donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rahat Ali Siddiqui Qasmi
Title :
   December Tareekh Ke Aayine Me

دسمبر تاریخ کے آئینہ میں


راحت علی قـاسمی صدیقی


رابطہ  :  09557942062


    انسانی فطرت اور مزاج پر موسم بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، اس کے خیالات اور سوچ و فکر میں موسم کے لحاظ سے تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے، گرمی میں اس کے ذہن کی کیفیت کچھ اور ہے، سردی میں کچھ اور برسات میں کچھ مختلف، ساون کی بارش میںوہ مست و مگن ہوتا ہے اور خیال یار میں مضطرب اور دیدار و یار کی تمنا کرتا ہے جب کہ جون گرم ہوائوں کے تھپیڑوں سے  جھلسا ہوا نظر آتا ہے، اس کے خیالات کو بھی جیسے دھوپ کی شدت نے پھونک دیا ہو، کسی اور ہی دھن میں رہتا ہے، بس ٹھنڈا پانی اس کی تشنگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے، اسے زلفوں کے سائے کی تلاش نہیں، شجر سایہ دار کی خواہش ہے، ہاں ایک مہینہ ہے جس میں آرزوئیں جوان اور تمنائیں شباب پر ہوتی ہیں، ہر خواہش پر جو بن آجاتا ہے، عشق و مستی کے ترانے گنگنائے جاتے ہیں، خیالات میں تنوع ہوتا ہے، قلب میں سرورہوتاہے، وہ کلام جو اس مناسبت سے ادباء اور شعراء کے ذہنوں نے اگلا، ان کی زبانوں اور قلموں پر جاری ہوا جو ہر شخص اپنے فسانے اور اپنی دھڑکنوں میں محسوس کرتا ہے، مثلاً :

ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گذرتا نہیں اک دسمبر اکیلے

    مگر اب تو رت ہی بدل گئی، نہ وہ دسمبر کی خوبصورتی ہے نہ خوبصورت یادیں، سب کچھ گذرے ہوئے زمانے کی بات ہوگئی، اب تو تلخیاں ہیں، کڑوی کسیلی یادیں ہیں، خدشات ہیں، وہ بھی کوئی زمانہ تھا جب دسمبر کے متعلق یہ سب کہا گیااور ایسے خوشگوار لمحات و اوقات میسر آئے جن میں حسن و عشق کی پذیرائی کی گئی، اب تو تکالیف کا بیان ہے، جب میں یادوں کے جھرونکوں میں جھانکتا ہوں اور دسمبر کو تاریخ کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتاہوں تو کچھ ایسے منظر آتے ہیں جن کی سختی انتہا سے زیادہ ہے، انہیں الفاظ کے پیکر میں ڈھالنا انتہائی مشکل امر ہے اور تفصیل طلب بھی۔ انیسوی صدی سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو سائنسی ایجادات ، تحقیقات و انکشافات کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے، ہمارے ملک ہندوستان جیسے انگریزوں نے مالی سطح پر ہی نہیں ہر طرح سے لاغر اور کمزور بنا دیا، افتراق و انتشار کا بیج بویا، یہ بیج جب درخت بنا تو ہندوستان کے سینہ میں دراڑ پڑگئی۔ ایک دوسرا ملک وجود پذیر ہوا، لیکن جو مسلمان ہندوستان میں رہے ان کے قلوب میں محبت، ہمدردی، پیار اور بھائی چارہ کے حسین جذبات کا دریا موجزن ہے، جسے وطن اور اہل وطن سے محبت میں کوئی کمی نہیں اور وہ درخت جو انگریزوں نے لگایا تھا وہ پھل دے کر مرجھا گیا، بس اس میں حیات کی صرف ایک رمق موجود تھی، آزادی سے لے کر 1992ء تک کے حالات اس کے ترجمان ہیں لیکن یہی دسمبر کی حسین شامیں، ٹھنڈی راتیں، سرد دھوپ اور خوبصورت موسم میںآگ لگائی اور اتنا بھیانک معاملہ سامنے آیا کہ انسانیت کانپ گئی، عدلیہ اور جمہوریت شرمسار ہوگئی، قانون صرف کتابی لفظ ثابت ہوا، جنگل راج کیا ہوتا ہے لوگوں نے کھلی آنکھوں دیکھا۔ دسمبر 1992ء ہندوستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ کا کالا دن ہے، جس نے ہندوستانی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا، اخوت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا، اختلاف و انتشار کا ایسا بیچ بویا گیا جس کو مٹانا انتہائی مشکل ہے۔ بابری مسجد شہید نہیں ہوئی بلکہ گنگا جمنی تہذیب کا جنازہ اٹھا، سیاست مکر و فریب جیت گیا اور انسانیت اور قانون کی بلی چڑھ گئی ، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوستان دو گروہوں میں بٹ کر رہ گیا اور دسمبر کی خوبصورتی پر ایک ایسا بدنما داغ لگا جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ دسمبر کے دامن میں اور بھی بہت سی دل خراش داستانیں ہیں۔ 30دسمبر 1996ء برہم پتر میں بم دھماکے ہو ئے جنہوں نے ہندوستان کو دہلا دیا اور 33افراد جاں بحق ہوگئے،معصوم ، سادہ طبیعت افراد کی زندگی سے کھلواڑ ہوتا رہا۔ 22دسمبر 2000 لشکرطیبہ کے دو افراد نے لال قلعہ پر جوہندوستان کی آن بان شان ہیں،اس کی  آبرو پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 12فوجی ہلاک اور حملہ کرنے والے قلعہ کی فصیل پھلانگ کر بھاگ گئے جو اپنے آپ میں ایک شرم کی بات ہے اور ہندوستان جیسے قدآور ملک کے لئے ناک کٹنے کے مترادف ہے۔ 13دسمبر 2001ء ہندوستانی پارلیمانی عمارت پر 5افراد نے حملہ کیا، ہتھیاروں  سے لیس تھے، جس میں تقریباً 18افراد ہلاک ہوئے۔ سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور دسمبر میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا جو شاید جہالت کی تاریخ میں بھی نہ ملے۔ 16دسمبر 2012ء دسمبر کی وہی خوبصورت رات جو اُدباء اور شعراء کا موضوع رہی ہے وہ اتنی بھیانک اور ڈرائونی بھی ہوسکتی ہے، تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان اتنا گر سکتا ہے سمجھ میں نہیںآتا۔ آج بھی اس واقعہ کو یاد کرکے آنکھوں میں آنسو جاری ہوجاتے ہیں، قلب پر رقت طاری ہوجاتی، کیسے ایک خوبصورت ہنستی کھیلتی دوشیزہ چند پاگلوں کی خوشی کا شکار ہوئی، اس کے خواب چکناچور کردئیے، اس کی نبضِ حیات ہی روک دی گئی، آبروریزی کے واقعات بہت سنے گئے مگر ایسی درندگی کبھی اس کائنات کے سینے پر نہیں ہوئی، آج بھی حاثہ کی ہیبت جاننا چاہتے ہوتو اس لڑکی کے ماں باپ کو دیکھو، ان کے چہرے پر آج بھی درد نظر آئے گا، ان کی آنکھوں میں آج بھی غم کے آثار ہیں، لمحہ لمحہ مر رہے ہیں ، انہیں انصاف میسر آئیگا، بس یہی ایک خواب جو انہیں زندہ رہنے پر مجبور کر رہا ہے۔ دسمبر کا درد اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے اور بہت سے ایسے واقعات و حادثات ہیں جو سپرد قرطاس کئے جاسکتے ہیں، بھی تو بات صرف ہندوستان کی ہورہی ہے، اگر عالمی منظر نامے کو بیان کیا جائے تو بہت سے صفحات سیاہ ہوجائیں لیکن پاکستان کا وہ دل دوز واقعہ جس نے پاکستان کے مستقبل کو چوٹ پہنچائی، اس کے تعمیری منصوبوںکو ضرب لگائی، دسمبر کی نکھری خوبصورت صبح اتنی بدنما ہوگی کون تصور کر سکتا تھا؟ کس کے حاشیۂ خیال میں یہ بات آسکتی ہے کہ انسانی دل اتنے سخت ہوچکے کہ معصوم بچوں کو بھی گولیوں سے بھون دیا جائے گا مگر ایسا ہوا اور 16 دسمبر 2014ء صبح گیارہ بجے آرمی کے اسکول پر حملہ کیا گیا، جس میں 144 افراد قتل ہوئے، جن میں اکثر معصوم بچے تھے، اس مہینے کی 27 دسمبر 2000ء کو بے نظیر بھٹو جو پاکستان کی عظیم سیاسی لیڈر تھیں، سر عام قتل کردیا گیا،بہرحال دسمبرجو ادباء کا پسندیدہ عنوان رہا ہے اس بار تو کچھ زیادہ ہی ڈرامائی انداز کا رہا جو لوگ دوسروں کو پاکستان بھیجنے کی دھمکی دیا کرتے تھے، خود اچانک پاکستان چلے گئے۔ سیاسی مفاد کی خاطر معاملات ذاتی ہوئے اور کیجری وال کے دفتروں پر چھاپہ ماری ہوئی۔ سونیا، راہل کو عدالت کے چکر لگانے پڑے اور اس دسمبر کا سب سے تکلیف دہ پہلو وہ نربھیا جس کی عزت تار تار کی گئی، سارا ہندوستان رویا، پوری دنیا میں تکلیف محسوس کی گئی، اس کا ایک مجرم کم سنی کے پردہ میں آزاد کردیا گیا اور دوسرا 1992ء جو ہندوستان کی جمہوریت کو تہس نہس کردیا گیا تھا، پھر سے اس پر سیاست شروع کی گئی۔ یہ ظاہر کردیاکہ دسمبر بدلنے سے سال بدلا مگر سوچ نہیں بدلی، تمنا یہی ہے کہ وہی خوبصورت، دلکش، حسیں یادیں اپنے پہلو میں لئے دسمبر ہمیں بھی نصیب ہو، اب کے دسمبر آئے تو اتنے خوشیاں لے کر جو غموں کے سیلاب پر بھاری پڑجائے۔
 

وہ سرد دھوپ ریت سمندر کہاں گیا

یادوں کے قافلہ سے سمندر کہاں گیا



 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 688