donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : S. A. Sagar
Title :
   Qissa Set Up Box Ka

 

قصہ سیٹ اپ باکس کا 


ایس اے ساگر

 

اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ عوام کو بنیادی مسائل سے ہٹا کر معلومات کے حصول کا دھوکہ دیتے ہوئے ناچ گانے اور بے حیائی کو فروغ دینے والے جس ابلیسی پٹارے کی تخلیق کی گئی تھی 145 اس کا جادو اب سر چڑھ کر بولنے لگا ہے ۔ہندوستان کے شہریوں نے ابھی اقتصادی اصلاحات کے عنوان پر مہنگائی کی شدید یلغار سے مہلت بھی نہ پائی تھی کہ یکم نومبر2012 سے دہلی سمیت4 بڑے شہروں میں کیبل پر ٹی وی دیکھنا بند ہوچکا ہے جبکہ ہندوستان کے بقیہ علاقوں میں بھی یہی صورتحال پیش آنے والی ہے۔عوام کواس کا فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو البتہ ڈی ٹی ایچ کاروبار میں مصروف کمپنیوں کے علاوہ سیٹ اپ باکس کی تجارت میں مصروف اداروں کو کتنا نفع پہنچا ہو گا145 یہ تحقیق طلب موضوع ہے جبکہ مرکزی دارالحکومت میں سیٹ ٹاپ باکس کے سلسلہ میں خوب گہما گہمی نظر آئی ۔ عام صارفین الجھ کر رہ گئے کہ یہ کیا قصہ ہے ۔رہی سہی کسر اس اطلاع نے پوری کردی کہ امریکہ میں ایک ایسے سیٹ ٹاپ باکس پر قانونی تنازع شروع ہو گیا ہے جس سے ناظرین ریکارڈ کئے گئے پروگرام کو بغیر اشتہارات کے دیکھ سکتے ہیں۔ڈش نیٹ ورک کے ہوپر ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر کو امسال شروع کے ایام میں لانچ کیا گیا تھا۔ امریکہ کے تین برڈکاسٹر فاکس، این بی سی اور سی بی ایس نے ڈش نیٹ ورک کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے، تاکہ ناظرین اشتہار کو دیکھیں۔ وہیں ڈش نے بھی الگ سے مقدمہ دائر کیا ہے تاکہ عدالت اشتہار چھوڑنے کو جائز قرار دے۔میڈیا اداروں کو ڈر ہے کہ اگرناظرین اشتہار نہیں دیکھیں گے، ان کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہی ختم ہو جائے گا۔ 10مئی کو ہوپر ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر میں ایڈ ہاپ نام کی ایک اور خصوصیت کا اضافہ کر دیا گیا۔ اس سے ناظرین ان تمام پروگراموں کے اشتہارات کو ہٹا سکتے ہیں، جو انہوں نے ریکارڈ کئے ہیں۔ ٹیلی ویژن نیٹ ورکوں نے نہ صرف الگ الگ مقدمے دائر کئے بلکہ یہ دلیل بھی پیش کی کہ اشتہارات کو اس طرح سے باہر کرنا غیر قانونی ہے کیونکہ یہ کاپی رائٹ پروگرام کاغیر مجازی ایڈیشن ہوگا۔ فاکس نے دعوی کیا ہے کہ بغیر اشتہار کے پروگرام کو دیکھ کر پروگرام کا دوبارہ نشر کرنا ہوگا جو کہ ڈش کا ان کی کمپنی کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے اشتہارات کی طرف سے ہونے والی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں جبکہ2017 تک دنیا میں اشتہارات پر کل 200 ارب ڈالریعنی تقریبا 11 ہزار ارب روپے خرچ ہونے کاتخمینہ ہے۔


پانچوں انگلیاں گھی میں

اطباء حضرات بطلے ہی ٹیلی ویژن کی خرابیاں گنواتے ہوئے نہ تھکتے ہوں لیکن کیبل ٹی وی کی بجائے سیٹ ٹاپ باکس لگانے کی آخری تاریخ کو صورتحال بڑی دھماکہ خیز تھی جب کیبل آپریٹروں کے 146دفتروں145 پر صارفین کے مجمع نظرآیا۔ٹی وی مکمل طور پر کیبل سے کٹ کر سیٹ ٹاپ باکس کے قبضہ میں آچکا ہے۔ جیسے جیسے تاریخ قریب آتی رہی، کیبل آپریٹروں میں بھی سیٹ ٹاپ باکس لگانے کی جیسے جنگ چھڑگئی ۔ کوئی کیبل آپریٹرمفت میں سیٹ ٹاپ باکس فراہم کر رہا ہے تو کوئی قبل از وقت کیبل کی نشریات بند کرکے لوگوں پر سیٹ ٹاپ باکس لگانے کادباؤ ڈالنے لگا۔بعض کیبل ایکسپرٹ ان سیٹ ٹاپ باکسوں کو تکنیکی لحاظ سے پوری طرح 146آؤٹ ڈیٹیڈ باکس145Out dated Box بتلا رہے ہیں جبکہ سیٹ ٹاپ باکس فراہم کرنے والے سرورس پروواڈر Service Provider ان بکسوں کی تعریف کر رہے ہیں۔اس دوران سیٹ ٹاپ باکس کے نفاذ کے بعد بھی لوگوں کو تمام چینل نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یہی عالم کیبل کے ذریعے ٹی وی دیکھنے والوں کا بھی ہے۔ چینل فراہم کرنے والوں کو دعوی تھاکہ یکم نومبر کے بعد یہ ساری مشکلات دور ہو جائیں گی۔ صارفین سیٹ ٹاپ باکس کی قیمت پربھی تشویش میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ کیبل آپریٹروں نے سیٹ ٹاپ باکس لگانے کی قیمت 500 روپے سے لیکر 1800 روپے تک وصول کی ہے۔ صارفین کی اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ انہیں کیبل آپریٹر کچھ نہیں بتا رہے ہیں کہ کتنا بل ادا کرنا پڑے گا۔نجف گڑھ علاقہ سمیت شہر کے کئی علاقوں میں تو کیبل آپریٹر فی الحال لوگوں کے گھروں میں فری سیٹ ٹاپ باکس لگائے جبکہ آپریٹروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ لوگوں سے ماہانہ خرچ بڑھا کر اس کی قیمت وصول کی جائے۔ فی الحال مقابلہ کے ماحول میں صارفین سے کوئی چارج نہیں لیا گیا۔تہاڑ جیل کے قریب واقع مشرقی ساگرپور علاقے میں لوگوں پر سیٹ ٹاپ باکس لگانے کا پریشر بنانے کیلئے دو دن پہلے سے ہی کیبل ٹی وی کے چینل بند کر دیئے ہیں۔ یہاں لوگوں کی شکایت ہے کہ انہوں نے سیٹ ٹاپ باکس نہیں لگایا تو کیبل ہی نہیں آ رہا ہے۔ اس کے برعکس کچھ علاقوں میں سیٹ ٹاپ باکس کے نفاذ کے بعد بھی کافی چینل غائب ہو گئے ۔ اس طرح کی شکایات میور وہار، پٹ پڑگج، سری نگر، آچاریہ نکیتن، آئی پی ایکسٹنشن اور موج پور145 شکر پور145 لکشمی نگر جیسے علاقوں سے موصول ہوئی۔

سیٹ ٹاپ باکس پر سوالیہ نشان:

کیبل آپریٹرز فیڈریشن آف انڈیا کے صدر شکل شرما کا کہنا ہے کہ جو سیٹ ٹاپ باکس لگائے جا رہے ہیں، وہ ایم پیگ 2 ٹیکنالوجی کے ہیں، جو146آؤٹ ڈیٹیڈ ہو چکی ہے۔ مارکیٹ میں آج کل ایم پیگ 4 ٹیکنالوجی تک کے سیٹ ٹاپ باکس آ چکے ہیں۔ یہ سیٹ ٹاپ باکس بی گ ای ای ریٹنگ کے نہیں بھی ہیں۔ یعنی انہیں لگانے سے کتنی انرجی خرچ ہوگی، اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اندازہ ہے کہ ایک سیٹ ٹاپ باکس لگانے سے ہر مہینے 18تا20 واٹ بجلی خرچ ہوگی، جس سے 
صارفین کے بل میں 100 روپے تک کا خرچ مزید بڑھاہے ۔ سیٹ ٹاپ باکس کی مرمت اور سروس صارفین کو خودکروانی ہوگی جبکہ اس کام کیلئے ابھی سروس سینٹر نہیں بنائے گئے ہیں۔

صارفین کوکیا فائدہ ہوا؟

ڈی جی کیبل کے ملٹی سسٹم آپریٹر اوم پرکاش لاکڑا کے بقول سیٹ ٹاپ باکس لگانے سے صارفین کومن پسند چینل دیکھنے آسان ہیں جبکہ100 روپے میں کم از سے 100 چینل دیکھنے کو مل جائیں گے۔ چونکہ مقابلہ ہے145 اس لئے لوگوں کو سیٹ ٹاپ باکس 146سستی شرح145 پر فراہم کئے جا رہے ہیں۔ بعض جگہ فری بھی دئے جا رہے ہیں۔ سیٹ ٹاپ باکس کیلئے جگہ جگہ سروس سینٹر بھی بنائے جا رہے ہیں۔مغربی دہلی کے کیرتی نگر، مایاپوری اور نجف گڑھ میں ایسے مرکزموجود ہیں۔

کیا ہے سیٹ ٹاپ باکس کی تکنیک؟

آئی ایم سی ایل کمپنی میں سینئر انجنیئر ونود وادھوا کا کہنا ہے کہ سیٹ ٹاپ باکس کے نفاذ کے بعد کیبل کے مقابلے پکچر کوالٹی میں 100 فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ فی الحال ایس ڈی اور ایچ ڈی سیٹ ٹاپ باکس دستیاب ہیں۔ایس ڈی سیٹ ٹاپ باکس میں کیبل نظام سے براہ راست ڈیجیٹل کی تجویز ہے جبکہ اس میں کچھ کھیل اور چینل انتخابات بھی کئے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک ایچ ڈی سیٹ ٹاپ باکس کا معاملہ ہے تو اس میں ہائی ڈیفی نیشن پکچر کوالٹی ملتی ہے۔ فی الحال 20 چینل ایچ ڈی ہیں جبکہ لوگوں کو محض 6 چینل ہی ایچ ڈی میسر ہیں۔ لہذا ایچ ڈی میں ایس ڈی سیٹ ٹاپ کے ذریعے آنے والے چینل کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ایچ ڈی آئی سیٹ ٹاپ باکس میں انٹرنیٹ جیسی سہولیات ہوں گی۔ابھی تک یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ ایس ڈی سیٹ ٹاپ باکس کی قیمت 500 روپے سے لیکر 1700 روپے تک بتائی جا رہی ہے جبکہ ایچ ڈی سیٹ ٹاپ باکس کی قیمت 2 ہزار سے لے کر 3 ہزار روپے کے درمیان ہے۔

الگ الگ پیکج کی مار:

کیبل آپریٹر سیٹ ٹاپ باکس لگانے پر صارفین کو الگ ۔ الگ پیکیج مہیا کروا رہے ہیں۔ سب سے کم پیکج 100 روپے کا ہے۔ تاہم ٹیکس کے نفاذ کے بعد اس کی قیمت بھی 132 کے قریب پہنچے گی۔ اس میں 100 کے قریب چینل ہوں گے لیکن اس پیکج میں دوردرشن اورعلاقائی چینلوں کی بھر مار ہونے کاخدشہ لاحق ہے جبکہ دوسرا پیکیج 200، تیسرا پیکیج 300 اور چوتھا پیکج 400 روپے کا ہے۔ ان میں ٹیکس علیحدہ ہے۔

ڈی ٹی ایچ بہتر یا کیبل؟

اسی دوران کیبل ٹی وی اور ڈی ٹی ایچ یعنی صارف کے گھر پر ڈش نصب کرکے براہ راست ٹی وی پروگرام میسر کروانے کے درمیان جنگ چل رہی ہے اور دوسری جانب ایک عام صارف کیلئے یہ مسئلہ ٹیڑھی کھیر بنا ہوا ہے کہ ڈی ٹی ایچ اور کیبل 
میں سے کسے منتخب کیا جائے جبکہ دونوں کا آپسی موازنہ کیا جائے تو ڈی ٹی ایچ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے، حالانکہ ڈی ٹی ایچ کی بھی اپنی خامیاں بھی ہیں۔

ڈی ٹی ایچ کی خوبیاں:

۔ ٹی وی پر پروگرام دیکھنے میں لطف آتا ہے۔ صاف پکچر نظر آنے کی وجہ سے آنکھوں پر کم دباؤ پڑتا ہے۔

۔ بجلی چلے جانے پرڈی ٹی ایچ سروس متاثر نہیں ہوتی۔ آپ انورٹر وغیرہ سے نشریات دیکھ سکتے ہیں۔

۔ کیبل کے کنکشن میں برسات کے دوران یا بجلی کڑکنے پر ٹی وی کی پاور سپلائی خراب ہو سکتی ہے۔ پاور سپلائی ٹھیک کروانے میں 600 روپے کے آس پاس خرچ آتا ہے۔ایل آئی ڈی ہے تو یہ اخراجات پانچ ہزار روپے تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ ایسے میں ایل آئی ڈی یا مہنگے ٹی وی والوں کوڈی ٹی ایچ ہی لینا چاہئے۔

کیا ہیں خامیاں؟

۔ نسبتامہنگا ہے۔

۔ انگریزی چینلوں اور اسپورٹس چینلوں کیلئے جیب مزید ڈھیلی کرنی پڑتی ہے۔
۔ ایک بارڈی ٹی ایچ انسٹالیشن کے بعد باری آتی ہے، ان چینلوں کے انتخاب کی جنہیں آپ اپنے ڈی ٹی ایچ کنکشن سے دیکھنا چاہیں گے۔

۔ روایتی کیبل کنکشن کے برعکس،ڈی ٹی ایچ نظام میں آپ من پسند چینلوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
۔ دوردرشن کے تمام چینل اور کئی نجی چینل فری ٹو ائرکیٹگری Free To Air Category کے ضمن میں آتے ہیں یعنی ان کیلئے کوئی فیس نہیں لگتی۔

۔ دوسری طرف زیادہ مقبول چینلوں پر دو روپے سے لیکر 40 روپے تک کی ماہانہ فیس دینی ہوتی ہے۔

۔ زیادہ تر ڈی ٹی ایچ کمپنیوں نے صارفین کی پسند کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ ریڈی میڈ پلان یاپیک بنائے ہوئے ہیں جن میں سے کوئی بھی پلان لیا جا سکتا ہے۔ ایک خاص زمرے میں آنے والے پلانوں کو باسکٹ یا146 بکے145 بھی کہا جاتا ہے۔

۔ ضروری نہیں کہ آپ ان پلانوں میں سے ہی کوئی انتخاب کریں۔ آپ چاہیں تو ہر چینل کا انتخاب کر اپنے پلان خود تیار کر سکتے ہیں۔

*****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 704