donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Monawwar Rajpoot
Title :
   Turki-- 90 Sal Bad AikAur Angrhayi

 

ترکی… 90سال بعد ایک اور انگڑائی


منوّر راجپوت 


    پہلی جنگ عظیم 28جولائی 1914ء سے 11نومبر 1918ء تک لڑی گئی، اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ تھے جو محوری طاقتیں کہلائے جبکہ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، سربیا، مونٹی نیگرو اور بیلجیئم تھے۔ انہیں اتحادی ممالک کہا جاتا ہے۔ بعدازاں اٹلی اور امریکا بھی اتحادیوں سے مل گئے تھے۔ اس جنگ میں 80لاکھ افراد ہلاک اور 2 کروڑ زخمی ہوئے تھے۔ معاشی نقصان کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔ جنگ کے اختتام پر اتحادیوں نے شکست خوردہ ملکوں کو توہین آمیز معاہدوں میں جکڑنا شروع کردیا۔ جرمنی سے معاہدہ ورسائی کیا گیا جس نے معاشی، فوجی اور سماجی طور پر جرمنی کی کمرتوڑ کر رکھ دی۔ اسی طرح ترکی سے معاہدہ سیورے ہواجس سے عملاً ترکی کے ہاتھ پاؤں کٹ گئے۔ شام، فلسطین، عراق اور دیگر عرب علاقے اس سے چھین لیے گئے۔ آرمینیا کو ترکی سے الگ کرکے عیسائی ریاست بنادیا گیا۔ درہ دانیال اور باسفورس کو بین الاقوامی گزرگاہ قرار دے دیا گیا۔ ترک فوج کی تعداد محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھاری تاوان جنگ بھی عائد کیا گیا۔ دارالخلافہ قسطنطنیہ (استنبول) پر دشمن کا قبضہ ہوچکا تھا اور خلیفہ ان کے رحم وکرم پر تھا۔


معاہدہ سیورے کے خلاف ترکوں میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ عوام اپنی اس توہین پر سخت ناراض تھے۔ فوجیوں کے ایک گروپ نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیااور قابض ممالک کی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھالیے۔ اس مہم کی قیادت ترک فوج کے ممتاز سپہ سالار مصطفی کمال کررہے تھے۔ اس فوجی گروپ کو عوام کی مدد سے کامیابی پر کامیابی ملتی رہی۔ چونکہ دارالخلافہ دشمنوں کے قبضے میں تھا اس لیے ان حریت پسندوں نے انقرہ میں قومی حکومت قائم کرلی۔ حریت پسندوں نے ایک ایک کرکے تمام علاقوں سے اتحادیوں کو بھگادیا اور جلد ہی وہ دن بھی آگیا جب اتحادی استنبول کو خالی کرکے چلتے بنے۔ اس موقع پر 24جولائی 1923ء کو لوزان کے مقام پر حریت پسندوں اور اتحادیوں کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس میں ترکوں کی خواہشات کا بڑی حد تک احترام کیا گیا۔ یوں 5سالہ آزادی کی جنگ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس جنگ کی قیادت چونکہ مصطفی کمال کے پاس تھی اس لیے وہ قومی ہیرو بن کر سامنے آئے۔ انہیں اتاترک یعنی ترکوں کے باپ کا خطاب دیا گیا۔


    پہلی جنگ عظیم میں شکست اور معاہدہ سیورے کی وجہ سے عوام خلیفہ سے بدظن ہوچکے تھے۔ دوسری طرف ان میں عربوں کے خلاف بھی غم وغصہ پایا جاتا تھا، کیونکہ عربوں نے اس جنگ میں آزاد ریاست کے لالچ میں ترکوں کی بجائے اتحادیوں کا ساتھ دیا تھا۔ مصطفی کمال نے ان عوامی جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ترک پارلیمنٹ یعنی مجلس کبیر ملی سے خلافت کے خاتمے اور ترکی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کرادیاگیا،سلطان وحیدالدین ششم نے اس فیصلے کی شدید مزاحمت کی مگر حکومت پر فوج قابض ہوچکی تھی اس لیے اس کی ایک نہ چلی۔ بالآخر انہیں ایک برطانوی جہاز میں بٹھاکر پہلے مالٹا اور پھر وہاں سے مکہ مکرمہ پہنچادیا گیا، جہاں والی مکہ شاہ حسین نے انہیں عمربھرکے لیے اپنا مہمان بنالیا۔ ادھر ترکی میں خلیفہ وحید کے چچازاد عبدالمجید ثانی کو علامتی طور پر تخت پر بٹھایا گیا تاکہ عوام جو خلافت سے محبت رکھتے تھے، سخت ردعمل کا مظاہرہ نہ کریں مگر مصطفی کمال نے خود کو مضبوط کرنے کے بعد 3مارچ 1924ء کو باقاعدہ طور پر خلافت کا خاتمہ کردیا۔ 3براعظموں اور سات سمندروں پر 636برس تک حکومت کرنے والے خاندان عثمانیہ کو جلاوطن کردیا گیا۔

    اب مصطفی کمال کے لیے میدان خالی تھا، وہ اسلام اور عربیت کو ’’ترقی‘‘ کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا تھا اس لیے اس نے ترکی سے ہر وہ علامت مٹانے کی کوشش کی جس سے اسلام یا عربیت جھلکتی تھی۔ مساجد، خانقاہیں اور مدارس بند کردیے گئے، شرعی عدالتیں ختم کردی گئیں، شیخ الاسلام کا عہدہ بھی ختم کردیا گیا، شرعی قوانین کی بجائے سوئزرلینڈ کا دیوانی، اٹلی کا قانون تعزیرات اور جرمنی کا قانون تجارت اپنایا گیا۔ اسلامی کیلنڈر کی جگہ یورپی کیلنڈر رائج کردیا گیا۔ عورتوں کے لیے برقع اور مردوں کے لیے سرخ ترکی ٹوپی پہننا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ خلافت کا مرکز ہونے کی وجہ سے عوام قسطنطنیہ (استنبول) سے عقیدت رکھتے تھے اس لیے دارالحکومت انقرہ منتقل کردیا گیا اور اس شہر کا نقشہ ایسا بنایاگیا جس میں مسجد کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کی بجائے اتوار کو مقرر کردی گئی۔ 1928ء میں آئین سے وہ دفعہ ہی خارج کردی گئی جس کے مطابق ریاست کا سرکاری مذہب اسلام قرار دیا گیا تھا۔ عربی زبان ممنوع قرار دی گئی یہاں تک کہ نماز اور اذان میں بھی عربی کا استعمال روک دیا گیا۔ قرآن کریم کی تلاوت سے بھی لوگوں کو یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ یہ عربی میں ہے اور ترکوں کو صرف ترکی زبان بولنی چاہیے۔ یہی نہیں، ترکی کے عربی رسم الخط کو لاطینی رسم الخط سے بدل دیا گیا جس کی وجہ سے ترک عوام اپنے قدیم لٹریچر سے جو اسلامی تھا، کٹ گئے، گویا مصطفی کمال نے ترکی کی اسلامی شناخت ختم کرنے کی پوری کوشش کی، اس کی نام نہاد اصلاحات میں جو رکاوٹ بنا اسے ریاستی قوت کے بل بوتے پر خاموش کردیا گیا۔ جیلیں مخالفین سے بھرگئیں، درجنوں افراد پھانسی کے پھندے پر جھول گئے مگر سیکولر زم اور جمہوریت کے نام پر اسلام دشمنی کے خلاف آوازیں اٹھتی رہیں۔ 


    نومبر 1938ء میں مصطفی کمال کا انتقال ہوا، جس کے بعد اس کے جانشین عصمت انونونے ترکی کو اسلام سے کاٹنے کا مشن جاری رکھا۔ عوام نے روزاول ہی سے کمالی اصلاحات کو دل سے قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ ریاستی جبر کے سامنے مجبور تھے اب اس جبر میں کچھ کمی آئی تو لوگ دوبارہ اسلام، اسلام پکارنے لگے۔ حکومت کو مجبور ہوکر پرائمری اسکولوں میں اسلامی تعلیم کی اجازت دینا پڑی، مگر عوام مزید آزادی چاہتے تھے۔ 1950ء کے انتخابات میں عدنان میندرس کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی بھاری اکثریت سے جیتی، اس نے یہ کامیابی مکمل مذہبی آزادی دلانے کے نعرے پر حاصل کی تھی۔ میندریس نے وزیراعظم بنتے ہی اذان پر پابندی کا قانون پارلیمنٹ کے ذریعے منسوخ کرادیا۔ یوں 17جون 1950ء کو 18سال بعد ترکی کی فضائیں اذان سے گونج اٹھیں۔ میندریس نے اتاترک کے مزار کے سامنے عظیم الشان مسجد تعمیر کرائی۔ حج پر جانے کی پابندی اٹھالی۔ ان کے دور میں اسلامائزیشن کے حوالے سے اور بھی کئی کام ہوئے مگر 1960ء میں فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا اور اگلے برس عدنان میندریس کو پھانسی دے دی گئی۔اس کے بعدجمہوریت اورمارشل لاء کا کھیل جاری رہا، فوجی ادوار میں ترکی کو دوبارہ مصطفی کمال کے دور کی طرف لے جانے کی کوششیں جاری رہیں۔


    1995ء میں نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی اقتدار میں آئی، بلاشبہ اربکان نے ترکی کو دوبارہ اسلام کی راہ پر ڈالنے کے لیے بہت کام کیا، وہ پہلے سربراہ حکومت ہیں جنہوںنے کھل کر مصطفی کمال کے نظریات کو چیلنج کیا۔ اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں انہیں تکالیف بھی اٹھانا پڑیں۔ فوج کے دباؤ پر ان کی حکومت ختم کردی گئی اور ان پر عمربھر کے لیے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔ اسلام پسندوں نے ہمت نہ ہاری، رفاہ پارٹی عدالت وترقی پارٹی کے نام سے سامنے آگئی، اس جماعت نے 2002ء اور 2007ء کے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی،اس وقت اس پارٹی کی ترکی پرحکومت ہے، عبداللہ گل صدراورطیب اردوغان وزیراعظم کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ترکی کی موجودہ حکومت بڑی حکمت کے ساتھ ملک کودوبارہ اسلامی شناخت کی طرف لا رہی ہے، مذہبی تعلیم کو عام کردیا گیاہے، مساجد نمازیوں سے بھرگئی ہیں، مدارس کھل چکے ہیں، آج ترکی میں اسلام کا نام لینا جرم نہیں رہا۔ عربی ریاستی سرپرستی میں پڑھی اور پڑھائی جارہی ہے۔ ایک دور میں ترکی کسی ایسے اجلاس میں شریک تک نہیں ہوتا تھا جس سے اسلام کی بو آتی ہو اور آج ترکی عالم اسلام کی قیادت کررہا ہے۔آخر میں وہ خبر جس کے لیے ترکی میں اسلام اور سیکولرازم کی کشمکش کا ایک خاکہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے، تاکہ آپ اس خبر کو اس کے پورے پس منظر میں سمجھ سکیں۔ ترک حکومت نے 90برس بعد ملازمت پیشہ خواتین کے اسکارف پہننے پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔ وزیراعظم اردوان کا کہنا تھا اسکارف پر پابندی ترک اقدار کی خلاف ورزی تھی۔

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 506