donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Sharafat wa Qabliyat Aik Nayab Nuskhaye Kimiya


 

شرافت و قابلیت ایک  نایاب نسخۂ کیمیا


زبیر حسن شیخ 


شرافت کی تعریف عام بول چال کی زبان میں یوں تو بڑی سادہ اور آسان سی ہے لیکن فی الحقیقت اس میں گہرے رموز و نقاط پوشیدہ ہیں اور یہ ایک وسیع المعنی صفت ہے-   صفت شرافت کسبی ہے یا وہبی،  عارضی ہے یا مستقل  ,  محتاج تصدیق ہے  یا محتاج تفتیش، ان سب کا دارو مدار شخصیت، حالات اور واقعات پر ہوتا ہے-   اس میں  کو ئی شبہ نہیں کہ انفرادی طور پر انسان کے لئے اور اجتما عی طور پر خاندان، جماعت، معاشرہ،  ملک اور من جملہ نظام حیات کے لئے شرافت کا کوئی نعم البدل نہیں- لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شرافت فی نفسہ نظام حیات کے کامیاب نفاذ کے لئے تنہا اکسیر ثابت نہیں ہوسکتی  اور قابلیت یا اہلیت کی محتاج رہتی ہے-   اور یہی   حقیقت  قابلیت کی بھی  ہے کہ وہ  بنا  شرافت   غیر مکمل، نا پائیدار ، غیر مثبت  اور نقصاند ہ  ثا بت  ہو سکتی  ہے -   کارخانۂ حیات کے  جا ری  و ساری  رہنے کے لئے  مختلف اقسام کی قابلیت و اہلیت درکار ہے،    مختلف اداروں اور تنظیموں کے لئے   لاکھوں اقسام کے قابل اہل علم و فن  کی خدمات   درکار  ہیں، اور قابلیت اور اہلیت کے بغیر اس کارخانہ حیات کا عروج اور تہذیبی ارتقا کا تصور بھی محال ہے - با ایں   ہمہ، نظام حیات کے کامیاب نفاذ اور کارخانہ حیات  میں   مثبت نتایج پیدا کرنے کی یقین دہانی   صفت  قابلیت نہیں کر سکتی  ،  اور نہ  ہی  عدل و انصاف اور بھلا ئی کی یقین دہانی کر سکتی  ہے،  ایسی     یقین دہانی   کے لئے  شرافت  کا ہونا  اشد   ضروری ہے ،   تاکہ قابلیت سے  پیدا ہونے والے ممکنہ منفی اثرات سے انسانیت کی حفاظت ہو ، انسانی تہذیب و تمدن کو عزت و وقار  حاصل ہو،  اور قابلیت  سے  پیدا ہونے والے  منفی اثرات کو   شرافت  سے   مثبت کرلیا    جا ئے،  کیونکہ یہ کمال   صفت صرف شرافت میں پائی جاتی ہے- وقا ر  و احترام سے  عاری  تہذیبی ارتقا  کا ثبوت  موجودہ   مادی   دور میں ہر جگہ نظر آتا ہے  جو خالص قابلیت  اور اہلیت کی  بنیاد  پر  رواں دواں ہے،   او رجو نتائج سے بے خبر، بے پرواہ  ،  اور تمام تر برائیوں  سے  لیس   ہے -  اس   ترقی  کی رفتار  بھی دن بدن تیز تر ہوتی  جا رہی   ہے اور  بے قابو بھی -   اب اسے قابو  میں کرنے کے لئے  شرافت  کا    اعلی  تناسب  از حد ضروری   ہوگیا ہے، اور یہ جتنا زیادہ ہوگا اتنی  ہی قابلیت  کو کامیابی  حاصل ہوگی اور مثبت نتایج بر آمد ہونگے   ، اور  جو عدل و انصاف  پر مبنی  ہونگے   –

تاریخ اورلغت کے اعتبار سے صفت شرافت مفرد اور مرکب دونوں طرح مستعمل رہی ہے اور اس کے معنی شریف النفسی، بزرگی، اچھا ئی، نیکی سے لئے جاتے ہیں اور  کئی  دیگر صفات کی اس سے مطابقت بھی   ثابت ہے، جیسے رحمدلی، انسانیت،  رواداری ،  ایمانداری، حلم، پرہیز گاری، زہد و تقو ی،  بے  غرضی ،    حسن اخلاق وغیرہ....  ادبی نقطہ نظر سے شرافت طنز و مزاح، تشبہ اور بطور استعارہ بھی مستعمل ہے-  مذہبی عقاید اور آسمانی صحائف کے مطابق شرافت کی صفت یوں تو انسان میں ودیعت کردہ ہے اور انسان پیدائیشی طور پر شریف النفس واقع ہوا ہے، اور  شرافت کے بیج   اسکی زرخیز   مٹی  کا حصہ  ہیں  ، صرف  انسان کو   اسکی  آبیاری   اور   اسے پروان  چڑھانے  اور   پھیلانے کی ضرورت  ہے   اور اس  کا انسان کو مکمل    اختیار دیا گیا ہے - بے شمار معلوم و غیر معلوم صفات کی بنا  پر انسان اشرف المخلوقات کہلاتا   ہے،  جس میں صفت شرافت بشمول مذکورہ بالا  تمام معنوں کے شامل ہے- دیگر کئی ودیعت کردہ صفات کی طرح صفت شرافت  بھی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیز کرتی ہے- جمادات اور جانوروں میں صفت شرافت کے پائے جانے کے امکانات غیر منطقی ہیں گرچہ بطور تمثیلات اس کا اطلاق جانوروں کی صفت بیان کرنے میں بھی کیا جاتا ہے-  اسی طرح شیطان میں بھی شرافت کا وجود بے معنی اور غیر منطقی ہے اور  شیطانیت  شرافت  کی ضد  واقع  ہو ئی ہے -  گرچہ   آسمانی   صحائف  سے  اس بات کا اشارہ    ملتا ہے  کہ شیطان  اپنے  وجود کے ابتدا ئی دور  میں  شرافت کا حامل رہا ہوگا،   اور   پھر  تکبر ، حسد اور نا فرما نی   جیسی   خامیوں  کے با عث  شرافت کا وصف اس سے  جاتا رہا ہوگا، اور  پھر  وہ کبھی اس وصف  سے بہرہ  مند  نہ  ہوسکا ہوگا،   بلکہ  اپنی ضد  میں   صفت شرافت کی  ضد  ثابت ہوگیا -  اس سے یہ نکتہ  بھی  سامنے آتا ہے کہ شرافت  کی پرورش  ضروری ہے اور  یہ ودیعت  کردہ   وصف  مذکورہ   خامیوں    کی بنا پرزائل بھی   ہوسکتا ہے –    شیطان کے  علاوہ   وہ ماورا ئی مخلوق   جو انسانوں کی طرح قضا و قدر، اور اختیار و جوابدہی  سے مستشنی نہیں ہیں ان میں شرافت کا پایا جانا ممکن ہی نہیں بلکہ ضروری ہے-  مخلوقات  کی   دو  قسم  ایسی  ہے جن میں ایک ملائکہ اور دوسرے انسان،  جن پر شرافت کی صفت کا اطلاق اتم ہوتا ہے،  اور جس کی بنا پر یہ دونوں تمام مخلوقات میں افضل قراردئے جاتے ہیں – ان میں انسان ملائکہ سے افضل قرار دیا  گیا ہے   لیکن اس افضلیت کا اطلاق انفرادی طور  پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہوتا ہے-  عموما کوئی انسان تن و تنہا  اس افضلیت کا دعویدار نہیں ہوسکتا، الا اسکے کہ کوئی  اپنے اندر وہ تمام خصوصیات رکھتا ہو جو اشرف المخلوقات ہونے کی کسوٹی پرپوری اترے-  
 
قابلیت   بھی  ایک وسیع  المعنی  صفت  ہے  لیکن  بر عکس  شرافت  کے  محدود  اثرات  کی حامل ہے  ، گرچہ یہ ہر ایک نقطہ نظر سے کسبی ہے اور  شدید خواہشات، محنت و مشقت، مسلسل لگن، علمیت، صلاحیت، تجربہ، پیشہ، عبور، مشاقی کی آئینہ دار  ہو تی   ہے - ہر ایک مخلوق میں اسکے حصول اور فروغ کا  مادہ  رکھا گیا ہے اور اس کی چند اقسام ایسی بھی ہے جو موروثی ہے،  اور نسل در نسل فروغ پاتی  ہے- شیطان کی  مذکورہ  مثال   سے یہ بھی   ثابت  ہوتا ہے کہ   شیطانیت   بھی  اپنے اندر  قابلیت  رکھتی   ہے  مگر  منفی اور نقصان دہ  رکھتی  ہے - صفت قابلیت منفی  یا   مثبت ہوسکتی ہے اور اسی مطابقت سے اپنا اثر بھی قائم کرتی ہے  جبکہ صفت شرافت فی نفسہ منفی نہیں ہوتی  اور  صرف اور صرف مثبت اثر رکھتی ہے، بلکہ اس کا اعلی تناسب منفی قابلیت کو بھی مثبت بنا دیتا ہے...... اور یہی وہ کیمیا ہے جو کارخانہ حیات میں مثبت  اور  دیر پا کامیابی کی دلیل ہے، پھر چاہے اس کا استعمال نظام مملکت یا سیاست کے لئے ہو یا نظام خاندان کے لیے یا  دین ومذہب کے لئے یا نظام تعلیم و تدریس کے لئے یا پھرتجارت کے لئے- اس نقطہ نظر سے ظاہر ہے یہ مرکب جرائم اور گناہ اور منفی اعمال کو   انجام دینے  میں موثر نہیں ہوسکتا ،  بلکہ  یہ  مرکب منفی اثرات  کوزائل کر   مثبت اثرات پیدا کرسکتا  ہے -  یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مذکورہ دونوں صفات میں سے کو ئی ایک صفت اکسیر   اعظم  یا   نسخہ کیمیا   نہیں  ہوسکتی-  شرافت بنا قابلیت  مثبت  کامیابی  کے   بے حد  قلیل امکانات  رکھتی ہے مگر مکمل ناکامی کے امکانات بلکل بھی نہیں رکھتی   جبکہ قابلیت بنا  شرافت  بھلے ہی کامیابی کے  امکانات  رکھتی   ہو  لیکن نقصان دہ کامیابی  کے امکانات زیادہ  رکھتی  ہے-   شرافت و قابلیت کی کیمیا اکسیر ہوتی ہے اور بہترین اور دیرپا نتائج بر آمد ہوتے ہیں اور  قرون خیر کی تاریخ  اس نسخہ کیمیا  کی گواہ ہے - 


تمہید کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فی الحقیقت شرافت و قابلیت ایک نسخہ کیمیا اوراکسیر اعظم ہے- لیکن سوال یہ ہے کہ یہ موجودہ دور میں نایاب کیوں ہے،    خاصکر جب یہ  انسا نی تہذیبی ارتقا کا سب سے سنہرا دور کہلایا جاتا ہے؟  قابلیت  کے منفی اثرات سے ہی آج کارخانہ حیات میں فتنہ و فساد برپا ہے اور اس کا سد باب کیا جانا ضروری ہے- قابلیت شرافت  کی محتاج نہیں ہوتی لیکن نظام حیات کے نفاذ کے لئے صرف قابلیت پر انحصار کرنا خطرناک ہے، اور اس کا ثبوت تہذیب جدیدہ میں مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے ،   کہیں  قابلیت کو شرافت  بنا کر پیش کیا  جاتا ہے اور  کہیں   شرافت کو قابلیت -  ان متضاد   کیفیات اور  حالات    سے  منفی   نتایج ظاہر   ہورہے ہیں -  غور طلب  بات یہ ہے کہ تہذیب جدیدہ میں شرافت یا شریف آدمی کی  جو  تعریف پیش کی  گئی  ہے وہ بے حد محدود ہے،   اوراس میں اخلاق، بناؤ سنگھار، برتاؤ اور دکھاوے کے آداب اور   خوش گفتاری کا زیادہ دخل ہوتا ہے اور روحانیت  کا عمل   دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے-   کہیں  اہلیت اور قابلیت کے کڑے پیمانے ہیں اور جس سے  سمجھوتہ نہیں کیا جاتا   اور کہیں  شرافت کے سخت پیمانے ہیں  اور  جن سے سمجھوتہ بہ آسا نی کر لیا  جاتا ہے- 

عالمیت   اور جہانگیریت   کے اس  نام نہاد   مادی   دور میں یوں تو نظام حیات  کی  اکثر  و بیشتر ضروری  اشیاوں  کو   اور مختلف اصول و ضوابط    کو  ایک عالمی  معیار  اور پیمانہ  عطا کیا گیا ہے،  اور اس میں قابلیت اور اہلیت  کے پیمانے بھی  شامل ہیں ، لیکن   شرافت  کا عالمی پیمانہ  یا    ایک عالمی  کسوٹی متعارف  کرنے سے احتراز برتا گیا ہے ، جبکہ اس   کا  ہونا بے حد ضروری ہے- افسوس  کہ   یہ کسو ٹی   موجود نہیں ہے اور جس کی وجہ سے   آج  کارخانہ  حیات   کے اکثر   زمرے    ،   اکثر شعبے     اہلیت اور قابلیت پر منحصر ہیں  ،  اور جن میں شرافت  کا  یا تو    عنصر بلکل بھی  موجود نہیں  ہے  یا پھر موجود ہے تو وہ تناسب موجود  نہیں جو مثبت نتائج فراہم کرے -  اور   جس کا انجام  آج دنیا دیکھ رہی  ہے-  اسکی بہت سی  وجوہات ہیں لیکن  ایک خاص وجہ یہ کہ  صفت   شرافت کو  عقائد  اور  اخلاقیات کی  کسوٹی  پر پرکھا نہیں جاتا بلکہ    دولت،    حکومت،  سیاست  ا ور تجارت  کے ترازو میں تولا جاتا ہے  -   جس کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ   شرافت  کا روحانیت سے کوئی سروکار نہ رہا اور  یہ    مادیت کے پیمانوں پر   اسقدر  تولی  جا چکی  ہے کہ   اپنی اصلیت  اور اپنا رنگ و روپ  کھو چکی  ہے اور اب   نئی  نسلوں  کو یہ   غلط  ر نگ میں نظر آرہی  ہے -
 
کار خانہ حیات  کے مختلف  شعبوں  میں  شرافت و قابلیت کی کیمیا  کا   اگر  اجمالی  تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ  انسا نی  تہذیبی  ارتقا  کس سمت گامزن ہے - حکومت و سیاست میں شرافت کا تناسب   نہ کے برابر  ہے اور قابلیت اور اہلیت دونوں   کی جدید تعریف    لکھ  دی گئی ہے ، جس  کے نتایج اظہر من الشمس  کی طرح  عیاں   ہیں -  میدان تجارت  میں   قابلیت  و  اہلیت کا  تناسب   بے حد  قوی  ہے اور   شرافت  کو مسخ کر   اسے  قابلیت   میں ضم کردیا گیا ہے  ...... تعلیم و تدریس کے شعبے  میں   اسقدر  انتشار  برپا ہے کہ شرافت   اور قابلیت  میں فرق کرنا محال  ہے ،    اور  اس کا یہ اثر ہوا ہے  کہ علم و ادب میں  وقت کے ساتھ ساتھ  شرافت و  قابلیت  کی تعریف   ہی بدل کر رکھ   دی   گئی   ہے،  اور  ایسے تمام شعبے  سیاست  کے زیر اثر  فروغ پا رہے   ہیں جس   کے  منفی  اثرات  نظام  حیات  کے دوسرے حصوں پر  بھی نمودار ہورہے ہیں -  فنون  لطیفہ  اور ذرا ئع ابلاغ  میں   کبھی  شرافت  کو قابلیت بنا کر دکھا یا جاتا ہے تو کبھی  قابلیت کو شرافت ،  اور   کارخانہ حیات  کا  یہ  شعبہ جو   تہذیب جدیدہ    کا علمبردار  ہوا کرتا تھا   اب سیاست   و تجارت کا زر خرید  غلام ہے ، جسکے اثرات  گھر گھر    نمایاں ہیں،  اور  جس نے اب  گھر کو گھر نہیں رہنے  دیا ،  وہ   گھر جو  کبھی  ابتدا ئی   درس گاہ  ہوا کرتے تھے اور جہاں یہ کیمیا     گھٹی میں   پلا ئی جاتی  تھی ،  وہاں  بلا امتیاز    منفی  و مثبت اہلیت اور قابلیت  کا  سبق پڑھایا  جاتا ہے -  دین و مذہب کے میدان   میں شرافت  کا تناسب کہیں اتنا حاوی   ہے کہ قابلیت  کا فقدان نظر آتا ہے اور کہیں ان میں جوار بھاٹا     کی سی کیفیت  نظر  آ تی   ہے جس سے  قابلیت اور شرافت  دونوں بھی عیاں  نہیں  ہو پاتی- اس  پس منظر میں   شرافت اور قابلیت  انفرادی  طور پہ  جس طرز سے پروان چڑ ھ  رہی ہے وہ اس مادی  دور میں  کسی  تفصیل کی محتاج نہیں اور  شرافت  اور قابلیت     کا مستقبل  تاریک  نظر آتا ہے –  اس کا  سدباب کرنے کے لئے    گھریلو تربیت    ہی ایک ایسا  میدان  با قی  رہتا ہے   جہاں  نئے   سرے  سے  شرافت اور اہلیت  کی کیمیا  کو  موثر   طور   سے  پروان چڑھایا جا سکتا ہے،    جس کا اثر آنے  والے وقتوں میں ایک تدریجی  عمل  سے گزر کر  کارخانہ حیات  کے تمام  شعبوں   میں  رفتہ رفتہ نظر آئیگا  -  لیکن یہ ابتدا ئی  درس گاہ ایسے والدین چاہتی   ہے جو معلم اور   اتالیق کا  کردار بھی نبھائیں، خود تعلیم  یافتہ ہوں اور  شرافت  و قابلیت  کے  نایاب  نسخۂ   کیمیا  کے حامل ہوں، تاکہ آنے  والی نسلوں  میں  یہ  نایاب  نسخۂ   کیمیا پایا جائے ، تاکہ مستقبل میں کارخانہ  حیات  صرف قابلیت  پر منحصر ہو کر نہ رہ جائے –
قابلیت کیا ہے؟  علمیت،  تجربہ    اور مشاقی  کا ظہور  ...... شرافت کیا ہے؟ حسن اخلاق  سے ایماں کا  عیاں   ہونا


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 680