donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Sattar
Title :
   Chacha Chhakkan Ne Bakra Khareeda


چچا  چھکّن  نے  بکرا  خرید ا
 
(طنز و مزاح)
 
عبدا لستار
 
ولی مینشن،سعدپورہ قلعہ،مظفرپور
 
چچا چھکّن کو پچھلے سال قُربانی نہ کر نے کا بے حد ملال تھا اس لئے اِس دفعہ انہوں نے یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔پورا منصوبہ اور اسکا خاکہ بنا لیا تھا جس کا رازدار اپنے رمضانی کو بھی بنا رکھا تھا۔رمضانی اُنکا خاص نوکر تھا مگر تھا بہت سمجھدار ۔اسی لئے چچا اس سے تمام راز کی باتیں شیئر کرتے تھے۔
ذی  قعدہ کے آخری دنوں میں جب وہ اردو اخبار پلٹ رہے تھے کہ اچانک انکی نظر امارت کے ایک ا علان پر پڑی جس میں تمام قارئین سے گزارش کی گئی تھی کہ ۲۹؍ ذی قعدہ کو چاند دیکھنے کا یقینی اہتمام کیا جائے اور چاند کے نظر آجانے پر دئے گئے موبائل نمبروں پر اس کی اطلاع فوراً  امارت کو دی جا ئے۔ہو سکے توچاند کے نمودار ہونے کا گواہ کئی لوگوں کو بنا لیا جائے تاکہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کا اعلان کرنے میں آسانی ہو۔اس اشتہار کو پڑھ کر چچا اچھل ہی تو پڑے۔انہیں پہلے سے پتہ ہی نہیں تھا کہ آج ذی قعدہ کی ۲۹؍ تاریخ ہے۔بہر حال انہوں نے آواز دیکر اس خبر کی اطلاع رمضانی کو دی اور اسے بھی چاند دیکھنے میں ساتھ رہنے کو کہا۔رمضانی نے سر ہلا کر حامی بھر لی اور اپنے دوسرے کام میں مشغول ہو گیا۔
آج صبح ہی سے چچا چھکن میں بلا کی تازگی و پھرتی تھی۔وہ صبح ہی سے چاند دیکھنے کے لئے بے چین تھے۔شام چار بجے سے ہی عصر کی نماز کے بعد وہ اپنی چھت پر رکھی بانس کی سیڑھی کے سہارے سب سے اونچی جگہ جہاں پانی کی ٹنکی رکھی ہوئی تھی کھڑے ہو کر چاند نکلنے کا انتظار کرنے لگے۔بیگم نے انہیں چائے دینے کے لئے تلاش کروایا مگر وہ کہیں نہ ملے آخر رمضانی نے آواز لگائی  ۔۔۔۔   مرزا صاحب کہاں ہیں،بیگم صاحبہ چائے کے لئے پوچھ رہی ہیں   ۔‘‘ مرزا صاحب اوپر سے ہی بولے  ’’  رہنے دو چائے وائے کو ،میں چاند دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں  ۔  ‘‘   رمضانی نے نیچے سے جواب دیا کہ  ’’  حضور آج تو آسمان ابر آلود ہے ایسے میں چاند کا دیدار کیسے کریں گے  ۔  ‘‘  چچا بولے  ’’  رہنے دو آسمان تو ابر آلود ضرور ہے مگر اللہ کی شان ،کہیں ٹھیک اسی وقت چاند نکلنے کی جگہ بادل ہٹ جائے اور میں چاند کا دیدار کر لوںاور مجھے امارت والوں کو خبر بھی تو کرنی ہے۔  ‘‘  رمضانی نے لقمہ دیا کہ چھت سے اتر بھی آئیے  ریڈیو  اور ٹی  وی پر چاند نکلنے کی خبر سن لیں گے مگر مرزا صاحب نہ مانے۔
 
آخر ابر صاف ہوا نہ چاند دکھائی دیا۔مرزا صاحب دل مسوس کر رہ گئے کہ وہ چاند کی اطلاع امارت کو نہ دے سکے۔اگلے دن صبح جب ان کے ہاتھ میں اخبار آیا تو معلوم ہوا کہ نہ صرف بہار بلکہ پورے ملک میں چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے ۳۰؍ ذی قعدہ کا اعتبار کرکے عید قرباں ۱۳؍ ستمبر کو منائی جائے گی۔اس خبر سے انہیں بڑی آسودگی محسوس ہوئی۔ اگلے روز رمضانی کو لے کر صبح سویرے میرجان ہاٹ نکل گئے۔ وہاں بکرے کا میلہ لگا ہوا تھا۔بہت سارے خریدار جمع تھے اور مول تول کر رہے تھے۔مرزا صاحب کو ایک بکرا بہت پسند آیا۔رمضانی نے بھی مرزا صاحب کی پسند پر مہر لگا دی۔اب جو بکرے والے سے اس کا دام پوچھا تو چکراتے چکراتے بچے۔اگر رمضانی نے نہیں سنبھالا ہوتا تو گر ہی جاتے ۔ مگر مرزا صاحب کو وہی بکرا پسند تھا لہٰذا اب روپئے کی کون کہے وہ اسی بکرے کو خریدنے پر آمادہ ہو گئے۔ جیب سے روپئے نکالے تو پچاس روپئے کم پڑ گئے تو رمضانی سے پوچھا تو اس نے پچاس روپئے ملاکر کل تیرہ ہزار روپئے گن کر بکرے والے کو دیکر بکرے کی رسی تھامے انہوں نے گھر کا رُخ کیا۔جتنا شاندار بکرا تھا اس سے زیادہ شان سے مرزا صاحب بکرا لئے چل رہے تھے۔
 
اگلے دن چچا چھکن نکلے پّتے کی تلاش میں آخر بکرا کھائے گا کیا۔مرزا اور رمضانی پتے والے کو ڈھوندتے ہوئے تاتار پور سے خنجر پور پہنچ گئے لیکن ایک بھی پتتا فروش نظر نہیں آیا۔ایک شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک پتتا بیچنے والا تلکا مانجھی میںدکھا ہے مگر وہاں خریداروں کی بڑی بھیڑ ہے۔مرزا صاحب اور رمضانی دوڑتے بھاگتے تلکا مانجھی چوک پہنچے اور پتے بیچنے والے سے پچاس پچاس روپئے کے دو گٹھر پتے خرید لئے اور اپنی بغلوں میں دبائے گھر کی طرف چلے دئے۔انہیں یہ بھی خیال تھا کہ بکرا بھوک سے کہیں بلبلا نہ رہا ہو حالانکہ انہوں نے کچھ گھاس پھوس بکرے کے سامنے ڈال دیا تھا۔اب روز کا یہی انکا معمول ہو گیا تھا۔
ایک دن رمضانی نے مرزا صاحب سے کہا کہ حضور قربانی کے لئے ایک قصاب کی بکنگ بھی کر لیں۔آج کل ان کے بھی بڑے بھائو ہیں۔مرزا صاحب بولے ارے قربانی تو میں ہی کر لونگا اس کے لئے قصاب کی کیا ضرورت ہے۔رمضانی نے کہا حضور کیا کھال بھی آپ ہی اتاریں گے اور بوٹیاں بھی آپ ہی کریں گے۔مرزا صاحب کا یہ سن کر سر چکرا گیا۔
 
اگلے دن وہ شبراتی قصاب کی تلاش میں نکلے۔وہ اپنی دکان پر ہی مل گیا۔مرزا صاحب نے اسے اپنے جانور کی قربانی کے لئے کہا تو اس نے پوچھا کہ مرزا صاحب کس دن قربانی کروائیں گے۔مرزا صاحب نے کہا بھئی پہلے دن ہی قربانی کروائیں گے۔ایسا تم کس لئے پوچھ رہے ہو۔ شبراتی قصاب نے کہا حضور مولانا صاحب کی تقریر آپ نے  نہیں سنی کہ پہلے دن قربانی کرنے کا ثواب سب سے زیادہ ہے اور اس روز سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے۔ شبراتی نے آگے کہا حضور اس دن کے پچیس سو روپئے لونگا اگر کوئی اس سے کم میں کردے تو وہیں کروا لیں۔ہم قصاب لوگوں نے اپنی یونین بنالی ہے دوسرے دن کے لئے دو ہزار اور تیسرے دن کی قربانی کے لئے پندرہ سو روپئے لگیں گے۔مرزا صاحب کے سامنے مرتا کیا نہ کرتا والی بات تھی۔بولے ٹھیک ہے بھائی مگر پہلے میرے یہاں قربانی کرنا۔ شبراتی قصاب نے حامی بھر لی۔مرزا صاحب مطمئن ہو گئے۔عید الاضحی کے دن مرزا صاحب اور رمضانی صبح سویرے ہی غسل وغیرہ کرکے عطر و خشبولگا کر شاہ جنگی کی عید گاہ چلے۔ادھر بیگم صاحبہ مسالحہ وغیرہ پِسوانے میں لگی  
 
ہوئی تھیں۔مرزا صاحب یعنی چچا چھکن نے نماز ادا کی اور امام صاحب نے خطبہ پڑھنا شروع کیا لیکن مرزا صاحب کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔انکا جی چاہتا تھا کہ وہ فوراً بھاگ کھڑے ہوں۔آخر وہی ہوا۔جیسے ہی امام صاحب نے خطبہ ثانی پڑھنا شروع کیا کہ چچا چھکن اپنی جوتی اٹھائے چل پڑے۔رمضانی نے روکنا چاہا مگر وہ نہ مانے ۔ سرگوشی کے انداز میں رمضانی سے کہا کہ وہاں شبراتی چھری لئے انتظار کر رہا ہوگا۔جلدی چلو۔عید گاہ سے دوڑتے بھاگتے جب دونوں گھر پہنچے تو شبراتی کا کہیں پتہ نہیں تھا۔مرزا صاحب نے رمضانی کو شبراتی کو ڈھونڈنے کے لئے دوڑایا۔رمضانی نے ہر جگہ شبراتی کو ڈھو نڈا مگر اسکا کہیں پتہ نہیں چلا۔رمضانی نے تھک ہار کر واپس آکر سارا حال مرزا صاحب کو سنا ڈالا ۔رمضانی کی باتیں سن کر مرزا صاحب کو طرح طرح کے وسوسے ستانے لگے۔ایک خیال آیا کہ کہیں شبراتی دوسری جگہ قربانی کرنے تو نہیں نکل گیا۔دوسرا خیال یہ آیا کہ کہیں پیشگی رقم نہیں دینے کی وجہ سے شبراتی نے ایسا تو نہیں کیا۔دوسری طرف دیر ہونے کی وجہ سے مرزا صاحب کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تھے۔امام صاحب نے کہا تھا قربانی سے پہلے کچھ بھی نہیں کھانا پینا چاہئے۔دوسری طرف بیگم صاحبہ بھی قربانی کی کلیجی کا انتظار کر رہی تھیں۔اس سے پہلے کچھ بھی پکانے سے پہلے ہی انکار کر چکی تھیں۔ادھر گھڑی کی سوئی آگے بڑھتی جا رہی تھی اُدھر مرزا صاحب کا بھوک کے مارے برا حال۔
 
آخر کارشبراتی ہانپتا ہوا پہنچا اور کہنے لگا کہ کیا بتائوں چچا نماز پڑھنے کے لئے ایک کے بعد دوسری عیدگاہ اور مسجد میں جاتا رہا مگر جہاں پہنچتا امام صاحب دوسرا سلام پھیرتے سنائی دیتے۔آخر میں ایک مسجد میں گیا جہاں نماز شروع نہیں ہوئی تھی شاید وہ  اہل ِ تشیع( شیعہ) کی مسجد تھی۔وہیں سے سیدھا بھاگتا ہوا پہنچا ہوں۔مرزا صاحب نے شبراتی سے کہا اب جلدی کرو میرا بھوک سے برا حال ہو رہا ہے۔اتنا دن چڑھ آیا ہے ابھی تک کچھ کھایا ہے نہ پیا۔شبراتی نے چمچماتی ہوئی چھُری چچا کے ہاتھ میں تھمائی اور جانور کو زمین پر لٹا کر رمضانی کو جانور کے پائوں تھامنے کو کہا۔چچا نے جیسے ہی چمچماتی چھُری ہاتھ میں لی کہ انہیں لرزا طاری ہو گیا ۔انہیں طرح طرح کے خدشات نے گھیر لیا۔کہیں بکرا ذبح نہ ہو سکا تو کیا ہوگا ۔ چچا نے شبراتی سے کہا بھائی یہ میرے بس کا روگ نہیں یہ لو اپنی چھُری اور کردو قربانی۔شبراتی نے کہا کہ اس کے سو روپئے الگ سے لونگا۔بہتر ہے رمضانی سے قربانی کروالیں۔ رمضانی نے قربانی کردی۔
 
سب سے پہلے قربانی کے جانور کی کلیجی اندر بھجوائی گئی اور بیگم صاحبہ سے کہلوایا گیا کہ جلدی سے کلیجی بھُن کر باہر بھیج دیں اور اندر زنان خانے میں بھی تقسیم کر لیں۔کچھ ہی دیر بعد بھنی ہوئی کلیجی آگئی مرزا صاحب اور تمام لوگوں نے خوب جی بھر کر کلیجی تناول فرمایا۔مرزا صاحب نے شبراتی قصاب سے کہا کے گوشت کے تین حصے کرنا۔ایک حصے کا کوفتہ، کباب،قیمہ کا نکالنا۔دوسرے حصے کا یخنی،قلیہ اور گریل کا نکالنا اور تیسرے حصے کی بوٹیاں بناڈالو۔رمضانی نے کہا حضور ایک حصہ غریبوں اور مسکینوں کا ہوتا ہے۔مرزا صاحب بولے وہ اوجھڑی ہے نا جو آئے گا اسے تھما دیں گے۔ویسے بھی اس محلے میں کوئی مانگنے والا آتا جاتا نہیں ہے اس لئے کوئی امید مت رکھو۔ 
ا س طرح چچا چھکًن نے اپنے تیرہ ہزار روپئے والے بکرے کی قربانی پہلے دن کی۔    
 
نوٹ  :   اگر قاری دئے گئے جگہوں کے نام کے بدلے اپنے علاقہ کے نام کے ساتھ پڑھیں تو اُنہیں بیحد مزہ آئے گا اور ایسا لگے گا کہ یہ اُنکے ہی علاقہ کی بات ہے۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
عبدا لستار
ولی مینشن،سعدپورہ قلعہ،مظفرپور           
9852953733
       
Comments


Login

You are Visitor Number : 1199