donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Aansuyon Ka Safar


 

آنسووں کا  سفر


زبیر حسن شیخ

 

آنسووں کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی حیات انسانی-  بظاہر تو یہ پانی کے چند قطرے ہیں لیکن انسانی جذبات و احساسات کا یہ واحد ایسا  اظہار ہے جسکی تعریف و تعبیر دنیا کے تمام علوم میں یکساں ہیں -   سائینس ہو،   ادب  ہو یا  مذہب،  ہر ایک نقطہ نظر سے آنسووں کی کم و بیش کچھ یہی تعریف سامنے آتی ہے کہ اس کا تعلق نازک احساسات اور جذبات سے ہوتا ہے،  اور مختلف عمل سے گزر کر یہ آنکھوں میں نمودار ہوتے ہیں-   نازک احساسات و جذبات  کے  بادل ذہن کے پہاڑ سے ٹکراتے ہیں تو  قلب میں رم جھم   کا سماں بندھ جاتا ہے،  اور   پھر   چند قطرے آنکھوں کے صدف میں موتی بن کر چمک اٹھتے ہیں ، کبھی  یہ رم جھم اتنی شدید ہوتی ہے کہ آنسو آنکھوں سے  چھلک  پڑتے  ہیں،  اور کبھی اسقدر   کہ   سوتے  پھوٹ پڑتے ہیں -  انسانی زندگی میں آنسووں کی ابتدا کو اگر حضرت آدم سے ما خوذ کیا جائے تو ربنا ظلمنا انفسنا کی پکار کے ساتھ ہی وجود میں آئے ہونگے،   یا پھر شاید   پہلے پہل جب ملائکہ پر انسان کی  افضلیت  ثابت کی گئی ، اور جب وہ سب  سر بسجود ہو گئے تو جذبہ احسان مندی اور احساس تشکر کی شکل میں پہلی بار حضرت آدم کی آنکھوں   میں  تارا  بن کر  نکلے ہوں ،  اور  تب  شا ید   انسانی  قلب نے تشکر اور خوشی کے اظہار میں پہلی بار آنسو بہانا سیکھا ہو-  واللہ   عالم بالصواب ....   ایسے سارے نازک احساسات تخلیق آدم  میں ہی ودیعت کردہ  ہیں اور نازک احساسات کا   ایسا   بار گراں اٹھانا کسی اور مخلوق کا وصف کہاں -  ویسےتخلیق آدم کے بعد ہر ایک انسان  کی پیدائش کے  ساتھ  آنسووں کا نمودار ہونا    ثابت   ہے  ،  اور  یہ واحد ایسا  مو قع ہوتا  ہے  جب  انسان حواس خمسہ کے وجود میں آنے سے پہلے ہی آنسووں  سے  مانوس ہو جاتا ہے، بلکہ احساس درد کی آشنا ئی سے پہلے اسے آنسووں سے مانوس کرایا جاتا ہے-  اسکی بے شمار فلسفیانہ، سائینسی، روحانی اور   توہماتی  توجیہات ہیں،   لیکن ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ  اس طرح خالق حقیقی نومولود سے اسکی  ماں کو خراج عقیدت و تحسین دلوانا چاہتا ہو،اس ناقابل تشریح  درد  زہ پراحسان مندی کا اظہار کروانا چاہتا  ہو جو وہ   پھر کبھی کرنے کے لائق نہیں رہتا- یا پھر  ممکن ہے احساس بے بسی کو انسانی   حافظہ میں  یا اسکے   لاشعور میں پیوست کرنا  مقصود ہو کہ،   اے بشر ! یاد کر وہ بے بسی  جب تو...... بدولت رحم و رحماں کے نمودار ہوا-  یہ اور بات کہ مادیت پرستی کے موجودہ دور میں وہ بے بسی انسان کی یادوں سے کہیں محو ہو تی جا رہی   ہے اور انسانی آنکھوں کے صدف موتی پیدا کرنے سے معذور ہوتے جارہے ہیں-

ادب میں آنسووں کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود ادب-  بشمول اردو ادب،   ادب کی ابتدا  نازک احساسات اور جذبات کی رہین منت رہی ہے جن سے مذکورہ  موسم ظہور میں آتا   ہے -   اس اندرونی موسم کا اثر ادیب و شاعر پر عام انسانوں سے قدرے مختلف ہوتا ہے ، جہاں  ان  موتیوں کو نوک قلم سے چن کر تحریر میں منتقل کیا جاتا ہے-  دنیا کی تمام اولین شاعری اور نثریات اس کا مبین ثبوت ہے-  افکار و وجدان اور قلم و تحریر کے درمیان پائے جانے والے تمام مراحل اسی موسم کے زیر اثر آتے ہیں ، بلکہ اسی موسم میں خالص ادبی تخلیقات کا وجود میں آنا ممکن ہوتا رہا ہے،  اور ادیب و  شاعر   پر تخلیق کا کرب آشکار ہوتا   رہا ہے -   اردو شاعری میں میر و غالب سے اقبال و فانی، اور جوش  و فرا ق  سے   فیض و فراز تک بلکہ منیر و بدر تک،  اور اردو نثر میں میر امن دہلوی، حیدری و سرور سے غالب و حالی و شبلی و سر سید تک، آزاد و نذیر، سرشار و شرر سے لے کر خواجہ حسن نظامی اور آغا حشر کشمیری تک، نیاز فتح پوری اور رشید احمد صدیقی سے بیدی و کرشن اور محی الدین قادری تک ،   نوک قلم سے  اشکوں کے موتی پروئے گئے ہیں- کبھی کہانی، داستان، تراجم، تواریخ، مضامین، ناولز، افسانے، مراسلے،  خطوط اور ناٹک تحریر کر تو کبھی صحافتی، تحقیقی،تنقیدی، سیاسی، علمی ،  مذہبی تصنیفات تحریرکر-   

الغرض اردو نثر کو آنسووں سے مسلسل منور رکھا گیا ہے-  تمام ادبا نے اپنے ادبی سفر کی ابتدا ایسے ہی کسی اندرونی موسم سے متاثر ہو کر کی ہے-  بلکہ اکثر و بیشتر سائینسی تخلیقات اور ایجا دات کا موجب بھی یہی موسم رہا ہے- حکمت و دانش کے حصول کو بھی یہی موسم راس آتا ہے-  انسانیت کی معراج میں اسی موسم نے اہم کردار ادا کیا ہے-  نہ جانے انسان کے اندر اگر یہ موسم  آنا    بند ہو جائے تو کیا ہو؟   شاید کائنات ہی تھم جائے!  یہ موسم صرف دکھ درد کے احساسات پر ہی موقوف نہیں ہے بلکہ حضرت انسان کو خوشیوں میں، گناہ و ثواب میں، رشک و حسد میں، غصہ و طیش میں، محنت و عیش میں، کبهی غربت میں تو کبھی مجبوری میں اور کبھی فراغت میں بھی ایسے موسم سے متاثر ہوتے دیکھا گیا ہے،  نازک احساسات کو اشکوں کی شکل میں نمودار ہوتے دیکھا گیا ہے ،   آنکھوں کے صدف میں سے موتیوں کو پھوٹتے دیکھا گیا ہے-  میر تو ساری عمر اسی اندرونی موسم کے تحت افکار و وجدان کے مراحل طے کرتے رہے... کیا کچھ نہ کہا کہ... آنسو میرے آنکھوں میں ہردم جو نہ آجاتا..... تو کام مرا اچھا، پردے میں چلا جاتا- اور یہ بھی کہ.....مینھ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے.....اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی... آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہی.....درد مندی میں گئی سارے جوانی اسکی..... مرزا اس ضمن میں ایک طرح   کا  غرور عاجزانہ رکھتے تھے اس لئے میر کی طرح اشعار کو اشکوں میں تر کر کچھ نہ کہا،  بلکہ زندگی بھر اشکوں کو اشعار  میں  کہیں رو پوش کرتے رہے کہ......خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ.....رہنے دے  مجھے یاں  کہ ابھی  کام بہت ہے-  حالی نے تو مسدس حالی اسی موسم کے تحت تمام کی اور خوب آنسوں بہائے،  اپنے بھی اور قوم و ملت کے بھی- علامہ کا حال مرزا سے کچھ مختلف نہ تھا گرچہ غرور سے پاک رہے، انکے آنسووں کو  حق آشنائی  سے پیدا شدہ عجز نے اندر ہی اندر پی لیا ،  انکے اشک نہ ہی آنکھوں تک آئے اور نہ ہی لفظوں میں سمائے،  وہ تو جنبش نظر کے بھی روادار نہ تھے چہ جائیکہ اشکوں کو آنکھوں تک آنے دیتے، فرمایا، یہ رسم بزم فنا ہے ے دل، گناہ ہے جنبش نظر بھی... رہے گی کیا آبرو ہماری، جو تو یہاں بے قرار ہوگا -  .... یہی وہ اندرونی موسم ہے جو مختلف طور سے کائنات کی تکمیل میں کار گر نظر آتا ہے -  اردو نثر میں بہ عنوان "تحفے" ایک خوبصورت   کہانی  لکھ کر مضمون نگار نے مختلف آنسووں کی اہمیت کو واضح کیا،    مختلف آنسوو ں  کے تحفے  بارگاہ   ایزدی  میں پیش  کئے-  اپنے ملک کی خاطر اپنی معشوق سے بچھڑتے ہوئے عاشق کے آنسووں کے مقابلے قفس میں قید روتے ہوئے پرندے کے آنسووں کو بار گاہ الہی میں قبولیت دلوا دی، اور اس طرح آزادی کے احساس کو ایک بہترین پیرائے میں پیش کر دیا- انسانی  بے بسی کو آنسووں کی خود کشی سے موسوم   کر کسی شاعر نے کیا خوب قطعہ تخلیق کیا کہ : شب فراق کی تنہایوں سے اکتا کر....سمٹ کے آگئے پلکوں پہ دل کو ٹھکرا کر....بہت تلاش کیا تم کو ہر جگہ جا کر.....نہ پایا  یاں بھی...... تو پھر فرط غم سے گھبرا کر.......ٹپک کے پلکوں سے......اشکوں نے خود کشی کر لی!!-  اردو ادب میں بے شمار تخیلات و تخلیقات ہیں جو آنسووں کی رم جھم میں تحریر کی گئیں ہیں،   اور جناب بشیر بدر کا  یہ   لا زوال شعر  اس کی  غمازی  کرتا ہے کہ... جسے لے گئی ہے ابھی  ہوا،  وہ ورق تھا دل کی کتاب کا.. کہیں آنسوں سے لکھا ہوا، کہیں آنسووں سے مٹا ہوا ....

عمو می طور دیکھا جائے تو اب   مادیت پرستی کے اس جدید   دور نے اشکوں کے موتیوں کی قدر و قیمت کم کر دی ہے-  اب وہ اندرونی موسم بھی نہیں آتے جو قلب میں رم جھم کا سماں باندھے، اب تو بیرونی موسم بھی  مادی  ارتقا، تہذیب و تمدن  اور   لا یعنی  تغیر کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں-  اب افکار کی زمین میں قحط کا عالم ہے جہاں نازک احساسات کے بادل ذہن کے پہاڑوں سے نہیں ٹکراتے، آنکھوں کے صدف موتیوں سے خالی ہوتے جا رہے ہیں،   حیات انسانی بے حسی کے ایسے دور سے گزر رہی ہے کہ بے کسی اور بے حسی کا فرق کھو بیٹھی ہے-  حالانکہ درد و الم اور  آہ بکا سے  انسانی  زندگی   اب بھی خالی کہاں !   چاہے   غریب ہو  یا امیر ، اب  اکثر  انسان بغیر آنسو بہائے ہی  روتا اور کڑھتا ہے  ،     اب  احسا سات  اور جذبات  میں نزاکت  اور وہ  گداز   باقی    نہیں رہا، مفاد پرستی اور خودغرضی، سہل پسندی اور سرد مہری نے افکارات کی زمین بنجر کر رکھی ہے،  اور اس سے ہر خاص و عام متاثر ہوا ہے-  اب کارخانہ حیات کے ادنی پرزے نظام حیات پر حاوی ہو چکے ہیں،  سیاست اور سائینس، تجارت اور صنعت و حرفت نے کچھ یوں پر نکالے ہیں کہ اخلاق و اقدار، روحانیت و انسانیت اپنی پرواز ہی  کھو بیٹھے-  خیر  و ایمان  کا عنصر    مفقود  ہوتا جا رہا ہے اور   اس کے ساتھ  انسانی زندگی  میں  توازن بھی -   اب آنسووں کے موتیوں کے   نذرانے   غیروں کے لئے  کجا   اپنوں کے لئے بھی پیش نہیں کئے جاتے-   اب آنسو صرف مظلوموں کی آنکھ کا تارا بنتے ہیں ، اور ظالم تو ظالم ٹہرے  تماش بین بھی ان موتیوں  سے محروم ہوتے جارہے ہیں، مظلوموں کے آنسووں سے اب کوئی متاثر   نہیں ہوتا،   انسان اس قدر مہذب اور ترقی یافتہ ہوتا جارہا ہے کہ اسے کسی دوسرے انسان کے آنسووں پر آنسو بہانا غیر مہذب معلوم ہوتا ہے،   وہ  اپنی  تکالیف پر خالق حقیقی  سے گریہ  و زار ی تو  کر تا ہے لیکن   دوسروں   پر ہوتے ظلم   کو دیکھکر   چلتا بنتا ہے -   نازک احساسات تہذیبی ارتقا کے ساتھ  ساتھ مفقود ہوتے جارہے ہیں- مادی ترقی کے طوفان نے نازک احساسات اور جذبات کے بادلوں کو کہیں دور اڑا دیا ہے، عدل و انصاف کے ترازو کو  متزلزل کر دیا ہے اور خیر و شر کے پیمانوں  کو زنگ آلود -      اہل اقتدار و سیاست، امرائے صنعت و تجارت  سب  عالم دوبارہ نیست کے نشے میں اندھے ہو چکے ہیں،  اکثر  و بیشتر اہل علم و دانش جن کی بصارت  الحمد الله  زندہ ہے،  لیکن بصیرت شا ید  مرتی جا رہی ہے اور وہ  ایکدوسرے  کی  عیب  جو ئی  میں غرق  رہتے  ہیں ،    اکثر  اہل ادب تنقید اور تنقیص کا فرق کھو چکے ہیں اور قلم کی نوک سے موتی چننے سے  اب قاصر  نظر  آتے  ہیں -   غور سے  دیکھیے  تو محسوس  ہو گا کہ  اکثر  بغیر روح کی انسانی  لاشیں زمین پر چلتی پھرتی نظر آتی ہیں ،   انسانیت روح کے ساتھ جسم  کا ساتھ چھوڑ کہیں دور کھڑی آنسوبہا رہی ہےاور   شیطان  ا نسان کے اندر  کہیں   بیٹھ کر ہنس رہا ہے -  اب آنسووں کا سفر اپنے آخری پڑاو میں نظر  آتا  ہے-  اب پھر  ربنا   ظلمنا  کی پکار  ضروری ہے ، اب پھر  وہی   بے بسی  کی   یاد  دہانی ضروری  ہے  کہ ،  اے بشر ! یاد کر وہ بے بسی  جب تو...... بدولت رحم و رحماں کے نمودار ہوا-   اب  پھر حضرت انسان  کو خود احتسابی  کرنا   ہوگا کہ،  حق کسی  کا  گر ہے با قی تجھ پر ....تب وہ تجھ کو بڑی  سزا دے گا -   کیوں پشیماں ہے  خون روتا ہے ....اپنا حق تو وہ خود بھلا دے گا – کیا  خطا  کار کیا  عالم  زاہد ....حشر میں  انصاف وہ فرما دے گا -  کون جانے ہے  کون پار لگے .....کیا پتہ  کس کو کب وہ کیا دے گا -  ترے آنسو  کا  اک قطرہ اے  دل........ پلڑا  انصاف کا جھکا دے گا –

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 724