donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulvi Sayeed Siddiqui
Title :
   Rooh Kya Hai

رْوح کیا ہے؟


مولوی سعید صدیقی


تضادات میں پڑے بغیر روح کی کوئی مخصوص تعریف وضع کرنا از حد مشکل ہے، یہ تصور انسانی تاریخ کے عجیب وغریب تصورات میں سے ایک ہے، اس کی شدید پْر اسراریت اس کی تعریف اور بھی مشکل بنا دیتی ہے، تمام مذہبی ہستیوں (خدا، فرشتے، شیاطین، جن وغیرہ) کی طرح میٹافیزیکل خصوصیات کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ مادی خصوصیات کی بھی حامل ہے!! ایک طرف تو یہ جسم میں موجود ہے یا کسی نہ کسی طرح اس سے متحد ہے چاہے یہ جسم کے کسی حصے میں جیسے دل، سر یا خون میں متمرکز ہو یا پورے جسم میں پھیلی ہوئی ہو (مختلف زمانوں کی مختلف تہذیبوں کے تصورات کے مطابق) یا کسی نہ کسی طرح انسان کے جسم کے ساتھ مربوط ہو، تاہم دونوں صورتوں میں یہ مکان کے فیکٹر کی پابند ہے حالانکہ یہ مادی نہیں ہے؟! اور صرف یہی وہ تنہا مادی خاصیت نہیں ہے جو روح کو عطا کی گئی ہے، مکانی حاضری کے علاوہ یہ مادی اجسام پر اثر انداز بھی ہوسکتی ہے!! کیونکہ اس کا وجود جسم کو زندگی بخشتا ہے اور اس کی جدائی جسم کو موت سے ہمکنار کردیتی ہے؟!

ان مادی خصوصیات کے باوجود کہیں آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہونے پائے کہ روح کوئی مادی شئے ہے، بلکہ یہ ایک میٹافیزیکل ہستی ہے!! معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین نے اسے زمان کی قید سے آزاد کردیا ہے!! کیونکہ جسم کی موت اس کے لیے قطعاً کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ موت کی وجہ اس کی جسم سے رحلت ہے، جسم کو زندہ رہنے کے لیے اس کی ضرورت ہے مگر اسے جسم کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے، روح کے لیے موت اس کی جسم سے علیحدگی ہے، اگرچہ مختلف تہذیبوں ومذاہب میں روح کے انجام پر اختلاف پایا جاتا ہے تاہم سب کا اس بات پر ضرور اتفاق ہے کہ یہ کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ زمان سے ماورائ￿  ہے، جسم سے رحلت کے بعد شاید اس سے باز پرس کی جاتی ہے، یا پھر اسے کسی جگہ پر   اسٹور کردیا جاتا ہے تاکہ اجتماعی حساب کے وقت اسے واپس لایا جاسکے، یا دوبارہ کسی دوسرے جسم میں بھیج دیا جائے یا پھر خدا میں ضم ہوجائے جو غالباً اس کا منبع ہے!!! مگر یہ ہمیشہ دائمی بقائ￿  کی حامل ہوتی ہے اور وقت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا!!

معلوم ہوتا ہے کہ روح بیک وقت ایک طرح سے میٹافیزیکل نما بھی ہے اور مادی نما ہے، مکان کی پابند ہے مگر زمان کی نہیں، جسم پر اثر انداز ہوتی ہے مگر اس سے اثر نہیں لیتی، یہ اس قدر تضادات سے لپٹی ہوئی ہے کہ نا تو اسے سمجھا جاسکتا ہے اور نا ہی اس کی کوئی مخصوص تعریف وضع کی جاسکتی ہے، شاید یہاں پر مجھے بات ختم کرتے ہوئے سوال کو اس پر یقین رکھنے والوں کی طرف پھیر دینا چاہیے کہ شاید ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب ہو کہ۔۔۔ روح کیا ہے؟!

اپنی نا پختگی کے دور میں انسانیت کی اس مفہوم کی اختراع پر ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ نوٹ کرنا انتہائی آسان ہے کہ مرنے کے بعد جسم تحلیل یا مٹی بن جاتا ہے، اس تبدیلی نے یقیناً قدیم انسان کو اس چیز کے بارے میں متفکر کردیا ہوگا جس کے فقدان کی وجہ سے جسم مٹی میں تبدیل ہوگیا۔۔ مٹی سے انسانی شباہت کے بت بنانا بھی آسان ہے مگر وہ ویسے نہیں ہوتے جیسا کہ زندہ جسم ہوتا ہے، اس طرح یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ زندہ ہونے کے لیے اس بت میں کس چیز کی کمی ہے؟

اس نکتے پر آکر جانداروں اور مختلف جمادات کے درمیان فرق کو نوٹ کرتے ہوئے کسی  جوہر کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا جو اس فرق کا ذمہ دار ہے، روح کا تصور تضادات سے کتنا ہی بھرپور کیوں نہ ہو کسی بھی قدیم انسانی تہذیب پر اس تصور کی اختراع پر کوئی الزام نہیں دھرا جاسکتا کہ ماضی میں علم وشعور کی سطح اس تصور سے زیادہ کی اجازت ہی نہیں دیتی تھی۔

لغوی جذر پر غور کرنے والوں پر روح  اور ریح  اور ک ففَس کا اشتقاق مخفی نہیں ہوگا، معلوم ہوتا ہے کہ معانی کا یہ تشابہ دیگر زبانوں میں بھی پایا جاتا ہے، چونکہ سانس (تنفس) زندگی کا ایک اہم مظہر ہے لہذا لفظ کا اشتقاق اسی سے آیا ہے کہ روح کا نکلنا سانس کا خاتمہ ہے، روح کے مفہوم کو فکری سند دینے کے لیے میٹافیزیکل، لاہوتی اور مذہبی تصورات نے یکے بعد دیگرے جنم لیا تاکہ روح کے مسائل وانجام وغیرہ کو بیان کیا جاسکے، وقت کے ساتھ ساتھ اصل تصور پیچیدہ سے پیچیدہ تر اور تضادات سے بھرپور ہوتا گیا اور اس کے لیے پوری ایک میٹافیزیکل دنیا بنا دی گئی جو ہماری دنیا سے اگر برتر نہیں تو متوازی ضرور ہے!! روح کی منطق قدمائ￿  کے نزدیک ان کی علمی، عملی وتہذیبی سطح کے حساب سے ایک صاف ستھری منطق تھی جس پر کوئی غبار نہیں تھا۔

اس تصور پر جس قدر ہم قدیم انسان کے موقف کو سمجھ سکتے ہیں اتنا ہی ہمیں جدید انسان پر حیرت ہوتی ہے جو اب بھی وہی قدیم تصورات لیے پھر رہا ہے!! حیرت کی بات ہے کہ لوگوں کی اکثریت زندگی کو باقی طبعی مظاہر کی طرح ایک ایسے طبعی مظہر کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جس کی توجیہ کے لیے ایسے میٹافیزیکل اور خرافاتی تصورات کی چنداں ضرورت نہیں ہے، حیاتیات واضح طور پر بتاتی ہے کہ زندہ مادہ موجودات میں کوئی منفرد چیز نہیں ہے، قدرتی کیمیائی تعاملات ہی زندگی کے مظہر کے ذمہ دار ہیں، خوراک، نشونما، افزائش واحساس بلکہ موت بھی ما سوائے کیمیائی تعاملات کے اور کچھ نہیں ہے، ان سب کی روح کے خرافاتی تصور سے ہٹ کر سائنسی طریقوں سے تفہیم کی جاسکتی ہے۔

مؤمنین کے مختلف طبقات یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انسان اپنے تمام تر افکار، احساسات وجذبات سمیت نیچر کا بیٹا ہے اور ?خسیس? مادے کی پیداوار ہے!! درحقیقت اس  مادے کا، جو کچھ بھی کرنے سے عاجز اور طبعی صفات وخصوصیات سے عاری ہے کا اس حقیقی مادے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کی ہم بات کر رہے ہیں اور جو کائنات میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے، یہ کخسیس مادہ مؤمنین کی غلط تجرید کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ واقعی ایک بے ہودہ اور جامد شئے ہے جو کچھ بھی کرنے سے عاجز ہے، یہ ان کے خوبصورت تصور جسے وہ خدا کہتے ہیں اور جس سے وہ تمام طبعی مواد کی صفات کو منسوب کرتے ہیں کے مقابلے میں ایک بد صورت تصور ہے!! یعنی انہوں نے کرداروں کو الٹ کر اس تصوراتی ہستی کو جو ان کے تجریدی تصور کی تخلیق ہے کو وہ خدا بنا دیا ہے جو عدم ہے اور وہی مطلق حقیقت ہے اور (کائنات کے اصل) مادے سے اس کی تمام تر طبیعاتی وکیمیائی خصوصیات چھین کر اسے مطلق ساکن بنا دیا ہے!! پھر بڑے وقار سے آکر ہمیں بتاتے ہیں کہ مادہ ان کے خدا اور اس کی میٹافیزیکل فوج یعنی روحوں، فرشتوں اور شیاطین کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا لہذا ہمیں اس پر ایمان لانا چاہیے اور کائنات اور اس کی موجودات سے کفر کرنا چاہیے!! آج کے دور میں بھی جب کبھی ?زندگی? کی بات ہوتی ہے تو بغیر کسی منطقی وجہ کے ?روح? کو بیچ میں ٹھونس دیا جاتا ہے، اعتراض کرنے پر عجیب وغریب بیان سننے کو ملتا ہے کہ:

کیا اعصاب پر مشتمل دماغ ادراک وشعور پیدا کرسکتا ہے!! کیا اعصاب مادی چیزیں نہیں ہیں، پروٹین، پانی اورکاربوہائیڈریٹس پر مشتمل خلیے جو ایک اعصابی سیال منتقل کرتے ہیں، کیا یہ اجزائ￿  جو کہ خالصتاً مادہ ہیں چیزوں کو  محسوس کر سکتے ہیں؟! دماغ تو بس ایک اوزار ہے، ادراک تو آخر کار
نفس یا روح کرتی ہے جسے دیکھا نہیں جاسکتا!

ظاہر ہے یہاں خسیس مادے کی ہی بات کی جا رہی ہے، مادہ ادراک نہیں کر سکتا مگر روح یا نفس جس کا ادراک نہیں ہوسکتا وہی ادراک کرتی ہے؟!

اگر جدید حیاتیاتی علوم سے رجوع کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ قدیم اعتقاد کہ نامیاتی مادہ ایک منفرد خصوصیت کا مالک ہے اور پہلے سے موجود زندہ مادے سے ہی آسکتا ہے پہلی بار اس وقت ساقط ہوگیا تھا جب جانوروں کے غدود سے انسولین حاصل کرنے کی بجائے اسے لیبارٹری میں تیار کر لیا گیا، 1953ئ￿  تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایمائینو ایسڈ جو زندگی کا بنیادی عنصر ہے لیبارٹری میں نہیں بنایا جاسکتا تاہم ملر-یورے کے تجربے نے اسے غلط ثابت کردیا، 2010ء میں کریگ ونٹر لیبارٹری میں پہلا مصنوعی زندہ خلیہ بنانے میں کامیاب ہوگیا جسے انسانیت کی بنائی ہوئی پہلی زندگی قرار دیا جاتا ہے، لیبارٹری میں اسے یہ  مصنوعی زندگی  بنانے کے لیے کسی طرح کی روح کی ضرورت نہیں پڑی، اس طرح روح کی قبر پر آخری کیل ٹھونک دی گئی۔۔

روح کے ماننے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی چیز کو مانتے ہیں جس کے بارے میں لگتا ہے کہ انہیں خود بھی کچھ نہیں معلوم!! تو وہ روح کیا ہے جس پر آپ یقین رکھتے ہیں؟ روایتی جواب جو سننے میں آتا ہے وہ ہے: ?یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً۔ (الاسراء   85)’’ اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہدو کہ وہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے اور تم لوگوں کو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے‘‘۔ (  عجب گول مول جواب ہے۔۔ ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اس کا حکم آپ کے خدا سے ہے یا کسی اور خدا سے!! سوال یہ ہے کہ روح کیا ہے جس پر آپ یقین رکھتے ہیں؟! آپ کا جواب کیا ہے؟!

در حقیقت سارے مذاہب اپنے تمام تر خداؤوں، نیم خداؤوں، انبیاؤوں، مسیحاؤوں اور اولیاؤوں سمیت قدیم دور کے انسان کے سادہ لوح ذہن کی اختراع ہیں، لہذا مذاہب کا آسمان ما سوائے سراب کے اور کچھ نہیں جنہیں پیاسا پانی سمجھ کر ان کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے مگر وہاں پہنچنے پر اسے نہ خدا ملتا ہے نہ وصالِ صنم! مذاہب حقیقی جوابات دینے کی بجائے پہلے سے تیار شدہ  گول مول  جوابات کے ذریعے جذبات کو گدگدانے کی کوشش کرتے ہیں اور منطق کو دیوار پر دے مارتے ہیں، روح کے مفہوم پر وہی کچھ لاگو ہوتا ہے جو مذاہب کی دیگر پراڈکٹس پر لاگو ہوتا ہے اسی لیے یہ مردود ہے، یہ کہنا کہ روح موجود ہے ایک پْر لطف جواب تو ہوسکتا ہے مگر منطقی ہرگز نہیں کیونکہ روح کا تصور ایسے بہت سارے مشاہدات کی وضاحت نہیں کرتا جو اصولاً اسے کرنا چاہیے خاص طور سے اگر اس تصور کے حامی چاہتے ہیں کہ یہ انسانی معرفت کی ترقی کے آگے ٹک پائے۔

ایک غیر مادی چیز کی کسی مادی جگہ میں موجودگی کس طرح تسلیم کر لی جائے!! روح کا کسی مخصوص جگہ میں موجود ہونا اور ایک مخصوص جسم سے مربوط ہونا اسے ناقابلِ انکار مادی صفات دیتا ہے، جسم کے اندر اس کی ممکنہ موجودگی اور اس پر اثر انداز ہونے کی اس کی خاصیت اسے خالصتاً ایک مادی وجود دیتی ہے جو اصولی طور پر قابلِ جانچ ہونی چاہیے!

کیا روح رحم کے باہر پیدا ہوتی ہے یا انڈے میں یا خودکار طور پر افزائشی خلیوں سے منتقل ہوتی ہے؟! اگر یہ  باہر  سے آتی ہے تو کہاں سے؟ کیا اس کے پہنچنے سے پہلے بچہ مردہ ہوتا ہے؟! اگر زندہ ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کا فائدہ کیا ہے؟ اگر یہ سپرم یا انڈے سے آتی ہے تو یہ مادی ہوئی، بلکہ اس کی مینڈل کے قوانین سے بھی جانچ ہوجانی چاہیے!!

ہم جانتے ہیں جسم کے مختلف حصے ایک ہی وقت میں نہیں مرتے بلکہ بتدریج مرتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسم کے ہر حصے کی الگ روح ہوتی ہے؟! اورکیا روح قابلِ تقسیم ہے؟ کسی شخص کا کوئی عضو کسی دوسرے شخص میں لگانے کی صورت میں کیا روح منتقل شدہ عضو کے ساتھ منتقل ہوتی ہے یا نہیں!! یہ منتقل شدہ عضو صاحبِ عضو کے مرجانے کے باوجود زندہ کیسے رہتا ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض روحوں کی عمر ان کے مالکان سے زیادہ طویل ہوتی ہے کیونکہ ان کا کچھ حصہ ان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہا!

روح کے تصور کا ایک تضاد بھرا پہلو زندہ جسموں میں مصنوعی اعضائ￿  کی پیوند کاری ہے، روح کے تصور کی صورت میں کسی زندہ عضو کی کسی مشینی عضو سے تبدیلی کی صورت میں جو اس کا کام کر سکتا ہو کیسے سمجھا جائے؟ کیا روح پر مشتمل کسی عضو کی دستبرداری ممکن ہے؟ لیبارٹریوں میں انسانی اعضائ￿  کو پیوندکاری سے قبل کولنگ میں رکھا جاتا ہے، کیا روح کولنگ سے اثر انداز ہوتی ہے؟!

سوالات بہت ہیں اور تضادات ان سے بھی کہیں زیادہ، جس سے روح کے مؤمنین کا موقف انتہائی کمزور پڑجاتا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے موقف کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، یہ کہاں کی خرد مندی ہے کہ کسی غلط تصور سے محض اس لیے چمٹا رہا جائے کہ:

’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں‘‘۔ (الزخرف 22)۔

 

*********************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 911