donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Hussain Sahil
Title :
   Smart City Kise Kahte Hain


محمد حسین ساحلؔ

ممبئی

اسمارٹ سٹی کسے کہتے ہیں؟

 

ہر سو یہی گفتگو ہورہی ہے کہ اسمارٹ سٹی یعنی کیا؟سرکار نے یہ اعلان کردیا ہے کہ کئی شہروں کو اسمارٹ سٹی بنایا جائے گا، اس کے بعد لوگوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ یہ اسمارٹ سٹی ہوتا کیا ہے ؟کچھ لوگوں نے یہ سوال بھی پوچھنا شروع کردیا ہے اسمارٹ سٹی میں اسمارٹ واقعی کون ہے؟ شہر یا شہر میں رہنے والے؟شہر میں رہنے والے اگر اسمارٹ ہیں، یہی اسمارٹ سٹی کا مقصد ہوتو پونہ شہر اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ کچھ لوگوںکا کہنا ہے کہ اگر سٹی اسمارٹ ہو مگر اس میں رہنے والے اسمارٹ نہ ہوتو پھرکیا اس سٹی کو اسمارٹ کہا جاسکتا ہے؟کچھ چالاک بلڈرس کا اسمارٹ سٹی کا تعلق براہ راست زمین سے ہے یہ سوچ کر فوری طور پر زمین خریدنے کا کام شروع کردیا ہے۔اسمارٹ ہوا تو ہوا نہیں تو سٹی تو ہوگی ہی۔یعنی اپنا جو منافع ملنا ہے وہ تو ملنے

ہی والا ہے، ایسی بلڈروں کی سوچ ہے۔

یہ تمام باتیں اچانک اسرائیل کے دورہ کے بعد ہمارے وزیر اعظم کے ذہن میں آگئیں  ہیں۔ گزشتہ نومبر میں اس بات کا اعلان ہوا کہ 400شہروں کا بطور اسمارٹ سٹی انتخاب ہوا ہے، جس میں کوپن ہینگن،ڈینمارک شہر بھی شامل تھے، اس وقت علم ہوا کہ اسمارٹ سٹی کیسی ہوتی۔ہمارے ملک میں 100شہروں کو اسمارٹ سٹی کرنے کی منصوبہ بندی مودی سرکار نے کی ہے۔

ایسی کونسی بات یا عناصر ہوتے ہیں جو شہروں کو اسمارٹ سٹی بناتے ہیں۔موجودہ شہروں کو ہی اسمارٹ سٹی بنا یا جائے گا یا پھر نئے شہروں کی تعمیر کرنی ہوگی۔پرانے مکانات کی تزئین کاری کرکے اسمارٹ سٹی بنائی جاسکتی ہے یا پھر نئے شہروں کو آباد کرنا ہوگا، اگر نئے شہروں کو اسمارٹ سٹی کیلئے آباد کرنا ہوگا تو پھر بلڈروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اورسر کراہی میں ہوگا۔

اگر اسمارٹ سٹی کیلئے نئے شہر تعمیر کرنا ہوتو کئی باتوں پر غور کرنا ہوگا، جیسے گھروں کا یا فلیٹ کے الاٹمنٹ کا طریقہ، ماحولیات کے ماہرکی شرکت،پھر اس نئے شہر میں کس کیلئے کتنے فلیٹ ریزرو رکھنا ہے،جب دیہات تباہ ہورہے ہو پھر اس اسمارٹ سٹی کی طرف ہمارا رجحان کیوں؟ جیسے سوالات اپنا سر اُٹھائیں گے، ان سوالات کے جوابات ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے پھر الیکشن آجائیں گے۔پھر تمام تحریک مجروح ہوجائے گی ، ایسے میں راستہ کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے۔اسمارٹ سٹی کاسفر ہمیں یہ بتائے گا کہ ہم کہاں تھے اور کہاں جائیں گے۔

شہریوں کو یہ اسمارٹ سٹی کیسا لگے گا؟ یہ تمام شہری اب عمر بھر اس شہر میں رہنے والے ہیں، پھر وہ زندگی انھیں ٹھیک ٹھاک، خوشی کے ساتھ جینے کیلئے کیا کرنا ہوگا، ان تمام سوالات کے جوابات شہریوں سے ہی طلب کیے گیے ہیں ۔ شہریوں کی ضروریات اور توقعات کیا ہیں؟شہروں کی تعداد بڑھے گی یا پھر موجودہ شہروں کے چہرے بدل دیے جائیں گے۔

تل ابیب شہر میں ان تمام سوالات سے معلومات کا ایک زخیرہ جمع ہوگیا ہے۔Data Base، شہرمیں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے ، ان لوگوں کی پسند ناپسند ہوتی ہے، گیت سننے والے لوگ کون، غزل کے رسیا لوگ کون،ہیپ ہاپ سنگیت سننے والے لوگ کون، کسے پینٹنگ میں دلچسپی ہے ، کسے آرٹ میں دلچسپی ہے، اس طرح الگ الگ گروپ بنائے گئے ہیں۔ اس بنیاد پر شہریوں کیلئے تفریحی ساز وسامان اور سہولیات مہیا کیے جائیں گے۔پھر اس میں سائیکلنگ کیلئے بھی راستہ ہوگا، ماحولیات کیلئے سازگار سواری ہے ، اس کا علم ہر ایک کو ہے۔پھر یہ سائیکل سب استعمال کریں گے ایسا نہیں ہے۔ سب لوگ خریدیں گے ہی ، ایسا بھی نہیں ہے، مگر اس سائیکل کی وجہ سے سے ’گرین سائیکل‘ کے تصور نے جنم لیا ہے۔مگر ایک ایسا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی نے سائیکل کرائے پر لی اور اسے فلاں جگہ پر جانا ہے، پھر اس کی سائیکل پارک رکھنے کیلئے جگہ تو چاہیے۔پھر اسے صرف سائیکل دینے کیلئے ہی دوبارہ اسی جگہ پر جانا جہاں سے وہ آیا ہے ، ایک تکلیف دہ کام ہے۔اس کیلئے پہلے اپنے یہاں لوہے کی مشینیں ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد الکٹرانک لاک آگئے پھر اس میں ایک سہولت ایسی بھی آئی کہ سائیکل کہیں سے بھی کرایے پر لو اور کہیں پر بھی اسے چھوڑ دو، جس کیلئے سڑکوں کے کنارے مخصوص سائیکل اسٹینڈ بنائیں گے ہیں، پھر اس سائیکل اسٹینڈ پر مشین میں پیسے ڈال دیے جاتے ہیں ، جس سے سائیکل کا لاک کھل جاتا ہے۔ سائیکل لینا ، جہاں چاہیے سائیکل پر گھوم لو، اس کے بعد ایسے ہی کسی اسٹینڈ پر اسے چھوڑ دو۔ سائیکل چھوڑنے کے بعد مشین میں سائیکل کا نمبر ڈال دو، تو مشین سے ایک پرچی باہر آتی ہے ، اس کیلئے شہر بھر میں میونسپل کارپوریشن نے سہولیات مہیا کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورا شہر وائی فائے سے جوڑدیا گیا ہے۔ اس وائے فائے کے سہارے شہریوں کو جو معلومات چاہیے وہ حاصل کرسکتے ہیں۔

کوئی فلم یا ڈرامہ کا ٹکٹ آن لائن بک کرکے ہم فلم دیکھ سکتے ہیں، کہیں ٹرافک جام ہوتو فوراً ایس ایم ایس آجاتا ہے کہ فلاں روڈ سے نہ جائے ٹرافک جام ہے، پھر کونسے راستہ سے کہاں جانا ہے اس متبادل سے بھی ہمیں آگاہ کیا جاتا ہے۔

یہ صرف تفریحی سہولیات کیلئے ہی نہیں بلکہ روز مرہ کی سہولیات بھی اس طرز پر مہیا کی جاتی ہے۔ پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی،واٹر ٹیکس، بجلی کے بل کی ادائیگی، پھر آخری تاریخ سے قبل ہمیں یاد دہانی بھی کی جاتی ہے۔ اگر کسی راستہ پر کوئی گڑھا ہوجائے یا بڑا سا پتھر پھسل کر آجائے تو اس کی تصویر کے ساتھ شکایت درج کی جاسکتی ہے۔اپنے قرب و جوار میں اگر کوئی واردات ہو تو اس کی اطلاع فوری طور پر دی جاسکتی ہے، وہ اطلاع دیتے وقت ہم کہاں سے اطلاع دے رہے ہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ، انھیں جی پی ایس کے ذریعہ فوراً معلوم ہوجاتا ہے۔ ان تمام سہولیات کے ساتھ ساتھ شہر کے تمام اسکولوں کے جال کہاں سے کہاں تک بچھے ہوئے ہیں، اس کی معلومات بھی دی جاتی ہے۔ان اسکولوں تک رسائی کیسے ہو،یہ سہولیات موبائل اور کمپویٹر پر دی جاتی ہے۔ شہر میں داخل ہونے والے نئے لوگوں کیلئے بھی معلومات فراہم کی جاتی ہے، کونسے علاقے میں کتنے نئے گھر تعمیر ہورہے ہیں اور اس میں خالی کتنے ہیں، اس کے خرید و فروخت کیلئے یا پھر کرایے پردینے کیلئے میونسپل کارپوریشن تعاون کرتی ہے۔اسٹریٹ لائٹ کو آن اور آف کرنے کیلئے بھی شہریوں کا سہار ا لیا جاتا ہے، یہ تمام امور عمل میں لانے کیلئے مائیکروسافٹ، موٹوروالا سے لیکر بیشتر کمپنیاں تل ابیب میونسپل کارپوریشن نے اپنے ساتھ شریک کرلیے ہیں۔ ان تمام کاموں کو انجام دینے کیلئے صاف ستھرا نظام بنایا گیا ہے، ورنہ یہ سب کرنا ناممکن تھا۔

جب دیویندر فڈنویس اسرائیل میں تھے ، تو ان سے یہ سوال کیا گیا کہ تمھارے یہاں اسمارٹ سٹی کے تعلق سے کہاں تک تیاری ہوئی ہے۔ پھر ان کے سکریٹری نے جواب دیا ہمارے یہاں اس کی پوری طرح سے تیاری جاری ہے، ہم سب لوگ ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اسمارٹ سٹی کیا ہوتی ہے؟

(یو این این)


OOO

Mob.9869658668
Email:husainsahil@rediffmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 809