donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Belal Ghauri
Title :
   Sciency Taraqqi Ka Munkir Kaun

 

سائنسی ترقی کا منکر کون

 

محمد بلال غورى

 

 میرے رب کی کاریگری جھٹلانے اور اپنی ایجادات پر ِاترانے والے کم ظرف انسانوں کے اذہان و قلوب میں بت خانے نہ ہوں تو ”روشن خیال“ انتہا پسند اسلام کو سائنس و ٹیکنالوجی کا دشمن قرار دینے کی غلطی نہ کریں۔

سچ تو یہ ہے کہ زمانے کے تغیر اور سائنسی ارتقاء کے ساتھ اسلام جیسا ترقی پسند دین ہی قدم سے قدم ملا کر چل سکتا ہے۔ یہ میرے پرور دگار کے حسن تخلیق کا ہی کرشمہ ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کی شکل و صورت میں مماثلت ہو سکتی ہے‘ عادات و اطوار میں مشابہت ممکن ہے مگر ان کے ہاتھوں کی لکیریں ایک جیسی نہیں ہو سکتیں اس لئے دنیا بھر کے مقدمات میں فنگر پرنٹس کو تفتیش میں بنیادی حیثیت حاصل رہی۔ مگر شرپسندوں نے نقب زنی کی اور صرف انگوٹھا ہی نہیں بلکہ پورے ہاتھ پر مشتمل ابھار والی ایسی مصنوعی جلد تیار ہونے لگی جسے مہر کی طرح بآسانی ثبت کیا جاسکے یوں یہ چور دروازہ کھل جانے پر فنگر پرنٹس معتبر نہ رہے۔ گزشتہ صدی کے وسط میں ایک برطانوی سائنسدان فرانسس کرک نے ڈی این اے کو زندگی کی منفرد اکائی کے طور پر دریافت کرکے دھوم مچا دی اور اس قابل ذکر کارنامے پر نوبل انعام بھی حاصل کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام انسانوں کے ڈی این اے کی ساخت 99.3 فیصد یکساں ہوتی ہے محض 0.7 فیصد کے تنوع سے یہ پہچان ممکن ہے کہ کون سا ڈی این اے کس شخص کا ہے بہن بھائیوں میں تو مشابہت و مماثلت اور یکسانیت مزید بڑھ جاتی ہے مگر ماسوائے جڑواں بچوں کے‘ دنیا کے دو افراد کا ڈی این اے یکساں نہیں ہو سکتا۔ ڈی این اے کا 15 مختلف پہلووٴں سے جائزہ لیا جاتا ہے اور 15 ہندسوں پر مشتمل ایک بار کوڈ وضع کیا جاتا ہے۔ جس طرح آپ کے موبائل فون نمبر میں 7 ڈیجٹ ہوتے ہیں۔ 6 عدد ایک جیسے ہو سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ساتواں نمبر اور نیٹ ورک کوڈ ہو بہو ایک جیسا ہو‘ اسی طرح ڈی این اے کے 15ہندسوں پر مشتمل بار کوڈ میں بھی 14 ہندسوں تک یکسانیت کی گنجائش موجود ہے۔


دیکھتے ہی دیکھتے یہ ڈی این اے ٹیسٹ فرانزک سائنس میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا اور عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات میں ڈی این اے کو بطور شہادت پیش کیا جانے لگا۔ بالخصوص ریپ اور مرڈر کے مقدمات ڈی این اے کی بنیاد پر حل ہونے لگے۔ مائیک ٹائی سن کے خلاف ریپ کا مقدمہ ڈی این اے کی بنیاد پر ثابت ہوا۔صرف ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں ہمارے جیسے غیر ترقی یافتہ ممالک میں بھی ڈی این اے کوثانوی شہادت کے طور پر قبول کیا جانے لگا مثلاً چند سال قبل ایک فوجی افسر کے اہل خانہ قتل ہوگئے کرائم سین سے ایک ٹیبل لیمپ ملا جو مقتولین میں سے کسی نے ایک حملہ آور کو مارا تھا اور اس پر خون کے دھبے موجود تھے۔ چونکہ ڈی این اے بلڈ‘ سیمن‘ بال یا جلد کے کسی بھی حصے سے کیا جا سکتا ہے اس لئے فرانزک لیبارٹری میں اس ڈی این اے کا موازنہ مشکوک افراد کے ڈی این اے سے کیا گیا تو حملہ آوروں کی نشاندہی ہوگئی چند ماہ قبل جب فورٹ منرو میں لڑکیوں کے ساتھ اہلکاروں کی زیادتی کا معاملہ سامنے آیا تو ظفر نامی ایک اہلکار کا ڈی این اے میچ کرگیا اورریپ ثابت ہو گیا مگر عدالت نے ملزم کو رہا کر دیا کیوں کہ ہمارے ہاں فرانزک شہادتوں کی قبولیت چین آف کسٹڈی نہ ہونے کے سبب مشکوک رہی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں تو تین طرح کے ڈی این اے ڈیٹا بیس مرتب کئے جاتے ہیں۔ کنویکٹڈ آفینڈرز کرائم ڈیٹا (COD)‘ نامعلوم کرائم سین کا ڈیٹا اور لاوارث لاشوں کا ڈیٹا۔ اس ڈیٹا کے نتیجے میں مجرم کی نشاندہی نہ بھی ہو تو کم از کم یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ قتل کی فلاں‘ فلاں اور فلاں واردات ایک ہی شخص کی ہے۔ ڈی این اے کی افادیت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ جب کسی ناگہانی آفت‘ کسی حادثے یا بم دھماکے کے نتیجے میں لاشوں کی شناخت ممکن نہیں رہتی تو نائن الیون اور بال بم دھماکوں سے لاہور کے میو ہسپتال کی نرسری میں بچوں کے جل جانے تک تمام واقعات میں ڈی این اے ٹیکنالوجی کام آتی ہے مگر گزشتہ چند ہفتوں میں ڈی این اے سے متعلق ہو رہی بحث کی بنیاد پر مسلمانوں کو ترقی دشمن اور جاہل ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسلام پر طنز و استہزا ء کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ پس منظر یہ ہے کہ پانچ سال قبل کراچی کے مزار قائد پر ایک لڑکی کا ریپ ہوا۔ استغاثہ چار گواہان پیش نہ کر سکا اور عدالت نے ڈی این اے کو مرکزی شہادت کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ ملزم رہا ہو گیا اور سربگریباں ناطقوں کو بھی جی بھر کر تنقید کرنے کی آزادی مِل گئی۔ چند دن بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ کہہ کر رہی سہی کسر پوری کر دی کہ ریپ کے مقدمے میں حد جاری کرنے کیلئے چار گواہان کی شرط مقدم ہے اور ڈی این اے کو معاون ثبوت یا شہادت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے علماء کی توجیہہ یہ ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتیجے میں زنا تو ثابت ہوتا ہے مگر یہ تصریح باقی رہتی ہے کہ یہ زنا بالرضا تھا یا زنا بالجبر۔ عدلیہ کی منطق یہ ہے کہ چونکہ پاکستان میں فرانزک شہادتوں کا معیار بہت پست ہے‘ غلطی یا بدنیتی کے باعث دروغ گوئی کا احتمال موجود ہے اس لئے محض ڈی این اے ٹیسٹ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش تو حد جاری کرنے کے ضمن میں تھی جو موجودہ دور میں کسی صورت ہو ہی نہیں سکتی مگر تعزیر کے تحت عصمت دری کرنے والے شخص کو ڈی این اے کی بنیاد پر سزا دینے میں کیا امر مانع تھا؟ اس کی وضاحت تو عدلیہ سے طلب کی جانی چاہئے نہ کہ علماء سے۔ اگر ہمارے ملک میں فرانزک شہادتوں کا معیار بلند نہیں تو شخصی گواہوں کا درجہ کون سا اوج ِثریا کو پہنچا ہوا ہے۔ بہر حال اسلام سے اُکتائے اور مغرب کی نام نہاد روشن خیالی میں نہائے ناطقوں نے موقع غنیمت سمجھ کر اسلام کو رگیدنا اور مسلمانوں کو مطعون کرنا شروع کر دیا۔ دور کی کوڑی لانے والے جھٹ پٹ وہ غیر معتبر حوالے نکال لائے جن کی بنیاد پر مسلمانوں کو سائنس و ترقی کا حریف ثابت کیا جاسکے‘ مثلاً کہا گیا‘ یہ تو وہ جاہل لوگ ہیں جنہوں نے بجلی کو بدعت کہا‘ یہ تو وہ گنوار ہیں جنہوں نے ریڈیو کوصوت ابلیس قرار دیا‘ یہ تو وہ قدامت پسند ہیں جنہوں نے ٹرین کو حرام قرار دیا‘ یہ تو وہ خبطی ہیں جنہوں نے انتقال خون کو غیر شرعی قرار دیا۔

میں اپنے ان روشن خیال اور مہذب دوستوں سے پوچھتا ہوں کیا برطانیہ‘ امریکہ اور فرانس میں ڈی این اے کو ابتداء میںجھٹلانے والوں کی کوئی کمی تھی؟ کیا وہ معاشرے ایسی پستی اور ذلت کے گڑھوں میں نہیں گرے؟؟ یہی یورپ ہے جہاں بلیوں کو بدروحیں سمجھ کر قتل کیا جا تا رہا اور دنیا کو چوہوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اگر آپ تعصب کی عینک اُتار کر دیکھیں تو اس طرح کے ”خلیفے“ اب بھی یورپ میں بے شمار ملیں گے اور ان کا اسلام سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں۔ آپ اپنے دماغ کے بت خانے پاش پاش کرکے دیکھیں سقراط کو زہر کا پیالہ کس نے دیا؟ گیلیلو جیسے سائنس دان کو فاتر العقل قرار دے کر کس نے مارا؟ وہ کون سامعاشرہ تھا جہاں ارشمیدس کو توپ کے دہانے پر رکھ کر اس کے پرخچے اڑا 


دیئے گئے؟ اطالوی نابغے لیونارڈوڈاونچی کی تخلیقات اور ایجادات کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اسے کس علم دشمن معاشرے نے موت کی بھینٹ چڑھایا؟ لاتمیر‘ سروئش اور برونو جیسے سائنس دانوں کو کس ”اجڈ“ ”گنوار“ اور ”جاہل“ قوم نے آگ کے الاوٴ میں پھینکا؟ اگر یہ سب کارنامے یورپ کے ہیں اور ان میں سے کوئی فرد جرم مسلمانوں کے خلاف نہیں تو آپ مقدمہ چلائے بغیر مسلمانوں کو سائنس دشمن کیوں قرار دینا چاہتے ہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ 'جنگ'
 

******************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 661