقوں سے جواب دیا۔ کچھ نے خوف زدہ ہو کر دم دبائی اور راہ فرار اختیار کی۔ کچھ نےان خوف زدہ کردینے والے عوامل کا مقابلہ کیا اور ان پر فتح پائی اور کچھ نے واقعتا ان عوامل کے خوفوں کے نتائج کا سامنا کیا۔جو ان عوامل کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئے وہ خوف سے آزاد ہوئے جس سے  ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ جو ناکام ہوئے اور انہیں نقصان پہنچا خوف مستقل ان کے دلوں میں بیٹھ گیا جس سے ان کے اعتماد میں کمی آئی  اور وہ اور زیادہ خوف میں مبتلا ہوئے۔

انسان کے ذاتی سلامتی کے حوالے سے خوفوں کے علاوہ کچھ خوف اس کی اختیاجات پر مبنی بھی ہوتے ہیں۔ جیسے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے  بھوک، ننگ، پیاس اورسر چھپانے کے لئے محفوظ جائے پناہ کی عدم موجودگی کا خوف یا ان کی  موجودگی کی شکل میں ان کے چھن جانے کا خوف۔ دنیا کے مختلف مذاہب انسان کے انہی خوفوں سے ایک طرف اس کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو دوسری طرف اپنے حلقہ اثر میں داخل رکھنے کے لئے نئے خوفوں کو اس کے شعور میں پیوست کرتے ہیں۔


اختیاج اور خوف کی انہی حالتوں میں انسان کسی طرف سے ایک آواز سنتا ہے جو اختیاج اور خوف کی ان حالتوں میں اس کو تحفظ عطا کرنا چاہتی ہے۔ یہ آواز، اس کی مروجہ ثقافت میں اس ورائی یا ماورائی ذات کی ہوتی ہے جو اس کی ثقافت میں ان صورتوں میں انسانوں کی ان اختیاجوں کو پورا کرتی اور ایسے خوفوں سے اس کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر ایسا انسان ہندو معاشرے میں پیدا ہوا ہے، ہندو ثقافت میں پروان چڑھا ہے تویہ آواز یقناً ورائی شکل میں کسی سادھو، سنت یا جوگی کی آوازہو گی اور ماورائی شکل میں ہندو خداؤں میں سے کسی ایک خدا کی آواز ہو گی۔


اگراس انسان کی ثقافت میں بدھ مت کا عمل دخل زیادہ ہے تو اختیاج اور خوف کے ان کمزور لمحوں میں اس کا دھیان مہاتما بدھ کی طرف جائے گا۔ وہ اپنے ذہن میں بیٹھے مہاتما بدھ کے تصور سے اپنی اختیاج کی تکمیل یا درپیش خوف سے نجات کی خواہش کا اظہار کرے گا۔


ہمارے مذہب اسلام کا تانابانا بھی انہی دو عوامل  یعنی خوف اور امید سے بنا گیا ہے۔ قران پاک میں اللہ تعالیٰ ایک طرف انسان کو ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے کے صلے میں  جنت کی بشارت سناتا ہے تو دوسری طرف ان سے اعراض کرنے اور برائی کرنے کے نتیجے میں جہنم کے خوف ڈراتا ہے ۔ حضور پاک کے ناموں میں سے جن دو ناموں کو قران بار بار دہراتا ہے وہ ہیں بشیر اور نذیر۔ یعنی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا۔ بشارت سنانے والا جنت کی اور ڈرانے والا جہنم کے عذاب سے۔


چونکہ مذہب اور خوف کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس لئے دنیا کا ہرمذہب انسان کے لئے ایک کوڈ آف کنڈکٹ بھی مرتب کرتا ہے۔ اس کوڈ آف کنڈکٹ کو قائم رکھنے کے لئے خوف پر مبنی کہانیاں متعلقہ ثقافت کی بنتر میں شامل کی جاتی ہیں تا کہ انسانوں کو اس کوڈ آف کنڈکٹ سے ہٹنے کی شکل میں ان خوفوں میں مبتلا کیا جائے کہ وہ زیادہ دیر تک کوڈ آف کنڈکٹ سے باہر نہ رہ سکے اوراس مذہب کے حلقہ اثر میں شامل رہے۔اس کوڈ آف کنڈکٹ کا مقصد ایک طرف اگراس مذہب سے وابستہ انسانوں کو  اس مذہب کی تحریمات اور تحدیدات کے دائروں میں قید رکھنا ہوتا ہے تو دوسری طرف اس مذہب سے متعلقہ لوگوں میں زندگی کے باہمی معاملات کے ضابطے طے کرنا بھی ہوتا۔

چنانچہ مذہب اگر ایک طرف انسانی ذہنوں کو اپنے دائرے میں محدود رکھنے کے لئے خوف کے عنصرکو انسان کے شعور میں داخل کرتے ہیں تو دوسری طرف اپنے دائرے تک محدود رہنے والوں کے لئے اس کی خواہشوں اور اختیاجات کے حوالے سے انعامات کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ گویا انسان کے ایک ہاتھ میں خوف اور دوسرے ہاتھ میں امید کا کارڈ تھما دیا جاتا ہے اور اسے تاکید کی جاتی  ہے کہ وہ دونوں میں توازن قائم رکھے۔وہ جب ایسے کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے جو مذہبی تحدیدات میں شمار ہوتے ہیں تو خوف کے جزبات اس کے شعور میں سرسرانے لگتے ہیں۔  اسی طرح جب وہ مذہبی تحریمات کی پابندی کرتا ہے تو اس کے شعور میں امید اور انعام و اکرام کا احساس انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔لیکن انسان کی آزادی کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ نہ صرف زندگی سے وابستہ دیگر خوفوں سے نجات حاصل کرتا ہے بلکہ ان خوفوں سے بھی نجات حاصل کرتا ہے جو مذہب اپنے مقاصد کے لئے اس کے ذہن میں مرتسم کرتا ہے۔


یہ بجا ہے کہ مذہب خوف کے عنصر کو اپنے بڑے تجربے میں شامل رکھتا ہے لیکن مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں  جب مذہب کی تحریمات اور تحدیدات کا تعین کرنے والی قوتیں ان کے تعین پر اجارہ اداری حاصل کرلیتی ہیں۔ یہ مسئلہ دنیا کے ہرمذہب میں پیدا ہوتا ہے۔ جب کسی مذہب کے ماننے والے ان قوتوں کی اجارہ داری توڑ کر مذہب کے ساتھ ایک آزادنہ تعلق قائم کرتے ہیں تو پھر وہ امید اور خوف کے دائروں سے باہر نکل جاتے ہیں۔

ہمارا مذہب بھی اس صورت حال سے خالی نہیں ہے۔ بلکہ اس وقت عالم اسلام کوبھی ان مذہبی اجارہ داروں نے جن جپھا ڈالا ہوا ہے۔ اس جن جپھے کی وجہ سے پھیلنے والی جہالت کی وجہ سے مسلمان قعر مذلت میں گرتے جا رہے ہیں لیکن یہ اجارہ دار ان سوچنے سمجھنے والے چیدہ چیدہ لوگوں کے خلاف محاز کھڑا کر دیتے ہیں جو ان کے پیرو کاروں کو آزادی عمل کی راہ دکھانا چاہتے ہیں۔

زیادہ تر مذاہب نے ان اجارہ داروں سے اپنے اپنے مذاہب کو آزاد کرا لیا ہے اور اب صحت مند مذہبی ماحول میں زندگی گزارتے ہیں ۔ لیکن جن مذاہب میںمذہبی اجارہ دار اب بھی اس مذہب کے پیروکاروں کو خوف کے تازیانوں سے ہانکتے رہتے ہیں ان کی صورت حال بہت دگرگوں ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ عام لوگ مذہب کے ساتھ ایک نیا تعلق قائم کریں جس میں نہ مذہبی اجارہ دار ہوں ، نہ خوف ہو اور نہ ہی نیکی کے لئے کسی صلے کی تمنا یا امید۔


اب جب کہ سائنسی تحقیق و تفتیش کے نتیجے میں  نئے ورائی و ماورائی، طبعیاتی و مابعد الطبعیاتی اور کائناتی حقائق منکشف ہو رہے ہیں  انسان کی مذہبی بلوغت کے دور کا آغاز ہوہی جانا چاہئے۔


++++

Comments


Login

You are Visitor Number : 761