donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nisar Ahmad Tanboli
Title :
   Gaye Aur Uski Nasal Kashi Mamanat Qanoon 1995

گائے اور اس کی نسل کشی ممانعت قانون (اصلاح) 1995؁۔ء


نثار احمد تمبولی ، دھولیہ

7620048731


    ملک میں کوئی بھی قانون اگر رائج ہوتا ہے ، بھلے ہی اس قانون سے ہمیں اتفاق ہو یا نہ ہو ، وہ قانون ہمارے لئے نقصان دہ ہو یا فائدہ مند ، اس قانون کے تعلق سے ٹھوس اور مکمل معلومات کے ساتھ ساتھ گورنمینٹ گیزیٹ بھی ایک اچھے شہری کے پاس موجود ہونا چاہئے ، بالخصوص جب یہ قانون عوام عامہ سے منسلک ہو۔ جب قانون بنایا جاتا ہے ، تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہیکہ اس قانون سے آئین ہند کے کسی بھی آرٹیکل کی براہ راست یا بالراست خلاف ورزی تو نہیں ہورہی ہے یا آئین ہند کے کسی بھی آرٹیکل کے مطابق درکار مسئلہ کے تعلق سے کوئی قانون بننا ضروری ہے یا فاضل سپریم کورٹ نے کسی مسئلہ کو آئین ہند کے کسی آرٹیکل میں شمار کر دیا ہے ۔ بعد ازیں یہ ضرور دیکھا جاتا ہیکہ اس قانون کو نافذ کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے یا نہیں ۔ کیونکہ کوئی بھی نیا قانون نافذ کرنے سے ایڈمنسٹریشن ، عدلیہ اور سرکاری خزانہ پر بلا وجہ بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔ بلا کسی ٹھوس وجہ کے کوئی قانون اگر نافذ کر دیا جاتا ہے ، جس کا مقصد ملک کے کسی طبقہ سے بغض و کینہ یا دشمنی کے عین مقصد سے کیا جائے تو اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔

    گئو کشی قانون The Maha. Animal Preservation Act, 1976 باقاعدہ طور سے ریاست مہاراشٹر میں نافذ تھا۔ اس قانون میں بہت ساری اصلاح کیلئے بل 1995 میں حکومت مہاراشٹر نے منظور کر کے صدر ہند کی دستخط کیلئے روانہ کیا تھا تا کہ یہ بل با ضابطہ قانون بن جائے۔ لیکن شیو سینا ، بی جے پی کی حکومت ختم ہونے پر یہ بل راشٹرپتی بھون سے منظور نہ ہو سکا ۔ اب جبکہ ریاست مہاراشٹر اور مرکز دونوں جگہ بی جے پی کی اکثریت ہے تو ظاہر سی بات ہے اس بل پر صدر ہند کو دستخط کرنا ہی پڑے اور یہ بل The Maha. Animal Preservation (Amendment) Act, 1995اس نام سے منظور کیا گیا ۔ اس قانون کو حکومت مہاراشٹر نے گورنمینٹ گیزیٹ میں 4 مارچ 2015کو شائع کیا۔ لہٰذا اسی تاریخ سے یہ قانون ریاست مہاراشٹر میں باضابطہ طریقے سے لاگو کر دیا گیا۔ بنیادی قانون (1976) میں جو اصلاح کی گئی ہے ان پر ایک خصوصی رپورٹ مندرجہ ذیل ہے۔

    ۱۔    اصلاح شدہ قانون کے تحت گائے ، بچھڑا ، بیل اور اس نسل کے دیگر جانور جو دودھ دینے کیلئے ، افزائش نسل کیلئے ، زراعتی مقصد کیلئے کارآمد ہو ان کا تحفظ کرنا اور ساتھ ہی ان کے قتل پر پابندی عائد کرنا یہ اس قانون کا بنیادی مقصد ہے۔ بنیادی قانون میں جہاں جہاں لفظ گائے تھا وہاں وہاں بچھڑا اور بیل کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔

    ۲۔    ایک خاص ترمیم یہ بھی کی گئی ہیکہ کوئی بھی شخص گائے ، بچھڑا یا بیل کو قتل کرنے کے مقصد سے یا اس مقصد کا علم ہوتے ہوئے براہ راست یا بالراست ریاست کے اندر یا ریاست کے باہر ٹرانسپورٹ یا ایکسپورٹ نہیں کر سکتاہے۔ ساتھ ہی کوئی بھی شخص ان جانوروں کو قتل کرنے کے مقصد سے نہ خرید سکتا نہ فروخت کر سکتا ہے اور نہ ہی انھیں کسی کو دے سکتا ہے ۔ ساتھ ہی کوئی بھی شخص ان جانوروں کا گوشت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ہے اور نہ ہی ایسے گوشت کو ریاست مہاراشٹر کے باہر بھیج سکتا ہے۔

    ۳۔    پولس کے اختیارات میں کچھ اختیارات کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پولس کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہیکہ ضبط شدہ مال کورٹ کے سامنے پیش کرے اور دوران ٹرایل ان جانوروں کو کسی بھی قریبی گو شالا وغیرہ میں رکھ دیا جائے اور ان کی دیکھ بھال پر آنے والا خرچ ملزم کو دینا ہوگا۔ جہاں تک سزا کا تعلق ہے اصلاح شدہ قانون میں ۶ مہینے کی بجائے ۵ سال اور ۱ ہزار کی بجائے ۱۰ ہزار کا اضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن کسی معقول وجہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے کورٹ کو اختیار ہیکہ ۶ مہینے کی سزا اور ۱ ہزار روپئے جرمانہ کی سزا کورٹ تعین کر سکتی ہے۔ یہ جرم غیر ضمانتی قرار دیا گیا ہے۔

    بنیادی قانون میں درج ہیکہ آئین ہند کے آرٹیکل 48 کے تحت اس قانون کو نافذ کیا گیا ہے۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہیکہ یہ قانون نافذ کرنے میں مذہبی مسئلہ کہیں کچھ نہیں ہے ۔ آئین ہند میں یہ بھی خیال رکھا گیا ہیکہ کوئی قانون عام کرتے وقت اس قانون سے کسی کی مقدس مذہبی کتاب کے مطابق اس کے مذہب کے ارکان ادا کرنے میں کہیں بھی کسی بھی طرح کی رکاوٹ نہ آئے ۔ لیکن شرط یہ ہو کہ مذہب کے ارکان کا مطلب اس مذہب کی مذہبی کتاب میں کوئی بات لازمی قرار دیا جانا ہے۔

    جہاں تک اس قانون کی فوری اور اشد ضرورت کا تعلق ہے ایسی کوئی شکل نہ ہی اس قانون کے گیزیٹ سے ظاہر ہوتی ہے نہ ہی ہائی کورٹ میں حکومت کی طرف سے جو حلف نامہ پیش کیا گیا ہے اس میں نظر آتی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں مہاراشٹر کے ہر دیہات میں بیلوں کی بجائے بہت سارے زراعتی کام ٹریکٹر اور مشنری کے ذریعے کئے  جانے لگے ہیں۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہیکہ مہاراشٹر کے کسانوں نے احتجاج کیا یا حکومت سے شکایت کی کہ کھیتوں میں کام کرنے کیلئے بیلوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ بیلوں کو قتل کر دیا جارہا ہے ۔ نتیجتاً بیلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ برسہابرس سے بچھڑا اور بیلوں کو بڑے پیمانے پر ریاست مہاراشٹر میں زبح کیا جاتا رہا ہے اور اس کا گوشت مسلم ، دلت اور عیسائی مذہب کے لوگ اپنی غذا میں شامل کئے ہوئے ہیں۔ اس گوشت سے عام طور سے غریبوں کو جو پروٹین ملتا ہے وہ اتنے سستے داموں میں کسی اور غذا سے نہیں ملتا ہے۔ لیکن اتنے بڑے پیمانے پر یہ جانور زبح کئے جانے کے بعد بھی کیا ریاست مہاراشٹر میں کہیں سے بھی کبھی ان جانوروں کی کمی کے تعلق سے آواز اٹھی ؟ یہاں ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ جس طرح جنگلی جانور جیسے ہرن ، شیر وغیرہ کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی نسل کو بچانے کیلئے اس نسل کے جانوروں کے زبح پر پابندی لگانا ضروری ہے۔ کورٹ کو اس بات کو دھیان میں لانا چاہئے کہ اس اصلاح شدہ قانون کی فوری اور اشد ضرورت نہ ہوتے ہوئے بھی اس قانون کو نافذ کرنے کی ضرورت حکومت کو کیوں پڑی؟ کہیں اس قانون کے پس پشت حکومت کا ایک ہی مقصد ہے ، بھگوا ذہنیت کو مطمئین کرنا تا کہ اقلیت دشمنی جو برہمن واد کا بنیادی مقصد ہے ، اس کی برآوری ہو سکے ؟ اقلیت بالخصوص مسلم لوگ چونکہ بچھڑے ، بیل کا گوشت کھانے کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں اس کاروبار سے جڑے ہوئے بھی ہیں ان کو معاشی طور سے نقصان پہنچانا یہ مقصد بھی بھگوا ذہنیت کا پورا کرنے کی غرض سے تو کہیں یہ قانون نافذ نہیں کیا گیا ہے؟

    آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ اس قانون کے نقصانات کیا کیا ہیں ؟ جیسا کہ ہندو بھائیوں کی بہت ساری دھرم گرنتھ کا مطالعہ کیا جائے تو ان کتابوں میں متعداد مقامات پر گائے کے گوشت کو پوتر مانا گیا ہے اور خوشی کے موقع پر اس کو کھانے کی ترغیب دی گئی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اب اگر گئو کشی مکمل طور سے بند ہو جاتی ہے تو ہندو بھائیوں کے بہت سارے ارکانات ادھورے رہ جائینگے اور کسی کے مذہب کے ارکانات بالخصوص جو اس مذہب کی مذہبی کتابوں میں درج ہے ، پر رکاوٹ لانا غیر آئینی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بات آئین ہند کے آرٹیکل 14 کے مترادف ہو گی کیونکہ سکھ مذہب کے ارکان کے مطابق آئین ہند کے آرٹیکل 25 کے تحت کرپان پہننے یا ساتھ رکھنے کی انھیں اجازت ہے (دوسرے مذہب والوں کو اس بات کی اجازت نہیں ) پھر ہندو مذہب کی پوتر مذہبی کتابوں کے مطابق گائے کے گوشت پر پابندی چہ معنی دارد ۔ ایک سکھ بھائی کو اپنے مذہب کے ارکان کی تکمیل کی تو اجازت دی گئی ہے پھر ہندو بھائیوں کو ان کے دھرم گرنتھوں کے مطابق ارکان میں رکاوٹ لانا سراسر غیر آئینی ہے۔ دوسرے یہ کہ جب یہ جانور دودھ دینے یا افزائش نسل یا زراعت کے قابل نہیں رہینگے تو ان جانوروں کے چارہ پانی کا مسئلہ آجائیگا ۔ مہاراشٹر میں زیادہ تر کسان خط افلاس سے نیچے ہیں وہ ان ناکارہ جانوروں کو چارہ پانی مہیا نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی بیچ سکیں گے۔ لہٰذا ان جانوروں کو چرنے کیلئے کھیت کھلیانوں میں چھوڑ دیا جائیگا اور ظاہر سی بات ہے جب یہ جانور کھیت کھلیانوں میں چرنے لگیں گے تو آپسی جھگڑے بڑھنا ہی ہے اور بڑے پیمانے پر لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی پیدا ہو جائیگا۔ شہروں میں اور شاہ راہوں پر ان جانوروں کی تعداد بڑھنے سے حادثات بڑھ جائینگے۔  لہٰذا ایک مسلمان جب اپنی مقدس کتاب میں لکھے قانون کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کر سکتا ہے تو وہ ہندو بھائیوں کے مقدس کتاب میں لکھے قانون کے ارکان کی رکاوٹ کو کیوں کر برداشت کرے؟

(یو این این)

*********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 494