donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Faizan Nagrami Nadvi
Title :
   Kutub Khana Allama Shibli Nomani - Nadwatul Ulma - Aik Taaruf

 کتب خانہ علامہ شبلی نعمانی ،ندوۃ العلماء، لکھنؤ ایک تعارف


از:محمد فیضان نگرامی ندوی

جس طرح انسان کو اپنی حفاظت کے لئے مضبوط اور ناقابل تسخیر قلعوں کی ضرورت ہوتی ہے ، بالکل اسی طرح کتابوں کے لئے کتب خانے حصن حصین کا درجہ رکھتے ہیں ۔ کتب خانہ وہ جگہ ہے جہاں علم و تحقیق کے پیاسوں کی تشنگی دور ہوتی ہے ، جہاں علوم و فنون کی رنگارنگی ہے اور جہاں تحقیق و جستجو کے متوالے سرشار اور نہال ہوتے ہیں ۔ کتب خانہ ایک عظیم و وسیع اقلیم ہے جہاں دماغ سوزی و جگر سوزی کرنے والوں کی حکومت ہوتی ہے ، خاص طور پر کسی ادارہ کے لئے اس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔

کتب خانہ کی اس اہمیت و ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ۱۸۹۴ء ؁ میں جب قوم وملت کے چند دردمند بزرگوں نے ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھ کر تعلیم و تربیت اور علم وفن کی اشاعت کے لئے ایک نئے مکتب فکر کی بنیاد رکھی تھی تو اسی وقت ان روشن خیال علماء کے ذہن میں ایک ایسے کتب خانہ کا قیام بھی تھا جو نایاب قلمی کتابوں کے ساتھ ساتھ اہم ترین مطبوعات کا خزانہ ہو اور اس کی بڑی خصوصیت یہ ہو کہ وہ کسی خاص دائرہ فکر تک محدود نہ رہے ، بلکہ ہر صاحب ذوق کو اس سے استفادہ 
کا موقع حاصل ہو۔

اس وقت کے رسائل و اخبارات میں علامہ شبلی نعمانی ؒ اور مولاناابو الکلام آزادؒ کی تحریروں اور اپیلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتب خانہ کا قیام اور اس کی اہمیت ضمنی نہیں تھی بلکہ اس کا قیام اس تحریک کے مقاصد کا اہم جز تھا۔

فروری ۱۹۰۶ء ؁ میں مولانا آزاد ؒ نے ایک اپیل میں لکھاتھا کہ ’’ندوۃ العلماء نے قوم میں روشن خیال ، محافظ علوم اور ہمدرد ملک پیدا رکرنا اپنا ایک مقصد قرار دیا ہے ، وہ قوم کی اخلاقی اور علمی حالت کی اصلاح کے لئے علوم عربیہ کا ایک دارالعلوم قائم کرنا چاہتا ہے ، تاکہ دنیاوی علوم کے ایک عظیم الشان مرکز کی موجودگی میں مذہبی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے والا مرکز قوم میں موجود ہو ، اس لئے ا س کا ایک اہم فرض یہ بھی ہے کہ علوم عربیہ کا ایک عظیم الشان کتب خانہ اپنی سرپرستی میں قائم کرے اور جو لوگ اس کے حلقۂ تعلیم میں شامل ہوکر اپنی زندگی مذہبی اور علمی خدمات میں صرف کرنا چاہتے ہیں وہ معلم غیر ذی روح کے پرتو تعلیم سے محروم نہ رہیں ۔ ندوۃ العلماء نے اس ضرورت پر توجہ کی اور اس کی بنیاد قائم کرکے ایک حد تک اپنا فرض ادا کردیا ، اب قوم کو اپنا فرض ادا کرنا چاہئے کہ اسے تکیمل تک پہنچا دے۔

اسی مقصد کے متعلق عملی کام شاہجہاں پور کے اجلاس (۱۸۹۹ء ؁) سے شروع ہو ا ۔ سب سے پہلے مولوی عبد الرافع خاں صاحب ؒ ڈپٹی کلکٹر نے تقریبًا تین ہزار کتابوں کے بیش بہا عطیہ سے اس کا بنیادی پتھر رکھا ۔ پھر عظیم آباد،پٹنہ کے اجلاس(۱۹۰۰ء) میں مولوی محمد عظیم عظیم آبادی صاحبؒ نے دو سو کتابوں کا اس پر اضافہ کیا اور مولوی سید عبد الغنی صاحبؒ نے تاریخ و ادب کی ایک سو ایک کتابیں عطا فرمائیں ، ان کے علاوہ وقتًا فوقتًا بعض اور عطیے بھی اس سرمایہ کو وسیع کرتے رہے۔


ان نوازش کرنے والوں میں جذبۂ خلوص کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتب خانہ علامہ شبلی نعمانی میں اس وقت کتابوں کی تعدادڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے ، جن میں بہت بڑی تعداد عطیات کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے ۔ بعض رؤساء اور اہل علم نے اپنے پورے پورے کتب خانے یہاں کے لئے وقف کردئیے ہیں ، چنانچہ اس وقت اس کتب خانے میں متعدد و مستقل ذخیرے (کلکشنز) ہیں جن میں سید نواب علی حسن خاںؒ ، حکیم سید عبد الحی حسنیؒ ، نواب رشید الدین عرف اچھے میاںؒ ، سید عبد الجلیل صاحبؒ ، سید واجد علی صاحبؒ ، مولانا افتخار فریدی صاحبؒ ، نواب سید نجم الحسن صاحبؒ ، نواب سید ظہور الحسنؒ ، ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندویؒ کے علاوہ پروفیسرمحمد ولی الحق انصاری ؒ اور مشہور علمی شخصیت مولانا شاہ شبیر عطا صاحب ندوی مد ظلہ العالی کے قیمتی کتابوں کے ذخیرے جو قلمی اور مطبوعہ ، نادرو نایاب کتابوں پر مشتمل ہیں ، اب ندوۃ العلماء کی کتب خانے کی زینت ہیں ۔ اس کے علاوہ علامہ شبلی کے ذاتی کتب خانہ کی بہت سی قیمتی کتابیں جن پر ان کے دستخط ثبت ہیں ، اس کتب خانہ کی زینت ہیں۔جن حضرات نے اپنے قیمتی ذخیرے اس کتب خانہ کے لئے وقف کردئیے ہیں ان میں نثار احمد صاحبؒ وکیل سیتاپور ، حامد اللہ خاں صاحبؒ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گونڈہ ، یوسف الزماں صاحب فاروقیؒ ، منشی عبد الاحد صاحبؒ کلکتہ ، مولانا عبد الباری صاحب ندویؒ ، حکیم شکیل احمد شمسیؒ ، مولانا محمد اویس نگرامی ندویؒ ، مولانا منور علی صاحب محدث رامپوریؒ ، 
مسرور خاں صاحب دہلویؒ ، ڈاکٹر سید نور الحسن ہاشمی ؒ ،عابد سہیل صاحب لکھنوی ، ڈاکٹر محمد اقبال انصاری صاحب علی گڑھ ، ڈاکٹر سید لقمان اعظمی ندویؒ صاحب ،محمد عثمان غنی ہاشمیؒ اور عشرت علی صدیقی لکھنوی صاحب کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ یہ وہ اسمائے گرامی ہیں جن کی بدولت اس کتب خانے کو قیمتی سرمایہ حاصل ہوا جس سے کتب خانے کی اہمیت بہت بڑھ گئی۔


اب سے تقریبًا ۱۰۰؍ سال قبل جب اس کتب خانہ میں کتابوں کی تعداد صرف ۴ ہزار تھی اس وقت بھی اس میں ایسے قیمتی جواہر جمع ہوگئے تھے ، جو فضلاء ، اہل علم اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے باعث کشش تھے ، ان کی اہمیت کے پیش نظر یہاں کے قیمتی مخطوطات و نوادرات پر ۱۹۰۶ء ؁ میں مولانا آزاد ؒ نے ایک مضمون لکھا تھا ، جس میں یہاں کے چند نوادرات کا تعارف کرایاگیاتھا ۔ اسی وقت انہوں نے کتب خانہ کی تعریف میں لکھاتھا:


’’یعقوب کندی ، مامون رشید کے زمانے میں ایک مشہور حکیم گذرا ہے ، جس کو اسلام میں سب سے پہلے فیلسوف کا اعلی خطاب دیاگیا ۔ اس کے رسائل کا نادر الوجود مجموعہ اگر کوئی خوش قسمت کتب خانہ پیش کرسکتا ہے تو وہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا غریب کتب خانہ ہے ۔ مدینۃ العلوم ارنیقی ، تذکرہ ہفت اقلیم ، امین رازی یہ دو کتابیں بھی کتب خانہ کی قلمی کتابوں میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ اول الذکر کے متعلق اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ کشف الظنون جو مسلمانوں کے علوم و فنون کے واحد فہرست سمجھی جاتی ہے ، اس کا ایک ماخذ ارنیقی کی یہی کتاب مدینۃ العلوم ہے ، امین رازی کا تذکرہ شعراء فارسی کے بہترین تذکروں میں ایک ممتاز تذکرہ ہے ، جو اور تذکروں کی طرح اس وقت تک حلیۂ طبع سے محروم رہا ، مگر ندوۃ العلماء کے کتب خانہ میں محفوظ ہے ۔


دور اکبری کے علمی تراجم کا غلغلہ ایک عرصہ سے ملک میں بلند ہورہا ہے لیکن اس قصہ کے سوا جس سے ابو الفضل کی زبانی ہماری قوت سامعہ متاثر ہوئی ہے ، اور کچھ نہ ہوا ۔ دار العلوم کے کتب خانہ میں چند کتابیں ایسی موجود ہیں جن سے ہماری موجودہ معلومات میں بہت کچھ اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اکبر کے علاوہ شاہجہانی دور میں بھی سنسکرت سے کتابیں ترجمہ کی گئیں ، جن میں فن موسیقی کے متعلق ایک مبسوط کتاب دار العلوم کی بدولت ہمارے پیش نظر ہے ۔ فن موسیقی کے علاوہ موسیقی کے باکمالوں کا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل ہے ۔ حجۃ الاسلام غزالی کی تصنیفات میں جواہر القرآن ایک بے نظیر کتا ب ہے جو اگرچہ چھپ کر شائع ہوچکی ہے مگر کامل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے علمی اشتیاق کو پورا نہیں کرسکتی ۔ یہاں جوہر القرآن کا ایک قلمی نسخہ ہے جو صحیح اور صاف ہونے کے ساتھ مکمل بھی ہے ، دوسری کتاب قاموس کا بھی ایک شاہی نسخہ ہے جس پر مختلف شاہانِ مغلیہ کی مہریں ثبت ہیں اور عالمگیری مہر صاف پڑھی جاسکتی ہے‘‘۔
کتب خانہ پر یہ مضمون مولانا آزادؒ نے اس وقت لکھا تھا جب کتابوں کی تعداد صرف ۴ ہزار تھی ۔ اس کے بعد یہ ذخیرہ بڑھتا رہا اور اس میں ایک سے ایک لعل و جوہر کا اضافہ ہوتا رہا ، یہاں تک کہ یہ نوادر کا ایک خزانہ بن گیا ۔

کتب خانہ میں زیادہ تر کتابیں عربی کی ہیں ۔ عربی کتابوں کے علاوہ فارسی ، اردو ، انگریزی ، ترکی ، چینی ، فرنچ ، پشتو ، گجراتی ، مراٹھی ، تامل ، سندھی اور ملیالم میں کتابیں دستیاب ہیں ۔ 
کتب خانہ کے شعبۂ جات دو ہیں :
مطبوعات ، مخطوطات
فنون کے لحاظ سے عربی میں تاریخ اور فارسی میں ادبیات کا ذخیرہ اپنی تعداد کے اعتبار سے قابل ذکر ہے ۔

*********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 551