donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahmad Hatib Siddiqui
Title :
   Ik Kahani Barh Purani

اک کہانی بڑی پرانی


…احمد حاطب صدیقی…
 
بہت پرانے زمانے کی بات ہے۔ ( اب تو کل کی بات بھی بہت پرانے زمانے کی بات لگنے لگی ہے) ۔کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں کوئی بوڑھا سوداگر رہتا تھا۔(ہماراگمان یہ ہے کہ مذکورہ سوداگرر ہتے رہتے بوڑھا ہوگیا ہوگا، بوڑھا ہونے کے بعد رہنا شروع نہیں کیا ہوگا۔ یاکم ازکم پیدائشی بوڑھاتوہرگز ہرگزنہ ہوگا)۔ اُس کے پاس ایک گدھا تھا۔ (چچ چہ… چچ چہ… بےچارا… ایک ہی گدھا تھا؟…ہمارے پاس توماشاء اﷲ بکثرت گدھے ہیں اور ان میں سے بعض  گدھے تو ’’بہت ہی گدھے‘‘ ہیں)۔ بوڑھا سوداگر اپنے گدھے پر اپنا سامان لاد کر گاؤں گاؤں پھرتا اور سوداگری کیا کرتا۔(افسوس کہ ہمارا کوئی گدھا اِس کام کا نہیں کہ اُسے لیے لیے


 پھراجائے۔البتہ ہم ہی بس اِس کام کے رہ گئے ہیں کہ کوئی ’سوداگرگدھا‘ ہمیں لیے لیے دُنیا بھر میں پھرتا رہے اور’اِمدادی طاقتوں‘ سے کہتا رہے کہ … کچھ دے جا عوام کے نام پر سخیا!…)
 
ایک صبح بوڑھے سوداگر کا گدھا اچانک بِدک کر پہاڑوں کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ (الحمدﷲ
 ہمارے گدھے خواہ کتنے ہی گدھے ہوں مگر ’اتنے گدھے‘ نہیں ہوتے۔ وہ بدک کر کبھی نہیںبھاگتے۔ بھاگتے ہیں تو سہم کر بھاگتے ہیں اورہمیشہ ولایت کی طرف بھاگتے ہیں)۔ تلاشِ بسیارکے باوجو سوداگرکا گدھانہ ملا۔ دور کہیں پہاڑی جنگلات میںجاکر کھو گیا۔ بوڑھے سوداگرکے ہمسایوں اور ساتھی سوداگروں نے اُس گدھے کے اچانک فرار پر اُس سے اظہارِ افسوس اور اظہارِ ہمدردی کیا۔(عجیب ہمسائے تھے۔ ہم تو اپنے گدھوں کے فرارپراظہارِ اطمینان کیا کرتے ہیں کہ خس کم جہاں پاک)۔ بغرضِ افسوس ،بوڑھے سوداگرسے، اُس کے ساتھیوں اورہمسایوں نے کہا:
 
’’کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ تمھارے پاس ایک ہی گدھا تھااور وہ بھی بھاگ کھڑا ہوا‘‘۔
 مگربوڑھا سوداگرہمیں کچھ رجعت پسند اور کچھ بنیاد پرست سا معلوم ہوا۔کیوں کہ اُس نے  ’امداد مانگنے‘ کی بجائے افسوس کنندگان سے کہا:
 
’’میں تو ہرحال میں اﷲ کا شکر ہی ادا کرتاہوں۔ میاں!  کسے معلوم کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے یا خوش قسمتی کی؟‘‘
 
ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک شام بوڑھے سوداگر اور اُس کے گاؤں والوں نےایک عجیب وغریب منظر دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سوداگر کا گدھا جنگلی گدھوں کے ایک پُرامن جلوس کی قیادت کرتا ہوا پہاڑوں سے اُتر کر گاؤں کی سمت پیش قدمی کررہا ہے۔
 
(ہماری قوم نے تو ایسا عجیب وغریب منظر کبھی نہیں دیکھا۔ ہمارا جو بھی گدھا گیا وہ ایسا گیاکہ بس گیا ہی گیا۔یہ سوچ کر کہ…عزت اُسے ملی جو وطن سے نکل گیا…مگر پھراچانک واپس آگیا۔ اکثر ایسا ہوا کہ جو واپس آگیا وہ اپنے ساتھی گدھوں کا سردار بنا)۔ بالآخر گدھے  نے سوداگر کے گھر پر پہنچ کر(اُس کے لان پر) دھرنا مارا۔(اب ہمارے یہاں بھی انسانوں کا  جلسۂ عام ہوتا ہے، نہ اجلاسِ عام ہوتا ہے نہ اجتماعِ عام۔بس گدھوں کی تقلید میں جا بجا دھرنے پر دھرناہی مارا جاتاہے)ہاں تو…’’ صبح کے بھولے ‘‘گدھے نے جو ایک

شام کو لوٹ آیا تھا،


 پہاڑی جنگلی گدھوں کا پورا ریوڑ سوداگر کے حوالے کرکے گویا اپنے جرمِ فرار کا جرمانہ ادا کیا۔(کاش ہمارے گدھے بھی ایسے ہی ’’خردماغ‘‘ ہوتے)۔ اِس موقع پر بوڑھے سوداگر کے ہمسایوں اور ساتھی سوداگروں نے جمع ہوکر بوڑھے سوداگر کو مبارک باد پیش کی اور کہا:
 
 ’’یہ کیسی خوش قسمتی کی بات ہے کہ تمھارا گدھا نہ صرف لوٹ آیا ہے بلکہ اپنے ساتھ گدھوں کا پورا ریوڑبھی لے کر آیا ہے‘‘۔


 بوڑھے سوداگر نے پھر وہی جواب دیا:’’میاں!کسے معلوم کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے یا خوش قسمتی کی؟
مگرمیں تو ہرحال میں اﷲ کا شکر ہی ادا کرتاہوں۔‘‘


 اب ہوایوں کہ بوڑھے سوداگر کے بیٹے نے ان جنگلی گدھوں کو سدھانا شروع کردیا۔(ہم سےتواپنے شہری گدھے بھی نہیں سدھائے جاتے)۔ ایک روز ایسا ہوا کہ سوداگر کا بیٹا ایک جنگلی گدھے پر سوار ہوکر اُس کو تربیت دے رہا تھا کہ وہ ناہنجاریکایک اَڑ گیا اور سوداگر کے بیٹے کو زمین پر پٹخ دیا۔ سوداگر کے بیٹے کا وہی حال ہوا جو عالم اسلام کے اکثر  جمہوری حکمرانوں کا اُن کے سدھائے ہوئے گدھوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ سوداگر کا بیٹا دھڑام سے زمین پرگرااور اپنی ٹانگ تڑا بیٹھا۔ اب سوداگرکے ہمسایوں اور اُس کے ساتھی سوداگروں  نے ایک بار پھر جمع ہوکر اپنی عادت اور روایت کے مطابق اُس سے اظہارِ افسوس کیا اورکہا:
  
’’یہ کیسی بدقسمتی کی بات ہے کہ تمھارا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بھی (ایک گدھے کے ہاتھوں) اپنی ٹانگ تڑا بیٹھا‘‘۔
  
بوڑھے سوداگر نے پھر وہی جواب دیا:
 ’’میں تو ہرحال میں اﷲ کا شکر ہی ادا کرتاہوں۔ میاں!کسے معلوم کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے یا خوش قسمتی کی؟‘‘


 اس حادثے کو چند ہفتے گزرے ہوں گے کہ (استعماری) فوج کا ایک دستہ مارچ کرتا ہوا گاؤںمیں داخل ہوا۔ اُس نے گاؤں کے تمام تندرست، تنومند، توانا اور صحت مند نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کر جبری طورپر فوج میں بھرتی کرنا شروع کردیا۔(غالباً یہ بھرتی’’ بلیک واٹر‘‘ کے لیےہو رہی ہوگی) ۔جب فوجیوں نے سوداگر کے بیٹے کو دیکھا جس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی تو اُسے فوج میں بھرتی کے قابل نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دیا


یہ کہانی یہاںختم نہیں ہوئی۔ ابھی جاری و ساری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اِس موقع پر بھی سوداگر کے’’بیان باز‘‘ ساتھی اور ہمسائے ضرور آئے ہوں گے اور تاجر سے کہا ہوگا کہ:
 ’’یہ کیسی خوش قسمتی کی بات ہے کہ تمھارا بیٹا اپنے عذرِ لنگ کے سبب اِس جبری فوجی بھرتی سے محفوظ رہا‘‘۔
 اور ہمیں یقین ہے کہ اِس موقع پر بھی اُس ’’متوکل باﷲ‘‘ بوڑھے سوداگر نے یہی کہاہوگا:
 
’’میں تو ہرحال میں اﷲ کا شکر ہی ادا کرتاہوں۔ میاں!کسے معلوم کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے یا خوش قسمتی کی؟‘‘
 
یوں خوش قسمتی اور بدقسمتی کی یہ کہانی آگے بڑھتی ہی رہے گی۔ مگراے عزیزو!ہم تے ہیں کہ ہماری قوم میں ’’بوڑھے‘‘ بھی بہت ہیں… ’’سوداگر‘‘ بھی بہت ہیں … اور …’’بوڑھے سوداگر‘‘ بھی بہت۔لیکن حکمتِ الٰہی پر ایمان رکھنے والے شاید اب ’’بہت‘‘ نہیں رہے۔
 
اب تو ہمارے بڑے بوڑھے بھی حالات سے ’’بہت مایوس‘‘ ہیں۔ہمارے ایک ذاتی شعر کا ایک مصرع ہے … ’کس جواں مردی سے بوڑھوں نے بھی ہارے حوصلے‘…رہا ’جواں مردوں‘ کا  معاملہ تو وہ جو کہاجاتا ہے کہ:


 ’’انسان وہ واحد جانور ہے جو اپنی کوششوں کے نتائج برآمد ہونے سے پہلے ہی اپنی قسمت سے مایوس ہوجاتاہے‘‘۔


 توایسا ہی… ’’انسان ٹائپ‘‘ کا جانور… ہمارا نوجوان بھی ہے۔ یہ جانور پرانی نسل کو مایوس  دیکھ کر خود بھی مایوس ہوجاتاہے۔ تمام کوششیں ترک کردیتاہے، دین ودُنیا دونوں کی زمام  ہاتھ سے رکھ دیتاہے،اور… ہوجاتاہے جاکر کہیں پردیس میں نوکر… بے چارے علامہ اقبالؔ
 
’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ کرتے ہی رہ گئے مگر حسبِ روایت کسی بیٹے نے کوئی سبق نہیں لیا:
 ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
 اِس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
 غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
 پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
 افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
 ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا
  

…احمد حاطب صدیقی…


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1045