donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rafeeda Kalim Faruqui
Title :
   Baaten Danish Ki

باتیں دانش کی
 
رفیدۃ کلیم فاروقی | دین و دانش
 
کہا ارسطو نے:
 
۱۔دوست کیا ہے؟ دو جسموں میں ایک روح۔
۲۔ تعلیم کی جڑیں کڑوی لیکن پھل میٹھا ہوتا ہے۔
۳۔خوشی کا انحصار ہم پر ہے۔
۴۔علم خوشحالی میں اور زیور زبوں حالی میں ایک پناہ گاہ ہے۔
۵۔غربت انقلاب اور جرم کی ماں ہے۔
۶۔بچوں کو تعلیم دینے والے انھیں پیدا کرنے والوں سے بہتر ہیں کیونکہ وہ تو صرف بچوں کو زندگی دیتے ہیں جبکہ معلم زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنا سکھاتے ہیں۔
۷۔جو سب کا دوست ہو وہ کسی کا دوست نہیں ہوتا۔
۸۔انسان تمام جانوروں میں شریف ترین ہے: لیکن اگر قانون اور انصاف سے علیحدہ کر دیا جائے تو وہ بد ترین ہے۔
۹۔اپنی خواہشات کو اپنے موجودہ وسائل کے دائرے میں لاؤ، اور صرف اس وقت بڑھاؤ جب وسائل بڑھ جائیں۔
۱۰۔جو اچھا حکمران ہونا چاہتا ہو اسے پہلے اچھا محکوم ہونا چاہیے۔
۱۱۔سب سے مشکل فتح اپنے آپ پر ہوتی ہے۔
۱۲۔آرٹ کا مقصد اشیا کی ظاہری ہئیت کے بجائے ان کی خفیہ معنویت کو نمایاں کرنا ہے۔
۱۳۔میرے دوست! دنیا میںکوئی دوست نہیں۔
۱۴۔نا امیدی کم عمری کا باعث ہوتی ہے۔
ارسطو
افلاطون کا شاگرد اور عظیم یونانی فاتح اسکندر اعظم کا استاد ارسطو ۳۸۴ق م میں پیدا ہوا اور۳۲۲ ق م میں فوت ہوا۔اس کے نام کے معانی یونانی زبان میں ’’بہترین مقصد‘‘ کے ہیں۔ اور اس نے نام کی خصوصیت کو عملی طور پر ثابت کیا۔ اس نے طبیعیات ، ما بعد الطبیعیات، شاعری، تھیٹر، موسیقی، منطق، سیاسیات، حکومت، اخلاقیات، بیالوجی، اور زوالوجی،علم البیان، فنِ خطابت،لسانیات غرضیکہ اس زمانے کے تقریباً تمام مروجہ علوم کا مطالعہ کیا اور افلاطون اور سقراط کی طرح مغربی فلسفہ، اخلاقیات ، جمالیات، منطق، سائنس، سیاسیات اور مابعد الطبیعیات جیسے مضامین پر زبردست دسترس حاصل کی۔
 
زوالوجی کے متعلق اس کے بہت سے نظریات کی تصدیق ۱نیسویں صدی میں ہی ممکن ہو سکی۔اس کے نظریات و خیالات کے عیسائیت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ارسطو کا بہت سا علمی ورثہ ضائع ہو چکا ہے ۔
اگرچہ اس کے بہت سے سائنسی اور علمی نظریات غلط ثابت ہوچکے ہیں، جیسے زمین کائنات کا مرکز ہے یا بلندی سے گرائی جانے والی وزنی اشیا ہلکی چیزوں سے پہلے زمین پرپہنچتی ہیں لیکن آج بھی علمی حلقوں میں موضوع بحث ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ تحریک احیائے علوم سے قبل اور بعد کے یورپی مفکرین ارسطو سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ سسرو اس کے خیالات کے تاریخی اثاثے کو ’’سونے کا دریا‘‘ کا نام دیتا ہے۔
 
اس کا باپ شاہ مقدونیہ امنتاس کا ذاتی معالج تھا۔ غالباً اس کی ابتدائی زندگی شاہی محلات میں گزری اور۱۸  سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے ایتھنز چلا گیا اور افلاطون کی شاگردی اختیار کی اور بیس سال تک تحصیلِ علم میں مشغول رہا اور استاد کی وفات کے بعد ترکی چلا گیا۔اس نے پائتھیاس کی بیٹی یا بھتیجی ہرمیاس سے شادی کی۔ ہرمیاس کی وفات کے بعد شاہ فلپ کی دعوت پر مقدونیہ چلا گیا اور شاہی اکیڈیمی کا صدر مدرس، اوراسکندر اعظم کا اتالیق بھی مقرر ہوا۔ اسی کی تحریک پر ارسطو نے مشرقی ممالک کی فتح کا منصوبہ بنایا اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
335 ق م میں وہ ایتھنز واپس آیا اور ’’لائسیم‘‘ کے نام سے اپنا مدرسہ قائم کیا۔اس کی بہت سی تصنیفات 335سے 323 ق م کے دوران پایۂ تکمیل کو پہنچیں۔
ابنِ رُشد:
ابو الولید محمد ابنِ رُشد 1126 ء کو قرطبہ ، اندلس میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے قانون اور طب کی تعلیم حاصل کی۔ 1169ء میں انھیں اشبیلیہ کا منصف مقرر کیا گیا۔ انھوںنے ارسطو کی کتاب ’’روح کا‘‘ ترجمہ کیا۔1171ء کو انھیں قرطبہ کا قاضی بنایا گیا۔وہ 10 سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔1182ء میں انھیں مراکش بلا کر خلیفہ کا طبیب نامز د کیا گیا۔ لیکن جلد ہی واپس قرطبہ کا صدر قاضی بنا دیا گیا۔
 
لیکن جلد ہی دینی علماء نے ان کی تصنیفات پر اعتراض اٹھائے اور انھیں بدعتی قرار دیا جس پر خلیفہ نے انھیں معزول کر کے لوسینا میں نظربند کر دیا اور ان کی طب ، ریاضی اور فلکیات کی کتب کے علاوہ باقی کتب کو جلانے کا حکم دیا۔لیکن کچھ عرصے کے بعد خلیفہ نے نظر بندی کا حکم واپس لے کر انھیں مراکش بلوا لیا۔ ابنِ رُشد کے علمی کام کو یورپ میں پذیرائی ملی۔ تیرھویں صدی عیسوی میں پیرس ، آکسفورڈ اور کینٹربری کے بشپس نے اس کے بعض مذہبی نظریات کی وجہ سے اس کی مخالفت کی جیسا کی اندلس کے مسلمان علماء نے کی تھی۔
 
ابن رشد کو مسلمان فلسفیوں میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔اس کے خیال میں مذہب اور فلسفہ میں کوئی تفاوت نہیں اگر انھیں اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ابن رشد نے خلیفہ کے حکم پر ایک طویل عرصے تک ارسطو کے افکار و نظریات کی تشریح کی۔ عیسائیت اور یہودیت پر اس کے نظریات کے اثرات بہت گہرے تھے جس کی وجہ سے ان دونوں مذاہب کے علماء اس کے مخالف تھے۔
 
اس نے الفارابی ، ابنِ سینا اور الغزالی کے فلسفیانہ نظریات کی مخالفت کی ۔ وہ انبیاء کو فلسفیوںسے عظیم تر گردانتا ہے۔ کیونکہ پیغمبروں کو اللہ تعالیٰ کی براہ راست راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور وہ قانون بنا سکتے ہیں جبکہ فلسفی صرف عقل و وجدان کے بل پر نظریات پیش کرتا ہے، اور ضروری نہیں کہ ان کے نظریات اس قابل ہوں کہ ان پر قانون کی بنیاد رکھی جا سکے۔ ابن رشد نے ۱۰ دسمبر ۱۱۹۸ء کو مراکش میں وفات پائی۔
 
۸++++++++++++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 730